بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السید الأمجدمولانا محمد یوسف صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
گرامی نامہ موصول ہوا، کوائف سے کما ینبغي مطلع ہوا، یاد آوری کا مشکور ہوں۔ قیمتی مشورہ قابلِ قدر ہے، مفصل تحریر کرتا ہوں۔
میرا سفر فی الحال ملتوی ہوگیا ہے، ان شاء اللہ آخر شہرِ شعبان المبارک میں ارادہ ہے۔ حیدر آباد میں میرے ذاتی اغراض بھی وابستہ ہیں، پیر صاحب کے ذریعہ سے حیدر آباد کے اکابر سے تعارف کا فائدہ ہے، تعلیم کو میں ہرگز نہیں ترک کرسکتا ہوں، وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِيْ فِي الصَّلَاۃِ وَفِيْ تَدْرِیْسِ الْعُلُوْمِ۔ اگر قسمت نے وفا کی تو شہرِ شعبان کے اواخر میں ہندوستان میں دیوبند یا لاہور وغیرہ مقامات پر ملاقات کی کوشش کروں گا، وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ۔ میرے لیے خاص طور پر دعا فرمادیں، میں علم وعمل دونوں سے یتیم ہوں۔ آپ نے تقریرِ بخاری حضرت الشیخ المرحوم (مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ) کے مرتّب کرنے کا حکم فرمایا ہے، فَطَوْعًا لَہٗ، وابْتِہَاجًا بِہٖ، مگر اس میں کوئی فائدہ علمی بھی ہے؟ جن حضرات کی تقاریر سے مرتّب کرنا ہوگا، کیا ان کے جمیع مضامین صحیح ہیں؟ نہیں! بلکہ میں عرض کرتا ہوں کہ اکثر تقاریر اغلاط سے مشحون ہیں، اس تقریر کے لیے مراجعتِ کتب ضروری ہوگی، جب تک وہ مضمون کتبِ معتبرہ سے صحیح نہ کرلیا جائے گا حضرات علماء کے سامنے پیش کرنا مشکل ہے۔ میں ہر طرح سے اس کام کے لیے مستعد ہوں، مگر اس کام کے لیے کتب خانہ ضروری ہے، جس کے لیے یا حیدر آباد دکن یا مقام پیر جھنڈا اِقامت کرنی پڑے گی، مگر پیر جھنڈا کی اقامت دوسرے سال سے میرے نصیب میں نہیں ہے، خدا کرے کہ حیدر آباد کی سرزمین مجھے قبول کرکے متمکّن کردے،رَبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبَارَکًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ ۔
ثانیاً عرض ہے کہ میں نے پیر جھنڈا کی اقامت کتب خانہ کے لیے اختیار کی تھی، اس کتب خانہ کے نوادرِ کتب عجائبات میں سے ہیں، حق تعالیٰ نے اس کے مالک کو تدوینِ علوم اور جمعِ کتب پر فریفتہ کردیا ہے، صبح وشام ان کی مساعی نقلِ کتب اور اشاعتِ علومِ حدیث کے متعلق تجویز میں رہتی ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ ہم چار افراد ایک ہزار روپیہ جمع کرتے ہیں۔ میں نے پیر صاحب سے عرض کی ہے کہ آپ ہم کو کوئی نادر کتاب اپنے کتب خانہ سے طباعت کے لیے دے سکتے ہیں؟ پیر صاحب نے فرمایا کہ جو چاہو وہی دے سکتا ہوں۔ اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ کتب خانہ میں یہ چند کتابیں قابلِ قدر ہیں، اگر طباعت کا خیال ہے تو ان کتابوں کو طباعت سے مزیّن کراؤ اور فائدہ اُٹھاؤ۔
مولوی سید میرک شاہ نے جو رجالِ طحاوی‘ دیوبند سے طبع کرائی ہے، وہ حضرت پیر صاحب کے والد ماجد کی تصنیف ہے، اور وہی اس کتب خانہ کے جامعِ اول ہیں، ان کے علم کی داستان میں قابلِ عجب ہے۔ کتب خانہ میں کوئی کتاب ایسی نہیں جو اُن کے مطالعہ اور تصحیح وتنقید سے خالی ہو۔
فمضی الکرام فلا تری آثارہم
وکأنہم کانوا علٰی ميعاد
کتب خانہ میں ’’شرح الترمذي لابن سید الناس‘‘ کی دو جلدیں موجود ہیں، جو کتاب الصلاۃ تک پہنچی ہے۔ یہ کتاب فتح الباري کی شان کی ہے۔ کتاب الضعفاء للعقیلي، نہایت نادر کتاب دو مجلد میں ہے، دمشق سے نقل ہوکر آئی ہے۔ رسائل شرنبلالي، مختلف مسائل پر چالیس رسائل لکھے ہیں، قابلِ قدر چیز ہے۔ یہ کتاب مصنف کے قلم سے ہے۔
’’المواھب اللطیفۃ علی مسند أبي حنیفۃ‘‘ جس کو میں آدھی تقریباً نقل کرچکا ہوں، یہ کتاب علامہ شیخ محمد عابد سندھیؒ کے قلم سے ہے، کل کتاب غالباً ۱۲۰۰ صفحات، دقیق خط سے نہایت لطیف کتاب، مسائل پر کلام کرتا ہے، تخریجِ متابعات وشواہد اور تاویلِ حدیث میں فتح الباري سے بھی اعلیٰ ہے۔ اگر اس کا مصنف‘ بخاری پر قلم اُٹھاتا تو فتح الباري کے سُوقِ رواج کو کاسِد کردیتا۔ اس کے مصنف کے قصصِ عجائب عند التلاقي بیان کروں گا، سندھ کا یہ بڑا محدّث ہے، نہیں! بلکہ ہند میں اس کی نظیر نہیں گزری۔ میں اس کتاب کی نقل میں مستغرق ہوں، کتاب بہت بڑی ہے، مشکل سے دس صفحات خالی اوقات میں نقل کرتا ہوں، میرے جیسے عالی ہمت کا کام ہے، ورنہ ہر شخص سے یہ نہیں ہوسکتا۔ دعا فرمادیں کہ شعبان تک ہر دو جلد تمام ہوجائیں۔ میرا ارادہ ہے کہ اس کتاب کے مضامینِ عام کو کسی دوسری کتاب کی شرح کے ضمن میں ڈال دوں؛ کیونکہ مسند أبي حنیفۃ غیر مشہور کتاب ہے۔
سُنو! عنقریب مدینہ منورہ سے کتاب الزھد للإمام أحمد بن حنبل نقل ہوکر آنے والی ہے، کتاب نہایت ہی نادر ہے، یہاں تک کہ دائرۃ المعارف والوں نے جو فہرست مرتّب کی ہے، اس کے آخر میں لکھا ہے کہ بعض کتابوں کا نام سنا ہے، مگر مُسمّی موجود نہیں، ومنہا: کتاب الزہد لأحمد بن حنبل، والجامع لسفيان الثوري، والمسند لبقي بن مخلد، وغير ذٰلک۔
کتاب الزھدتو عنقریب آنے والی ہے، میرا ذاتی خیال ہے کہ میں کتاب الزھد وکتاب الضعفاء للعقیلي کو نقل کرکے حضور نظامِ دکن خلّد اللہُ مُلکَہٗ کو ہدیہ پیش کروں۔
کتاب المواھب اللطیفۃ کی دو جلدیں عنقریب ختم ہونے والی ہیں، اگر چاہو تو طبع کراؤ، یہ کتاب صحیح علمِ حدیث پر مشتمل ہے، اور اس کی طباعت غنیمت۔ ایک دفعہ مولانا نور الحق صاحب (مدرّسِ مدرسہ ہذا) نے پیر صاحب سے التماس کی کہ یہ کتاب اگر مرحمت فرمادیں تو ہم طباعت کرادیں، مگر پیر صاحب نے انکار فرمایا۔ پیر صاحب کی ذاتِ گرامی کو اس ہیچمداں سے غایت درجہ تعلق واُنس ہوگیا ہے۔ مجھ سے فرمایا ہے کہ آپ کو جو کتاب چاہو، مستعار دے سکتے ہیں۔ اگر آپ صاحبان کی مرضی ہو تو سلسلہ جنبانی کریں۔ ۔۔۔ حافظ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیّم، ابن عبد البر صاحب التمہيد، البیہقی، الدارقطنی، صاحب المحلّی ابن حزم، الخطیب البغدادی، الحاکم النیسابوری، ابو نعیم صاحب الحلیۃ وصاحب تاریخ اصبہان وغیرہ کی کتابوں کو دیکھو، نہایت سلیس ودلچسپ عربی میں ہیں۔۔۔۔ بھائی! متاخرین کی کتابوں سے علمِ حدیث نہیں آسکتا، متقدمین کی کتابیں دیکھو، بلکہ حافظ ابن حجرؒ کی کتابوں کی زیادہ ضرورت نہیں، کتابیں یہ ہیں: التمييز للإمام مسلم، الکامل لابن عدي، الصحيح لابن حبان، الصحيح لابن خزيمۃ، المستدرک لابن مندۃ، الکتب لعلي بن المديني، کتاب العلل للدارقطني، اختلاف الفقہاء لابن المنذر، غريب المصنف للقاسم بن عبيد، الکتب الثلاثۃ للطبراني، السنن الکبری، المحلّی، المغني لابن قدامۃ۔
آپ کی بیماری کے لیے نسخہ عرض کرتا ہوں، شیرینی کا استعمال کم کریں، غالباً اس فصل میں آپ نے ثمرِ آم کثرت سے استعمال کیا ہے:
ہو الشافي: گل منڈی ۲ تولہ، تمر ہندی ۵ تولہ، برادہ صندل سفید ۲ تولہ، افتیمون ۲ تولہ، چوب چینی نیم کوب ۲ تولہ، برگِ گاؤ زبان ۲ تولہ، عشبہ ۲ تولہ، شب درآب خیساندہ ۵ ثار، صبح قدرے جوشایندہ، صاف نمودہ، بازور آب مذکور مصفی، شکر سفید ۱ ؍ثار، آمیختہ قوام نمودہ شربت تیار سازند، اگر شربت تیار نہ کرسکو تو مذکورہ بالا دواؤں کو شب میں قدرے آب میں خیساندہ، صبح آب کو صاف کرکے قدرے شکر ملا کر پی لیں۔ مگر اس صورت میں دوا کا وزن ۶ ماشہ ہونا چاہیے فی خوراک، ایک ماہ تک استعمال کریں۔ زیادہ پرہیز نہیں، گوشت گاؤ کا نہ استعمال کرنا ہے اور غلیظ چیزیں بھی نہ کھانا۔
حافظ عبد الحنان صاحب کو سلام عرض کردینا، اور ان کی حالت سے مطلع فرمانا، سنا ہے کہ نہایت عافیت میں ہیں، الحمدللہ! کلام طویل ہوگیا ہے:
و قد نسیتُ الخبایا في الزوایا
فما تری فيما ذکرتُ ما تری!
احبّۂ کرام کو السلام علیکم !
وأنا الأحقرمحمد یوسف عفا اللہ عنہ
از پیر جھنڈا، ملک سندھ
شبِ جمعہ ۲۹؍ جمادی الاولیٰ سنہ ۱۳۵۴ھ
.........................................
جناب محترم مولانا محمد یوسف صاحب دامت ألطافُہٗ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بندہ بحمد اللہ عافیت سے ہے، البتہ آج کچھ بخار خفیف سا ہوگیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جب سے وارد ہوا ہوں اوقاتِ درس کے علاوہ نقلِ کتب میں مصروف ہوں، چنانچہ التمہيد کی ایک جلد اور المواہب اللطيفۃ لمحمد عابد السندي رحمہ اللہ کی چار جلدوں میں سے ایک جلد نقل کی ہے، مواہبِ لطیفہ کی شان فتح الباري سے بھی اعلیٰ ہے، مگر افسوس کہ میں اب بامرِ پیر صاحب ان کے کام کے لیے دکن جا رہا ہوں، ان کے لیے یہ کتابیں نقل کرنی ہیں: مکارم الأخلاق للطبراني، ترہيب ترہيب لابن شاہين، کتاب في شرح الحديث لابن الملقّن، مسائل الإمام أحمد لأبي داود، التفسير لابن أبي حاتم، الأمالي للحافظ ابن حجر، کتاب للخطیب البغدادي في الحديث، کتاب الروضۃ للنووي۔
اور اس کے علاوہ بھی ان کتابوں میں سے جو عمدہ ہوئی، اپنے لیے نقل کروں گا۔ ان کا کام تین ماہ تک کروں گا اس مشاہرہ پر، اور ۸ روپیہ خوراک کے علاوہ۔ اس کے بعد میں وہیں ان شاء اللہ دائرۃ المعارف میں رہ کر کتاب الجمہرۃ لابن دُريد کی تہذیب کروں گا۔ اس کے علاوہ اور بھی بڑے بڑے ارادے ہیں، جن کو آپ سمجھ سکتے ہیں۔
ڈابھیل کی مجلسِ علمی سے کچھ رسائل طلب کرنے ہیں، مگر ابھی توقف کر رہا ہوں کہ رقم کا پورا فیصلہ مدرسہ سے کرلوں، میرا خرچہ کرایہ پیر صاحب کے ذمہ ہے، آپ یہ جلد تر خبر دیں کہ جو گاڑی دہلی سے دکن کو جاتی ہے، اس کا حساب کیا ہے؟ یہاں سے بمبئی کو گاڑی جاتی ہے، مگر اس کا کرایہ بمبئی تک ۱۸ روپیہ علاوہ دکن کے ہے، اور ڈابھیل کے راستہ سے بھی طول ہے، البتہ دہلی سے براستہ بھوپال کوئی گاڑی جاتی ہے، اس کے کرایہ کی اطلاع دیں۔ اگر آپ نے اس خط کے جواب میں جلدی کی تو مجھے پہنچ سکتا ہے، پھر میں ان شاء اللہ دکن سے آپ کو خط لکھوں گا۔
مولانا عبد القدیر صاحب ومولانا عبد العزیز صاحب کو السلام علیکم! حافظ عبد الحنان صاحب کی خدمت میں عند اللقاء السلام علیکم عرض کردینا۔ افسوس کہ آپ اتنے مستغنی اور مستقل ہیں کہ کبھی خط سے بھی اطلاع نہیں دی۔ احباب اور آپ سے دعا کا طالب ہوں۔
والسلام
الاحقرمحمد یوسف عفا اللہ عنہ
از پیر جھنڈا، ضلع حیدر آباد، سندھ