بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ بنام مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ (دوسری قسط)

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری v  ۔۔۔۔  بنام  ۔۔۔۔

مولانا سیدمحمد یوسف بنوریv

            (دوسری قسط)

{  مکتوب :…۲  } جناب استاذِ جلیل سید محمد یوسف بنوری دامت مآثرہٗ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد سلام! آپ کے والا نامے سے مسرت ہوئی، آپ کے لطیف کلمات پر شکر گزارہوں، ’’العرف الشذی‘‘ (۱) میں آپ کی مشغولیت پر مجھے بہت رشک آتا ہے، ان شاء اللہ! کتاب ہماری چاہت کے مطابق بلکہ اس سے بھی عمدہ شایع ہوگی، (امام) نسائیؒ کی کتاب ایک قیمتی اور فیض رساں درس ہے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ آپ کو امام موصوف کے علوم کا فیض پھیلانے کی توفیق بخشیں گے۔ محقق عصر مولانا عثمانیؒ  (۲)  کے لیے نیک تمنائیں۔  ’’الشامل‘‘ (۳)  کے متعلق (علامہ) ’’اتقانی‘‘ (۴)  کی بات جب میں نے دیکھی تھی تو اُسے خط کے اختلاف پر محمول کیا تھا، جیسے ابن عقیل حنبلی کی ’’الفنون‘‘کے متعلق بھی کہا جاتا ہے، بعض (علمائ) کہتے ہیں کہ وہ دوسوجلدوں میں ہے، جبکہ دیگر (اہل علم) کا کہنا ہے کہ آٹھ سو جلدوں میں ہے۔ (۵)  ابویوسف عبد السلام قزوینی معتزلی حنفی کی تفسیر (۶) کا بھی یہی حال ہے، جصاصؒ کی جو تفسیر ہمارے ہاں دستیاب ہے، اس کے علاوہ ذخائر( کتب ومخطوطات) اور کتبِ تراجم ہمیں نہیں ملی۔ مزید براں علامہ اتقانی نے یہ بات اپنے خط کے ساتھ لکھی ہے، اس لیے اس کو کاتب کی غلطی شمار کرنے کی بھی گنجائش نہیں۔ بذاتِ خود وہ سرخسیؒ کی مانند اپنے ذکر کردہ تاریخی فوائد کے حوالے سے اغلاط سے محفوظ نہیں، من جملہ ایک غلطی یہ ہے کہ صاحب ’’المنتقی‘‘ کی جو (تاریخِ) وفات انہوں نے ذکر کی ہے، اس میں لگ بھگ سوسال کی غلطی کھائی ہے،(۷)   یہ ان کی سبقتِ قلم کا نتیجہ ہے۔ (۸)   امید ہے کہ آپ محترم مولانا کاملی (۹)  کو میرا سلام اور شکریہ کا پیغام پہنچائیںگے، انہوں نے ایک ورم زدہ شخص کو صحت مند سمجھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خیر وعافیت کے ساتھ ہمیشہ آپ کے علوم کے فوائد کو جاری رکھے۔ آپ کی دعاؤں کا امید وار ہوں، اساتذہ شیخ الاسلام (۱۰)   حمامی (۱۱)   اور ابراہیم سلیم (۱۲)  آپ کو سلام کہتے ہیں اور سب بخیریت ہیں۔                                        دعاگو                                                 محمد زاہد کوثری،یکم جمادی الثانیہ ۱۳۵۸ھ پسِ نوشت خطیب (بغدادی) پر رد (۱۳)   کی تبییض تا حال نہیں کرسکا، یہ سخت گرمی کے ایام ہیں، اللہ کے حکم سے امید ہے کہ گرمی کا موسم گزرنے کے بعد اس کی تبییض کرلوں گا، پھر دیگر کتب کی مانند جب تک اس کی طباعت کے لیے کوئی تیار نہیں ہوجاتا تو یہ مسودہ بھی یونہی پڑا رہے گا، (۱۴)  اور (کتاب کے لیے) آپ کا ذکر کردہ نام بہت خوبصورت ہے، اگر اس میں طوالت اور خودستائی کا پہلو نہ ہوتا۔  سامی خانجی (۱۵)   شام کے راستے آستانہ (ترکی) کے سفر پر ہیں، ان کی غیر موجودگی میں ان کے والد v(۱۶) کا انتقال ہوگیا، وہ بتارہے تھے کہ کتابوں کے صندوق کی کیلوں کا معاملہ ’’کمرک‘‘ کے سرکاری ملازمین کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔ (۱۷) حواشی ۱:… ’’العرف الشذی‘‘، ’’جامع ترمذی‘‘ پر علامہ کشمیری v کی امالی ہے،جو حضرت کے شاگرد مولانا محمد چراغ v نے دورانِ درس ضبط کی تھی، حضرت مولانا بنوری v لکھتے ہیں: ’’یہ تعلیقات ہمارے شیخ کے ایک شاگرد نے نہایت سرعت کے ساتھ ارتجالاً ضبط کی تھیں، انہوں نے یہ تعلیقات محض ذاتی فائدے کے لیے جمع کی تھیں، اشاعت کا ارادہ نہ تھا، بعد میں اسی حالت میں شائع کردی گئیں۔‘‘ درس کے دوران جلد بازی کی بناپرشرح میں اغلاط رہ گئیں اور بعض لوگوں کو اس شرح اور مؤلفv پر تنقید کا موقع فراہم ہوگیا، دیکھئے: ’’نفحۃ العنبر‘‘ از حضرت بنوریؒ (ص:۱۳۱، ۱۳۲ اور ۱۳۵) اور مکتوب نمبر :۱۲۔ حضرت مولانا بنوری v اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ان اغلاط کی وجہ یہ بنی کہ حضرت الاستاذمولانا محمد انور شاہ کشمیری v طلبہ کے سامنے ’’صحیح بخاری‘‘ اور ’’سننِ ترمذی‘‘ کا درس دیا کرتے تھے، درس کے دوران طلبہ کو ان کے افادات اور تعلیقات کے صحیح معنوں میں ضبط کا موقع نہیں ملتا تھا، سرعت سے لکھنے اور ضبط پر زیادہ قدرت رکھنے والے طالب علم سے بھی ایک تہائی کے قریب تقریر چھوٹ ہی جایا کرتی تھی، اس بنا پر ’’مجلس علمی‘‘ کے کارپردازوں کے مطالبہ پر میںنے اس شرح کی اصلاح کی کوشش کی ، حضرت کشمیری v کے مآخذ ومصادر کی مراجعت، کتاب کی عبارت کی اصلاح، نقائص کا ازالہ اور شیخ کے افادات پر مشتمل خود نوشت یادداشتوں کی مدد سے فوت شدہ مباحث کی تلافی میں بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں، مزید براں حضرت کشمیریؒ کے اقوال کی تخریج کاا لتزام کیا ، اگرچہ مصادر بعیدہ سے ہو، حضرت کی دیگر تالیفات سے مختلف مباحث کے متعلق کلام کو یکجا کیا، مذاہبِ فقہیہ کو معتمد مآخذ سے بیان کیا اور علمی مسائل کی تحقیق میں استیعاب سے کام لیا ہے، اور یوں  ’’کتاب الحج‘‘ کے آخر تک کام مکمل ہوا۔ (دیکھئے: معارف السنن :۶/۴۳۰تا۴۴۱، باختصار) ’’العرف الشذی‘‘ اور ’’معارف السنن‘‘ کی تالیف اور ان دونوں کے باہمی ربط کے حوالے سے مفتی ولی حسن ٹونکی v کی ایک تحریر کا اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’’مولانا سے زبانی جو کچھ راقم نے سنا، اس کا حاصل یہ تھا کہ مولانا سے پہلے ’’العرف الشذی‘‘کی صرف تخریج اور تصحیح کے متعلق کہا گیا تھا، مولانا نے سب سے پہلے اس کی تصحیح کی، غلطیاں درست کیں، تعبیرات تبدیل کیں۔ ’’العرف الشذی‘‘ کا تصحیح شدہ نسخہ حضرت کے کتب خانے میں موجود ہے، اس میں آخر کتاب کی تصحیح موجود ہے، یہ خود مستقل ایک کام ہے۔ اگر اس تصحیح شدہ ’’العرف الشذی‘‘ کو چھاپ دیا جائے تو یہ بھی حدیث کی ایک خدمت ہوگی اور شائقینِ علمِ حدیث اور طلبۂ دورہ حدیث کے لیے خزینہ بے بہا، کیوں کہ اس میں آخر کتابِ ترمذی تک اجمالاً فوائد آگئے ہیں۔’’العرف الشذی‘‘ کی اصلاح کا مولانا بار بار ’’معارف السنن‘‘ میں ذکر کرتے ہیں، اس کو ہم علیحدہ عنوان سے بیان کررہے ہیں۔ اصل مسودہ ’’معارف السنن‘‘ راقم نے دیکھا اور اس کو بار بار پڑھا ہے، اس میں مولانا کا طریقہ یہ تھا کہ ’’قال‘‘ کہہ کر ’’العرف الشذی‘‘ کی عبارت لکھتے ہیں اور ’’أقول‘‘  کہہ کر اس کی تخریج کرتے ہیں یا اضافہ کرتے ہیں۔ کراچی پاکستان آنے کے بعد آپ نے اصل اور شرح کو دمج کیا اور دونوں کو مربوط کردیا۔ یہ کام مولانا کے شاگردِرشید مولانا امین اللہ صاحب بہاولپوری نے دن رات محنت کرکے کیا، پانچ جلدوں میں کہیں خال خال یہ جو بے ربطی نظر آتی ہے، یہ اسی وجہ سے ہے کہ یہ کام بعد میں ہوا(یہ بھی مولانا کا جملہ ہے، میں صرف ناقل ہوں) مولانا فرمایا کرتے تھے:’’ اگر میں ’’العرف الشذی‘‘ کے ساتھ پابند نہیں ہوتا اور صرف تخریج میرے ذمے نہ ہوتی تو اس کتاب کا رنگ اس سے مختلف ہوتا۔‘‘ چھٹی جلد جس میں پوری ’’کتاب الحج‘‘ کی شرح ہے، مولانا نے تخریج سے آزاد رہ کر کی ہے، اپنے حسب ِمنشا شرح کی ہے، اس لیے اس کا رنگ جدا ہے، چھٹی جلد کی تصنیف کا مشاہدہ مدرسہ میں سب نے کیا ہے، اس سرعت کے ساتھ لکھتے کہ عقل حیران رہ جاتی، ادھر کتاب کی کمپوزنگ ہورہی تھی، دوسری طرف مولانا مباحثِ حج میں ڈوبے ہوئے شرح لکھ رہے تھے، کبھی کبھی اس کے معرکۃُالآراء مباحث دورانِ تصنیف بھی سناتے تھے، تبییض وتسوید ساتھ ہی ساتھ تھی اور یہ بات پوری کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مولانا کا خود نوشت مسودہ موجود ہے، اس میں بہت کم قلم زد کیے ہوئے مقامات ملیں گے، البتہ اضافے مل جائیں گے۔‘‘(بینات، محدث العصر نمبر، ص: ۱۲۹ و۱۳۰، طبع جدید)    ان خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کوثری v کو اس شرح کا بہت اہتمام تھا ، مکاتبت کے دوران جابجا ’’العرف الشذی‘‘ اور ’’معارف السنن‘‘ کا ذکر ملتا ہے، اس کام کی تکمیل میں علامہ کوثریv کی حوصلہ افزائی اور توجہات کا دخل رہا ہے۔ حضرت بنوری v نے ’’معارف السنن‘‘ کی تالیف کے دوران ’’لب اللباب‘‘ کے نام سے ’’سننِ ترمذی‘‘ کی ’’فی الباب‘‘ کی احادیث کی تخریج کا کام بھی شروع کردیا تھا، لیکن کام کے پھیلائو کے سبب بعد میں یہ کام اپنے معتمد شاگرد مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید v کے سپرد کردیاتھا، ’’کشف النقاب عما یقولہ الترمذی: وفی الباب‘‘ کے نام سے اس کی پانچ جلدیں مطبوع ہیں۔ ۲:… محدث ومحقق علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی v :جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے شیخ الحدیث تھے، دس محرم ۱۳۰۵ء میں پیدائش ہوئی اور دو صفر ۱۳۶۹ء کو وفات پاگئے، علامہ کوثریؒ ان کے متعلق لکھتے ہیں: ’’الجہبذ الحجۃ، الجامع لأشتات العلوم، محقق العصر، المفسر، المحدث، الفقیہ البارع، النقاد الغواص، مولانا شبیر أحمد العثمانی، شیخ الحدیث بالجامعۃ الإسلامیۃ فی دابھیل سورت بالہند، ومدیر دار العلوم الدیوبندیۃ - أزہر الأقطار الہندیہ - وصاحب المؤلفات المشھورۃ فی علوم القرآن والحدیث والفقہ، والرد علی المخالفین۔‘‘ (مقالات الکوثری، ص:۴۸) ’’ماہرِ فن ومعتمد عالم، متفرق علوم کے جامع، محققِ زمانہ، مفسر ومحدث، باکمال فقیہ اور گہرے ناقد، مولانا شبیر احمد عثمانی، شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سورت ہندوستان، ازہر ہند دار العلوم دیوبند کے مدیرِ تعلیم اور علومِ قرآن وحدیث وفقہ اور مخالفین کی تردید کے حوالے سے کئی مشہور ومعروف کتابوں کے مصنف ہیں۔‘‘ مزید دیکھئے: علامہ کوثری v کی کتاب ’’فقہ أہل العراق وحدیثہم‘‘ پر حضرت بنوری v کی تعلیق (ص:۹۷)، مولانا عاشق الٰہی مدنی v کی کتاب ’’العناقید الغالیۃ‘‘ (حاشیہ، ص:۵۶و۵۷)اور مولانا انوار الحسن شیرکوٹیv  کی کتاب ’’حیاتِ عثمانی‘‘۔ علامہ کوثری کے مولانا شبیر احمد عثمانی کے ساتھ تعلقات ، ’’فتح الملہم بشرح صحیح مسلم‘‘ کی تعریف اور دونوں بزرگوں کی باہمی مراسلت کا مزید تذکرہ مکتوب نمبر: ۴ اور ضمیمہ نمبر:۲ میں آرہا ہے۔ ۳:… علامہ کوثری v ’’الإشفاق علی أحکام الطلاق‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’الشامل شرح أصول البزدویؒ‘‘ لگ بھگ دس جلدوں میں ہے، مصنف اس میں متقدمین کی عبارات انہی کے الفاظ میں ذکر کرتے ہیں، پھر قابلِ تنقید امور میں ایک ماہر فن کی طرح مناقشہ کرتے ہیں، کتاب کا آخری چھے جلدوں کے قریب حصہ ’’دار الکتب المصریۃ‘‘میں اور ابتدائی جلدیں استنبول کے ’’مکتبہ جار اللہ ولی الدین‘‘ میں موجود ہیں۔اصول فقہ میں تفصیل اور افادہ کے پہلو سے اس پائے کی کوئی کتاب میرے علم میں نہیں، علامہ بدر الدین زرکشی v کی ’’البحر المحیط‘‘ موخر ہونے کے باوجود ’’الشامل‘‘ کی بنسبت محض عبارات ونقول کا مجموعہ کہی جاسکتی ہے۔‘‘ مزید دیکھئے: علامہ کوثریؒ کا رسالہ ’’نظرۃ عابرۃ‘‘ (ص:۶۷) ۔استاذ احمد خیری ’’تانیب الخطیب‘‘ (ص:۲۹۹، طبع جدید)کے ذاتی نسخے کے حاشیہ پر لکھتے ہیں: ’’الشامل فی أصول الفقہ‘‘ لگ بھگ دس جلدوں میں ہے، ’’أصول البزدوی‘‘ پر اتقانی کی شرح ہے، اس کی چھے جلدیں ’’دار الکتب المصریۃ‘‘ میں موجود ہیں، اکثر حصہ خود اتقانی کے خط سے ہے۔‘‘ سعودیہ کے ’’جامعہ امام محمد بن سعود اسلامیہ‘‘ اور ’’جامعہ ازہر‘‘ میں کئی علمی مقالات کی صورت میں اس کتاب کی تحقیق کی گئی ہے، تاہم علامہ کوثریؒ کا ’’البحر المحیط‘‘ پر اسے فوقیت دینا محل نظر ہے، ’’الشامل‘‘ کا امتیازی پہلو اس کی نقول اور اصول پر فروع کی تخریج ہے۔ ۴:… ابوحنیفہ امیر کاتب بن امیر عمر اتقانی حنفی: کبار فقہائے احناف میں سے ہیں، طبعاً خود پسند اور مخالفین کے حوالے سے متعصب شمار ہوتے ہیں، ۶۸۵ھ میں ’’نہر سیحون‘‘ کے مشرق میں واقع ’’اتقان‘‘ نامی مقام میں پیدا ہوئے ،بغداد اور قاہرہ کی طرف کوچ کیا اور قاہرہ ہی میں ۷۵۸ھ میں انتقال ہوا۔ علامہ عبد الحی لکھنوی v لکھتے ہیں: ’’اتقان‘‘ ہمزہ کے کسرے کے ساتھ ہے۔‘‘ جوی زادہ کے ایک شاگرد نے ان سے نقل کیا ہے کہ:’’ میں نے امیر کاتب کے خط کے ساتھ اس کا ضبط ہمزہ پر فتحہ کے ساتھ پایاہے۔ ‘‘ دیکھئے: ’’الدرر الکامنۃ فی أعیان المائۃ الثامنۃ‘‘ ابن حجر عسقلانیؒ (۱/۴۴۲تا۴۴۵)، ’’المقفی‘‘ احمد بن علی مقریزی (۲/۲۹۸و۲۹۹)، ’’الفوائدالبہیۃ فی تراجم الحنفیۃ‘‘ مولانا عبدالحی لکھنویؒ (ص:۵۰ تا۵۲) اور علامہ زرکلیؒ کی ’’الاعلام‘‘ (۲/۱۴) ۵:… علامہ ذہبی v کا کہنا ہے: ’’دنیا کی تاریخ میں اس سے بڑی کتاب نہیں لکھی گئی‘‘ یہ کتاب فوائد علوم دینیہ، لغت، حکایات وواقعات اور نتائجِ افکار پر مشتمل ہے۔ علامہ ابن جوزی v نے ذکر کیا ہے کہ کتاب دو سو جلدوں میں ہے اور ابوحفص قزوینی v کے بعض اساتذہ کے بقول آٹھ سو جلدوں میں ہے۔ دیکھئے: ’’ذیل طبقات الحنابلۃ‘‘ ابن رجب حنبلی (۱/۳۴۴و۳۴۵)۔ ڈاکٹر جورج مقدسی نے ۱۹۷۰ء میں کتاب کی ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل دو جلدیں شائع کی تھیں، جس پر ڈاکٹر احسان عباس نے طویل نقد لکھا ہے۔ ملاحظہ کیجئے: ’’مجلۃ مجمع اللغۃ العربیۃ بدمشق‘‘(جلد: ۴۷، تیسرا حصہ، جمادیٰ الاولیٰ ۱۳۹۲ھ،جولائی ۱۹۷۲ء ،ص:۵۲۵تا۵۹۱) ۶:…اس کتاب کا نام ’’حدائق ذات بھجۃ‘‘ ہے، کئی اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ یہ تین سو جلدوں میں ہے، جن میں سات جلدیں صرف سورۂ فاتحہ کی تفسیر پر ہیں۔ سورۂ بقرہ کی آیت ’’واتبعوا ما تتلوا الشیاطین علٰی ملک سلیمان‘‘ (۱۰۲) کی تفسیر پر پوری ایک جلد ہے۔ ۷:… علامہ اتقانیؒ لکھتے ہیں: ’’المنتقی‘‘ فقہ میں امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے مذہب پر ایک کتاب کا نام ہے، جو حاکم جلیل شہید ابوفضل محمد بن احمد سلمی مروزی v کی تصنیف ہے، حاکم شہید ربیع الثانی ۲۳۴ھ کی ایک صبح کو اس حال میں شہید کیے گئے تھے کہ ان کے سامنے کتابیں رکھی تھیں۔‘‘(الشامل،  حصۂ دہم)   یہ عبارت ’’الشامل‘‘ سے فیصل دویسی کے ایم اے کے مقالہ کے طور پر تحقیق کردہ حصے میں (۲/۲۸۷) موجود ہے، یہاں علامہ اتقانی ؒسے دو پہلوؤں سے غلطی سرزد ہوئی ہے:  ۱:-مصنف کے نام میں، ان کا نام محمد بن محمد بن احمد ہے۔ ۲:-تاریخ ِوفات میں،درست یہ ہے کہ مصنف کا انتقال ۳۳۴ھ یا ۳۴۴ھ میں ہوا ہے، جیساکہ ان کے حالات میں مذکور ہے۔ دیکھئے: ’’الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیۃ‘‘ علامہ عبد القادر بن محمد قرشیؒ (۳/۳۱۳تا۳۱۵) اور ’’الفوائد البہیۃ‘‘ مولانا عبد الحی لکھنویؒ (ص:۱۸۵و۱۸۶)۔ ۸:… علامہ بنوری v ۱۳۵۷ھ میں مصر کے سفر کے دوران اور علامہ کوثریؒ سے ملاقات کے موقع پر علامہ اتقانیؒ کی ’’الشامل‘‘ سے واقف ہوئے تھے ،چنانچہ علامہ کوثریؒ بتاریخ ۲۶؍ رمضان ۱۳۵۷ھ کو مولانا ابو الوفا افغانی v کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ڈابھیل کے دو اساتذہ (حضرت بنوری اور مولانا احمد رضا بجنوری)صیمریؒ کی کتاب اور ’’أصول ا لجصاص‘‘ کو نقل کررہے ہیں، اور اتقانیؒ کی ’’الشامل شرح أصول البزدوی‘‘ کی آخری چھے جلدوں کی نقل بھی جاری ہے۔‘‘ ۹:… خط کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے ضلع ’’کیمبل پور‘‘ کے کوئی عالم مراد ہیں، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی v ودیگر علماء نے اس ضلع کا نام از خود تبدیل کرکے ’’کامل پور‘‘ رکھا تھا ، یوں اس کی طرف نسبت ’’کامل پوری‘‘ ہوئی، اس خطے کے جو علماء فاضل ہوئے ہیں، ان میں ایک مولانا عبد الرحمن بن گل احمد مظاہری قاسمی کامل پوری ہیں، جو حضرت تھانویv کے خلفاء میں سے تھے، ۱۳۴۴ھ میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری v نے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کے موقع پر اُنہیں ’’جامعہ مظاہر العلوم‘‘ کا ’’صدر مدرس‘‘ متعین کیا تھا، ۱۳۶۶ھ میں ہندوپاک کی تقسیم مولانا ’’سہارن پور‘‘ لوٹ نہ پائے، اور وفات (۲۷ شعبان ۱۳۸۵ھ) تک پاکستان ہی کے مختلف مدارس وجامعاتِ حدیث ودیگر علوم کی تدریس کرتے رہے۔ دیکھئے: ’’العناقید الغالیۃ‘‘ مولانا عاشق الٰہی مدنیؒ (حاشیہ ص:۶۳و۶۴) ڈاکٹر سعود سرحان کا کہنا ہے کہ میرے نزدیک مولانا کاملی سے مراد علامہ بنوری v کے ہم نام عالم وشاعر مولانا محمد یوسف کامل پوری v (متوفی ۱۳۸۹ھ) ہیں، جو حضرت بنوریv کے دوست اور ان جیسے فصیح وبلیغ شاعر تھے، بظاہر یہی بات قرینِ قیاس ہے۔ ۱۰:… شیخ الاسلام مصطفی صبری توقادی حنفی: علامہ اور دقیقہ رس متکلم، ۱۲۸۶ھ میں آنکھ کھولی، خلافتِ عثمانیہ کے دور میں شیخ الاسلام رہے، کمالی انقلاب کے بعد ۱۹۲۲ء میں مصر کی طرف ہجرت کرگئے، عربی وترکی میں کئی مفید کتابوں کے منصف ہیں، ۱۳۷۳ھ میں وفات پائی، چار بار شیخ الاسلام کے منصب پر فائز ہوئے،حالانکہ ان کے اس منصب پر فائز رہنے کی کل مدت نوماہ سے بھی کم ہے۔ دیکھئے: ’’الاعلام‘‘ زرکلی (۷؍۲۳۶)، ’’الشیخ مصطفی صبری وموقفہ من الفکر الوافد‘‘ مفرح قوسی اور  Karbela,Mehmet K. One of the Last ottoman seyhiilislams, Musatafa Sabri (1869-1954) his Life, warks and inlellectual contributions.   علامہ کوثریv ان کے متعلق لکھتے ہیں: ’’قرۃ عیون المجاہدین، وسیف المناظرین، العلامۃ الأوحد، مولانا شیخ الاسلام۔‘‘ (نظرۃ عابرۃ، ص:۱۲) ’’مجاہدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک، مناظرین کی تلوار، علامہ یگانہ، مولانا شیخ الاسلام۔‘‘ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:’’ ماہرِ جدلیات، گفتگو کی مختلف انواع پر کمال کی دسترس رکھنے والے، مولانا، مفتی، اللہ ان کی باسعادت عمر طویل کرے، اور توفیق ودرستگی سے ان کی یاوری کرے، حق کی حمایت میں اکابر مجاہدین اور اس راہ میں اخلاص مختلف صعوبتوں پر صبر کرنے والوں میں سے ہیں، وطن میں انقلاب کی آمدکے بعد کئی ملکوں میں نقل مکانی کرتے اور راہِ جہاد میں قسما قسم آزمائشوں اور عداوتوں کو جھیلتے رہے۔‘‘ ’’الاستبصار فی التحدث عن الجبر والاختیار‘‘، یہ علامہ کوثری کی آخری تالیفات میں سے ہے، اس لیے کہ یہ کتاب ۲۰؍ ذوالقعدہ ۱۳۷۰ھ میں طبع ہوئی ہے) یہاں ایک لطیفہ یہ ہے کہ یہ کتاب علامہ کوثریv کی طرف سے علامہ مصطفی صبری کی کتاب ’’موقف البشر تحت سلطان القدر‘‘ اور ان کی کتاب ’’موقف العقل والعلم والعالم من رب العالمین وعبادہ المرسلین‘‘ کے حصہ سوم میں ’’جبر واختیار‘‘ سے متعلق مباحث کے بعض مقامات کی تردید میں لکھی گئی ہے۔ شیخ الاسلام مصطفی صبری نے بھی علامہ کوثریؒ کے حق میں بلند وبانگ تعریفی کلمات لکھے ہیں، اور واضح کیا ہے کہ علمی مسائل کا یہ اختلاف، علامہ کوثریؒ کے علم کی قدردانی، ان کے ساتھ تعلق داری اور دوطرفہ محبت پر کسی طور اثر انداز نہیں ہوسکا، شیخ مصطفی صبریؒ نے ’’موقف العقل والعلم والعالم‘‘ کے حصہ سوم کے ضمیمے میں ’’ہامش خاص باختلاف بینی وبین صدیقی العالم الکبیر الشیخ محمد زاہد أبقاہ اللّٰہ فی مسألۃ الجبر والقدر‘‘ کے عنوان کے تحت اختلافی پہلو کی وضاحت کی ہے۔ (دیکھئے: کتابِ مذکور، ص:۳۹۰تا ۴۴۵) ۱۱:… مصطفی ابوسیف حمامی: قاہرہ کی ’’مسجد زینبی‘‘ کے خطیب، عالم وفاضل واعظ، ۱۲۹۹ھ میں ولادت ہوئی اور ۱۳۶۸ھ میں وفات پائی۔ ملاحظہ کیجئے: ’’الاعلام‘‘ زرکلی (۷/۲۳۵) اور ’’الأعلام بتصحیح کتاب الأعلام‘‘ شیخ محمد آل رشید (ص:۱۵۴) علامہ کوثری v نے بھی ان پر گراں قدر تعزیتی شذرہ لکھا ہے، جو ’’مجلۃ الإسلام‘‘ (شمارہ نمبر: ۲۷، جلد:اٹھارہ، ص:۱۹، جمعہ، ۸ رجب ۱۳۶۸ھ ، مطابق ۶؍ مئی ۱۹۴۹ئ) میں شائع ہوا۔  علامہ لکھتے ہیں: ’’ صاحبِ فضیلت، علامہ کبیر اور شہرت یافتہ واعظ، شیخ مصطفی ابوسیف حمامی، خطیب جامع زینبی، ہفتہ کی صبح، ۳ رجب ۱۳۶۸ھ کو ننانوے برس کی عمر پاکر جوارِ رحمت میں منتقل ہوگئے، انہوں نے اپنی طویل عمر علم اور دین کی خدمت میں، حکمت ونصیحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہوئے اور احیائے سنت اور بدعات کے خاتمے کی راہ میں جد وجہد کرتے ہوئے صرف کی، اپنے سیال قلم، دلوں کی گہرائی میں اتر جانے والے فیض رساں کلام وبیان اور ’’النہضۃ الإصلاحیۃ‘‘ اور ’’منتہی آمال الخطبائ‘‘ جیسی مفید تالیفات کی مدد سے (یہ کارنامے سرانجام دیئے)، ان کے علاوہ بھی ان کے بہت سے دیرپا ونقوش وآثار ہیں، جن کا غلغلہ عرصۂ دراز سے عالم اسلام میں گونج رہا ہے، موصوف سلفِ صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علم وعمل کے جامع تھے، احباب کے مصالح کی خاطر جد وجہد کرکے خوش ہوتے تھے، قریب وبعید ان کے گوناگوں احسانات میں ڈوبے رہتے تھے، جب تک بیماری سفر میں رکاوٹ نہیں بنی سفرِ حج ترک نہیں کیا، ازہر کے اساتذۂ کبار سے علوم میں مہارت حاصل کی، مصر، حجاز اور مغرب کے مسندینِ زمانہ سے انہیں حدیث و دیگر علوم میں اجازات حاصل تھیں۔ علوم میں ان کے ماوی وملجا، فقہائے عہد کے استاذ، علامہ وفقیہ، شیخ محمدبخیت v تھے۔ کئی بار دین کے دفاع میں قابل رشک موقف اختیار کیا، جس کا اجر اُنہیں آخرت میں ہی ملے گا، ’’مجلۃ الإسلام‘‘ اور دیگر اسلامی رسائل میںاہم دینی موضوعات پربہت سے مفید مقالات لکھے، جن کے ذریعے راہِ حق کو روشن اور دلائل کو واضح کیا، عظیم مرحوم کے فضل وکمال سے آشنا دلوں سے اس تکلیف دہ نقصان کے اثرات جلد زائل نہ ہوںگے، اسی روز ان کے پاکیزہ جسد کو ’’بنی سویف‘‘ میں ان کے آبائی شہر کے خاندانی قبرستان میں منتقل کیاگیا، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت ورضا سے اُنہیں ڈھانپ لے، جنت کے اعلیٰ بالا خانوں میں انہیں سکونت بخشے، ان کے نیک اعمال کا بدلہ عطا فرمائے، مسلمانوں کو اخلاص کے ساتھ حق کی دعوت دینے والا ان کا بدل عطا فرمائے، اور ان کے کمال سے واقف لوگوں اور اہل واولاد کو صبر وتسلی سے نوازے، بیشک وہ (ہم سے) قریب اور (دعاؤںکو) قبول کرنے والا ہے۔‘‘  علامہ کوثری v نے ان کی کتابوں ’’منتہی آمال الخطبائ‘‘، ’’منار المسترشدین النبلائ‘‘ اور ’’النہضۃ الإصلاحیۃ‘‘ پر مقدمے لکھے اور تعریفی کلمات رقم کیے ہیں: ملاحظہ کیجئے: ’’مقدمات الکوثری‘‘ (ص:۵۵۷تا۵۶۷) علامہ کوثریؒ کے مطبوعہ مقالات جمع کرنے والوں سے شیخ حمامی کی تعزیت میں لکھا گیا یہ مقالہ رہ گیا ہے۔ استاذِمحقق (ڈاکٹر)ایاد غوج نے اپنے مقالہ ’’الإمام الکوثری وسجالاتہ العلمیۃ فی الصحف، مع الکشف عما لم یجمع من مقالاتہ‘‘ میں اس کا استدراک کیا ہے۔ ۱۲:… ابراہیم سلیم: علامہ کوثریؒ کے دوست، اصلاً ’’جرکسی‘‘ ہیں، ’’جامعہ ازہر‘‘ میں ’’کلیۃ اللغۃ العربیۃ‘‘ کے استاذ تھے، ’’قرافۃ الإمام الشافعیؒ‘‘ میں انہی کے قبرستان میں علامہ کوثریؒ اور ان کی دو بیٹیوں کی تدفین ہوئی، ۱۳۹۲ھ میں وفات پائی اور ان کی قبر علامہ کوثریؒ کی قبر کے ساتھ ہی ہے۔ دیکھئے: ’’الامام الکوثری‘‘ احمد خیری (ص:۳۴)، ’’مجلۃ الرسالۃ‘‘ (شمارہ:۹۹۹،۲۵/۸/ ۱۹۵۲ئ، ص:۹۲۲) اور ’’الإمام محمد زاہد الکوثری واسہاماتہ، فی علم الروایۃ والإسناد‘‘ محمد آل رشید، (ص:۱۴۸) ۱۳:… یہ علامہ کوثریؒ کی مشہور کتاب ہے: ’’تانیب الخطیب علی ماساقہ، فی ترجمۃ أبی حنیفۃؒ من الأکاذیب‘‘، آگے خطوط میں اس کتاب کا مزید تذکرہ آئے گا۔ ۱۴:… کتاب پہلی بار سید عزت عطار اور استاذ محمود سکر نے شائع کی، مصارف کا نصف حصہ مولانا ابو الوفاء افغانیv نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ دیکھئے: مکتوب نمبر:۷۔ ۱۵:… سامی بن محمد امین خانجی: کتابوں کے مشہور تاجر، علامہ کوثریv نے بارہا ان کی تعریف کی ہے، علامہ بنوریv نے جب ان سے کتب فروشوں کے ساتھ معاملات کے متعلق ناصحانہ مشورہ طلب کیا تو علامہ کوثریv نے لکھا تھا: ’’میری نظر میں استاذ سامی امین خانجی سے زیادہ معتمد کوئی نہیں ہے۔ دیگر(تاجروں) کی بنسبت وہ (عیوب سے) زیادہ محفوظ اور جلد معاملہ کرنے والے ہیں۔‘‘ مزید لکھتے ہیں: ’’استاذ سامی امین خانجی باہر کے لوگوں کے ساتھ بھی معاملہ کرلیتے ہیں، وہ کتب کی خرید وفروخت کے سلسلے میں ’’آستانہ ‘‘وغیرہ کا سفر بھی کرتے رہتے ہیں، تاہم وہ ’’مکتبۃ الخانجی‘‘ کے معاملات کے نگران نہیں، بلکہ مکتبہ ان کے بھائی نجیب کے زیر انتظام ہے، اوردونوں کے معاملات جدا ہیں، ان میں شرکت نہیں ہے، بلکہ ہرایک اپنا کام کرتا ہے، میں استاذ سامی کو ان کے تجربے اور کام کی عمدگی کی بنا پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ (دیکھئے:مکتوب نمبر ۳۰) ۱۶:… محمد امین بن عبد العزیز خانجی: مخطوطات کے ایک بڑے تاجر اور عالم، ۱۲۸۲ھ میں پیدائش ہوئی اور ۱۳۵۸ھ میں وفات پائی، علامہ کوثریؒ مخطوطات کے متعلق ان کے علم، ذہانت، دیانت واما نت اور علماء کی خدمت کے حوالے سے ان کے مداح ہیں اور انہیں ’’شیخ الکتبیین‘‘ کا لقب دیا ہے، ان کے انتقال پر ایک خوبصورت تعزیتی شذرہ لکھا ، جو ’’مقالات الکوثری‘‘ میں درج ہے، عراقی ناشر قاسم رجب نے ذکر کیا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد علامہ محمد زاہد کوثریv کے علاوہ کسی اور کی تحریر یا تعزیتی شذرہ اُنہیں نہیں ملا۔ ملاحظہ کیجئے: ’’مقالات الکوثری‘‘ (ص:۵۰۵تا۵۰۸)، ’’الاعلام‘‘ زرکلی (۶/۴۴)، ’’الأخبار التاریخیۃ‘‘ زکی مجاہد (ص:۱۲۸)، ’’مذکرات قاسم محمد رجب‘‘ (ص:۱۷۸تا۱۸۰) اور ’’مدخل إلٰی تاریخ نشر التراث العربی‘‘ محمود طناحی ،(ص:۵۹تا۶۲) ۱۷:… ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سامی خانجی نے بذریعہ ڈاک، بکس میں حضرت بنوری v کے لیے کتابیں ارسال کی تھیں، ’’جمرک‘‘ میں ملازمین نے بکس کو کیلوں سے مضبوط کیا ہوگا، جو کتابوں پر اثر انداز ہوگئیں۔                                                                                          (جاری ہے)

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین