بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا محمد بن موسیٰ میاں  رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ

مکاتیب حضرت مولانا محمد بن موسیٰ میاں  رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

۸؍ مارچ ۱۹۵۹ء 
ذو المجد والکرم، الأخ المحترم، حضرت مولانا سید محمد یوسف صاحب حفظکم اللہ، ونفع بکم الدین والعلم، ورضي عنکم وأرضاکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! 

نامہ گرامی مورخہ ۲۲ ؍فروری نے مشرف فرمایا، مشرقی پاکستان کے دورۂ علمی کے حالات معلوم ہوکر -ما شاء اللہ- خوشی ہوئی، خیریتِ مزاجِ گرامی کی اطلاع پا کر الحمدللہ اطمینان ہوا، الحمد للہ یہاں عافیت ہے۔ 
1- جزاکم اللہ! جدید تدوینِ فقہ کے متعلق آپ کا مشورہ مفید معلوم ہوا، جس بنا پر مولانا محمد طاسین صاحب سلمہٗ کو عرض کردیا گیا ہے کہ وہ آپ کی رہنمائی سے اس کا مطبوعہ مواد، ممالکِ اسلامیہ سے منگوا کر مہیا کرلیں، آپ انہیں ضروری ہدایات ونشان دہی دے کر نوازیں، ولکم الفضل والحسنات! اس کے لیے کسی مستعد عالم کا انتخاب بھی اگر پہلے سے ہوجائے تو مناسب ہے۔
2- ’’العرف الشذي‘‘ کے بارے میں آپ کے قصدِ جدید سے مسرت ہوئی، موجودہ ’’العرف الشذي‘‘ بہت ہی ناقص ہے، اور موجودہ صورت میں اس کو دوبارہ شائع کرنے کے لیے بہت ہی تردد ہے۔ اگر اس کے خلاؤں کو پُر نہ کیا گیا اور اس کی نئی تشکیل نہ ہو سکی تو تعلیقات، اس کمزور بِنا (بنیاد) پر قوی عمارت کھڑی کرنے کے مرادف ہوگا، جس کے لیے طبیعت فکرمند ہے۔ اگر پہلی گزارشیں قبول پالیتیں تو ترمذی کے امالی جمع کرکے ہلکی معاون تعلیقات کے ساتھ شائع کر دیے جاتے، اور ’’معارف السنن‘‘ کو متن ’’جامع ترمذی‘‘ پر یا علیحدہ بصورتِ شرح ترمذی چھاپنے کی توفیق ملتی۔ ’’معارف‘‘ بفضلہ تعالیٰ آپ کی توجہ اور سال بہ سال کے جدید اضافوں کی وجہ سے اپنی مستقل حیثیت پا چکی ہے۔۔۔۔۔۔ 
حضرت الاستاذ (مولانا محمد انور شاہ کشمیری) رحمہ اللہ کے شاگردوں کا طبقہ بھی اب رخصت ہو رہا ہے، اگر ان کے ہاتھوں سے حضرت شیخ رحمہ اللہ کے خصوصی علوم کی امانت محفوظ نہ ہوسکی تو یہ مختلف گھروں میں درسی یادداشتیں ضائع ہو کر اس طبقے پر ایسا دَین (قرض) باقی رہ جائے گا جسے کوئی دوسرا کبھی ادا نہ کرسکے گا، اس دَین کی ادائیگی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے چند ہی خوش نصیب تلامذہ کو ایسی استعداد دی ہے کہ وہ اسے کما حقہ ادا کرسکیں۔ اگر یہ کام قریبی فرصت میں نہ ادا ہوا تو ایک بڑا سرمایہ ضائع ہوجائے گا۔ آپ اس طبقے کی طرف سے عزمِ نو فرما لیجیے، اور دونوں جہاں کی بھلائیاں اور شکرگزاری اپنے لیے مخصوص کرلیجیے، ان شاء اللہ یہ کام آپ کا صدقۂ جاریہ اور باقیاتِ صالحات ہوگا۔ یہ علمی دَین تو ضرور ہے، لیکن اسے مالی دَین نہ سمجھا جائے، آپ جو کچھ وقت آئندہ صرف فرمائیں گے اس کا حقِ خدمت ان شاء اللہ علیحدہ محسوب ہوگا۔ والأمر بید اللہ!
3- ’’مصنف عبد الرزاق‘‘ کی تسوید وتصحیح کے لیے مولانا سید حامد حسن صاحب سلمہ کا انتخاب -یجزیکم اللہ خیرا- اچھا ہوا، ’’لمحات‘‘ کے ملنے کی مسرت ہے، ’’لمحات‘‘ و ’’عبقات‘‘ (از شاہ اسماعیل شہید دہلوی رحمہ اللہ) دونوں کو ساتھ طبع کرانے کی تجویز کے بارے میں آپ کا کیا مشورہ ہے؟ ان کی عربی ٹائپ کی طباعت میں ایڈیٹنگ کی جو کچھ بھی خوبی پیدا ہوسکتی ہو، اس کے لیے مولانا محمد طاسین صاحب سلمہٗ کو مشورہ دیجیے گا۔ 
4- ھنیئًا لکم! دورۂ مشرقی پاکستان کی علمی سعی اللہ قبول فرمائے، علمی ادارے کے لیے ایسے دورے ضروری ہیں، علمی تازگی اور معیار بلند اور درست کرنے کے لیے ایسے اسفار مفید ہی ہوسکتے ہیں، اللہ کرے ایسے اور بھی مواقع نصیب ہوں، خدمت کے مواقعِ خیر اگر آپ کے علم میں آئے ہوں تو احسان فرماکر عزیزم مولانا محمد طاسین صاحب سلمہٗ کو کچھ نام اور پتے لکھوا دیے جائیں، واللہ یزیدکم حُسنًا وإحسانًا! 
مولانا محمد طاسین صاحب سلمہٗ کے دفتری کاموں کو کم کرنے کا مشورہ صحیح ہے، ان کو خالص علمی کاموں میں لانے کے لیے یہ ضروری ہے، (تاکہ) گاہ بہ گاہ ان کی غیرحاضری میں کوئی (مجلسِ علمی کی) نگرانی کرسکے، ایسے کسی معتمد آدمی کو اب ملا لینے کا وقت آگیا ہے، اللہ کرے کوئی مناسب آدمی مل جائے۔ اللہ تعالیٰ حکومت کے کاموں کو اپنے فضل سے سدھار دے، آپ کے پہلے کرم نامہ سے اُمید وتوقعات تازہ ہوگئے تھے، اس عنایت نامہ سے افسردگی ہے۔ اللّٰہم لا تسلّط علينا بذنوبنا من لا يخافک ولا يرحمنا!  

 

محترم والد صاحب (مولانا محمد زکریا بنوری) مدظلہٗ اور اہلِ بیت، نیز ارکانِ مدرسہ کے لیے سلامِ مسنون واشواق! نورِ چشم محمد (بنوری) سلمہٗ کے لیے پیار ودعاء! ایامِ مبارکہ میں دعواتِ صالحہ وتوجہاتِ سامیہ سے احسان فرمائیے گا۔ والسلام واللہ معکم              دعاگو ودعاجو :احقر محمد ابن موسیٰ میاں عفا اللہ عنہما  (بقلم عبد الرحمٰن ابن ابراہیم میاں عفا عنہ)
پس نوشت:     ناکارہ عبد الرحمٰن کی جانب سے سلامِ مسنون قبول فرمائیں، اور دعاء کے لیے عاجزانہ درخواست ہے، بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے بھی درخواست ہے۔ اولاد میں چھے لڑکے: محمد، عبداللہ، ابراہیم، احمد، اسماعیل، اسحاق، اور ایک لڑکی بنام فاطمہ ہے، اطلاعًا عرض ہے۔ محترم والد صاحب مدظلہٗ اور مولانا محمد طاسین صاحب مدظلہٗ کو سلامِ مسنون عرض کردیں، اور دعاء کے لیے درخواست بھی!       والسلام: عبد الرحمٰن

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
الأخ المحترممولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب سلمکم اللہ تعالی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! 

آپ کا مؤرخہ ۱۵ ؍ستمبر سنہ ۶۰ء کا گرامی نامہ ملا تھا، اور انتظار تھا کہ موعودہ مفصل کرم نامہ آجائے تو پوری بات سن سمجھ کر جواب لکھا جائے، اس دوران میں دو لڑکیوں کی اور دو لڑکوں کی شادیاں بھی مقرر ہوئی تھیں، ان سے فراغت پانا تھی۔ سو الحمد للہ تین شادیاں (عائشہ، راشدہ سلمہا، ویوسف اسحاق سلمہم کی) ہوگئیں، اور ان شاء اللہ قاسم سلمہ کی شادی ۱۲ ؍رجب سنہ ۸۰ ھ مطابق یکم جنوری سنہ ۶۱ء کو ہونے والی ہے۔ ان سب کے لیے آپ سے دعاء کی درخواست بھی کرنی تھی، اس لیے جواب میں قدرے تاخیر ہوئی ۔۔۔۔۔
ایک بات یہ سمجھ میں آئی تھی کہ پوری ’’معارف السنن‘‘ کی بیش قدر قیمت کو محفوظ کرنے کے لیے زیرو گرافی کے دس نسخوں کے لیے پانچ ہزار خرچ کردیئے جائیں۔ اب آپ کی طرف سے جن چار جلدوں کی طباعت کی تجویز ہے، اس میں بیس پچیس ہزار کی اور دو تین سالوں کی ضرورت ہوگی، پھر بھی کام نہ صرف ناتمام، بلکہ محض ایک ثلث ’’جامع ترمذی‘‘ پر ہوگا، اور ’’آثار السنن‘‘، ’’فتح الملہم‘‘، ’’إعلاء السنن‘‘ اور ’’التعلیق الصبیح‘‘ وغیرہ جیسی ایک ناتمام خدمت ہوسکے گی، اس لیے پہلے سے یہ گزارش کرتا رہا ہوں کہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مختصر لیکن مکمل خدمت مقدر فرمائے، اور ’’الأمالي الکشمیري‘‘ اس سے آدھے وقت میں اور آدھے خرچ میں جلد از جلد آپ کے لیے نام زد ہو کر علمی اثر اور صدقۂ جاریہ بن جائے، اور اسی کا مفصل خاکہ ’’معارف السنن‘‘ اس کے بعد شائع ہو۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اصل ارادہ اور منصوبہ بھی ’’العرف الجدید‘‘ کا ہی تھا، اب وہ پھیلتے پھیلتے ایسا بے قابو ہوگیا کہ نہ یہ ہوا، نہ وہ۔ دینی سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ مختصر کام پہلے کرلیا جائے، اور بڑا کام بعد میں، ورنہ دونوں کے نامکمل رہنے کا سخت خطرہ ہے۔ معکوس ترتیب کی کوئی خاص مصلحت اب تک سمجھ میں نہ آسکی، ورنہ ویسے تو آپ کی جو کوئی علمی خدمت چھپ جائے، سبہی غنیمت ہیں، حتیٰ کہ آپ کے رسالائی (دینی مجلات میں شائع شدہ) مضامین کو بھی شوق سے سنتا ہوں، اور استفادہ کے لیے شکرگزار رہتا ہوں۔ زمانہ بھی اختصار جُو اور تلخیص پسند ہوگیا ہے، لمبی بحثوں کو علماء اور مدرسین تک نہیں پڑھتے، آپ کا تجربہ بھی ایسا ہی رہا ہوگا۔ 
یہ خیال بھی آیا تھا کہ کوئی اشاعتی ادارہ ’’معارف السنن‘‘ کو اس طرح طبع کرے کہ اصل بالکل محفوظ رہے، اور آپ کے سامنے بالکل قلمی نقل ہو کر طبع ہو، اس نقل سے طباعت ہو اور آپ کا قلم کا مسودہ بالکل محفوظ رہے۔ اور قیمتوں کو فی الجملہ ارزاں رکھا جائے تو اس میں بھی کوئی خاص خرچ نہیں ہے۔ پھر یہ خیال آیا کہ اس زمانے میں اپنا مالی نفع کون چھوڑے گا؟ ۔۔۔۔ فکر ہے کہ بلند وعدوں پر آپ کو کسی معاہدہ میں کوئی چالاک تاجر جکڑ بند نہ کرلے، جیسے کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ مولانا عبد الماجد دریابادی کو ۔۔۔۔ بیس سال تک -إنا للہ- تھکایا، اس لیے (اس) خیال کو چھوڑ دیا، ورنہ ’’مجلسِ علمی‘‘ کو الحمدللہ اپنی صرف شدہ رقم کا کوئی ذرا سا بھی خیال نہیں ہے، جو کوئی بھی صورت ہو کام ہوجانے کا پورا خیال رہتا ہے، نام اور دام کا تو بفضلہ تعالیٰ کبھی خیال تک بھی نہیں آتا، بدظنی اور بدگوئی تو دور کی باتیں ہیں۔ آپ کسی کی کہی سنی باتوں پر کچھ خیال نہ کریں، مقصد آپ کا اور ’’مجلسِ علمی‘‘ کا الحمدللہ ہمیشہ مخلصانہ اور للّٰہی رہا ہے، اب جبکہ آپ نے مسلسل اور بار بار کی گزارشوں کو پذیرائی نہیں بخشی تو کیا اب آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ آپ ’’الأمالي الکشمیري‘‘ اور ’’معارف السنن‘‘ دونوں کاموں کو طباعت کے لیے ساتھ ساتھ چلا سکتے ہیں؟ ایک ہی کام کی دو صورتیں ہوں گی: ایک مختصر، دوسری مطوّل، ایک مُوجَز اور ایک مفصل۔ 
الحمدللہ کہ اس دوران میں مولانا عبد العزیز صاحب مرحوم اور مولانا عبد القدیر صاحب سلمہ اللہ کی تحریری یادداشتوں کا سرمایہ ونشانہ بھی مل گیا، جو سب شامل ہوسکے گا۔ علاوہ ازیں ایک بڑی لالچ یہ بھی ہے کہ فقہی ابواب کے علاوہ کی قیمتی باتیں جس میں حدیث فہمی اور مطلب رسی کے بہت سے بیش بہا مضامین ہیں، اور جن کی طرف اور حضرات نے توجہ نہیں کی ہے، اور جن کے درک کے لیے آپ کے پاس خاص استعداد ہے، مثلًا: اعجازِ الفاظِ حدیث کی تشریح، معانی اور بلاغت کی نادر چیزیں، معارف اور حکم کی خاص باتیں آپ کے حصے میں آجائیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ان شاء اللہ مسلمانوں کو عمل پر اُبھاریں گی، ان کے دلوں میں اس غیر متلو وحی (ذخیرۂ حدیث) کی قدر وقیمت جمائیں گی، اور ذخیرۂ حدیث کے ساتھ جو بے انصافی برتی جارہی ہے، اس کا ٹھوس جواب ہوں گی کہ اعجازِ قرآن کی طرح اعجاز وحکمِ حدیثی بھی بہت بہت قدر کی چیز ہے۔ فقہی ابواب پر تو سبہی نے زور لگایا ہے، لیکن اس باقی حصہ پر (علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے ) تلامذہ میں سے کسی نے زیادہ کام نہیں کیا ہے، یہ پورا میدان آپ کے ہاتھ آجائے گا۔ اللہ کرے آپ کے خاطرِ عاطر میں یہ بات سما جائے، اور بتوفیقہٖ تعالیٰ آپ کام کا قدم جلد آگے بڑھائیں۔ اگر کام شروع کردیا تو ضرور اطلاع دیں، بہت سے اہلِ علم کی نگاہیں اور امیدیں آپ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں چند باتیں معلوم کرنی ہیں:
1- پہلے یہ اندازہ بتایا گیا تھا کہ پوری ’’معارف السنن‘‘ پانچ سو (۵۰۰) صفحہ کی چار جلدوں میں، مجموعہ دو ہزار (۲۰۰۰) صفحات پر آئے گی۔ اب صرف (کتابُ) ’’المناسک‘‘ تک اتنی ضخامت ہوجاتی ہے۔ بقیہ کتنا حصہ ہے؟ اور اس کے ابواب اور جلد وار تقسیم کیسی ہوگی؟ اور پوری کتاب کتنی جلدوں میں کتنے صفحات پر آئے گی؟ 
2- ’’الأمالي الکشمیري‘‘ (العرف الجدید) کا تخمینہ ضخامت، جلد وار باب وار منصوبہ کیسا ہونا چاہیے؟ دو تین جلدیں ہوجائیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ 
3- ان دونوں کے لیے وقت، مصارف ومعاوضہ کا کیا اندازہ ہوگا؟ صفائیِ معاملات وعہد پورا کرنے کے لیے ان کی تعیین نہایت ضروری ہے۔ 
4- ’’الإتحاف‘‘ کی مستقل تخریج، تشریح وتہذیب کے لیے آپ کا کیا مشورہ ہے؟ اگر کوئی نقشہ ذہن میں ہو تو تحریر فرمائیں۔ مقدمہ ’’عقیدۃ الإسلام‘‘ کے لیے شکرگزار ہوں، اور رؤیا (خواب) کی بشارت ومقبولیت کے لیے مبارک باد عرض ہے، آپ بہت خوش نصیب ہیں۔ 
برادر مولانا عزیز احمد صاحب سلمہ نے ’’خاتم النبیین‘‘ (تالیف علامہ کشمیری رحمہ اللہ بزبانِ فارسی) کا ترجمہ آپ کے پاس مشورہ کے لیے بھیجا ہے، اُمید ودعاء (ہے) کہ پسند آیا ہو اور ضروری مشورہ بھی دیا گیا ہو۔ مولانا عزیز احمد صاحب نے ’’ضرب الخاتم‘‘ اور ’’مرقاۃ الطارم‘‘ کو منضم کرنے کے لیے دونوں کتابیں دیکھنے کے لیے منگوائی تھیں، اس سلسلہ میں اگر کوئی مفیدہ مشورہ ہو تو خود یا برادر مولانا محمد طاسین صاحب سلمہ کی معرفت رہنمائی فرمائیں، واللہ یجزیکم خیرًا! 
محترم والد (مولانا محمد زکریا بنوری) صاحب کی خدمت میں سلامِ مسنون عرض ہے، عزیز محمد (بنوری) سلمہ کے لیے پیار ودیدہ بوسی۔ برادرِ محترم حافظ عبد الرحمٰن، نورِ چشم عبد اللہ سلمہ، اسماعیل سلمہ اور ابراہیم سلمہ سلامِ مسنون عرض کرتے ہیں۔والسلام ، واللہ یبارک فيکم

                 احقر: محمد ابن موسیٰ میاں عفا عنہما (بقلم الفقیر ابراہیم محمد میاں غفرلہ) 

                                                                                                             یوم الإثنین ۲۱ / ۱۲/ ۱۹۶۰ء

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین