بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حضرت قبلہ جناب مخدومم مولانا صاحب دامت برکاتُکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
1 - ہفتہ کی شام کو خیبر میل سے روانگی ہوئی، انٹر میں نہایت آرام دہ جگہ ملی، اور ’’نوشہرہ‘‘ تک لیٹے لیٹے آرام وراحت سے بروقت نمازیں ادا کرتا ہوا پہنچا۔ ’’درگئی‘‘ کی گاڑی انتظار کر رہی تھی، وہ ہمیں گود میں لے کر دس بجے ’’درگئی‘‘ رونق افروز ہوئی۔ وہاں سے سوات میل بس فرنٹ سیٹ میں جگہ ملی، نہایت آرام سے ’’مینگورہ‘‘ ۲ بجے پہنچے تو ’’درش خیلہ‘‘ کی بس سراپا انتظار بنی ہوئی تھی، وہاں بھی اگلی سیٹ میں راحت سے بیٹھ کر قبیل المغرب پہنچ کر والدین کی قدم بوسی نصیب ہوئی۔ جگر گوشہ شبیر احمد کے دیکھنے سے آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔
عجیب فضا ہے، صحت بخش موسم ہے، زمین پر سبز قالین اور ہر سُو پھولوں کے گُل دستے، اور قُلَل (پہاڑوں کی چوٹیوں) پر برفی چادریں! ایک عجیب نظارہ ہے۔ پانی کے چار گھونٹ وہ کام دیتے ہیں (کہ) دس بوتل سوڈے کی اس سے عاجز ہیں۔ ناشتہ کرکے گیارہ بجے تک معدہ میں بھوک کی سوزش سے رہا نہیں جاتا، سہ سالہ بھینس کے لحم کے شوربے سے (وہ) لطف ومزہ آتا ہے جس سے کراچی کے فربہ لحوم مصالحہ دار عاجز ہیں۔ غرض ہر چیز لذت دار ہے، صرف اگر بےلذت ہیں تو یہاں کے انسان بے لطف وبے لذت ہیں، تلخ ہیں، ظالم ہیں، خَشِن ہیں، ناتراش ہیں۔ بات لمبی ہوگئی؛ لِطُول المخاطبۃ!
2 -معاف فرمادیں! عند الوداع عرض کرچکا تھا کہ اس عاجزِ ناتواں کی زلّاتِ علمیہ کی فہرست مع الہدایات سے نوازا جائے، جو نقائص ومعایب کندہ ناتراش کے لیے مرآۃ (آئینے) کا کام دے۔
3 -متنبی کا قافیۂ دال قریب الختم ہونا، اور ’’الوسیط ‘‘ کا عصرَین وبعضِ ثالث تک پہنچ جانا، باوجود تنگیِ وقت (۱۲ تا ایک) اور احمد الاحمد صاحب کے بدھ جمعرات کو مزاحم ہونے کے بعد کوئی قابلِ رنج وقلق بات نہیں ہے۔ باقی کتابیں متوسط چال سے ختم ہوچکی تھیں، شاید طلبہ بھی مطمئن تھے، اس لیے میرے متعلق آپ کو زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کما ظننتُ! نفسِ کتاب کے مضمون کو ذہن نشین کرانے میں ان شاء اللہ خیانت نہ ہوگی، بفضل اللہ وکرمہٖ! اگر مجھ میں کوئی ایسی کمی ہو جو قابلِ اصلاح نہ ہو اور مدرسہ کے لیے میرا وجود کوئی نافع نہ ہو تو آپ کو اللہ تعالی جلّ وعلا شانہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ فوراً میرا نام مدرّسین کی فہرست سے الگ کردیں، اور خیانت نہ فرمائیں، اور فوراً مجھے آگاہ کردیں، واللہ ثمّ واللہ ثمّ واللہ! مجھے کوئی قلق نہ ہوگا، اور میں کسی اور راہ پر چل پڑوں گا۔ صفائی سے کام لینا طرفین کا فریضہ ہے۔ یہ لکھنا کوئی عدمِ استقلال کی بنا پر نہیں، بلکہ ہر کام کا مدار امانت پر ہوا کرتا ہے، یہ اس کا ایک منظر ہے، کما ھو الظاھر!
والد صاحب اور خواتین ہدیۂ سلام پیش کرتے ہیں۔ فقط
العبد القہمد فضل محمد عفا اللہ عنہ
۱۳؍ شعبان سنہ ۱۳۷۷ھ/ ۵ ؍مارچ سنہ ۱۹۵۸ء
1- پرچوں میں طلبہ کی اکثریت کو کامیابی حاصل ہے۔
2- مگر اس کے باوجود اکثریت میں کتابت اور طریقِ بیان کی کمزوریاں نظر آتی ہیں۔
3- بہت سے قابل طلبہ شکل وشباہت میں قابلِ گرفت ہیں۔
4- مدرّسین میں تحابُب وتوادُد (باہم محبت و اُلفت) ہے، تحاسُد سے خالی ہیں، حسبما علمتُ!
5- اگرچہ طریقِ تعلیم میں بعضوں کے اندر خامیاں موجود ہیں، جو آپ پر مجھ سے زیادہ روشن ہوگا۔
6 - افادہ میں سب سے زیادہ حصہ مولانا ولی حسن صاحب کا ہے۔ فقط وھٰذا ما عندي، والعلم عند اللہ!
مخدومم جناب مولانا صاحب دامت برکاتُکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
(۱) غریب خانہ پہنچ کر تیسرے روز ایک تفصیلی خط ارسال کرچکا ہوں، شاید آپ کو ملا ہوگا، آہ بے اختیار اس طرف سے دل پر تِذکار (یاد) کے جھونکے لگ لگ کر قلب بے قرار ہے، اس لیے یہ چند کلمات پیشِ خدمت ہیں، ممکن ہے کوئی رقعہ دست مبارک کا لکھا ہوا مل جائے، اور دلِ بے قرار کے لیے سکون کا سامان ہوجائے۔
کل عجیب بارش ہوئی ہے، جس سے ’’سوات‘‘ کی بہار پر چار چاند لگ گئے، اور چاروں طرف پُر لطف فضا میں صاف ستھری ہوا برف سے ٹکر کھا کر تازہ تازہ گلستان کی خوشبؤوں کے طرح طرح پارسلوں کو دل ودماغ تک پہنچاتی ہے، اور خون کی نالیوں کی صفائی کا کام بخشتی ہے۔ صبح کی نماز کے بعد تفریح کے لیے دامنِ کوہ میں نکل جاتا ہوں، جو پھولوں اور سبزوں میں دلہن کی طرح جلوہ گر ہوتا ہے، تازہ تازہ ہوائیں دل کی کھڑکی میں پہنچ جاتی ہیں تو سحری کا کھانا ہضم اور جزوِ بدن بن کر جی چاہنے لگتا ہے کہ پہاڑ کی چوٹی پر دوڑ کر چڑھ جاؤں۔ واپسی پر کتب خانہ آکر ’’خیرُ جلیسِ الزمان‘‘ (زمانے کے بہترین ہم نشینوں یعنی کتابوں) سے سرگوشی کرنے لگتا ہوں، پھر قیلولہ کرکے ظہر کے بعد تلاوت ودلائل الخیرات سے آخرت کا سامان اور احیائے قلب وغذائے ایمان کے اسباب میں مشغولی نصیب ہوجاتی ہے، قیلولہ بغیر لحاف کے ناممکن ہوتا ہے۔ بہتے ہوئے سلسبیل سے وضو کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ برف کا تودہ اُٹھاکر بدن پر مل رہا ہوں۔ رات کو تراویح ایک قاری حافظ کے پیچھے پڑھتا ہوں، جس سے جان میں جان آتی ہے، وہ اپنے بہنوئی ہیں، تاجر ہیں، لوجہ اللہ سناتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ظاہری وباطنی غذاؤں، صحتوں اور فرحتوں کا سامان ہر ایک لمحہ میں اللہ تعالی جلّ وعلا شانہ نے کردیا ہے، جن کا شکریہ تو کیا، تصورِ شکریہ بھی طاقتِ بشریہ سے خارج ہے، کمی صرف آپ کے دستِ مبارک کے چند کلماتِ مکتوبہ کی ہے، کاش! یہ کمی بھی پوری ہوجائے۔ وما ذٰلک علی اللہ بعزیز!
(۲) والدین سخت بیمار ہوچکے تھے، مگر اب الحمدللہ! بالکل تن درست ہیں۔
(۳) جگر گوشہ بشیر احمد کا ختنہ گزشتہ بدھ کے روز ہوا، اب وہ الحمدللہ رُو بصحت ہیں۔
(۴) ارادہ تو ۱۰ ؍شوال سے قبل قبل آنے کا ہے، باقی اللہ کی مرضی!
(۵) اُمید ہے کہ خدماتِ لایقہ سے ضرور بالضرور یاد فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے۔
طولِ مخاطبہ کے لیے یہ خرافات پیش کیے، معافی کا خواست گار ہوں۔
فضل محمد عفا اللہ عنہ
۸؍رمضان سنہ ۱۳۷۷ ھ / ۲۹؍مارچ سنہ ۱۹۵۸ء
پس نوشت: برادرِ محترم محمد صاحب کو پیار !