بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ ... بنام... مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ (چودہویں قسط)


مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمہ اللہ 

 ۔۔۔ بنام ۔۔۔ مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ 

 (چودہویں قسط)


{ مکتوب :…۲۳ }

جناب مولانا، علامہ، علماء کی آنکھوں کی ٹھنڈک، محقق، سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللّٰہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بعد سلام، آپ کا والانامہ اور ’’کتاب الحجج‘‘(۱) کے چند اجزاء موصول ہوئے۔ آپ اور دیگر احباب کی خیروعافیت پر اللہ سبحانہٗ کا شکر ادا کیا، اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے دائمی عافیت اور توفیق کے واسطے دعاگو ہوں، اور قبولیتِ دعا کے مواقع میں آپ سے بھی مبارک دعاؤں کی توقع رکھتا ہوں، اس لیے کہ آپ کی مقبول دعاؤں کا بہت محتاج ہوں، نیز آپ کو خط لکھنے میں کوتاہی کا اعتراف ہوں، لیکن اس حوالے سے بعض اعذار میرے لیے سفارشی ہیں، باقی (میری) صحت (کی ناسازی) کا تو آپ کو علم ہے، کشادگی وتنگی ہرحال میں اللہ سبحانہٗ کا شکرگزار ہوں، وہی ہر تکلیف کو دور کرنے والا ہے۔
’’بلوغ الأمانی‘‘(۲) کی مانند امام ابویوسف رحمہ اللہ کے متعلق بھی ایک رسالہ(۳) لکھا ہے، جس کی چھپائی جاری ہے، شاید مہینے بھر میں مکمل ہوجائے گی، مجلس(علمی) کی ترقی اور اس سلسلے میں جلدی قدم اُٹھانے کے بارے میں بہت گفتگو کرچکا ہوں، مکرر امید ہے۔ مولانا میاں کو بھی میں نے لکھا ہے، اور ان سے کتابوں کی طباعت کی نگرانی کے لیے مولانا ابوالوفاء صاحب کو قاہرہ بھیجنے کی درخواست کی ہے، یہ نہایت درست تدبیر ہے، معلوم نہیں ان کی کیارائے ہے؟!
مولانا سید مہدی حسن (کی کتاب) کے اجزاء کے حوالے سے مولانا ابوالوفاء کو لکھا ہے، انہوں نے ذکر کیا ہے: مولانا مفتی (مہدی حسن صاحب) کی خواہش ہے کہ میں ان اجزاء کو دیکھ لوں، میرے لیے یہ تصور بھی نہیں کہ ان کے وسیع مطالعے پر کوئی استدراک کرسکوں، اور یہ خواہش بھی ان کی انتہائی تواضع کا نتیجہ ہے، باقی آپ جو کچھ بھی ارسال کریں گے‘ میں استدراک کے تصور کے بغیر اس کا مطالعہ اور استفادہ کروں گا۔ 
تمام احباب کو میرا سلام، سب سے دعاؤں کا امید وار۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کی حفاظت فرمائے۔
 

آپ کا بھائی: محمد زاہد کوثری
 محرم سنہ ۱۳۶۸ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۶۳، قاہرہ

حواشی

۱:…مولانا مہدی حسن شاہ جہاں پوری رحمہ اللہ نے امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کی ’’کتاب الحجۃ علٰی أہل المدینۃ‘‘ کی تحقیق وتعلیق کا کام شروع کیا تھا، اور اس کے کچھ اجزاء مراجعت واظہارِ رائے کے لیے علامہ کوثریؒ کو ارسال کیے تھے، لیکن پیشِ نظر مکتوب اور آئندہ مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینائی کی کمزوری کی بنا پر علامہ موصوف یہ کام نہیں کرپائے۔ 
۲:…مکمل نام ’’بلوغ الأمانی فی سیرۃ الإمام محمد بن الحسن الشیبانی‘‘ہے۔
۳:… یہ رسالہ ’’حسن التقاضی فی سیرۃ الإمام أبی یوسف القاضی‘‘ کے نام سے طبع ہوچکا ہے۔

{ مکتوب :…۲۴ }

اخی فی اللہ، علامہ، مہربان، مولانا سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللّٰہ ورعاہ ووفقہٗ وإیانا لما فیہ رضاہ (اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو اور ہمیں اُن اعمال کی توفیق ارزاں فرمائے جن میں اس کی رضا ہو)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بعد سلام ’’ نصب الرایۃ‘‘ کے چند اجزاء اور آپ کے دو گرامی نامے موصول ہوئے تو آپ کی عافیت وسلامتی پر اللہ سبحانہٗ کا شکر گزار ہوا۔
میں نے پہلے بھی مولانا میاں کو اپنی رائے لکھی تھی کہ معاملے کی تفصیلات میں پڑے بغیر مولانا ابوالوفاء کو مجلس(علمی) میں منتقل کرکے انہیں یہاں (مصر میں) کتابوں کی طباعت کی نگرانی سپرد کردی جائے، اس لیے کہ (جزوی) تفصیلات کا مرحلہ فی الجملہ قبولیت کے بعد ہوتا ہے، لیکن انہوں نے تاحال اس رائے کا کوئی جواب نہیں لکھا، اور آپ کو بھی نہیں لکھا، شاید ان کا کوئی عذر ہوگا جس کا ہمیں علم نہیں، اس(کام) کی سہولت وآسانی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ 
میری رائے ہے کہ آپ نشرواشاعت کے معاملے کو اللہ جل جلالہٗ کے حوالے کرکے شرح (معارف السنن) کی تکمیل میں لگے رہیں، آپ جیسی شخصیت کے عزائم میں سستی کا گزر نہ ہونا چاہیے، تکمیل کی توفیق دینے والے کے ہاتھ میں اشاعت کی سہولت پیدا کرنا بھی ہے۔ علمی مسائل میں ہم جتنی بھی جلدی سے کام لے لیں، راہِ علم میں خرچ کا بار اُٹھانے والوں کے دلوں میں سچی رغبت کے بغیر ہم جلد کام نہیں کرسکتے، اور اللہ سبحانہٗ ہی دلوں میں ڈالنے والا اور وہی راہِ راست پر گامزن کرنے والا ہے۔ (۱) 
امید ہے کہ ’’نصب الرایۃ‘‘ کے اجزاء کو بذریعہ ڈاک ارسال کرنے کے مصارف آپ بتادیں گے، کیوں کہ مولانا میاں سے بوقتِ ملاقات میں نے دریافت کیا تھا کہ کیا آپ نے کتاب کی قیمت میں اضافہ کیا ہے؟ اور اس کے چند نسخے کیسے حاصل ہوسکتے ہیں؟ تب ان کا کہنا تھا کہ ہم نے قیمت نہیں بڑھائی، اور نسخے مجلسِ علمی میں محفوظ ہیں۔ میں نے پوچھا: قیمت کی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟ تو انہوں نے کہا: ہم ان کے بدلے مصر سے کتابیں منگوالیں گے۔ میں نے کہا : یہ ٹھیک رہے گا، تب آپ کتاب کے چار نسخے بھیج دیں گے۔ آپ کی بلند ہمتی کی بدولت نسخے موصول ہوگئے، اب میں ڈاک خرچ جاننے کا خواہش مند ہوں، تاکہ سابقہ طریقہ کار کے مطابق اُسے ارسال کردہ نسخوں کی قیمت کے ساتھ ملا کر سب کا حساب درست کرسکوں۔
احباب کی خیریت سے مسرت ہوئی، ان سب کو اور خصوصاً مولانا مفتی(مہدی حسن) اور مولانا ابوالوفاء کو میرا ہدیۂ سلام پیش کردیجیے، اپنی صحت کے حوالے سے کچھ کہنا پسند نہیں کرتا، اس پہلو سے آپ کو کتنا تشویش میں مبتلا کرچکا! تاحال مولانا مفتی (مہدی حسن) کے (بھیجے گئے) اجزاء کا مطالعہ نہیں کرپایا، کمزور بینائی حسبِ خواہش مطالعے میں رکاوٹ ہے، مزید براں مولانا مفتی صاحب کی وسعتِ مطالعہ نے ان روشن مباحث پر استدراک کی گنجائش نہیں چھوڑی، جس روز سہولت ہوئی ان شاء اللہ! ان اجزاء کا مطالعہ واستفادہ کریں گے۔ آپ کی شرح کے ارسال کردہ حصے بھی اسی مسئلے (کمزور بینائی) کا نشانہ ہیں، بلاشبہ آپ کے لکھے ہوئے میں کوئی استدراک کرنے کی میری استطاعت نہیں، خصوصاً جبکہ مختلف مصادر کی مراجعت بھی آسان نہیں رہی۔ 
’’لجنۃ إحیاء المعارف النعمانیۃ‘‘کی منتقلی کے متعلق احوال سے ناواقفیت کی بنا پر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ سہولت ہو تو حیدرآباد (دکن، ہندوستان) کی مطبوعہ ’’تاریخ البخاری‘‘کا حصہ دوم (دونوں قسمیں) بھیجنے کی مہربانی فرمادیجیے، (ان کی) قیمت کے بقدر مصر کی مطبوعہ کتابیں طلب کرسکتے ہیں۔ مصاحف کے معاملے میں ازہر کا ’’مکتبۃ مصطفٰی الحلبی‘‘سب سے معتمد ہے۔ آج جاکر استاذ نصَّار سے گفتگو کی ہے، فی الحال وہ آپ کے ذکرکردہ پتے پر قیمتیں، شرائط اور نمونے لکھ (کربھیج) رہے ہیں۔ کوثری بھی بعض لوگوں کے ردوقدح سے نہیں بچ پایا، ان میں ’’مدرسۃ الفلاح‘‘ مکہ مکرمہ کے مغربی استاذ(۲) بھی ہیں، جنہوں نے (اس نقد میں میرے ہمراہ) آپ کا حصہ بھی رکھا ہے(۳)، میں نہیں سمجھتا کہ آپ اس سے متاثر ہوں گے، جس کی مرضی جو کہے۔
اس مکتبے میں ’’إشارات المرام‘‘(۴) کی چھپائی جاری ہے، (حسن التقاضی فی سیرۃ الإمام) أبی یوسف(القاضی) کے چند نسخے بھیجے ہیں، امید ہے موصول ہوگئے ہوں گے۔ میں نے شاہ (ولی اللہ) دہلویؒ کے متعلق ان کی بعض کمزور باتوں(۵) سے مذہب (حنفی) کے مخالفین کے بکثرت استدلال کی مناسبت سے کچھ گفتگو کی ہے۔(۶) اس حوالے سے مجھے معاف رکھیے گا۔(۷)
حالیہ دنوں حیدرآباد میں چھپی کسی چیز کے بارے مجھے خبر دیں گے تو اس خاص کرم پر شکر گزار رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خیروعافیت کے ساتھ زندگی بخشے، میرے عزیز تر بھائی!
 

محمد زاہد کوثری
 ربیع الاول سنہ ۱۳۶۸ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۶۳، قاہرہ

 

حواشی 

۱:… معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کی طباعت کے مصارف کی بنا پر ’’معارف السنن‘‘ کی تکمیل کے حوالے سے حضرت بنوری رحمہ اللہ کی ہمت ٹوٹ رہی تھی، یہاں علامہ کوثری رحمہ اللہ انہیں کتاب مکمل کرنے کی حوصلہ افزائی اور طباعت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کی تلقین فرمارہے ہیں، بعد میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور غیبی امداد سے اس وقت تک لکھے گئے حصے کی طباعت کا انتظام بھی فرمادیا، جس کا قدرے تفصیلی تذکرہ ’’معارف السنن‘‘ (جلد ششم کے آخر میں) خود حضرت کے قلم سے درج ہے۔ 
۲:… شیخ محمد عربی تبّانی مالکی کی طرف اشارہ ہے، جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے، نامور عالم، فقیہ، مؤرخ اور علم انساب کے ماہر تھے، حرمِ مکی اور ’’مدرسۃ الفلاح‘‘ مکہ مکرمہ کے مدرس تھے، ۱۳۱۳ھ میں الجزائر میں آنکھ کھولی، اور ۱۳۹۰ھ میں وفات پائی۔ دیکھیے: ’’تشنیف الأسماع‘‘ محمود سعید ممدوح (ص:۳۷۱- ۳۷۵)، ’’الجواہر الحسان‘‘ زکریا بیلا (ج:۱،ص: ۲۶۳-۲۷۱) اور ’’أعلام المکیین‘‘ عبدالرحمن معلمی (ص: ۶۷۴-۶۷۵) ڈاکٹر محمد بن ابوبکر باذیب نے ان کے مفصل حالات انٹرنیٹ پر اپنے ’’مدونۃ‘‘ میں شائع کیے ہیں۔
استاذ تبّانی نے علامہ کوثری رحمہ اللہ کے رد میں ’’تنبیہ الباحث السری إلی ما فی رسائل وتعالیق الکوثری‘‘ کے نام سے ۲۰۳ صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی تھی، جو سنہ ۱۳۶۷ھ میں ’’مطبعۃ مصطفٰی البابی الحلبی‘‘مصر سے طبع ہوئی ۔ بظاہر سنہ ۱۳۶۹ھ کے حج کے موقع پر اس کتاب کے حوالے سے حضرت بنوری رحمہ اللہ کا استاذ تبّانی سے مباحثہ ہوا تھا، اس کے احوال علامہ کوثری رحمہ اللہ کو لکھے ہوں گے، اسی پر موصوف نے تعریف کی ہے۔ مزید آگے دیکھیے: مکتوب :۳۹۔
۳:… ملاحظہ کیجیے:’’تنبیہ الباحث السری‘‘ (ص:۶)۔
۴:… یہ کتاب اسی سال سنہ ۱۳۶۸ھ میں شیخ یوسف عبدالرزاق کی تحقیق کے ساتھ ۳۵۵ صفحات میں طبع ہوئی ہے، علامہ کوثریؒ کا اس پر مقدمہ ہے، اگلے مکتوب میں اس کتاب کے حوالے سے علامہ موصوف کے تعریفی کلمات بھی آرہے ہیں، طباعت میں ان کی کوشش کا دخل رہا ہے۔
۵:… حنفیت وتقلید کے مخالفین اور مدعیانِ اجتہاد نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی کتب سے بہت مدد لی ہے۔ استاذ محمد عربی تبّانی نے بھی ’’تنبیہ الباحث السری‘‘میں شاہ صاحب کی عبارات بکثرت نقل ہیں، بظاہر علامہ کوثری رحمہ اللہ کی ’’حسن التقاضی فی سیرۃ الإمام أبی یوسف القاضی‘‘ استاذ تبّانی پر رد میں لکھی گئی ہے، کیونکہ علامہ اس میں موصوف پر بکثرت نقد کرتے دکھائی دیتے ہیں، کتاب کے صفحہ:۴۸ پر ان کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ 
۶:… دیکھیے :’’حسن التقاضی‘‘ (ص:۹۵-۹۹) اور ان رسائل کا چوتھا ضمیمہ۔
۷:… علمائے پاک وہند کے ہاں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اور ان کی صاحب زادوں کو اشاعتِ علم اور مجاہدانہ کارناموں کی بنا پر بلند مقام حاصل ہے، ان دیار کی اسانیدِ حدیث اور تصوف کے سلسلوں میں بھی شاہ صاحب مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے ان جیسی غیرمعمولی شخصیت پر علامہ کوثری رحمہ اللہ کا رد خود علامہ اور شاہ صاحبؒ کے معتقدین پر شاق گزرنا فطری بات ہے، جسے بھانپ کر یہ اعتذار پیش کیا ہے۔ (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین