بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’مکروہ ‘‘اور ’’کراہت‘‘ کے متعلق کچھ اہم اُصولی مباحث

’’مکروہ ‘‘اور ’’کراہت‘‘ کے متعلق کچھ اہم اُصولی مباحث

 

اُصولی نقطۂ نظر سے شرعی احکام کی مختلف قسمیں ہیں، ان اقسام میں سےایک قسم ’’مکروہ‘‘ بھی ہے۔ حضرات اصولیین نے دیگر احکام کی طرح اس حکم کےمتعلق بھی تقریباً تمام ضروری مباحث عقلی واستدلالی انداز میں ذکر فرمائی ہیں، البتہ مختلف عناصر کی وجہ سے اس باب میں چند پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں، جن کو اُصولی انداز میں حل کرنے کے لیے تفصیلی کلام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسی بنا پر یہ چند صفحات لکھے جارہے ہیں۔ نیز ویسے تو اس بحث کے لیے مذاہبِ اربعہ کے اصولی ذخیرےسے اپنی بساط کےمطابق خوب استفادے کی کوشش کی گئی اور دسیوں کتب کی ورق گردانی کی توفیق نصیب ہوئی، لیکن اس تحریر میں ضرورت کےمطابق عبارات ذکر کرنےپر اکتفا کیا گیا۔
اس تحریر میں بنیادی طور پر درج ذیل نکات کے متعلق کچھ باتیں ذکر کی جائیں گی:
۱:- کراہت کا مصدر وماخذ۔
۲:- کراہت کی شرعی اقسام اور ہر قسم کا مقام وحکم۔
۳:- کراہت کا لفظ جب مطلق ذکر ہوجائے تو اس کا محمل ومصداق۔

کراہت کا مصدر وماخذ

دیگر تمام شرعی احکام کی طرح اس حکم ’’کراہت‘‘ کے اصلی مصادر بھی شرعی دلائل یعنی قرآن وسنت یا ان کی روشنی میں منعقد ہونے والا اجماع وقیاس ہی ہیں، جس طرح شرعی دلائل کےبغیر فرض واجب وغیرہ احکام ثابت نہیں ہوسکتے، یوں ہی مکروہ کا ثبوت بھی شرعی دلیل کےبغیر ممکن نہیں ہے۔ تمام اصولیین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن وسنت میں یاتو مکلف انسان کے کسی کام کرنے کو طلب کیا گیا ہوگا یا اس کے چھوڑنے کا مطالبہ ہوگا یا کرنےاور نہ کرنےکا اختیار دیا گیاہوگا، اختیار دینےکی صورت اباحت کہلاتی ہے۔ اگر کسی کام کا کرنا مطلوب ہو تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں، کیونکہ یا تو طلب جازم ہوگا یا غیر جازم، اگر طلب ہو اور جازم بھی ہو تو اس کو واجب کہاجاتا ہےا ور جازم نہ ہو تو اس کو سنت یا مندوب کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کام سے روکنا مقصود و مطلوب ہو تو بھی یہی دو صورتیں ممکن ہیں کہ ممانعت جازم ہوگی یا غیر جازم؟ اگر جازم ہو تو وہ کام حرام کہلائے گا اور اگرغیر جازم ہو تو مکروہ قرار پائے گا۔ (۱)
غیر جازم کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں : دلالۃً غیر جازم اور ثبوتاً غیر جازم، یعنی ممانعت میں جزم نہ ہونے کی وجہ یا تو یہ ہوگی کہ دلیلِ شرعی کی دلالت واضح اور قطعی نہیں ہوگی یا دلالت تو قطعی ہو، لیکن اس دلیل کا ثبوت یقینی نہ ہو۔ ان دونوں صورتوں میں جو ممانعت ہوگی اُس سےکراہت ثابت ہوگی اور چونکہ نہی موجود ہے، اس لیے کراہتِ تحریمی ہوگی۔مکروہِ تنزیہی میں نہی وممانعت نہیں ہوتی، بلکہ محض چھوڑنے کی ترغیب ہوتی ہے ۔ ترغیب وممانعت میں فرق واضح ہے۔ ’’توضیح‘‘ میں ہے:
’’لأن ما يأتي بہ المکلف إن تساوی فعلہ وترکہ فمباح وإلا، فإن کان فعلہ أولٰی فمع المنع عن الترک واجب وبدونہ مندوب، وإن کان ترکہ أولٰی فمع المنعِ عن الفعل بدليل قطعي حرام وبدليل ظني مکروہ کراہۃ التحريم وبدون المنع عن الفعل مکروہ کراہۃ التنزيہ. ‘‘ (۲) (۳)
ترجمہ:’’مکلف جو بھی عمل کرتا ہے، اگر اس کا کرنا نہ کرنا برابر ہو تو وہ مباح ہوگا، ورنہ اگر کرنا بہتر ہو اور اس کے ساتھ ترک کرنے پر وعید بھی ذکر ہو تو واجب ہوگا، ورنہ مستحب۔ اور اگر اس عمل کا ترک کرنا بہتر ہو، پھر اگراس سے دلیل قطعی کے ساتھ منع آئی ہوتوحرام ہوگا اور اگر دلیلِ ظنی کے ذریعے ممانعت وارد ہو تو مکروہِ تحریمی ،اگراس کام سے منع نہ کیا گیا ہو تو اسے مکروہِ تنزیہی کہا جاتا ہے۔‘‘ 
بعض کتابوں میں جویہ ذکر کیاگیا ہے کہ مکروہِ تنزیہی وہ ہے جس سےنہی غیر جاز م وارد ہوئی ہو، وہاں نہی سے یہی ترغیبی وارشادی انداز کی نہی مراد ہے،یعنی جس کےچھوڑنے کی ترغیب دی گئی ہو، ورنہ اگر کسی کام سے اصولی اصطلاح کی نہی وارد ہوجائے ، یعنی ’’لا تفعل‘‘ کےہم معنی صیغوں سے اس کی ممانعت کی جائے تو اس کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ وہ کام قبیح اور مکروہِ تحریمی ہو، اس کو بلا وجہ مکروہِ تنزیہی پرحمل کرنا اس لیےدرست نہیں ہے کہ مکروہِ تنزیہی تو جواز واباحت کی ایک شکل ہے، جبکہ نہی کا مقصود ہی ممانعت ہے۔
 

کراہتِ تحریم وتنزیہ میں فرق اور وجہ فرق

کراہتِ تحریم اور تنزیہ میں دو اَساسی نوعیت کے فروق ہیں: ۱:-ایک ثبوت ومصدر کےلحاظ سے اور ۲:-دوسرا حکم واثر کےاعتبار سے۔
الف: ثبوت کےلحاظ سے تو دونوں کےدرمیان یہی فرق ہے کہ کراہتِ تحریم سے نصوص میں ممانعت وارد ہوتی ہے، جبکہ مکروہِ تنزیہی میں کوئی نہی واردنہیں ہوتی، بلکہ چھوڑنے کی ترغیب دی جاتی ہے ، اگر کہیں نہی کا صیغہ استعمال بھی ہو تو وہ اصولی اصطلاحی نہی نہیں ہوتی، یعنی اس نہی سے کسی کام کی ممانعت مطلوب نہیں ہوتی، بلکہ صرف چھوڑنے کی افضلیت بیان کرنی مقصود ہوتی ہے۔
ب:حکم کےلحاظ سے دونوں میں فرق یہ ہے کہ مکروہِ تحریمی گناہ ومعصیت ہے، جبکہ مکروہِ تنزیہی گناہ نہیں ہے۔

مکروہِ تحریمی صغیرہ گناہ ہے یا کبیرہ؟

مکروہِ تحریمی گناہ ومعصیت تو یقیناً ہے، لیکن گناہِ صغیرہ ہےیاکبیرہ؟ علامہ ابن نجیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے گناہوں کےمتعلق ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے، جو ان کے مجموعہ رسائل میں شامل ہے، اس میں وہ تحریر فرماتےہیں:
’’کلُّ ما کُرہ عندنا تحريمًا فہو من الصغائر کما استفيد ذٰلک مِن تعدادہا. ‘‘ (۴)
ترجمہ: ’’ہمارے نزدیک جو عمل بھی مکروہِ تحریمی ہے، وہ صغیرہ گناہ کے زمرہ میں آتاہے، جیساکہ ان کی تعداد سے معلوم ہوتاہے۔‘‘
علامہ ابن نجیم  رحمۃ اللہ علیہ  کی اس تحقیق کو علامہ شامی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کئی فقہاء کرام نے تائیدوتوثیق کے طور پر نقل فرمایا ہے، ’’ردالمحتار‘‘ میں ہے:
’’أقول: صرح العلامۃ ابن نجيم في رسالتہ المؤلفۃ في بيان المعاصي: بأن کل مکروہ تحريمًا من الصغائر. ‘‘  (۵)
ترجمہ:’’علامہ ابن نجیمؒ نے گناہِ کبیرہ کے موضوع پرجورسالہ لکھاہے، اس میں تصریح ہے کہ تمام مکروہِ تحریمی اُمورصغیرہ گناہ شمار ہوتے ہیں۔‘‘
لیکن علامہ عبد الحئی لکھنوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے مفید رسالہ ’’تحفۃ الأخیار‘‘میں علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ  کی اس تحقیق سے اختلاف کیا ہے اور ذکر فرمایا ہے کہ مکروہِ تحریمی حرام کے قریب ہوتا ہے اور گو حرام سے کم درجےکا گناہ ہوتا ہے، لیکن ہے کبیرہ، چنانچہ وہ تحریر فرماتےہیں:
’’صرّح ابنُ نجيم المصري في رسالتہ المؤلّفۃ في بيان الصّغائر والکبائر بأنّ المکروہ تحريمًا مِن الصّغائر. والحقّ أنّ ليس کذٰلک، فقد صرّحوا أنّ المکروہَ تحريمًا قريب مِن الحرام يستحقّ بہ محذورا دون استحقاق النّار کحرمان الشّفاعۃ، وہٰذا دليل صريح علی أنّہ من الکبائر، إلّا أنّہ دون کبيرۃ ترک الواجب والفرض وارتکاب الحرام.‘‘  (۶)
ترجمہ:’’علامہ ابن نجیمؒ نے گناہ کبیرہ کے موضوع پرجورسالہ لکھا ہے، اس میں تصریح ہے کہ تمام مکروہِ تحریمی امور صغیرہ گناہ شمارہوتے ہیں، مگریہ درست نہیں ،کیونکہ فقہاء کرام کے نزدیک مکروہِ تحریمی حرام کے قریب قریب ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بندہ ملامت کامستحق ہوتا ہے، البتہ جہنم کا سزاوار نہیں۔ اسی طرح شفاعت سے محرومی کاباعث بھی بنتاہے ، معلوم ہواکہ یہ گناہِ کبیرہ ہے، البتہ واجب یافرض چھوڑنے کی طرح گناہِ کبیرہ نہیں۔‘‘
ایک اورجگہ تحریر فرماتےہیں:
’’لأنّ المکروہ تحريمًا قريب مِن الحرام علی ما صرّح بہ جمع مِن الأعلام وإنْ عدّہ بعضہم مِن الصّغائر. وإن کانتْ تنزيہيۃ کان ارتکابہ صغيرۃ، لکن يکون بالإصرار عليہ واعتيادہ کبيرۃ.‘‘
ترجمہ: ’’مکروہِ تحریمی حرام کے قریب قریب ہوتاہے ،جیساکہ فقہاء کرام نے وضاحت کی ہے ، اگرچہ بعض لوگوں نے اسے صغائر میں سے گردانا ہے، البتہ اگرکراہت تنزیہی ہو تو اس کا ارتکاب صغیرہ گناہ ہے، تاہم باربار کرنے اورعادت بنانے سے وہ بھی کبیرہ بنے گا۔‘‘
ان دونوں موقفوں میں راجح کونسا ہے؟ اس میں احتیاط کی بات یہ ہے کہ ترجیح میں پڑےبغیر اختلاف کا منشا واساس معلوم کیا جائے۔ زیرِ بحث مسئلہ میں ان دونوں اقوال میں اختلاف کا بڑا منشا بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ گناہِ کبیرہ وصغیرہ کی تعریف میں اختلاف ہے، چنانچہ کبائر کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں اور مقالات میں تفصیل کےساتھ مختلف اقوال ذکر کیے جاتے ہیں۔
اب اگر گناہِ کبیرہ کے لیے قطعیت کی شرط لگائی جائے اور یہ طے کیاجائے کہ کبیرہ گناہ وہی ہوگا جس کا گناہ ہونا ہر لحاظ سےقطعی ہو یا گناہِ کبیرہ کی یہ تعریف طےکرلی جائے کہ جس گناہ کےکرنےپر معین طور پر کوئی وعید یا عذاب کی دھمکی دی گئی ہو، تو پہلی تعریف کےمطابق تمام یا اکثر مکروہِ تحریمی‘ گناہِ کبیرہ کی تعریف سےنکل جائیں گے، اسی طرح دوسری تعریف کے مطابق بھی بہت سے مکروہِ تحریمی امور کو کبیرہ کہنا درست نہیں رہے گا، کیونکہ ایسے امورکی ایک اچھی خاصی فہرست ہے، جو اصولی لحاظ سے مکروہِ تحریمی ہوتے ہیں، لیکن اس پر کوئی مخصوص وعید یا عذاب کا ذکر نصوص میں نہیں ملتا، لہٰذا ان دونوں یا ان جیسی دیگر تعریفات کے مطابق علامہ ابن نجیم  رحمۃ اللہ علیہ  کی بات درست ہوگی، بلکہ ان کےقول کا یہی محمل قرار دینا چاہیےاور اگر گناہِ گبیرہ کی تعریف میں ایسی کوئی اضافی قید نہ لگائی جائے تو علامہ عبد الحئ لکھنوی  رحمۃ اللہ علیہ  کی بات درست ہے۔

کیا مکروہِ تنزیہی گناہ ہے؟

ابھی تک جو تفصیل ذکر کی گئی ہے، اس سے مکروہِ تنزیہی کا مصدر اور اس کاحکم واضح ہوگیا۔ اس میں مزید قابلِ تنقیح نکتہ یہ ہے کہ کیا مکروہِ تنزیہی گناہ ومعصیت ہے یانہیں؟ گناہِ کبیرہ قرار دینا تو ممکن نہیں ہے، کیونکہ گناہِ کبیرہ تو حرام یا کم ازکم مکروہِ تحریمی ہوسکتا ہے، لہٰذا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا مکروہِ تنزیہی کو صغیرہ گناہوں میں سے قرار دیا جاسکتا ہے یانہیں؟ 
بعض اہلِ علم کی تحریرات سےمعلوم ہوتا ہے کہ مکروہِ تنزیہی بھی صغیرہ گناہوں میں سے ہے، چنانچہ علامہ لکھنوی  رحمۃ اللہ علیہ  تحریر فرماتے ہیں :
’’وخلاصۃ المرام في المقام: أنّہ لا شبہۃ في إباحتہ وعدم تحريمہ ولا ريبَ في کراہتہ، فإن کانتْ کراہتہ تحريميۃ کا ن الارتکاب من الکبائر لأنّ المکروہ تحريمًا قريب مِن الحرام علی ما صرّح بہ جمع مِن الأعلام وإنْ عدّہ بعضہم مِن الصّغائر. وإن کانتْ تنزيہيۃ کان ارتکابہ صغيرۃ، لکن يکون بالإصرار عليہ واعتيادہ کبيرۃ.‘‘  (۷)
ترجمہ:’’مکروہِ تحریمی حرام کے قریب قریب ہوتا ہے، جیساکہ فقہاء کرام نے وضاحت کی ہے، اگرچہ بعض لوگوں نے اسے صغائر میں سے گردانا ہے، البتہ اگر کراہت تنزیہی ہو تو اس کا ارتکاب صغیرہ گناہ ہے، تاہم بار بار کرنے اور عادت بنانے سے کبیرہ بنے گا۔‘‘
لیکن اس کو گناہ کہنا قابلِ اشکال ہے، جس کی چند وجوہات یہ ہیں:
الف: متعدد اصولیین نے تصریح فرمائی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بھی بعض اوقات بیانِ جواز کے لیے مکروہِ تنزیہی کا ارتکاب کرتےہیں، حالانکہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سب کے سب معصوم ہیں اور راجح قول کے مطابق جس طرح کبیرہ گناہوں سے عصمت ثابت ہے، یوں ہی صغیرہ گناہوں کے عمداً ارتکاب کرنےسے بھی یہ حضرات معصوم ہیں۔
ب: سابقہ مباحث سے معلوم ہوا کہ مکروہِ تنزیہی سے شریعت میں ممانعت نہیں کی جاتی، جب ممانعت ثابت نہیں ہوئی تو اس کا ارتکاب‘ گناہ کیونکر قرار دیاجاسکتا ہے؟! اس لیے اصولِ فقہ کی کتابوں میں اس کاحکم یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کا ارتکاب کرنا موجبِ عقاب نہیں ہے، جبکہ ہمارے نزدیک ہر گناہ (چاہے وہ صغیرہ ہی ہو) مستحقِ عقاب ہے۔
ج: تقریباً اکثر اصولیین اور فقہاء صراحت فرماتےہیں کہ کراہتِ تنزیہ اور اباحت میں تضاد نہیں ہے، بلکہ دونوں جمع ہوسکتے ہیں، حالانکہ مکروہِ تنزیہی اگر گناہ ہے تو اباحت کےساتھ اس کا یکجا اجتماع ممکن نہیں ہے۔اس لیے درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مکروہِ تنزیہی گناہ کی فہرست میں داخل نہیں ہے، البتہ یہ حکم نفسِ مکروہِ تنزیہی کے ارتکاب کا ہے،اگر اس کے ساتھ دیگر عوارض ملیں تو اس کے مطابق اس کو گناہ قرار دیا جاسکتا ہے اور علامہ لکھنوی  رحمۃ اللہ علیہ  کی بات کو بھی اس پر محمول کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

فقہی ذخیرےمیں لفظِ کراہت کا مصداق

فقہی کتابوں خصوصاً حضرات فقہائےحنفیہ کی کتابوں میں لفظِ کراہت کا استعمال کافی زیادہ ہوتا ہے، اگر کراہت کے ساتھ تفصیل لکھی گئی ہو کہ کراہتِ تحریم ہےیا تنزیہ، تب تو بات بالکل واضح ہے۔ اگر کہیں کسی عمل کو مکروہ لکھا گیا ہو، لیکن یہ وضاحت موجود نہ ہو کہ وہ مکروہِ تحریمی ہے یا تنزیہی، تو اس کو کیا قرار دیا جائے گا؟ عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ’’کراہت‘‘کالفظ جب مطلق بولاجائے تو اس سے مراد مکروہِ تحریمی ہوتا ہے، لہٰذا مطلق مکروہ کا مصداق مکروہِ تحریمی ہوگا۔ (۸) اُصولی اور نظریاتی طور پر یہ بات درست بھی ہونی چاہیے، کیونکہ ’’مکروہ‘‘ کا فردِ کامل یہی مکروہِ تحریمی ہی ہے اور لفظ جب مطلق ذکر ہو تو اس سے فردِ کامل ہی مراد لے لینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے فقہائے کرام مطلق کراہت سے کراہتِ تحریم پر استدلال بھی فرماتے ہیں، چنانچہ علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ  ایک عبارت کی تشریح میں فرماتےہیں:
’’قولہ: ’’وکرہ لمن تجب عليہ الجمعۃ‘‘ أطلق الکراہۃ فتکون تحريميۃ.‘‘ (۹)
ترجمہ: ’’جس شخص پرجمعہ کی نماز واجب ہو، اس کے لیے گھر میں نمازِ ظہر پڑھنامکروہ ہے، یہاں شارح نے مکروہ مطلقاًذکرفرمایاہے، بظاہر اس سے مراد مکروہِ تحریمی ہے۔‘‘
تاہم حقیقت یہ ہے کہ بہت سی جگہوں پر اگرچہ یہ ضابطہ درست ثابت ہوتا ہے، لیکن باوجود اس کے اس کو قاعدہ کلیہ قرار دینا مشکل ہے، جس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ حضرات فقہائےکرام کے ہاں اس باب میں کافی توسع سے کام لیاجاتا ہے، چنانچہ بہت سے متقدمین حرام کا لفظ استعمال کرنے میں بھر پور احتیاط کرنے کی وجہ سے بہت سے محرمات کےلیےبھی مکروہ کا لفظ استعمال کرلیتےہیں،یوں ہی بہت سے فقہائے کرام توسُّع اور تسامح سے کام لیتےہیں اور کئی مکروہات پر بھی لفظ حرام کا اطلاق فرماتےہیں، یا بعض اوقات سدِّ ذرائع وغیرہ اسباب کی وجہ سے بھی کئی مکروہات کےلیے حرام کے لفظ کا استعارہ لےلیتےہیں۔’’درِ مختار‘‘ میں ہے:
’’ (ووجب سعي إليہا وترک البيع) .۔. وأفاد في البحر صحۃ إطلاق الحرمۃ علی المکروہ تحريمًا.‘‘ (۱۰)
ترجمہ:’’بحر میں ہے کہ مکروہِ تحریمی کو حرام کہنادرست ہے۔‘‘
’’فتاویٰ شامی‘‘میں ایک مسئلہ کےضمن میں ہے:
’’(قولہ:ومکروہہ) ہو ضد المحبوب؛ قد يطلق علی الحرام کقول القدوري في مختصرہٖ: ومن صلی الظہر في منزلہ يوم الجمعۃ قبل صلاۃ الإمام ولا عذر لہ کرہ لہ ذلک. وعلی المکروہ تحريمًا: وہو ما کان إلی الحرام أقرب، ويسميہ محمد حراما ظنيا. وعلی المکروہ تنزيہًا: وہو ما کان ترکہ أولٰی من فعلہ، ويرادف خلاف الأولٰی کما قدمناہ.‘‘ (۱۱)
ترجمہ: ’’ مکروہ کااطلاق حرام پربھی ہوتا ہے، جیساکہ امام قدوریؒ نے قدوری میں لکھاہے کہ: جو بندہ جمعہ کے دن بغیرعذر کے ظہر کی نماز گھر میں پڑھے تویہ مکروہ ہے۔ اوربظاہر کراہت سے مراد کراہتِ تحریمی ہے، جو کہ حرام کے قریب قریب ہوتاہے ، جسے امام محمدؒ حرامِ ظنی کہتے ہیں۔ اسی طرح مکروہ کا اطلاق مکروہِ تنزیہی پر بھی ہوتاہے، جس کا چھوڑنا بہتر ہے اور جسے خلافِ اولیٰ بھی کہتے ہیں۔‘‘
علامہ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے بالکل بجا طور پر لکھا ہے کہ متقدمین بسا اوقات صریح حرام کام کےلیے بھی مکروہ کا لفظ استعمال فرماتےہیں، اس کا منشا ان حضرات کا غیر معمولی احتیاط وتورُّع ہے، لیکن بہت سےمتاخرین کو اسی چیز نے غلط فہمی میں ڈال رکھا ہے اور وہ اس کو واقعۃً حرام سے کم درجے کی ممانعت سمجھنے لگتے ہیں۔آپ تحریر فرماتےہیں:
’’قد غلط کثير من المتأخرين من أتباع الأئمۃ علی أئمتہم بسبب ذٰلک، حيث تورع الأئمۃ عن إطلاق لفظ التحريم، وأطلقوا لفظ الکراہۃ، فنفی المتأخرون التحريم عما أطلق عليہ الأئمۃ الکراہۃ، ثم سہل عليہم لفظ الکراہۃ وخفت مؤنتہ عليہم، فحملہ بعضہم علی التنزيہ، وتجاوز بہٖ آخرون إلی کراہۃ ترک الأولٰی، وہٰذا کثير جدا في تصرفاتہم؛ فحصل بسببہٖ غلط عظيم علی الشريعۃ وعلی الأئمۃ، وقد قال الإمام أحمد في الجمع بين الأختين بملک اليمين: أکرہہ، ولا أقول ہو حرام، ومذہبہ تحريمہ، وإنما تورع عن إطلاق لفظ التحريم لأجل قول عثمانؓ.‘‘ (۱۲)
ترجمہ: ’’ائمہ سلف کے متاخرین مقلدین کواپنے اکابرکے طرز سے غلط فہمی واقع ہوئی، چنانچہ ائمہ اسلاف نے از روئے احتیاط ’’ حرام‘‘ کی جگہ ’’مکروہ ‘‘کہا، مابعد لوگوں نے بڑوں کے مکروہ کہنے کی وجہ سے ان اُمورکی حرمت کاہی انکارکیااوراس کومعمولی سمجھا،لفظ کراہت اس کے لیے معمولی سی بات بن گئی، کسی نے اسے مکروہِ تنزیہی قراردیا اور کسی نے خلافِ اولیٰ کہا، چنانچہ اس وجہ سے وہ دین اورائمہ کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوگئے، امام احمدؒ نے دو بہنوں کوبیک وقت ملک یمین میں جمع کرنے کومکروہ کہا، حالانکہ ان کے نزدیک اس کاجمع کرناحرام ہے، تاہم انہوں نے احتیاط اورحضرت عثمانؓ کی روایت کی وجہ سے اُسے مکروہ فرمایا۔‘‘ 
اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ اگر کہیں کسی عمل کو مطلقاً مکروہ قرار دیا گیا ہو تو وہاں محض اس وجہ سے اس کو مکروہِ تحریمی نہ قرار دیاجائے کہ مکروہ کا فردِ کامل مکروہِ تحریمی ہے، بلکہ اس کی دلیل واَساس پر غور کرلینا چاہیے، اگر دلیل کراہتِ تحریم کی مقتضی ہو تو مکروہِ تحریمی قرار دیا جائے اور اگر دلیل محض تنزیہ واحتیاط کا تقاضا کرتی ہو تو مکروہِ تنزیہی قرار دیا جائے۔ ’’النہر الفائق‘‘ میں ہے:
’’(وکرہ عبثہ بثوبہٖ وبدنہٖ) لما أخرجہ القضاعي مرسلاً عن يحيی بن کثير عنہ عليہ الصلاۃ والسلام (أن اللہ کرہ لکم ثلاثًا العبث في الصلاۃ والرفث في الصوم والضحک في المقابر) وقدمنا أن الکراہۃ المطلقۃ يراد بہا التحريم غير أنہ ذکر ہنا ما يکرہ تنزيہًا أيضًا مما مرجعہ خلاف الأولٰی، قال الحلبي: وکثيرًا ما يطلقون الکراہۃ عليہ وحينئذ، فالفارق الدليل.‘‘ (۱۳)
ترجمہ: ’’بحالتِ نماز کپڑےیابدن کے ساتھ کھیلنامکروہ ہے۔ امام قضاعیؒ نے یحییٰ بن کثیر کے حوالے سے حدیث نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تین باتیں ناپسندہیں: نماز میں کھیلنا،روزہ کی حالت میں بوس وکنار کرنا اور قبرستان میں ہنسنا، چنانچہ پہلے گزرچکا ہے کہ کراہت جب مطلق ذکر کی جائے تواس سے مراد مکروہِ تحریمی ہوتا ہے، مگر یہاں اس سے مراد مکروہِ تنزیہی ہے جودراصل خلافِ اولیٰ ہوتا ہے۔ امام حلبیؒ فرماتے ہیں کہ: فقہاء اکثر خلافِ اولیٰ کو بھی مکروہ کہتے ہیں، تاہم تحریمی اور تنزیہی کا فرق دلیل سے معلوم ہوگا۔‘‘

مکروہِ تنزیہی اور خلافِ اولیٰ 

مکروہ ِتنزیہی کا مطلب یہی ہو تا ہے کہ اس کو چھوڑنا بہتر ہے، یعنی کرنےکی بنسبت نہ کرنا بہتر ہے، ٹھیک یہی مفہوم ’’خلاف ِ اولیٰ‘‘ کا بھی ہے، لیکن فقہی کتابوں میں بعض امور کو خلافِ اولیٰ قرار دیا جاتا ہے اور بعض کےبارے میں مکروہِ تنزیہی کے الفاظ ذکر ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں مترادف الفاظ ہیں یا دونوں کے درمیان کچھ فرق بھی ہے؟ اگر کچھ فرق ہے تو کیا ہے؟ 
غور کیا جائے تو اس کے دو پہلو واضح ہوتے ہیں: ایک یہ ہے کہ ’’مکروہِ تنزیہی‘‘ بھی شرعی احکام میں سے ایک قسم ہے اور ہر شرعی حکم شرعی دلیل کا محتاج ہے اور دلیلِ شرعی ہی کی روشنی میں کوئی شرعی حکم متعین کیا جاسکتا ہے، اس لیے مکروہِ تنزیہی کےلیے کسی دلیلِ شرعی کا ہونا ضروری ہے اور اس کے بغیر کسی چیز کو مکروہ قرار دینا درست نہیں ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کئی فقہائے کرام نے اسی پہلو کو مدِنظر فرمایا ہے، چنانچہ آپ نے ’’بحر‘‘ کےحاشیے میں اس پر بقدرِ ضرورت بحث فرمائی، اسی بحث کا حاصل تحریر فرماتے ہیں:
’’والحاصل أن خلاف الأولٰی أعم من المکروہ تنزيہًا وترک المستحب خلاف الأولٰی دائمًا لا مکروہ تنزيہًا دائمًا بل قد يکون مکروہًا إن وجد دليل الکراہۃ وإلا فلا. ‘‘ (۱۴)
ترجمہ: ’’خلافِ اولیٰ یعنی نامناسب مکروہِ تنزیہی اورترکِ مستحب سب کو کہا جاتا ہے، البتہ مستحب کا ترک کرنا ہمیشہ خلافِ اولیٰ ہوتا ہے، مگر ہر خلافِ اولیٰ مکروہِ تنزیہی بھی ہو، یہ ضروری نہیں، اس کے لیے الگ دلیل درکار ہے۔ اگر کراہت کی دلیل موجود ہو تو مکروہِ تنزیہی بھی ہوگا، ورنہ نہیں۔ ‘‘
دوسرا پہلو یہ ہے کہ انجام کار کےلحاظ سے خلافِ اولیٰ اور مکروہِ تنزیہی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، دونوں کا مآل کار ایک ہی ہے، اس لیے دونوں میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔ 
رہا یہ اشکال کہ مکروہ کےلیے دلیل خاص کی ضرورت ہے تو اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ مکروہ کو حکمِ شرعی تسلیم کرلینے کےبعد دلیلِ شرعی کی ضرورت توواضح ہے کہ اس کےبغیر حکمِ شرعی ثابت نہیں ہوتا، لیکن دلیلِ خاص کا ہونا لازم نہیں ہے ،چنانچہ واجبات کو چھوڑنا مکروہِ تحریمی ہے اور حرام سے بچنا ضروری ہے، لیکن اس کے متعلق کوئی دلیلِ خاص بایں معنی وارد نہیں ہوئی کہ جس میں ترکِ واجب کی کراہت کا یا اجتناب عن الحرام کو ضروری قرار دیا گیا ہو، بلکہ اسی ضابطے پر اکتفا کیا گیا کہ کسی چیز کا امر اُس کی ضد کی کراہت وممانعت کا تقاضا کرتا ہے اور کسی چیز کی نہی وممانعت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کا کرنا مکروہ وممنوع قرار پائے۔ یوں ہی یہاں بھی کسی چیز کا استحباب شرعی دلیل سے ثابت ہوجائے تو ترکِ مستحب جس طرح خلافِ اولیٰ ہے، یوں ہی مکروہِ تنزیہی کی تعریف بھی اس پر صادق آتی ہے اور یہ کراہت خود اسی دلیل کا نتیجہ ہے، جس سے اس کام کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔
یہ ’’مکروہ‘‘ اور ’’کراہت‘‘ کے متعلق چند اُصولی اور بنیادی نوعیت کے مباحث تھے، جن کو اس تحریر میں ذکر کرنا مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ دین کی صحیح سمجھ اور اُس پر استقامت کی نعمت نصیب فرمائیں۔

حواشی و حوالہ جات 

۱:- البحر المحيط في أصول الفقہ، فصل خطاب التکليف، ج: ۱ ، ص:۲۳۱ ۔ الابہاج في شرح المنہاج، ج:۱، ص:۵۲.  إرشاد الفحول إلیٰ تحقيق الحق من علم الأصول، ج:۱، ص:۲۵ .
۲:- علامہ تفتازانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کےبعد تحریر فرمایا ہے کہ یہ تمام تفصیل امام محمد  رحمۃ اللہ علیہ  کی رائےکےمطابق ہے، حضرات شیخین کی رائے اس کے برخلاف ہے، چنانچہ ان کےنزدیک اگر کسی چیز کے کرنے سے شرع میں ممانعت وارد ہوئی ہو تو وہ حرام ہے، اگر ممانعت نہ کی گئی ہو تو پھر دیکھا جائے گا، اگر وہ حرام کےقریب ہو تو مکروہِ تحریمی قرار پائے گا اور اگر حلال کےقریب ہو تو مکروہِ تنزیہی قرار دیا جائے گا، الخ۔ لیکن وہاں ممانعت وارد نہ ہونے سے بظاہر وہی ممانعتِ جازمہ مراد ہے، مطلق ممانعت کی نفی مقصود نہیں ہے، ورنہ اگر مطلقاً ممانعت وارد نہ ہو تو اس کے بغیر کوئی کام کیونکر حرام کے قریب ہوسکتا ہے؟! اور کیونکر اس کو شرعاً مکروہِ تحریمی یاتنزیہی قرار دیا جاسکتا ہے، جبکہ شرعی دلیل وارد ہی نہ ہو؟!
۳:- شرح التلويح علی التوضيح، ج:۱، ص:۱۷.
۴:- الرسائل الزينيۃ،الرسالۃ الثالثۃ والثلاثون، ص:۳۷۱
۵:- ردالمحتار علی الدرالمختار،مطلب المکروہ تحريما من الصغائر، ج:۱، ص:۴۵۶
۶:- تحفۃ الأخيار مع نخبۃ الأنظار، ص:۳۶
۷:- ترويح الجنان بتشريح حکم شرب الدخان،ص: ۵۸.
 ۸:- یہ حضرات فقہائےاحناف کا منہج ہے،جہاں تک دیگر ائمہ فقہائے کی اصطلاح ہے تواس کےمتعلق دکتور عبد الکریم النملۃ نے یہ نقل فرمایا ہے کہ جمہور اصولیین کےنزدیک مطلق کراہت سے مراد کراہت تنزیہ ہوتا ہے۔ملاحظہ ہو: المہذب في علم أصول الفقہ المقارن، المسألۃ الرابعۃ: ما يطلق عليہ المکروہ ،ج:۱، ص:۲۸۴.
۹:- حاشيۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ص:۵۲۰.
۱۰:- الدر المختار مع حاشيۃ ابن عابدين،باب الجمعۃ، ج:۲، ص: ۱۶۱.
۱۱:- رد المحتار علی الدر المختار،مطلب في تعريف المکروہ، وأنہ قد يطلق علی الحرام والمکروہ تحريما وتنزيہا، ج:۱، ص:۱۳۱.
۱۲:- إعلام الموقعين عن رب العالمين، ج:۱، ص:۳۲.
اصولِ فقہ کےساتھ شغف رکھنےوالےسعودی عرب کےایک معاصر عالم دکتور جناب عبد الکریم بن محمد النملۃ نےمختلف ائمہ کرام کےحوالےسے یہی بات نقل فرمائی ہے ، آپ لکھتےہیں:
’’اختلف في إطلاقات المکروہ علی ما يلي: فبعض العلماء يطلق لفظ ’’مکروہ ‘‘ ، ويريد بہ الحرام والمحظور، وقد روي ہٰذا الإطلاق عن الإمام مالک، والشافعي، وأحمد- رحمہم اللہ جميعًا - وہو غالب في عبارۃ المتقدمين، وذلک تورعًا منہم وحذرًا من الوقوع تحت طائلۃ النہي الوارد في قولہ تعالی: (وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلَالٌ وَہٰذَا حَرَامٌ) فکرہوا - لذلک - إطلاق لفظ التحريم .۔. المہذب في علم أصول الفقہ المقارن، المسألۃ الرابعۃ: ما يطلق عليہ المکروہ ، ج:۱، ص:۲۸۴.‘‘
۱۳:- النہر الفائق،باب ما يفسد الصلاۃ وما يکرہ فيہا، ج:۱، ص: ۲۷۷.
 ۱۴:- منحۃ الخالق علی البحر الرائق،،باب ما يفسد الصلاۃ وما يکرہ فيہا، ج:۲، ص:۳۵.
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین