بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ بنام مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ (چوتھی قسط)

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری  رحمۃ اللہ علیہ  ۔۔۔۔  بنام  ۔۔۔۔

مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ

            (چوتھی قسط)

{  مکتوب :…۶  } جناب مولانا، صاحبِ فضیلت استاذ سید محمد یوسف بنوری حفظہٗ اللہ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد سلام! آپ کا خط موصول ہونے پر مسرت ہوئی، اور پہلے لاحق ہونے والے مرض سے صحت یابی اور عافیت (کی خبر ملنے) اور مختلف نوعیت کی علمی سرگرمیوں میں انہماک پر خوشی میں اضافہ ہوا۔ میں آپ کو دوبارہ تاکیداً کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالیے، اس لیے کہ علم آپ کی پے درپے قیمتی تحقیقات کا محتاج ہے، (عربی کہاوت ہے کہ) ’’بلاانقطاع سفر کرنے والا بالآخر اپنی سواری کو ہلاک کرڈالتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو علم اور دین کی خدمت کے لیے کامل وشامل صحت وعافیت کے ساتھ تادیر رکھے۔ بے حد تمنا ہے کہ آپ کے نئے مباحث سے آگاہی ہو، تاکہ باہم گفتگو کا موقع فراہم ہو، لیکن مسافت کی دوری نے اسے نری تمنا بنادیا ہے، اگر آپ کوئی ایسی علمی وتحقیقی چیز چھاپیں تو اپنے اس مخلص کو بھیجنے میں بخل سے کام نہ لیں۔ اخی فی اللہ سید احمد رضا بجنوری کے سامنے میں نے ’’تانیب الخطیب‘‘ کے معاملے کا ذکر کیاتھا، شکر گزار ہوں گا اگر آپ اس معاملہ کی فکر کرلیں، اگر حالات سازگار ہوتے تو آپ کو اس کتاب کو باشتراک چھاپنے والے کی معاونت کی تکلیف دیتا، اگرچہ کم تعداد میں ہی ہو، تاکہ ناشرکے لیے چھپائی کی تکمیل آسان ہو، کتاب لگ بھگ چار سو صفحات پر مشتمل ہے اور کاغذ بہت مہنگا ہے، اس لیے قیمت بھی گراں ہوگی، معاملہ اللہ سبحانہ کی طرف سے سہولت فراہم ہونے پر چھوڑ رکھا ہے۔ کافی عرصہ قبل ۱۳۳۳ھ میں دہلی سے چند صفحات میں ’’رد ابن أبی شیبۃ علی أبی حنیفۃ‘‘ (۱) چھپا ہے (۲) اگر بسہولت اس (رسالے) کا ایک نسخہ میسر آجائے تو از راہِ کرم ارسال کردیجئے گا، آپ کا پیشگی شکریہ۔ اللہ آپ کی جامعہ کو ہمیشہ ’’مینارۂ ہدایت‘‘ بنائے رکھے، جس سے (کرۂ ارض کے) مختلف اطراف میں صحیح علم کی نشر واشاعت ہو، اور آپ اور تمام اساتذہ کو صحتِ کاملہ وعافیتِ تامہ کے ساتھ، علمی خدمات کی خاطر لمبی زندگی عطا فرمائے۔ میری جانب سے سلامِ محبت اور نیک تمنائیں قبول کیجئے۔ سیدی عزیز بھائی! امید ہے اپنی نیک دعاؤں میں مجھے نہ بھولیں گے۔                                                                       مخلص:محمد زاہد کوثری                                                                      ۲۴؍رمضان ۱۳۶۰ھ                                                                      شارع عباسیہ نمبر ۶۳ حواشی ۱:… علامہ کوثری v نے اپنی کتاب ’’النکت الطریفۃ‘‘ کے مقدمے میں ’’رد ابن أبی شیبۃ علی أبی حنیفۃؒ‘‘ کی طباعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’کافی سال قبل ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ ایک مغربی عالم مجھ سے ملنے آئے، جو ’’ہلالی‘‘ نسبت رکھتے تھے، ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پہلے مالکی اور تیجانی (مغرب کا ایک معروف سلسلۂ تصوف) تھے، اب سلفی اور سنی ہوگئے ہیں، وہ رشک وسرور (کے عالم) میں باور کرارہے تھے کہ گویا گمراہی سے اب ہدایت کی راہ پر آئے ہیں۔‘‘  آگے موصوف کا قول نقل کیا ہے: ’’ہندوستان میں ابن ابی شیبہ v کی کتاب کی طباعت کا محرک میں ہی ہوں۔‘‘ میں (علامہ کوثری) نے کہا کہ ’’اگر آپ اپنے مخصوص مقصد کی خاطر کتاب کا ایک باب طبع کروانے کے بجائے (امام ابن ابی شیبہؒ  کی) ’’المصنف‘‘ مکمل چھپوانے کی کوشش کرتے تو قابل ذکر کام ہوتا۔ معلوم ہوا کہ میں ایسے عامی دوستوں کی مانند حدیث پر عمل کرنے والا نہیں، جو موضوع میں وارد تمام احادیث کوسامنے رکھ کر تحقیق کیے بغیر اور طبقہ در طبقہ مسلم آبادیوں میں متوارث عمل پر غور کیے بنا ہی کسی ایک حدیث کو لے لیتے ہیں، طرفہ یہ کہ مجھے بعد میں علم ہوا کہ ہندوستان میں (امام) ابن ابی شیبہ v کا رسالہ چھپوانے میں کوشاں یہ ملاقاتی حجاز وہندوستان سے اُکتاکر ایک ایسے مقام (المانیا) پر فروکش ہوگئے جہاں انہیں اسلامی مسائل میں بحث ومناقشہ کرنے والا بھی نہیں ملتا، نہیں جانتا کہ کیا وہ ’’تاجِ اسلام‘‘ اپنے سر سجانے پر قادر ہوجائیںگے؟!۔‘‘ (ص:۷-۹) یہاں علامہ کوثریv کی مراد ’’ابوشکیب محمد تقی الدین ہلالی‘‘ ہیں، جو اپنے گیارہویں جدِ امجد ہلال کی جانب نسبت کی بنا پر ’’ہلالی‘‘ کہلاتے تھے، کئی کتابوں کے مؤلف اور اسفار کے شیدائی تھے۔ ۱۳۱۱ھ میں ولادت اور ۱۴۰۷ھ میں وفات پائی، کئی بار خود اپنے حالاتِ زندگی رقم کیے اور اپنی کتاب ’’الدعوۃ إلی اللّٰہ فی أقطار مختلفۃ‘‘ میں دنیا کے مختلف حصوں میں کیے گئے اسفار کی تفصیلات درج کی ہیں۔ دیکھئے: ’’من أعلام الدعوۃ والحرکۃ الإسلامیۃ المعاصرۃ‘‘ عبد اللہ عقیل (ج:۲،ص:۸۱۱-۸۲۲)، ’’ذیل الأعلام‘‘ احمد علاونہ (ص:۱۷۰-۱۷۱) اور ’’تتمۃ الأعلام‘‘ استاذ محمد خیر رمضان یوسف (ج:۲،ص:۵۵-۵۶) ۔ ڈاکٹر سعود سرحان کا تجزیہ ہے کہ: بظاہر ’’رد ابن أبی شیبۃ علی أبی حنیفۃؒ‘‘ کی اشاعت میں اپنا کردار بیان کرتے ہوئے ہلالی صاحب نے مبالغے سے کام لیا ہے، امید ہے کہ کتاب ۱۳۳۳ھ میں(پہلی بار) طبع ہوئی ہے، جب ہلالی صاحب کی عمر بائیس برس تھی اور اس وقت وہ معاش کے سلسلے میں ’’الجزائر‘‘ میں مقیم تھے، ایسی صورت میں اس کتاب کے چھپوانے میں ان کا کردار بعید از قیاس ہے، ہندوستان کی طرف ان کا سفر ۱۳۴۲ھ میں ہوا تھا۔ ۲:… ’’مصنف ابن أبی شیبۃ‘‘ سے ماخوذ اس فصل کا ایک نسخہ حرمِ مکی کے کتب خانے میں موجود ہے۔ {  مکتوب :…۷  } جناب علامہ، صاحبِ فضیلت سید محمد یوسف بنوری حفظہٗ اللہ تحیۂ طیبہ وسلام محبت بعد سلام، طویل انتظار کے بعد آپ کا گرامی نامہ ملا، آپ کی صحت وعافیت اور علمی خبروں (کی اطلاع)سے مسرت ہوئی، اللہ سبحانہٗ سے دعاگو ہوں کہ آپ کو لوگوں کے لیے بہت سی مفید کتابوں کی اشاعت کی توفیق بخشے۔ میری معلومات کے مطابق بکر کے نام سے حضرت ابوبکر صدیق q کا کوئی بیٹا نہیں، بلکہ’’ المعارف‘‘میں ابن قتیبہؒ کی ذکرکردہ اولاد کے علاوہ ان کی اولاد میرے علم میں نہیں۔(۱) ’’مصنف ابن أبی شیبۃ‘‘کا چھپنے کے لیے تیار ہوجانا علمی دنیا کی ایک بڑی فتح ہے، رب سبحانہ آپ کو اس کی توفیق سے نوازے۔  اُمید ہے کہ آپ مولانا علامہ مفتی مہدی حسن صاحب (۲)   کو ’’إحقاق الحق‘‘(۳) کی پسندیدگی (کے اظہار) پر میرا شکریہ پہنچائیں گے، اللہ سبحانہٗ انہیں اپنی رضا والے اعمال کی توفیق دے۔ میری بڑی آرزو ہے کہ ’’سنن ابوداؤد‘‘ اور ’’جامع ترمذی‘‘ پر آپ کی قیمتی کتب سے آگاہی ہو، تاکہ آپ کے لبالب چھلکتے علم سے مستفید ہوسکوں، اس میں مجھے بہت لذت حاصل ہوگی۔ اللہ سبحانہٗ کی توفیق سے سید عزت عطار (۴)اور (جامعہ)ازہر کے قریب’’شارع تبلیطہ‘‘پر واقع’’مطبعۃ الأنوار‘‘کے مالک سید محمود سکر کے خرچ پر ’’تانیب الخطیب‘‘ کی طباعت مکمل ہوگئی، ’’مجلس علمی‘‘ کو ایک نسخہ ارسال کیا ہے، شاید آپ تک پہنچ گیا ہوگا۔ میں نے (مولانا)سید احمد رضا کے نام خط میں ذکر کیا ہے کہ اگر (کتابوں کے)تبادلے کی صورت ممکن ہو تو ناشرین کو بھی کسی قدر سہولت حاصل ہوجائے گی، اور ایسا ممکن نہ ہو تو کوئی حرج نہیں، ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ۔ امید ہے کہ مولانا حکیم الامت کامل صحت میں ہوں گے کہ ان کی دست بوسی کروں، ان کی بابرکت دعاؤں کا امید وار ہوں، اللہ آپ کو ہمیشہ صحت وعافیت کے ساتھ رکھے، اور آپ کے ذریعے مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے۔                                                                       مخلص :محمد زاہد کوثری                                                                       ۱۲؍ربیع الثانی۱۳۶۱ھ                                                                        شارع عباسیہ نمبر۶۳ (رسالۃ ابن أبی شیبۃ فی الرد علی أبی حنیفۃ‘‘۱۳۳۳ھ میں دہلی میں چھپا تھا، یہ چھوٹا سا رسالہ ہے، ارسال کرنا ممکن ہو تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔) حواشی ۱:…علامہ ابن قتیبہ v نے حضرت ابوبکر صدیق q کی اولاد کی تفصیل یوں ذکر کی ہے: ’’عبداللہ بن ابو بکرؓ اور اسمائؓ ، ان کی والدہ قتیلہ ہیں جو بنو عامر بن لؤی سے تعلق رکھتی ہیں۔ عبدالرحمنؓ اور عائشہؓ، ان کی والدہ ام رومانؓ بنت حارث بن حویرث ہیں، جو بنو فراس بن غنم بن کنانہ سے ہیں۔ محمدؓ، ان کی والدہ اسماء بنت عمیسؓ ہیں۔اور ام کلثومؓ ، ان کی والدہ بنت زید بن خارجہ انصاریہ ہیں۔‘‘  (المعارف لابن قتیبۃ، ص:۱۷۲،۱۷۳) ۲:…مفتی مہدی حسن شاہ جہان پوریv:ان کا نسب شیخ عبد القادر جیلانی v تک پہنچتا ہے، حدیث وفقہ کے عالم اور افتاء کے ماہر تھے۔۱۳۷۶ھ میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے طلب کرکے رئیس دارالافتاء کے منصب پر فائز کیا۔ رجب۱۳۰۰ھ میں پیدائش اور ۱۳۹۶ھ میں وفات ہوئی۔علامہ کوثری v ان کے متعلق لکھتے ہیں:  ’’احادیثِ احکام سے اعتناء کرنے والے مشاہیر علمائے ہند میں سے ایک علامہ، محدث ومفتی مہدی حسن شاہ جہان پوری حفظہٗ اللہ ہیں، انہوں نے دو ضخیم جلدوں میں امام محمد بن حسن شیبانیv کی ’’کتاب الآثار‘‘کی شرح لکھی ہے۔‘‘                                                                   (مقالات، ص:۷۶)  ’’کتاب الآثار‘‘کی یہ شرح ’’قلائد الأزھار‘‘ کے نام سے ہے، علامہ کوثریv نے دو جلدوں کا ذکر کیا ہے، اس لیے کہ اس وقت کتاب کی دو ہی جلدیں طبع ہوئی تھیں، مکمل کتاب چار ضخیم جلدوں میں چھپی ہے۔ حضرت بنوری v کے قلم سے مفتی مہدی حسن صاحبv کے حالاتِ زندگی کے لیے ملاحظہ کیجیے اُن کی تحقیق کے ساتھ امام محمد بن حسن شیبانی v کی’’کتاب الحجۃ علی أھل المدینۃ‘‘ پر حضرت بنوریv کا مقدمہ۔  مزید دیکھیے:’’علماء العرب فی شبہ القارۃ الہندیۃ‘‘ یونس سامرائی (ص:۸۶۹ و۸۷۰) علامہ کوثری v کی’’فقہ أھل العراق وحدیثہم‘‘ پر شیخ عبدالفتاح ابوغدہ وحضرت بنوری E کے حواشی (ص:۹۷)، حاشیہ’’العناقید الغالیۃ‘‘ مولانا عاشق الٰہی مدنی v (ص:۶۰) اور ’’الجواہر الحسان فی تراجم الفضلاء والأعیان من أساتذۃ وخلان‘‘ زکریا بن عبداللہ بیلا۔ (ج:۱،ص:۲۰۶، ۲۰۷)۔ ۳:…’’إحقاق الحق بإبطال الباطل فی مغیث الحق‘‘ علامہ محمد زاہد کوثری v کی تالیف ہے، پہلی بار۱۳۶۰ھ میں چھپی اور پھر بہت سے ایڈیشن شائع ہوئے۔ یہ علامہ ابوالمعالی جوینی v کی کتاب’’مغیث الحق فی ترجیح القول الحق‘‘ کا نقد ہے، جس میں مذہبِ حنفی پر تنقید کی گئی ہے۔ ۴:… سید عزت عطار حسینیؒ: معروف ناشر کتب، اصلاً دمشقی ہیں، مصر کی جانب ہجرت کی اور وہاں ’’مکتبۃ نشر الثقافۃ الإسلامیۃ‘‘کی داغ بیل ڈالی، علامہ کوثریv کے شاگرد تھے اور انہیں کتابوں کی نشرواشاعت کے متعلق اپنے تجربات سے آگاہ رکھتے تھے۔  علامہ کوثریv کی کتابیں ’’تانیب الخطیب‘‘اور’’صفعات البرھان‘‘انہی کی کوششوں سے چھپیں، ۱۳۷۵ھ میں وفات پائی۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’الإمام الکوثریؒ‘‘احمد خیریؒ (ص:۷۳)اور ’’الإمام محمد زاہد الکوثریؒ وإسہاماتہٗ فی علم الروایۃ والإسناد‘‘ محمد آل رشیدؒ (ص:۱۶۸)۔ {  مکتوب :…۸  } جناب استاذ جلیل، مولانا سید محمد یوسف بنوری  حفظہ اللّٰہ ورعاہ وأَنَالَہ مایتمناہ وجعل آخرہ أَولٰی من أُولاہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد سلام! آپ کا والانامہ موصول ہوا، علمی خدمات میں آپ کی جہدِ مسلسل سے مسرت ہوئی، یہ خوشی بڑھ جاتی اگر آپ کا ساتھ حاصل ہوتا اور آپ کی مفید تالیفات اور تحریرکردہ رسائل سے آگاہ ہوتا۔ اللہ سبحانہ علم صحیح اور واضح وروشن سنتِ (نبویہ)کی خدمت کے ساتھ آپ کی طویل زندگی سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے، اور بحث وتحقیق کے میدان میں ہمارے اور آپ کے دل میں صریح حق الہام فرمائے۔ اس ناتواں کے حق میں آپ کے لطیف (وبلند پایہ) کلمات میری تقصیرات سے چشم پوشی کی دلیل ہیں، یہ رضامند نگاہ کا کرشمہ ہے، میرے منہج پر آپ کی پسندیدگی باعثِ شکریہ ہے۔ اللہ سبحانہ سے دعاگو ہوں کہ راہِ راست سے ہمیں نہ ہٹائے، ہمیں سیدھے راستے پر گامزن رکھے، ہمارے ذریعے علومِ دین کے حوالے سے اہلِ اسلام کے کلمے کو مجتمع رکھے اور ہمارا خاتمہ بخیر فرمائے۔  عزیز بھائی کو میری وصیت ہے کہ علمی خدمات میں اپنی جان کو ہلکان نہ کریں، (یہ اصول مسلم و)معلوم ہے کہ مشقت میں مبتلا ہوئے بغیر مسلسل کام ہی حکمت کے مطابق ہے۔ آپ کی گراں قدر صحت کی حرص آپ کے علم کے باوجود مجھے اس نصیحت پر آمادہ کر رہی ہے۔ آنجناب اور برادرِ عزیز استاذ (احمد رضا)بجنوری کے ہمراہ’’شبرا‘‘(۱) میں آپ کی رہائش گاہ میں گزرے حسیں دنوں کی یادیں ہمیشہ تازہ رہتی ہیں، خاص طور پر انگور اور دیگر لذیذ مصری پھلوں کے دن، شاید جنگ کے بخیریت اختتام کے بعد اللہ سبحانہ ہمیں خیر وعافیت کے ساتھ دوبارہ یکجا فرمادے، اسی ذات سے امید ہے کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے اللہ ورسول(a) کی خاطر باہمی محبت رکھنے والی جماعت میں ہمیں بھی شامل فرمائے گا۔ محترم بھائیوں کو میرا سلامِ محبت پہنچائیے۔ امید ہے کہ قبولیت کے مواقع پر اپنی نیک دعاؤں میں مجھے فراموش نہ کریں گے، میرے لیے تو قاضی الحاجات کی بارگاہ میں دعاؤں کے وقت (اپنے)بھائیوں بنوری وبجنوری کو بھول جانا ناممکن ہے۔ اغلاط در آنے کے اندیشے کی بنا پر میری خواہش تھی کہ ’’تانیب الخطیب‘‘ کو اپنے سامنے چھپوا جاؤں، الحمدللہ! یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، اگرچہ کچھ غلطیاں اب بھی رہ ہی گئیں ہیں، مثلاً: (ص:۱۰) پر درست سنہ ۳۹۳ھ کی بجائے۳۸۲ھ ہے۔(۲) (ص:۸۲) کے حاشیہ میں تسامح ہوگیا ہے، درست یہ ہے کہ ’’طائی‘‘ پر مشتمل سند کو (علامہ)ابن عبدالہادیؒ نے تاریک کہا ہے، حاشیہ تحریر کرتے ہوئے میرا حافظہ دھوکہ کھا گیا، نیز منشائے ظلمت بھی یہی ’’طائی‘‘ ہے، پھر اس کی تاریکی جانبین میں سند کے دیگر رجال پر اثر انداز ہوگئی۔ ملاحظہ کیجئے:’’سنن الدارقطنی‘‘ (ج:۱،ص:۲۲۵) (۳)’’إحقاق الحق‘‘ (ص:۷۰) میں بکار بن حسن کی (تاریخ)وفات سنہ۳۳۸ھ درج ہوگئی ہے، درست سنہ ۲۳۸ھ ہے۔(۴) میرے محترم برادر عزیز!اللہ تعالیٰ خیروعافیت کے ساتھ آپ کو طویل زندگی عطا فرمائے۔                                                                   آپ کا مخلص: محمد زاہد کوثری                                                                   یکم جمادی الثانیہ ۱۳۶۱ھ                                                                  شارع عباسیہ نمبر:۶۳، قاہرہ حواشی ۱:…’’قاہرہ‘‘کا محلہ، جہاں مصر کے سفر کے دوران حضرت بنوریv اور مولانا احمد رضا بجنوری v کا قیام تھا۔ ۲:…یکے بعد دیگرے کتاب کے کئی ایڈیشنوں میں اس غلطی کی تصحیح نہیں کی گئی، امید ہے کہ اگلے طبع میں تلافی کردی جائے گی۔ ۳:…’’تانیب الخطیب‘‘ (ص:۸۲، طبع قدیم و ص:۱۶۲،طبع جدید) کے حاشیہ نمبر ایک میں علامہ کوثریv رقم طراز ہیں: ’’(امام) دارقطنیؒ نے’’سنن‘‘میں ایک حدیث کو اس ’’طائی‘‘ کے منفرد ہونے کی بنا پر معلول قرار دیا اور منکر شمار کیا ہے۔‘‘ حالانکہ اس حدیث کو امام دارقطنیؒنے نہیں، علامہ ابن عبدالہادی ؒنے معلول کہا ہے، مؤلف نے اس مکتوب کے ساتھ’’تانیب‘‘کے ذاتی نسخے میں بھی اس پر استدراک کیا ہے۔ (دیکھیے:’’تانیب‘‘کے طبع جدید میں مذکورہ صفحے کا حاشیہ نمبر :۳) ۴:…طبع اول سن ۱۳۶۰ھ ۔ {  مکتوب :…۹  } جناب استاذ، صاحبِ فضیلت سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللہ ورعاہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد سلام، مولانا حکیم الامت کی وفات کی خبر مجھ پر کڑک دار بجلی کی مانند اثرانداز ہوئی ہے، اس عظیم سانحے پر میں آپ سے اور اہل علم سے تعزیت کرتا ہوں، اللہ سبحانہ ان کی تربت پر اپنی رضا کی موسلادھار بارش فرمائے۔ میری نیابت میں مولانا ظفر احمد تھانوی(۱)سے آپ تعزیت کرلیں تو بہت شکرگزار ہوں گا۔ تمنا ہے کہ دونوں اساتذہ کو آیاتِ احکام کی تفسیر(۲)   مکمل کرنے کی توفیق ملے، یہ آرزو بھی (دل میں مچلتی)ہے کہ آپ کو خیر وعافیت کے ساتھ اور بدن کو زیادہ مشقت میں ڈالے بغیر -کیوں کہ صحت (کی نعمت) گراں مایہ ہے- ’’جامع ترمذی‘‘ کی(شرح)کی تکمیل اور بہت سی مفید تالیفات تخلیق کرنے کی کامل توفیق ملے، آپ جیسے (عالم) کو راہ میں بلاانقطاع سفر کرنے والے کے متعلق کوئی نصیحت کرنا نامناسب ہوگا۔  ’’تانیب‘‘ کی اشاعت کے بعد میری کوئی کتاب طبع نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی کتاب پر حاشیہ نویسی کے لیے (طبیعت میں)نشاط پیدا ہوا، نیز کاغذ کی بہت زیادہ گرانی(۳) کی بنا پر کوئی ناشر ( کتاب کے)چھاپنے کی ہمت نہیں کر رہا۔ اگر استاذ (مولانا احمد رضا)بجنوری اس موقع پر ان کے شریک بن کر مہربانی نہ فرماتے تو’’تانیب‘‘کی طباعت بھی ناشرین کے لیے بہت بوجھل معاملہ تھا، (ان ایام میں) میری انتہائی کاوش ’’الإسلام‘‘ اور’’ھدی الإسلام‘‘(نامی رسائل )میں اہم مباحث کے متعلق بہت سے مقالات لکھنا ہے، البتہ بعض (اہل علم) (۴)کی تردید میں حضرت عیسیٰ m پر درمیانے سائز کے۶۷؍صفحات پر مشتمل ایک رسالہ(۵)لکھنا ہی پڑا، آج ہی اس کے آخری پروف کی تصحیح کی ہے اور رسالہ ’’الإسلام‘‘کے مالک(۶)اپنے خصوصی خرچ پر اُسے شائع کر رہے ہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ آپ کی ملاقات کا کتنا شوق ہے اور کتنی لذت ملتی اگر (سننِ)ترمذی وغیرہ پر آپ کی تحریروں کا مطالعہ کرسکتا، لیکن حالات ناسازگار ہیں، ہم اللہ سے دعائیں کر رہے ہیں کہ یہ جنگ سلامتی کے ساتھ اختتام پذیر ہو، اور آپ کو اللہ سبحانہ کی رضامندی کے مطابق علم ودین کی باتوفیق خدمت کرتے ہوئے کامل صحت وعافیت کے ساتھ طویل زندگی ملے، اللہ تعالیٰ دو بچھڑے ہوؤں کو یکجا کرنے پر قادر ہے، ان شاء اللہ! بوقتِ ملاقات اساتذہ کو آپ کا سلام پہنچاؤں گا۔ آپ کا کارڈ موصول ہونے پر میں نے آپ کی خدمت میں ایک خط لکھا تھا، جو بظاہر آپ تک پہنچا نہیں۔ امید ہے کہ اپنی نیک دعاؤں میں ہمیں نہ بھولیں گے اور اپنی صحت اور علمی احوال کی خبریں فراہم کرتے خطوط سے ہمیں محروم نہ رکھیں گے، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔                                                                        مخلص: محمد زاہد کوثری                                                                         ۲۶؍شعبان۱۳۶۲ھ                                                                        شارع عباسیہ نمبر:۶۳ (تمنا تھی کہ مولانا مغفور محقق (علامہ انور شاہ)کشمیریv کی ’’التصریح‘‘(۷)کا ایک نسخہ حاصل ہوجاتا، امید ہے کہ مولانا عثمانی حفظہٗ اللہ کی’’فتح الملہم‘‘ کی طباعت کے متعلق بھی آگاہی فراہم کریں گے۔) حواشی ۱:…علامہ ظفر احمد بن لطیف عثمانی تھانویv:تفسیر وحدیث اور فقہ، اصول وتصوف کے شناور، ۱۳۱۰ھ میں اس جہانِ رنگ وبو میں آنکھ کھولی اور ۱۳۹۴ھ میں سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے، رشتے میں حضرت تھانویv کے بھانجے تھے۔  ملاحظہ کیجیے:ان کی کتاب ’’قواعد فی علوم الحدیث‘‘پر شیخ عبدالفتاح ابوغدہ vکا مقدمہ، ص:۷ تا ۱۰، ’’تشنیف الأسماع‘‘ محمود سعید ممدوح، ص:۲۵۸ تا ۲۶۱، حاشیہ’’العناقید الغالیۃ‘‘مولانا عاشق الٰہی مدنیv (ص:۲۵۰ تا۲۵۴) اور’’تذکرۃ الظفر‘‘ از مولانا عبدالشکور ترمذی v بترتیب مولانا قمر احمد عثمانیv۔ علامہ کوثریv ان کے متعلق رقم طراز ہیں:  ’’نکتہ رس محدث اور باکمال فقیہ مولانا ظفر احمد تھانوی زادت مآثرہ۔‘‘ (مقالات الکوثری ،ص:۷۵) ۲:…حضرت تھانوی v نے کتبِ حدیث میں فقہ حنفی کے دلائل جمع کرنے لیے اپنے زیرنگرانی مولانا ظفر احمد عثمانیv سے’’إعلاء السنن‘‘تالیف کروائی تھی، حضرت کی تمنا تھی کہ امام ابوبکر جصاص v کی ’’أحکام القرآن‘‘ کے طرز پر فقہ حنفی کے قرآنی دلائل بھی یونہی یکجا ہوجائیں، اس مہم کے لیے حضرت نے اپنے متعلقین میں چار جیدعلماء کو منتخب فرمایا:مولانا ظفر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع، مولانا محمد ادریس کاندھلوی اور مفتی جمیل احمد تھانوی w۔ یہاں علامہ کوثریv اسی کتاب کی تکمیل کے متمنی ہیں جو اس وقت زیر تالیف تھی۔  ۳:… کاغذ کی گرانی کا سبب اس زمانے میں جاری جنگ تھی۔ ۴:… سابق شیخ ازہر علامہ محمود شلتوت مراد ہیں، جنہوں نے مجلہ’’الثقافۃ‘‘ میں عقیدۂ نزولِ عیسیٰ mکے انکار پر کئی مقالات شائع کیے تھے، علامہ کوثریv کے علاوہ دیگر اہل علم نے بھی نزول عیسیٰ ودیگر مسائل کے حوالے سے ان کے نقطہ نگاہ کی تردید میں قلم اُٹھایا ہے، مثلاً:شیخ الاسلام مصطفی صبری v نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’موقف العقل والعلم والعالم من رب العالمین وعبادہ المرسلین‘‘ میں، علامہ سید عبداللہ بن صدیق غماری v نے’’عقیدۃ أھل الإسلام فی نزول عیسٰی علیہ السلام‘‘ میں، شیخ عبداللہ بن علی بن یابس v نے’’الإعلام بمخالفۃ شلتوت شیخ الأزھر للإسلام‘‘ میں اور شیخ عبدالرحمن دوسری v نے اپنی کتاب’’مسلم الثبوت فی الرد علی شلتوت‘‘ میں۔ ۵:…یہ رسالہ ’’نظرۃ عابرۃ فی مزاعم من ینکر نزول عیسٰی علیہ السلام فی الآخرۃ‘‘کے نام سے بارہا چھپا ہے، جمادی الثانیہ ۱۳۶۲ھ میں علامہ کوثریv اس کی تالیف سے فراغت حاصل کر چکے تھے، آگے خطوط میں اس کا مزید تذکرہ آئے گا۔ ۶:… استاذ امین عبدالرحمن کی جانب اشارہ ہے۔ ۷:…’’التصریح بما تواتر فی نزول المسیحؑ‘‘ تالیف: علامہ محمد انور شاہ کشمیریv، جو ان کے لائق شاگرد مفتی محمد شفیع vکی ترتیب دادہ ہے، بارہا چھپی ہے۔ سب سے عمدہ طبع حضرت مفتی محمد شفیعv کے مقدمے اور شیخ عبدالفتاح ابوغدہ v کی تعلیقات کے ساتھ چھپا ہے۔ شیخ ابوغدہv کتاب کے متعلق لکھتے ہیں: ’’یہ سب سے عمدہ کتاب ہے جس میں اس گمراہ (قادیانی)فرقے کے عقیدے (انکارِ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام)کی بیخ کنی اور ان کے اعتقاد کی بے نقابی کے حوالے سے احادیث وآثار جمع کردئیے گئے ہیں۔‘‘ (تراجم ستۃ من فقھاء العالم الإسلامی، ص:۲۰)  علامہ کشمیریv نے آخری زمانے میں نزولِ عیسیٰm کے متعلق چھہتر احادیث اور پچیس صریح آثار جمع کیے ہیں۔ اس دور میں احادیث وکتب حدیث کی فہارس تھیں نہ کمپیوٹر کا استعمال شروع ہوا تھا، ایسے دور میں احادیث وآثار کا جمع کرنا کوئی آسان کام نہ تھا، اسی لیے حضرت بنوریv اپنے شیخ کے متعلق لکھتے ہیں:’’انہوں نے قادیانیوں کی تردید میں اپنی کتاب ’’التصریح بماتواتر فی نزول المسیحؑ‘‘ تالیف کی تو اس کی احادیث کے جمع وتخریج کے لیے مسانید، جوامع، سنن اور معاجم کی بہت سی جلدوں کا مطالعہ کیا تھا، ساتھ ساتھ’’مسند احمد‘‘ کا از اول تا آخر مطالعہ کیا۔ یہ ایک نادر معمول ہے، آج کل اس پر جماؤ رکھنے والے علماء کم ہیں۔‘‘ (تراجم ستۃ من فقھاء العالم الإسلامی، ص:۴۸)                                                                                                      (جاری ہے) ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین