بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت وصل بلگرامی  رحمۃ اللہ علیہ بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ

مکاتیب حضرت وصل بلگرامی  رحمۃ اللہ علیہ   (1)

بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
خانقاہِ امدادیہ، تھانہ بھون، ضلع مظفر نگر
۱۴ ستمبر سنہ ۴۰ ء 
مولانا المکرم، ذي المجد والکرم، أکرمکم اللہ تعالٰی !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جناب کا مکرمت صحیفہ مجھے ۹ ؍ستمبر کو مل گیا، مگر اِدھر برابر علیل رہا، اس وجہ سے جواب میں تاخیر ہوئی، معافی کا طالب ہوں۔ دوسرے اِدھر دو روز جناب مولوی محمد طیب صاحب (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) کی تشریف آوری نے اور مصروف رکھا، بہرحال عذر خواہ ہوں، اور آپ سے خواستگارِ معافی! 
آپ نے جن الفاظ میں مجھے یاد فرمایا ہے، ان کے لیے جس قدر میں فخر کروں‘ کم ہے۔ یہ میری سعادت، یہ میری خوش بختی، اور میرے لیے باعثِ افتخار ہے کہ آپ کا ایسا عالم، فاضل، متقی، محقق اور صاحبِ دل بزرگ مجھے اس طرح نوازے۔ خدائے برتر وتوانا کاش اس ناکارہ اور اس گنہگار کو اپنا بنالیں اور بس! 
میں نے آپ کا گرامی نامہ بھی حضرت اقدس (مولانا اشرف علی تھانوی صاحب) مدظلہم العالی کے حضور میں پیش کردیا تھا، لفظ بلفظ پڑھا، دعائیں دیں، اور فرمایا: ’’میرے پاس بھی خط آیا ہے، بڑی محبت سے یاد کیا ہے، میں نے بھی اسی طرح کا جواب دیا ہے۔‘‘ اور پھر دعائیں زبان مبارک سے نکلیں، خدا کرے مبارک ہوں، اور مقبول ہوں۔
میں تو اُن ساعتوں اور مبارک ومسعود ساعتوں کا متمنی ہوں، جب آپ کی گرامی صحبت مجھے حاصل ہو، وہ لمحات میری زندگی میں یادگار ہوں گے، اور وہ وقت میرے لیے نہ معلوم کس قدر سازگار ہوگا، ان شاء اللہ! میرا ارادہ رمضان شریف ’’لکھنو‘‘ میں کرنے کا ہے۔ ہاں! اگر مجھے آپ کا پروگرام معلوم ہوجائے تو میں پوری کوشش کروں گا کہ جب آپ تھانہ بھون آئیں، میں بھی آسکوں، ان شاء اللہ!
میں آپ کی بزرگانہ محبت، نوازش، توبہ اور کرم گستری کو کبھی نہیں بھول سکتا، کاش! یہ ساعتیں ہمیشہ نصیب رہیں۔
اُمید ہے کہ آپ اپنی اور متعلقین کی خیریت سے ممتاز فرماتے رہیں گے، اور جب کوئی خدمت میرے لائق ہوگی، سرفراز فرمائیں گے۔
حضرت مولانا (بظاہر حکیم الامت رحمہ اللہ) نے بھی سلامِ مسنون فرمایا ہے۔ 
                                                          ممنونِ کرم، طالبِ دعا 
                                                                خادم وصل بلگرامی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھانہ بھون، ضلع مظفر نگر
سہ شنبہ ۱۱ مارچ سنہ ۴۱ ء 
مولانا المعظم، ذي المجد والکرم، أکرمکم اللہ تعالٰی! 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! 

نامۂ نامی وصحیفۂ گرامی مجھے ۲ ؍مارچ کو وصول ہوکر باعثِ اعزاز اور کاشفِ خیریت وحالات ہوا تھا، یہ وہ حالت تھی کہ میں بخار میں تھا، یہی وجہ ہوئی کہ جواب میں مجبوراً تاخیر ہوئی، جس کے لیے آپ سے عذر خواہ اور طالبِ معافی ہوں، ورنہ یہ ناسمجھی تھی کہ میں جواب میں ذرا بھی تاخیر کرتا۔ آپ اکثر یاد آتے ہیں، اور مجلس میں بھی کبھی کبھی جناب کا ذکر میری زبان سے نکل جاتا ہے، خدا آپ کو آپ کے مقاصد میں کامیاب فرمائیں، اور جس گوہرِ مراد کی آپ کو طلب ہے، وہ حاصل ہو۔
میں نے آپ کا مکرمت صحیفہ، اول سے آخر تک پڑھا، لفظ (بلفظ) پڑھا اور بغور پڑھا، مجھ پر جو اثر ہوا وہ قابلِ عرض نہیں۔ کاش، بلا تکلف، اور بغیر کسی موانع کے وہم کے یہی سب واقعات حضرت اقدس (مولانا اشرف علی تھانوی صاحب)مدظلہم العالی کے حضور میں آپ پیش فرمادیتے، اور تمام حالات سے آگاہ کرکے اپنا منشا ظاہر فرمادیتے، اور جس چیز کی طلب ہے، اس کو ظاہر کردیتے تو میرے خیال میں آپ کو بہت آسانیاں بہم ہوجاتیں، آپ کی تشویشات جاتی رہتیں، آپ کو ایک شاہراہ معلوم ہوجاتی، اور منزلِ مقصود کا وہ راستہ جس کی آپ کو تلاش ہے، سامنے آجاتا۔ میرے خیال میں خدا کی طرف سے یہ تحریک شروع ہوئی ہے، آپ کے دل میں اسی نے ڈالا، آپ کے دل میں جوش پیدا ہوچلا ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے من وعن حالات حضرت اقدس (تھانوی) مدظلہم العالی کے حضور میں پیش کردیں، اور ان میں ذرا سا بھی میرا حوالہ، یا میں نے کیا رائے دی تھی؟ یا مجھ سے کیا باتیں ہوئی ہیں، یا خط وکتابت ہوئی تھی، یہ کچھ نہ ہو، صرف اپنے اول سے آخر تک کے حالات ہوں، جس چیز کے لیے بے قراری ہے، اس کا ذکر ہو، اور حضرت اقدس سے جو کچھ آپ چاہتے ہیں، اس کا صاف صاف اظہار ہو، اور بس! 
(۱) بچپن سے گرچہ (تصوف) کا شوق تھا
(۲) والدین کی برکات 
(۳) طالب علمی کے زمانہ میں بیعت کا خیال 
(۴) علمی اشتغال کا مانع ہونا 
(۵) کتبِ تصوف کا مطالعہ 
(۶) ’’حصنِ حصین‘‘ کی ادعیہ کا معمول دس بارہ برس کی عمر سے 
(۷) ’’صحیحین‘‘ وغیرہ سے انتخاب اور ان کا معمول 
(۸) بعد کو مصمم ارادہ کسی بزرگ سے بیعت کا 
(۹) ایک کابلی بزرگ نقشبندی سے ملاقات 
(۱۰) ان سے بیعت کا ارادہ 
(۱۱) ان کا استخارہ کے لیے فرمانا 
(۱۲) استخارہ میں چار بزرگوں کی طرف خیال اور ان کا ذکر 
(۱۳) خواب میں پیغمبران علیہم السلام کا دیکھنا 
(۱۴) استخارہ میں بجز اتباعِ سنت کے اشارہ اور کچھ نہ معلوم ہونا 
(۱۵) اُن بزرگ کا کسی شغل کا بتانا 
(۱۶) کتبِ تصوف کے مطالعہ کا خاص شوق 
(۱۷) ’’رسالہ قشیریہ‘‘ (علامہ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ)، ’’إحیاء‘‘ (’’إحیاء العلوم‘‘ امام غزالی رحمہ اللہ)، حضرت شاہ ولی اللہ    ؒ  کی تصانیف ورسالے اور حضرت شاہ عبد الرحیم رحمہ اللہ کی تصانیف، حضرت حاجی (امداد اللہ مہاجر مکی) صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف، مکتوباتِ حضرت امام ربانی (مجدد الف ثانی رحمہ اللہ) اور (مکتوباتِ) خواجہ معصوم رحمہ اللہ، التکشف (حضرت تھانویؒ) کا مطالعہ اور ان کے اثرات 
(۱۸) ’’التکشف‘‘ کے مطالعہ سے آپ پر اضطراری اثر ہونا 
(۱۹) اُس وقت حضرت اقدس (تھانویؒ) کی علمی منزلت کا اضطراری معتقد ہونا اور اس موضوع پر حضرت اقدس کی نسبت خیالات 
(۲۰) پہلے عقیدت مندی کیسی تھی؟ اور اب کیسی ہے؟ 
(۲۱) مولانا شفیع الدین صاحب (نگینوی) زاد مجدہم سے ملاقات، بیعت، تعلیم تربیت اور ہر ایک کا مفصل تذکرہ 
(۲۲) پیغام کا مفصل ذکر 
(۲۳) پیغام کا خود پہنچنا 
(۲۴) جو جو شغل یا تعلیم ہوئی ہو، اس کا ذکر۔
غرض اول سے آخر تک جس قدر مجھے تحریر فرمایا ہے، ان سب باتوں کا تذکرہ فرماکر اب جو کچھ آپ چاہتے ہوں، جو آپ کا منشا ہو، بلا تکلف، بلا پس وپیش سب کچھ لکھ ڈالیے، جو پوچھنا ہو پوچھیے، اور جس چیز کی درخواست آپ کی ہو، وہ لکھیے۔ 
خدائے برتر وبزرگ نے آپ کو اعلیٰ خاندان میں پیدا کیا، والد صاحب (مولانا محمد زکریا بنوری رحمہ اللہ) کے برکات آپ کو حاصل ہوئے، اللہ تعالیٰ نے علم وفضل دیا، زیارتِ حرمین شریفین سے مُشرّف فرمایا، مصر وغیرہ کے سفر کی توفیق دی، بڑے بڑے بزرگوں سے ملایا، خواب میں نہ معلوم کس کس کی زیارت سے سرفراز فرمایا، روزی کی طرف سے مطمئن کیا، دینی خدمات کا شرف بخشا۔ اب کیا ہے؟ صرف وہ راستہ طے کرنا جس سے جلد منزلِ مقصود تک پہنچنا ہوجائے۔ یہ بات غالباً ظاہری علم وفضل اور کتابوں سے ماوراء ہے، یہ صرف شیخِ کامل اور محقق مرشد کی صحبت ہی سے ہوسکتا ہے، اُس سے تعلق رکھنے سے یہ ہوسکتا ہے، اُس کے سامنے زانوئے ادب طے کرنے سے ہوسکتا ہے، اور اپنی طلب سے ہوسکتا ہے، اور اللہ تعالیٰ سب کچھ دے سکتا ہے۔ 
میں نے یہ کبھی نہیں کہا اور نہ اب کہتا ہوں کہ آپ حضرت اقدس ہی سے تعلق رکھیے، میرا منشا یہ تھا اور ہے کہ جس کو آپ کا دل کہے، اُس سے تعلق رکھیے، اور اُس سے رجوع کیجیے، لیکن چونکہ آپ نے حضرت اقدس کا تذکرہ فرمایا، اس لیے یہ سب میں نے لکھ دیا۔
میں بخار میں ہوں، اور اس حالت میں یہ لکھ رہا ہوں، اس لیے اگر کچھ غلط اور بے ربط لکھ گیا ہوں، معاف فرمائیے۔ جب حضرت اقدس کو آپ لکھیں، مجھے بھی ساتھ اطلاع دے دیں کہ آپ نے اس مضمون کا عریضہ لکھا ہے، اور بس، اس کے علاوہ اور جو خدمت آپ میرے لائق محسوس فرمائیں، میں حاضر ہوں۔ خدا کرے آپ میری موجودگی میں آئیں، میں مارچ کے پورے مہینے میں یہیں رہوں گا۔ آپ کاکب تک قصد ہے؟ اپنی خیریت ۔۔۔۔ سے ممتاز فرمائیں۔ 
                                                                                                                                                                                 خادم وصل بلگرامی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھانہ بھون، ضلع مظفرنگر
۱۷ مارچ سنہ ۴۱ء
مولانا المعظم، ذي المجد والکرم، أکرمکم اللہ تعالٰی! 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! 

گرامی صحیفہ نے شرفِ صدور فرمایا، اور کاشفِ خیریت وحالات ہوا۔ آپ کی اس محبت، نوازش اور یاد آوری کا بےحد شکرگزار ہوں۔
 جب آپ یہاں تشریف لائے تھے اور زبانی گفتگو ہوئی تھی، اُس وقت بھی میں نے یہی عرض کیا تھا کہ جو بزرگ آپ کے انتخاب میں آئیں، جن سے آپ کی طبیعت اور آپ کے مزاج کو لگاؤ ہو، اُن سے رجوع فرمائیے، وقت کو غنیمت سمجھیے، اور کام شروع کر دیجیے، نہ اس میں تکلف کی ضرورت، نہ واسطے کی حاجت۔ پھر تحریرًا یہی عرض کیا کہ بغیر کسی امر کا خیال کیے ہوئے جتنے ضروری حالات کا ظاہر کرنا ہو، اگر آپ حضرت اقدس (تھانویؒ) پر ظاہر فرمانا چاہتے ہیں، حضرت اقدس سے رائے لینا چاہتے ہیں، اُن سے مشورہ مناسب سمجھتے ہیں، یا اگر بالذات بغیر میرے عرض کیے ہوئے آپ اصلاح یا تعلیم حضرت اقدس مدظلہم العالی سے چاہتے ہیں تو بسم اللہ کرکے اپنے ضروری حالات لکھیے، اور اپنا منشا بے کم وکاست ظاہر فرمائیے کہ آپ اب کیا چاہتے ہیں؟ اور ان حالات کے ظاہر کرنے سے غرض کیا ہے؟ پھر ان شاء اللہ! بلا کسی تکلیف وتکلف ان شاء اللہ (ھٰکذا في الأصل مکرَّراً) حضرت اقدس مدظلہم العالی جواب عطا فرمائیں گے۔ جواب گو مختصر ہوگا، مگر ان شاء اللہ بے حد جامع اور نافع ہوگا، آپ مراسلت کرکے تو دیکھیے۔ میرے ان الفاظ سے ترغیب نہ سمجھیے کہ شاید میں حضرت کی طرف آپ کو رجوع کرنے کی رغبت دے رہا ہوں، نہیں، ہرگز نہیں، اگر آپ کا دل قطعی طور رجوع (کا) ہو تو بلاتکلف کہیے، اور برابر کہتے رہیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے؟! 
میں نے آپ کا پہلے کا حال حضرت اقدس کے بھی عرض کیا، کل جب مجھے آپ کا نامۂ نامی ملا، وہ مجلسِ عام تھی، اُس کا بہت سا ضروری حصہ ضروری (ھٰکذا في الأصل) پڑھ کر سنایا، کیونکہ آپ نے یہی مجھے حکم دیا، اور میں نے یہ بھی عرض کردیا کہ اس سے پہلے ایک اور طویل خط آیا تھا، میں نے لکھ دیا ہے کہ حضرت اقدس سے براہِ راست رجوع فرمائیے، یہی مناسب ہے۔ حضرت اقدس مدظلہم العالی نے بھی یہی ارشاد فرمایا کہ: ’’ہاں! اُن کی طبیعت خود بغیر کسی کی ترغیب کے مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہے، یا اپنے حالات بیان کرکے کچھ جواب چاہتی ہے تو وہ مجھے لکھیں۔ ان شاء اللہ جو مجھ سے خدمت ہوسکے گی، عذر نہ ہوگا، نہ اس میں کسی واسطے کی ضرورت ہے، نہ خوف ہے، نہ ڈر ہے۔‘‘
 واقعی آپ اگر ضرورت سمجھتے ہیں تو براہِ راست لکھیے، ان شاء اللہ شافی اور تسکین بخش جواب ملے گا۔
 ہاں! اتنا ممکن ہے کہ مجھے بھی اطلاع دے دیا کیجیے کہ میں نے یہ لکھا اور آج لکھا، تاکہ میں بھی آپ کی بدولت کچھ فیض یاب ہوجاؤں۔ جواب ضرور عطا فرمائیے اور مراسلت شروع کر دیجیے۔ 
میری جو رائے تھی، وہ میں نے مختصراً عرض (کردی) ہے، اب جو ارشاد ہو تعمیل کی جائے۔ حضرت اقدس مدظلہم العالی کو آپ سے کافی محبت ہے، ان شاء اللہ آپ کو سکون ہوجائے گا۔ 
                                                                    نیاز کیش
                                                                 وصل بلگرامی
حاشیہ: (1) وصل بلگرامی مرحوم، بلگرام (ضلع ہردوئی، یوپی، انڈیا) کی مردم خیز سرزمین کے باسی اور اردو کے نامور شاعر اور ادیب گزرے تھے، اردو، فارسی اور کسی قدر عربی اور انگریزی سے واقف تھے۔ انہوں نے پہلے پہل ’’عالمگیر‘‘ نامی رسالہ جاری کیا اور بعد میں چند برس تک لکھنو سے ’’مرقع‘‘ نامی ایک ادبی رسالہ بھی شائع کرتے رہے۔ جوانی میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ سے متعلق ہوگئے تھے، اور زندگی کے آخری دس بارہ برس سے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے ارادت کا تعلق رہا، اس عرصے میں وہ زیادہ تر تھانہ بھون ہی میں خانقاہ امدادیہ کے ایک حجرہ میں مقیم رہے۔ ۲۸ رمضان المبارک ۱۳۶۱ء کو اسی حجرہ میں وفات پائی، حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور تھانہ بھون کے قبرستان میں ہی تدفین ہوئی۔ (ملاحظہ فرمائیے: یادِ رفتگاں، سید سلیمان ندوی، ص: ۲۳۹- ۲۴۰، مجلسِ نشریاتِ اسلام، کراچی)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین