بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکافاتِ عمل سے بچئے!

مکافاتِ عمل سے بچئے!

ایک عرصہ ہوا کہ ہمارا پیارا ملک پاکستان صدمات کی زَد میں ہے، چند دن وقفہ ہوتا ہے، پھر کوئی نہ کوئی بلاء اور مصیبت نازل ہوجاتی ہے۔ اس سے بچاؤ کی کوئی مدہم سی صورت نمودار ہونے لگتی ہے تو پھر اچانک ایک نئی آزمائش سامنے آجاتی ہے، آخر ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ راقم الحروف کی دانست میں اس پر نہ علمائے کرام نے سوچا اور نہ ہی اربابِ اقتدار اور عوام الناس نے، اس کی وجہ صرف اور صرف یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک طبقہ کے لوگ اپنی من پسند زندگی گزارنے کو اپنا لازمی حق سمجھتے ہیں۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ مجھے کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ ہو، آجر چاہتا ہے کہ میں اپنی مرضی کروں اور اجیر چاہتا ہے کہ میں اپنی من مانی کروں۔ حاکم چاہتا ہے کہ میں جو کچھ کروں کوئی اس کو روکنے اور ٹوکنے والا نہ ہو اور رعایا یہ چاہتی ہے کہ ہماری خودروی میں کوئی مداخلت نہ کرے۔ جب سب کا یہ حال ہے تو حالات میں کیسے سدھار آئے گا اور معاشرہ پرامن وپرسکون کیسے ہوگا؟! ایک زمانہ تھا کہ رمضان المبارک آتے ہی مسلمان تو مسلمان ایک ہندو، سکھ، یہودی اور عیسائی بھی اس کا احترام کرتا تھا، لیکن آج ایسا زمانہ آگیا ہے کہ جتنا ہمارے مسلمان بھائی اور بہنیں رمضان المبارک کی بے حرمتی کرتے ہیں‘ اتنا کوئی کافر بھی نہیں کرتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ رمضان المبارک آتے ہی رمضان ٹرانسمیشن کے نام سے ہمارے ہاں بے حیائی، عریانی، فحاشی، جوا، سٹہ اور سود جیسی مخرب اخلاق اسکیمیں جگہ جگہ اپنے پنجے گاڑدیتی ہیں، سحری کا مبارک وقت ہو یا افطاری کا جو دعا کی قبولیت کا وقت ہے، ہمارے پاکستانی بھائی ان اسکیموں کا حصہ بننے والے ہوتے ہیں یا ان کو دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے عمل اور رویہ سے جہاں یہ روزہ دار اپنا روزہ خراب کررہے ہوتے ہیں‘ وہاں وہ روزے کے اجروثواب سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھی دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کا غضب جوش میں آیا اور رمضان المبارک کی آخری ساعتوں میں جمعۃ المبارک کے روز ملک کے کئی ایک مقامات پر دہشت گردی کے واقعات ہوگئے، جس میں درجنوں افراد کو دہشت گردی کا عفریت نگل گیا۔ اسی طرح رمضان المبارک کے بالکل آخری دن احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور میں ایک آئل ٹینکر اُلٹنے سے تیل بہنے لگا، عین اس وقت جب لوگ ’’مالِ مفت دل بے رحم ‘‘ کا معاملہ کررہے تھے کہ اچانک آگ بھڑک اُٹھی اور سینکڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے، آخر یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ کسی نے اس پر سوچا ہے؟  اہل علم اور اربابِ قلوب اپنی چشم بصیرت سے یہ بات جانتے ہیں کہ یہ سب ہمارے گناہوں کی سزا ہے جو مختلف شکلوں میں ہمیں مل رہی ہے۔ اس لیے کہ علماء کرام جو انبیاء کرام B کے وارث اور منبر ومحراب سے کلمۂ حق کہنے پر مامور ہیں، ان کے بیانوں میں بھی ان منکرات وفواحش اور کبیرہ گناہوں کی سنگینی اس طرح بیان نہیں کی جارہی، جس طرح بیان کرنے کا حق ہے۔ اسی طرح ہمارے حکمران ہیں کہ ان تمام لغویات وخرافات سے بالکل آنکھیں بند کیے ہوئے نظر آتے ہیں، حالانکہ حضور اقدس a نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرنے والوں کے بارہ میں سخت وعیدات ارشاد فرمائی ہیں، ایک حدیث میں آپ a نے ارشاد فرمایا: ۱:…’’قال: والذی نفسی بیدہٖ لَتأمرُنَّ بالمعروف ولَتَنْہَوُنَّ عن المنکر أو لیوشکن اللّٰہ أن یبعث علیکم عذابا من عندہٖ ثم لَتَدْعُنَّہٗ فلایستجاب لکم۔‘‘                  (مشکوٰۃ) ترجمہ:’’رسول اللہ a نے فرمایاکہ: اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میرا نفس ہے، البتہ یا تو تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر کوئی اپنا عذاب بھیج دے، پھر تم دعائیں کرتے رہ جاؤ اور تمہاری دعائیں قبول نہ کی جائیں۔‘‘ ۲:…’’قال: إنی سمعتُ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن الناس إذا رؤا منکرا فلم یغیروہ یوشک أن یعمہم اللّٰہ بعقابہٖ۔‘‘ ترجمہ:’’فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ a سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ: لوگ جب کسی منکر کو دیکھیں پھر اس کو بدل نہ دیں تو قریب ہے کہ اللہ ان پر بھی اپنے عذاب کو عام کردے۔‘‘ ۳:…’’عن جریر بن عبداللّٰہq  قال: سمعت رسول اللّٰہa: یقول: مامن رجل یکون فی قوم یعمل فیہم بالمعاصی یقدرون علٰی أن یغیروا علیہ ولایغیرون إلا أصابہ اللّٰہ منہ بعقابہٖ قبل أن یموتوا۔‘‘ ترجمہ: ’’حضرت جریر بن عبداللہ q سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ a کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایسا کوئی نہیں ہے کہ وہ ایسی قوم میں ہو جن میں معاصی پر عمل کیا جائے اور وہ اس پر قادر ہوں کہ اسے بدل دیں اور پھر نہ بدلیں، تو اللہ تعالیٰ ان کے مرنے سے پہلے اس پر عذاب نازل فرمادیںگے۔‘‘ ۴:…’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أوحی اللّٰہ عزوجل إلٰی جبرئیل علیہ السلام أن أقلب مدینۃ کذا وکذا بأہلہا فقال: یارب! إن فیہم عبدک فلاناً لم یعصک طرفۃ عین فقال: أقلبہا علیہ وعلیہم فإن وجہہٗ لم یتعمر فی ساعۃ قط۔‘‘ ترجمہ: ’’رسول اللہ a فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ عزوجل نے جبرئیل m کو حکم کیا کہ فلاں شہر کو مع ان کے مکان اُلٹ دیں، جبرئیل m نے عرض کیا کہ: اے میرے رب! ان میں تو ایک تیرا فلاں بندہ بھی ہے، جس نے ایک لحظہ بھی تیرا گناہ نہیں کیا، فرمایا: (کچھ پروا نہ کر) اس پر بھی اور جمیع (سارے) شہروالوں پر شہر کو اُلٹ دو، اس لیے کہ میرے معاملے میں کبھی اس کا چہرہ ایک گھڑی کو متغیر نہیں ہوا۔‘‘ ۵:…’’عن العرس ابن عمیرۃq عن النبی a قال: إذا علمت الخطیئۃ فی الأرض من شہدہا فکرہہا کان کمن غاب عنہا ومن غاب عنہا فرضیہا کان کمن شہدہا۔‘‘ ترجمہ: ’’حضرت عرس ابن عمیرہq سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ a سے روایت کرتے ہیں، آپ a نے فرمایاکہ: جب زمین پر گناہ کیا جاتا ہے تو جو شخص اس گناہ میں حاضر ہوکر اس کو مکروہ سمجھتا رہے، وہ حکماً مثل غائب کے ہے، اور جو غائب اس پر راضی ہو‘ وہ حاضر کے حکم میں ہے۔‘‘ اس لیے میڈیا کے مالکان سے دردمندانہ درخواست ہے کہ آپ میڈیا کے ذریعہ فحاشی اور عریانی پھیلاکر اور وہ بھی مقدس اوقات اور مقدس مہینہ میں جہاں اپنے پاکستانی معاشرہ کے لیے عذاب کا سبب بن رہے ہیں، وہاں آپ اپنے لیے بہت زیادہ مشکلات کھڑی کررہے ہیں۔ جوا، سٹہ اور سود جیسی اسکیموں کے ذریعہ جو پیسہ کمایا جارہا ہے، یہ جہاں آپ کے لیے آخرت میں عذاب کا وبال بنے گا‘ وہاں دنیا میں بھی آپ کو سکون اور اطمینان کی دولت سے محروم کرکے رکھ دے گا، بلکہ جب کسی کبیرہ گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھا جائے تو اس کی نحوست یہ ہوتی ہے کہ آدمی کے دل سے رفتہ رفتہ ایمان رخصت ہوتاجاتا ہے، حالانکہ ہم مسلمانوں کے پاس صرف یہی ایک پونجی ہے، جس سے آخرت میں کامیابی مل سکتی ہے۔  خدارا! ان آفات اور مصائب سے اپنے آپ کو بھی بچائیے اور اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوق پر بھی رحم فرمائیے، اور اس کو بار بار سوچیے کہ کل یوم آخرت اپنے رب کو کیا جواب دیں گے؟ اسی طرح وہ اینکر حضرات جو اس طرح کے پروگرام منعقد کرتے ہیں، کبھی اکیلے بیٹھ کر اور اپنے اللہ کو حاضر وناظر سمجھ کر یہ تصور کریں کہ میں اپنے رب کے سامنے ہوں اور میرا رب مجھ سے ان مخلوط اور فحش پروگراموں کے بارہ میں پوچھ رہا ہے تو سوچئے کہ کیا میں جواب دے سکوں گا؟ میرے بھائی! یوم حساب کے دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا، ہر فرد بشر کو اپنا اپنا حساب دینا ہوگا، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَلَاتَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی‘‘ (بنی اسرائیل:۱۴) ترجمہ: ’’اور کسی پر نہیں پڑتا بوجھ دوسرے کا۔‘‘ اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے:  ’’یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ أَخِیْہِ وَأُمِّہٖ وَأَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ، لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُّغْنِیْہِ‘‘                                                              (عبس:۳۴-۳۷) ترجمہ: ’’جس دن کہ بھاگے مرد اپنے بھائی سے اور اپنی ماںاور باپ سے اور اپنے ساتھ والی سے اور اپنے بیٹوں سے، ہر مرد کو ان میں سے اس دن ایک فکر لگا ہوا ہے جو اس کے لیے کافی ہے۔‘‘ اربابِ اقتدار سے بھی التماس ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، ورنہ ان کے لیے بھی آخرت کی جواب دہی مشکل ہوجائے گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا وآخرت کی تمام مشکلات اور مصائب سے محفوظ فرمائے۔آمین وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین