بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ 

مکاتیب حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

 

مکتوب حضرت مولانا محمد منظور نعمانی  رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کچہری روڈ (لکھنو، انڈیا) 
۱۴؍ شوال المکرم ۱۳۷۹ھ 
معظّّمی محترمی حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری دامت فیوضکم وعمّت!
سلامِ مسنون!

خدا کرے مزاجِ گرامی ہر طرح بعافیت ہو۔ آپ کا دل میں جو مقام ہے اور آپ سے جیسی علمی عقیدت ہے، اگر میں خط وکتابت میں سخت مقصّر نہ ہوتا تو سال میں دو چار عریضے ضرور ہی لکھا کرتا، لیکن اس باب میں اتنا مقصّر اور کوتاہ کار ہوں کہ جن سے غلامی کا تعلق ہے، اور جن کے بارے میں یقین ہے اور جن کے بارے میں یقین ہے کہ ان کو جلدی جلدی خطوط نہ لکھنے میں اپنا ہی خسارہ اور اپنا ہی بڑا نقصان ہے، وہاں بھی مہینے خالی گزر جاتے ہیں۔ اس وقت اس عریضے کا داعیہ مولانا موسیٰ میاں صاحب کے تحفے ’’الإتحاف‘‘ (1) کو دیکھ کر پیدا ہوا، انہوں نے مجھے بھی ایک نسخہ عنایت فرمایا ہے۔ اگر شروع میں تقریب، اور آپ کے قلم سے نہ ہوتی، اور مجھے یہ معلوم نہ ہوا ہوتا کہ آپ نے ان حوالوں کی تخریج اور ان عبارتوں کے استخراج کا کام حضرت استاذ (مولانا محمد انور شاہ کشمیری) رحمۃ اللہ علیہ کے امر سے کیا بھی تھا، تب بھی میں آپ ہی کو لکھتا کہ خدا کے لیے یہ کام کرکے اس مقفّل خزانہ کو اہلِ علم کے لیے قابلِ استفادہ بنادیجیے۔ (2)
مولانا موسیٰ میاں کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے، انہوں نے اپنا کام کردیا، اور کام آپ کا اور صرف آپ کا باقی ہے، آپ کے سوا کوئی نہیں ہے جو اس خدمت کو انجام دے سکے۔ مطالعہ کرکے میں نے دونوں باتیں محسوس کرلیں: ایک یہ کہ حضرت استاذ رحمۃ اللہ علیہ کے علم ومطالعہ کا بڑا قیمتی حصہ اس خزانہ میں محفوظ ہے۔ اور دوسری یہ کہ موجودہ شکل میں اس سے استفادہ مجھ جیسے بھی بہت ہی کم کرسکیں گے۔ ۴،۵ سال ہوئے جب دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شیخ الحدیث حضرت شاہ حلیم عطا صاحب ؒ کا انتقال ہوگیا تھا تو حدیث کا ایک سبق میں لے لیا کرتا تھا، لیکن جب کوئی آدمی کئی سال کی تلاش کے بعد بھی نہ مل سکا تو گزشتہ سال سے دو سبق پڑھانے کی ذمہ داری لے لی ہے۔ اگر آپ قریب ہوتے یا مراسلت میں سست نہ ہوتا تو آپ سے استفادہ کا سلسلہ جاری رکھتا۔ حضرت استاذ رحمۃ اللہ علیہ کے علم کا خاص امین‘ میں آپ کو اور مولانا بدر عالم صاحب کو سمجھتا ہوں، اس لیے دونوں ہی حضرات سے الحمدللہ خاص دلی محبت وتعلق ہے، اللہ تعالیٰ ان کو صحت وقوت عطا فرمائے، ان کی علالت اور ضعف کی خبروں سے بڑی فکر وتشویش ہے۔ دعا کرتا ہوں اور دعا کا سخت محتاج ہوں۔               والسلام: محمد منظور نعمانی عفی اللہ عنہ 

مولانا طاسین صاحب اگر حسبِ سابق قریب ہی رہتے ہوں اور یاد رہے تو ان کو سلامِ مسنون! 

............................

۱۷؍ رمضان المبارک ۱۳۸۷ھ ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۶۷ء
صدیقِ محترم دامت فیوضکم وعمّت! 
سلامِ مسنون!

خدا کرے مزاجِ گرامی بعافیت ہو۔ چار پانچ دن ہی پہلے ایک عریضہ روانہ خدمت کرچکا ہوں، اس میں ’’معارف السنن‘‘ جزء ثالث کے دو نسخے پہنچ جانے کی اطلاع دی تھی اور دریافت کیا تھا کہ دوسرے نسخہ کا کیا (کیا) جائے؟ یہ بھی عرض کیا تھا کہ جزء ثانی مجھے نہیں ملا ہے، اُمید ہے کہ میرا یہ عریضہ موصول ہوچکا ہوگا۔ کل ایک صاحب محمد زکی ({ FR 11903 })نامی تشریف لائے، یہ کانپور کے اس خاندان کے فرد ہیں، جن کا مطبع مجیدی تھا اور ہے، جو ہماری قدیم درسیات چھاپنے میں خاصی شہرت رکھتا تھا، یہ صاحب اب کراچی (میں) رہتے ہیں، وہاں (پاکستان) چوک میں ان کا پریس ہے، جس کا نام ’’ایجوکیشنل پریس‘‘ ہے، کتابوں کا بھی کام کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ آپ سے بھی ان کو خاص نیاز حاصل ہے۔ وہ اپنے والد ماجد کی علالت کی وجہ سے کانپور آئے ہوئے ہیں، کل وہ میرے پاس لکھنو آئے، اور انہوں نے ذکر کیا کہ اب سے کئی مہینے پہلے انہوں نے کراچی سے مجھے خط لکھا تھا، اور میری کتابیں ’’معارف الحدیث‘‘ وغیرہ چھاپنے کی اجازت چاہی تھی، اور شرائطِ معاملہ دریافت کیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے ان کو جواب میں لکھا تھا کہ میں اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد یوسف صاحب (بنوری) کو لکھ چکا ہوں، اس لیے کسی دوسرے ادارے سے کوئی معاملہ کرنے سے معذور ہوں۔ یہ سب انہوں نے بتایا، مجھے یاد نہیں، لیکن بات صحیح ہوگی۔ کل بھی وہ اس سلسلہ میں تشریف لائے تھے، اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آفسٹ اور ونڈائک سے چھاپنے کے لیے میرے پاس آرٹ پیپر اور بٹر پیپر پر ’’معارف الحدیث‘‘ (کے) جو فارم چھپے ہوئے ہیں، وہ میں ان کو دے دوں، اور وہ کراچی جاکر آپ سے بات کرلیں گے۔ پھر اگر جناب مکتبہ اسلامیہ کی طرف سے ان کتابوں کو چھاپنے کا فیصلہ فرمائیں گے تو وہ یہ فارم آپ کے حوالہ کر دیں گے، اور اگر آپ انہی کو یعنی محمد زکی صاحب مالکِ ایجوکیشنل پریس کو سپرد کرنا پسند فرمائیں گے تو وہ چھاپیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں مولانا کو کراچی خط لکھوں گا، اور ان کا جواب آنے پر آپ کو بتا سکوں گا۔ اس وقت یہ عریضہ اس غرض سے لکھ رہا ہوں۔ 
کراچی اور لاہور کے مختلف ناشرین نے مختلف اوقات میں مجھ سے میری ان کتابوں کی اجازت چاہی اور معاملہ کرنا چاہا، لیکن میں نے ہمیشہ معذرت کردی۔ میرے پیشِ نظر یہ تھا کہ کوئی بامقصد ادارہ ان کتابوں کو اپنی کتابیں قرار دے کر چھاپے، اس کے لیے میں منتظر تھا کہ ادھر کا کوئی سفر ہو تو اس کا کوئی فیصلہ کروں، لیکن اس راستہ میں ان مشکلات کے علاوہ جو سب کے لیے ہوتی ہیں، میرے لیے کچھ مزید مشکلات ہیں۔ غالباً جولائی، اگست میں ’’بینات‘‘ کے کسی شمارے سے معلوم ہوا تھا کہ ایک دار الاشاعت آپ قائم فرما رہے ہیں تو میں نے اپنی کتابوں کے بارے میں جناب کو لکھا تھا اور جناب نے اس کا جواب بھی دیا تھا، اور اس تجویز پر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا تھا۔ پھر اس سلسلہ میں نہ میں کچھ لکھ سکا، نہ آپ نے کچھ تحریر فرمایا، کل محمد زکی صاحب کی ملاقات کے بعد پھر یہ مسئلہ میرے سامنے آیا۔ 
اصل کتابیں جن کا مسئلہ میرے سامنے ہے، صرف چار ہیں:’’اسلام کیا ہے؟‘‘، ’’دین وشریعت‘‘، ’’قرآن آپ سے کیا کہتا ہے؟‘‘، ’’معارف الحدیث‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو مقبولیت بھی نصیب فرمائی ہے۔ پہلی دونوں ہندوستان کی مختلف زبانوں کے علاوہ انگریزی میں اور اب فرانسیسی میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ تیسری کا انگریزی ترجمہ ہو رہا ہے۔ کوئی قابلِ اعتماد ترجمہ کرنے والا مل جائے تو ’’معارف الحدیث‘‘ کا بھی شروع ہوجائے۔ میں نے غالباً یہ بھی لکھا تھا کہ آفسٹ سے چھاپنے کے لیے کتابت کی ضرورت نہیں ہوگی، میں یہاں سے سامان بھیج سکتا ہوں۔ محمد زکی صاحب سے میں واقف نہیں ہوں، جس خاندان سے ان کا تعلق ہے، وہ بہت اچھا ہے۔ ان کے بقول آپ ان سے اچھی طرح واقف ہیں، اگر آپ فرمائیں تو میں ان کو ‘‘معارف الحدیث’’ کے فارم دے دوں؟ ورنہ وہ بلا تکلف ڈاک سے بھی ہر وقت جا سکتے ہیں۔ اگر مکتبہ اسلامیہ کی طرف سے میری کئی کتابوں کو شائع کرنے کا پروگرام ہو تو مجھے مطلع فرمائیں، اس صورت میں بہتر ہوگا کہ میں فارم وغیرہ آپ کو براہِ راست ڈاک سے بھیجوں، لیکن اگر مکتبہ اسلامیہ کے لیے کسی وجہ سے یہ مشکل ہو اور محمد زکی صاحب کے بارے میں آپ کی رائے اچھی ہو تو میں ان کے متعلق سوچوں۔ کتابیں چونکہ عوامی ہیں، اس لیے ان کی طلب اور نکاسی کی رفتار خدا کے فضل سے بہت اچھی رہتی ہے۔ 
’’دارالمصنفین‘‘ اور ’’ندوۃ المصنفین‘‘ کی کتابیں معیاری ہوتی ہیں، اور دونوں ادارے بھی نامور ہیں، لیکن بے چارے عوام کی تعداد، علماء اور خواص کے مقابلے میں بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے یہی کتابیں زیادہ مانگی جاتی ہیں، اس لیے میں کسی قابلِ اعتماد ادارہ ہی کو دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ براہِ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔ کل ہی ڈاک سے مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی کی تالیف ’’سنت کا تشریعی مقام‘‘ موصول ہوئی ہے، اسی سے معلوم ہوا کہ مولانا‘ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کے اساتذہ میں ہیں، کتاب کا مطالعہ ان شاء اللہ بعد رمضان مبارک کسی سفر میں کر سکوں گا۔ 
جس وقت میرا یہ عریضہ موصول ہوگا، غالباً (رمضان المبارک کا) عشرہ اخیرہ شروع ہو چکا ہوگا، دعاؤں کا بے حد محتاج اور خواستگار ہوں، اور اپنے لیے وسیلۂ خیر وسعادت سمجھ کر آپ جیسے حضرات کے لیے اللہ کی توفیق سے دعا کا اہتمام رکھتا ہوں۔ والسلام: محمد منظور نعمانی 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین