بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری  رحمۃ اللہ علیہ  ۔۔۔ بنام۔۔۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ (اٹھارہویں قسط)

مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری  رحمۃ اللہ علیہ

 ۔۔۔ بنام۔۔۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ

 

(اٹھارہویں قسط)

{  مکتوب :…۳۰  }

 

استاذِ یگانہ وجلیل القدر، صدر المدرسین، مولانا سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللّٰہ ورعاہ
وعلیکم سلام اللہ ورحمتہ وبرکاتہ 

بعد سلام! آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا، آنجناب کی ایسی توصیف سے شرمندگی ہوتی ہے جس سے میں (کوسوں) دور ہوں، میری خدمات عاجزانہ ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے سیئات سے درگزر فرماتے ہوئے ان کا بیش گنا اجر مرحمت فرمادے، اور اللہ سبحانہ سے ہی دعاگو ہوں کہ آنجناب کے معزز ہاتھوں کامل طور پر علم کی نشأۃِ ثانیہ فرمائے، اور اللہ کے لیے یہ دشوار نہیں۔ 
آپ (قاہرہ میں) کسی کتب فروش سے رابطہ استوار کرنا چاہتے ہیں تو میری نگاہ میں استاذ سامی امین خانجی (پتہ: پوسٹ بکس نمبر :۱۳۷۵، قاہرہ) سے بااعتماد کوئی نہیں، وہ (معاملات میں) دیگر کی بنسبت زیادہ صاف ستھرے ہیں اور جلدی معاملہ نمٹاتے ہیں، البتہ بازار میں مطلوبہ کتاب کی نایابی (یا کم یابی) کی بنا پر تاخیر ہوسکتی ہے۔ آپ مذکورہ پتے پر حسبِ منشا ان سے خط وکتابت کرسکتے ہیں۔ چھوٹے صندوقوں میں کتابیں بھیجنا تاخیر سے وصولی کا باعث ہے؛ اس لیے کہ ہندوستانی جہاز ہی ان کے لے جانے کے پابند ہیں، اور یہ جہاز کبھی کئی کئی ماہ لیٹ ہوجاتے ہیں۔ بذریعہ ڈاک ارسال کیے گئے پارسلوں کو بین الممالک لے جانے کے لیے سبھی جہاز پابند ہیں، اس بنا پر ان پارسلوں سے بھیجی گئی کتب سپردگی کے دن سے ایک ماہ کے لگ بھگ میں ہی پہنچ جاتی ہیں، اور دونوں کی اجرت میں معمولی فرق ہے، اب یہ معاملہ آپ کے اختیار میں ہے۔ (مذکورہ دونوں صورتوں میں سے جو چاہیں اختیار کرلیں)
کتابوں کے نرخ بھی برقرار نہیں رہتے، کتاب نادر (یا کم یاب) ہو تو اس کی قیمت غیرمعمولی گراں ہوجاتی ہے، اور کبھی دست یاب ہی نہیں ہوتی۔ جن کتابوں کی (دوبارہ) چھپائی میں لمبی مدت لگتی ہو تو ان کے بہت سے اجزاء انتہائی مہنگے داموں کے بغیر ملنا دشوار ہوتے ہیں۔ جامعہ (اسلامیہ ڈابھیل کے کتب خانے) کے لیے ضروری کتب کا آپ کو زیادہ بہتر علم ہے۔ ’’شرح عمدۃ الحکام‘‘، ابن حزمؒ کی ’’المحلی ‘‘اور موفق کی ’’المغنی‘‘ وغیرہ کتابیں تو شاید آپ کے ہاں موجود ہوں گی، (بہتر ہوگا کہ) آپ کتابوں کی ایک جامع فہرست مرتب کریں، جو مطلوبہ کتاب بازار میں دست یاب ہوگی بھیج دی جائے گی، اور عدم دست یابی کی صورت میں بتادیا جائے گا۔ استاذ سامی امین خانجی بیرون ملک معاملات کرتے ہیں، اور کتب کی خرید وفروخت کے لیے آستانہ (ترکی) وغیرہ شہروں کے اسفار بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن مکتبہ خانجی کے امور کے ذمہ دار وہ نہیں، بلکہ مکتبہ ان کے بھائی نجیب کے زیرِ انتظام ہے، اور دونوں کے معاملات جدا جدا ہیں، مابین شرکت نہیں، بلکہ ہر ایک اپنا کام کرتا ہے، تجربے اور حسنِ معاملگی کی بنا پر میں استاذ سامی کو ترجیح دیتا ہوں۔
جو بار بردار (سامان کی ترسیل کرنے والے) مختلف اطراف میں احباب کو میرے دیے ہوئے ساز وسامان کی ترسیل کرتے ہیں، ان سے معلوم ہوا کہ آنجناب اور مولانا ابوالوفاء کو جو پارسل بھیجنے تھے، کسی جبری عذر کی بنا پر تاحال نہیں بھیجے جاسکے، انہی ایام میں وہ ارسال کردیں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ! ایک ماہ کے اندر آپ دونوں کو وہ پارسل موصول ہوجائیں گے۔
یکے بعد دیگرے کئی رسائل کی اشاعت کو شاید آپ میری چستی اور طاقت وری شمار کریں گے، حقیقت یہ ہے کہ اس اندیشہ سے جلد بازی سے کام لیا ہے کہ کیا خبر سرِ شام‘ گلِ نرگس نہ رہے! 
میں ہمیشہ آپ کی دعاؤں کا متمنی رہتا ہوں، توقع ہے کہ مولانا بجنوری ودیگر فاضل احباب کو میرا سلام پہنچائیں گے، ہمیشہ نیک نصیب اور باتوفیق رہیے!
قدسی (۱)  کی مطبوعہ کتابیں میں براہِ راست انہی سے طلب کرلوں گا (پتہ: میدانِ احمد ماہر پاشا، محلہ جداوی، مکتبۃ القدسی نمبر:۱ ) اس لیے کہ ان کی مطبوعات کے نرخ برقرار نہیں رہتے، بلکہ مستقل بڑھتے رہتے ہیں، اس حوالے سے ان کا مخصوص طریقہ کار ہے۔ (۲) 
کتابوں کے متعلق میرے اتنے اظہارِ رائے پر اکتفا کیجیے، اور اس حوالے سے مزید جو چاہت ہو استاذ سامی کو لکھیے، اللہ کے حکم سے ان کی جانب سے آپ کو جواب موصول ہوجائے گا۔
(دائرۃ المعارف) حیدر آباد اور مجلسِ علمی کی مطبوعات تبادلہ میں ارسال کردینے سے دونوں ملکوں کی کرنسی کا مسئلہ آسان ہوجائے گا، اگر آپ (اپنے مکتوب میں) استاذ سامی سے مطلوبہ کتب قیمتوں کے تبادلے کے ساتھ بھیجنے کا ذکر کردیں تو سودمند ہوگا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
                                                              مخلص: محمد زاہد کوثری
                                                  ۴؍ ذیقعدہ سنہ ۱۳۶۸ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۱۰۴
پس نوشت: ہمارے ہاں ایسے بینک بھی موجود ہیں جن کی شاخیں بمبئی میں بھی ہیں، ان کے ذریعے (رقوم کی) سپردگی اور وصولی ہوسکتی ہے۔ 
حواشی
۱:-حسام الدین بن محمد شفیق بن محمد عارف قدسی: مخطوطات ومطبوعات کے تاجر، علامہ کوثریv کی رہنمائی پر بہت سی اہم کتابیں شائع کیں، موصوف ۱۳۲۱ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۴۰۰ھ میں راہیِ سفرِ آخرت ہوئے۔
مزید حالات کے لیے دیکھیے: ’’تاریخ علماء دمشق فی القرن الرابع عشر‘‘ محمد مطیع حافظ ونزار اباظہ (ج:۳،ص: ۴۱۶-۴۱۸)، ’’الأخبار التاریخیۃ‘‘ زکی مجاہد (ص: ۸۶-۸۸)، ’’مدخل إلی تاریخ نشر التراث العربي‘‘ استاذ محمود طناحی (ص: ۶۵-۶۸) اور ’’ذیل الأعلام‘‘ احمد علاونہ (ص:۶۵)۔
۲:-استاذ احمد علاونہ ابراہیم شبوح سے ناقل ہیں کہ موصوف جب اپنی کسی مطبوعہ کتاب کا ایک نسخہ فروخت کرتے تو اپنے پاس موجود مزید نسخوں کے ساتھ اس کی قیمت کا اضافہ کرلیتے، بایں طور اصل سرمایہ بلانقصان محفوظ رکھتے۔ شاید اسی بنا پر علامہ کوثریؒ نے لکھا ہے کہ ان کی کتابوں کے نرخ مستقل بڑھتے رہتے ہیں۔
{  مکتوب :…۳۱  }
بطرف مولانا علامہ سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللّٰہ ورعاہ، ووفقہ وإیانا لکل ما فیہ رضاہ (اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو اور ہمیں اپنی مرضیات کی توفیق بخشے)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد سلام! آپ کا والا نامہ موصول ہوا، جامعہ اسلامیہ (ڈابھیل) کی درسی کتب میں امام طحاویؒ کی کتاب (شرح معانی الآثار) اور ’’موطأ محمد‘‘ کی شمولیت پر مجھے بے انتہا مسرت ہوئی، اللہ تعالیٰ آنجناب کو ہر بھلائی کی توفیق دے، اور آپ اور آپ کے فضلاء احباب کے کریمانہ ہاتھوں سے ہر نوع کی نشأۃ وارتقاء کی تکمیل فرمائے۔
میرے سردار استاذِ بزرگوار! آنجناب اس عاجز کو القاب کی جو خلعتیں پہناتے ہیں، وہ آپ کی اس محبت کا کرشمہ ہے، جس نے (میرے) عیوب سے چشم پوشی تک پہنچادیا ہے، اس محبت پر آپ کا شکرگزار ہوں، لیکن امید رکھتا ہوں کہ آپ دوبارہ یہ القاب نہ دہرائیں جن کا میں قطعاً مستحق نہیں۔
احمد موسیٰ میاں اپنے سفرِ حجاز کے دوران مجھ سے ملے تھے، ہمارے درمیان کوئی ترجمان نہ تھا، تقریبی بنیاد پر ہم نے افہام وتفہیم کی، ممکن ہے کہ حج کے بعد آپ کی طرف آجائیں، انہوں نے اس برس مولانا (شبیر احمد) عثمانی کی حج کے لیے آمد کی خبر بھی دی، اور مولانا محمد موسیٰ میاں کی جانب سے دس گنیاں بطورِ ہدیہ لائے تھے۔ ’’الإمتاع بسیرۃ الإمامین : الحسن بن زیاد ومحمد بن شجاع‘‘ کی طباعت انہتر (۶۹) صفحات میں آج پوری ہوجائے گی، پہلی فرصت میں ہی آپ اور مولانا ابوالوفاء کو اس کے کچھ نسخے ارسال کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ!
عید الاضحی مبارک کی مبارک باد دینے پر آپ کا شکر گزار ہوں، اللہ تعالیٰ آپ اور تمام مسلمانوں پر بھلائی وسعادت کے ساتھ یہ دن بار بار لائے۔ فضلاء احباب کو سب کے لیے دعائے خیر کے ساتھ سلام، آپ سب کو نئے مبارک ہجری سال کی مبارک باد۔ اللہ تعالیٰ اسے آپ لوگوں کے لیے خصوصاً اور تمام مسلمانوں کے لیے عموماً بابرکت بنائے، اور علم کی خاطر آپ کو بقائے طویل عطا فرمائے۔ 
                                                             مخلص : محمد زاہد کوثری
                                            ۲۹؍ ذوالحجہ سنہ ۱۳۶۸ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۱۰۴، قاہرہ
{  مکتوب :…۳۲  }
جناب اخی فی اللہ علامہ مولانا سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللّٰہ 
وعلیکم سلام اللہ ورحمتہ وبرکاتہ 
بعد سلام! آپ کا گرامی نامہ پہنچا، اور اپنی رونق وجمال اور انتہائی بلاغت کی بنا پر ممتاز قصیدے نے مجھے مدہوش کر ڈالا، اگرچہ جن بلند معانی ومفاہیم پر وہ مشتمل ہے، میں اس کے عشرِ عشیر کا بھی اہل نہیں، اللہ تعالیٰ علم کے لیے آپ کو کامل صحت وعافیت کے ساتھ بقائے طویل عنایت فرمائے۔ آپ کے معزز خاندان کی صحت وعافیت لوٹ آنے پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں، اسی سے ان کی دائمی صحت وعافیت کا متمنی! مجھے امید ہے کہ اپنے جلیل القدر والد محترم کو جب بھی خط لکھیں گے تو میری جانب سے احترامِ عظیم اور پُر خلوص سلام پہنچائیں گے، آں محترم سے مواقعِ قبولیت میں مبارک دعاؤں کا متمنی ہوں۔
میری خواہش ہے کہ جامعہ میں علمی ترقی کے اسباب میں تاخیر کی بنا پر آپ قلبی اضطراب کا شکار نہ ہوں، کہا جاتا ہے:’’الأمور مرہونۃ بأوقاتہا‘‘(تمام امور اپنے متعین اوقات کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں) ہمارا فرض بس علمی ترقی کی کوشش کرتے رہنا ہے، توفیق اللہ سبحانہ کی جانب سے ملا کرتی ہے۔ 
میرے عزیز بھائی! مکرر توقع رکھتا ہوں کہ آنجناب امامت اور اس جیسے اوصاف کے ساتھ میرا ذکر نہ کیجیے، جن سے میں کوسوں دور ہوں؛ اس لیے کہ مجھے اس سے بے انتہا شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ 
جامعہ کی درسی کتب میں ’’معانی الآثار‘‘ اور ’’موطأ محمد‘‘ کی شمولیت توفیقِ عظیم ہے، جس کے بڑے ثمرات (ظاہر) ہوں گے۔آخر میں مواقعِ قبولیت میں آپ کی بابرکت دعاؤں کا امیدوار ہوں میرے سردار استاذِ بزرگ تر!                          (آپ کے) بھائی کی جانب سے
                                                                   محمد زاہد کوثری
                                                   محرم سنہ ۱۳۶۹ھ،شارع عباسیہ نمبر: ۱۰۴، قاہرہ
{  مکتوب :…۳۳  }
عزیز تر وبزرگ تر بھائی، مولانا، علامہ یگانہ، سید محمد یوسف بنوری حفظہ اللّٰہ وأمتع طلاب العلم بعلومہ الزاخرۃ (اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے وسیع علوم سے طلبائے علم کو مستفید فرمائے)
وعلیکم سلام اللہ ورحمتہ وبرکاتہ 
بعد سلام! آنجناب کا والا نامہ، نہایت تکریم سے آپ کے لیے دعائے خیر کرتے ہوئے وصول کیا، آپ کی جانب سے اپنی کتب کی پسندیدگی کو میں اللہ جل شانہ کی خوشنودی کی علامت سمجھتا ہوں، اللہ تعالیٰ قلم کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ میرے مطبوعہ رسائل کے نسخے مطلوب ہوں تو بتلادیجیے گا، نہایت مسرت سے ارسال کروں گا۔میرے سردار معزز بھائی! توقع رکھتا ہوں کہ اپنے والدِ جلیل کو جب بھی خط لکھیں تو میری جانب سے دست بوسی کے ساتھ ان کی بابرکت دعاؤں کی تمنا بھی لکھیے گا۔
آپ کے اخلاص میں بھلا کون شک کرے گا؟ آپ کی گوشت پوست میں تو نسل در نسل اخلاص بھرا پڑا ہے، لیکن (آپ کے) بلند پایہ تعریفی کلمات مجھے شرمسار اور قلبی تشویش میں مبتلا کردیتے ہیں، البتہ خاندانِ بنوری میں متوارث چلی آتی آنجناب کی اکسیر نگاہ مجھے بھلائی وخوشنودی کے درجات میں بتدریج آگے بڑھائے گی، ان شاء اللہ! ہمیشہ خیر وعافیت کے ساتھ باعزت وباتوفیق رہیے! 
مولانا (شبیر احمد) عثمانی کی بیماری (کی خبر) سے میں بہت غمزدہ ہوا، اللہ تعالیٰ انہیں شفاء عطا فرمائے کہ بیماری کا اثر نہ رہے، اور اللہ اپنے ارادوں پر قادر ہے۔ ہم کافی عرصے سے نہایت صبر کے ساتھ صحیح مسلم پر ان کی مفید شرح کی طباعت مکمل ہونے کے منتظر ہیں۔ اللہ سبحانہ قریبی فرصت میں ان کی صحت لوٹائے اور کتاب کی اشاعتِ عام کی توفیق بخشے۔
مولانا محمد شفیع دیوبندی کی جانب سے انہیں ’’فہارس البخاری‘‘ ارسال کرنے کی مناسبت سے ایک گرامی نامہ موصول ہوا تھا اور قریبی مدت میں ہی انہیں جواب لکھا ہے، تمام معزز بھائیوں کو میرا پُرخلوص سلام!                                              مخلص :محمد زاہد کوثری
                                                یکم ربیع الاول سنہ ۱۳۶۹ھ، شارع عباسیہ نمبر: ۱۰۴
                                                                               (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین