بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مہنگائی اور معاشی بحران سے کیسے نمٹا جائے؟!

مہنگائی اور معاشی بحران سے کیسے نمٹا جائے؟!

 

الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

اللہ تبارک وتعالیٰ نے جغرافیائی اعتبار سے ہمیں بہترین زرخیز ملک اور خطہ عطا کیا ہے، جو بےبہا نعمتوں سے مالا مال ہے۔ سونا، چاندی، تانبے کے علاوہ دیگر قیمتی دھاتوں کے خزانے اس میں مدفون ہیں۔ نایاب قیمتی پتھر اور ہیرے جواہرات کی فراوانی ہے۔ تیل، گیس اور کوئلہ کی کمی نہیں۔ دریا ، نہریں اور آب پاشی کا نظام موجود ہے، جس کی بناپر زرخیز زمین سونا اُگل رہی ہے۔ کون سا پھل اور کونسی زرعی جنس ہے جو پاکستان میں نہیں اُگتی۔ پاکستانی قوم محنت کش اور جفاکش قوم ہے۔ پاکستانی قوم کا شمار دنیا کی ذہین ترین قوموں میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ملک میں اقتصادی اور معاشی عدمِ استحکام نے ایک بحران کی شکل اختیار کرلی ہے، جس سے عوام میں فکری انتشار کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف اخبارات، الیکٹرونک میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیسے اس عظیم مملکت کی معیشت تباہ ہوئی، کیسے اس ملک کو قرضوں میں جکڑدیا گیا اور ان قرضوں کی رقم کہاں خرچ ہوئی؟ ملکی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اس قوم نے کشکول کیوں ہاتھ میں پکڑا؟
اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ حکمران طبقے کو جو مراعات وسہولیات میسر ہیں اور جس قسم کی وہ پرآسائش زندگی گزاررہا ہے، وہ تمام کا تمام عوام کے ٹیکسوں کی رقم کی بدولت ہی ہے۔ ہوا یہ کہ جب حکمران طبقے کو ٹیکسوں سے ان سہولیات اور مراعات کے لیے مطلوبہ رقم نہ ملی تو وہ مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے لگا، تاکہ حکومتی اخراجات پورے ہوسکیں۔ عوام کی فلاح اور بہبود کے نام پر لی گئی امداد اور قرض کو ’’اوپر کی آمدنی‘‘ سمجھ کر حکمران طبقہ پھلنے اور پھولنے لگا۔ اس نے خود کو مراعات یافتہ بنالیا اور اور اپنے آپ کو اَن گنت سہولیات دے ڈالیں۔ بتدریج حکمران طبقے نے اپنا معیارِ زندگی بلند رکھنے کی خاطر قرضوں اور امداد کی رقم کو استعمال کرنا اپنا وتیرہ بنالیا۔ آج یہ عالم ہے کہ سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے ماہانہ لینے والے ارکانِ اسمبلی، وزیر، مشیر، سرکاری افسر، ججوں وغیرہ کو مفت پٹرول، بجلی، گیس، رہائش، سیکورٹی اور فضائی ٹکٹ وغیرہ ملتا ہے۔ وہ مختلف قسم کی مراعات وسہولیات سے مستفید ہوتے ہیں، جبکہ پچیس ہزار روپے کمانے والا ایک عام پاکستانی ہر قسم کا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ مہنگائی اور بےروزگاری سے عوام پر یشان ہیں، یہ سراسر بے انصافی ہے، جس کی بنا پر ملک میں سیاسی افراتفری، غیریقینی صورت حال، عدمِ تحفظ، عدمِ استحکام اور انتشار عروج پر ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان تمام معاملات اور واقعات کے پیچھے بین الاقوامی سازش، عالمی منافع خوری، یہودی سٹے بازوں اور ملک دشمن عناصر کی چال ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہوجائے اور مسلمانوں کی عزت وناموس خاک میں مل جائے۔ اس معاشی اور اقتصادی بحرانی صورت حال سے نکلنے کے لیے بلاتفریق ہم سب کو چند کام کرنا بہت ضروری ہوں گے:
1- ہم سب کو اپنے ملک سے محبت کے عہد کی تجدید کرنا ہوگی، اس لیے کہ ملک ہے تو ہم سب ہیں، اگر خدانخواستہ ملک غیر مستحکم ہوا یا اُسے کچھ ہوگیا تو محفوظ کوئی بھی نہیںرہے گا۔ اگر ملکی آزادی کی قدر معلوم کرنی ہے تو اپنے ہمسایہ ملک افغانستان سے معلوم کریں، جنہوں نے مسلسل چالیس سالوں تک بیرونی استعماروں کے خلاف قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی اور آج وہ آزادی کا سانس لے رہے ہیں اور کسی ملک کے مقروض نہیں۔
2- ہم سب کو خلوصِ نیت سے اس ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار میں سادگی، صداقت، امانت اور دیانت کا پاس رکھتے ہوئے محنت، جدوجہد اور کوشش کرنا ہوگی۔ آج جو ممالک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہیں، ان کی حکومت اور قوم نے اپنا مقصد، نصب العین اور رُخ ایک متعین کرکے محنت اور کوشش کی، تو وہ منزلِ مقصود اور مراد تک پہنچ سکے، اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سب ملکی ترقی کے لیے یہ کام کریں، تو ان شاء اللہ! بہت جلد ترقی پذیر ممالک میں ہمارا نام بھی شامل ہوجائے گا۔ 
3- تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ آپس میں مل بیٹھ کر اتفاق سے ’’میثاقِ معیشت‘‘ مرتب کریںکہ حکومت جس پارٹی کی بھی ہو، اس میثاقِ معیشت پر کام برابر جاری رہے گا اور جو حکومت بھی اس کے خلاف کرے گی، قانوناً وہ مجرم قرار پائے گی اور آئین میں اس کی سزا تجویز کی جائے۔ تمام جماعتیں میثاقِ معیشت میں یہ طے کرلیں کہ وطن عزیز سے جس طرح قانونی عدالتی طور پر سود کو حرام اور ممنوع قراردیا ہے، اسی طرح سرکاری، انتظامی اور بینکاری سطح پر بھی ممنوع قراردیں۔
4- سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ ملکی ترقی کے تناظر میں اپنی اپنی جماعت کی ترجیحات اور پالیسیاں بنائیں۔ بیرونی مفادات یا ان کے منظورِ نظر ہونے کے لیے کوئی پالیسی نہ بنائیں، انہی چیزوں نے ہمارے ملک کو آج تک ترقی سے روک رکھا ہے۔ 
5- افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی افراد کے بالا طبقے سے لے کر ایک ادنیٰ ملازم تک رشوت اتنا عام ہوگئی ہے کہ ہر ایک اس کے لینے کو اپنا حق سمجھتا ہے، حتیٰ کہ سروس مکمل کرنے والے کو‘ گورنمنٹ سے ملنے والے الاؤنس ، جمع شدہ واجبات اور پنشن اس وقت تک نہیں مل سکتی، جب تک کہ وہ اسی ادارہ کے اسی کام پر مامور افسران اور کلرکوں کو اپنی جائز کمائی کا ایک حصہ نہ دے۔ ان میں رشوت اتنا رچ بس گئی ہے کہ جب تک رشوت نہیں دیں گے، کسی ادارہ سے کام ہونا ممکن نہیں۔ اور اگر منہ مانگی رشوت کوئی دے گا تو صرف جائز ہی نہیں، بلکہ اس کا ناجائز کام بھی ہوجائے گا۔ آپ ہی بتائیں اس صورت میں کسی ملک کی بھی سیکورٹی یا سلامتی محفوظ رہ سکتی ہے؟ آج ہمارےملک کے مقروض ہونے کی ایک بڑی وجہ رشوت ہے، جب سرحدات سے آنے والے مال کی ڈیوٹی نہیں لی جائے گی یا برائے نام لی جائے گی، اس سے ملکی خزانہ کمزور نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ لیکن راشی افسران اس سے طاقتور ہوتے رہیں گے، جیسا کہ ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے۔
6-تمام ملکی ادارے چاہے عدلیہ ہو ، اسٹیبلشمنٹ ہو، بیوروکریسی ہو، یا کوئی اور، اپنے اندر سے افتراق، انتشار، گروپ بندی یا اپنی پسند اور ناپسند کو ختم کریں، اس سے پورا ملکی ڈھانچہ ہل کر رہ گیا ہے، جیسا کہ آج کی فضا میں ہر عام وخاص کی زبان پر یہ موجود ہے، کوئی کہتا ہے فلاں پارٹی کو فلاں ادارے کی سپورٹ ہے، فلاں فلاں ججز فلاں فلاں پارٹی کے حق میں فیصلے دیتے ہیں، اس طرح کی سوچ ملکی اداروں سے عوام کے اعتماد کو متزلزل کردیتی ہے، اس سوچ کا جتنا جلد ہوسکے خاتمہ ہونا چاہیے۔
7- چونکہ ہمارا ملک‘ زرعی ملک ہے، اور زراعت کی ترقی پانی کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے پانی کے ذخیرہ کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیموں کا ہونا بہت ضروری ہے اور ساتھ ہی زرعی پیداوار کی ترقی اور منڈیوں تک اس کا باحفاظت پہنچانے کا خاطر خواہ انتظام ہونا بہت ضروری ہے، ان شاء اللہ! اس سے جہاں روزگار میں اضافہ ہوگا، وہاں مہنگائی بھی ختم ہوجائے گی۔
8-بے جا خرچ ہونے والی سرکاری رقوم پر کنٹرول کرکے سرکاری قرضوں کی وصولی کو یقینی بنایا جائے، آج تک جتنا لوگوں نے سرکاری قرضے حیلے بہانوں سے معاف کرائے ہیں، اور آج وہ قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں ہیں تو ان تمام لوگوں سے وہ رقوم واپس لی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو ہر سطح پر سود سے پاک کرنے کی جلد از جلد کوشش کی جائے، اس سے بھی ملکی معیشت کو بہت زیادہ سنبھالا ملے گا۔
9-سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا حکمران اور مقتدر طبقہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک نظریۂ پاکستان کے نفاذ میں مجرمانہ غفلت اور پہلوتہی کرتا آیا ہے، جبکہ آج بھی ہر حلف میں چاہے صدر، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کا ہویا کسی وزیر کا، اس میں عہد لیا جاتا ہے کہ ’’میں اسلامی نظریہ جو کہ پاکستان کی اَساس ہے، اس کی حفاظت کروں گااور اس کے لیے کوشاں رہوں گا۔‘‘ لیکن آج تک کسی نے اس کی پاسداری نہیں کی۔ کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟! اس لیے ضرورت ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ میں خلوصِ نیت سے عملی کوشش شروع کرنا چاہیے، اس سے ان شاء اللہ! جہاں بہت ساری خرابیوں کا سدِباب ہوجائے گا، وہاں اللہ تعالیٰ کا کرم اور مدد بھی شاملِ حال ہوجائے گی، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
’’وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوْا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ  ۭمِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ‘‘ (المائدۃ: ۶۶)
ترجمہ:’’اور اگر بے شک وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو اور جو نازل کیا گیا ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے، ضرور وہ کھاتے (اللہ کا رزق) اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے، ان میں سے ایک گروہ میانہ رو ہے اور بہت سے ان میں ایسے ہیں کہ برا ہے جو وہ عمل کرتے ہیں۔‘‘ 
10- اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مختلف انواع واقسام کی جو نعمتیں ہمیں عطا کررکھی ہیں، چاہے دینی ہوں یا دنیوی، ان نعمتوں کا اپنے قول اور عمل سے ہر موقع پر شکر ادا کرتے رہنا چاہیے اور ناشکری سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہیے، کیونکہ ناشکری کرنے سے نعمتوں کے چھن جانے کا اندیشہ رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک بستی والوں کا تذکرہ کیا ہے:
’’وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ‘‘  (النحل:۱۱۲)
’’ترجمہ: ’’ اور اللہ تعالیٰ ایک بستی والوں کی حالتِ عجیبہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ (بڑے) امن و اطمینان میں (رہتے) تھے (اور) ان کے کھانے پینے کی چیزیں بڑی فراغت سے ہر چہار طرف سے ان کے پاس پہنچا کرتی تھیں، سو انھوں نے خدا کی نعمتوں کی بےقدری کی، اس پر اللہ تعالیٰ نے اُن کو ان حرکات کے سبب ایک محیط قحط اور خوف کا مزا چکھایا۔ ‘‘
بہرحال اب وقت ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالا دیا جائے اور سنجیدگی سے روپے کی گرتی ہوئی قدر کو روکا جائے اور ملک وقوم کی خیرخواہی کے جذبہ کے تحت قومی خزانہ کو امانت سمجھتے ہوئے اس کے تحفظ کے لیے ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین