بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی  رحمہ اللہ  بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ

مکاتیب حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی  رحمہ اللہ  بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

مکتوب محدثِ کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی  رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
 ۲۹؍ ربیع الآخر سنہ ۱۳۸۱ھ
عمدۃ الأفاضل ونخبۃ الأماثل، صدیقي الوفي الکریم مولانا محمد یوسف البنوري
متّعنا اللہ بحیاتہٖ في عافیۃ!
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

الحمد للہ بخیر ہوں، اور آپ کی خیریت وعافیت کے لیے دست بدعا، اثنائے سفرِ حجاز میں خط لکھنے کا جو تقاضا آپ نے کیا تھا، بار بار یاد آیا، لیکن علالت اور کچھ دوسری الجھنوں میں امتثالِ امر سے اب تک قاصر رہا، یہ بھی دریافت نہیں کر سکا کہ آپ نے میرے بعد دمشق کا سفر کیا یا نہیں؟ اور وہاں سے کیا ’’طُرَف‘‘ (نادر کتابیں) ساتھ لائے؟ اس سفر میں آپ کی طرف سے جس ’’مروّت وکرم‘‘ کا ظہور اس ناچیز کے حق میں ہوا، اس کے لیے بدل وجان ممنون ہوں، حق تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ 
الحاج مولانا محمد بن موسیٰ میاں بہت دنوں سے ’’مصنف عبدالرزاق‘‘ پر کام کرنے کے لیے مجھ کو لکھ رہے ہیں، پہلے تو میں کمزوریِ صحت کی بنا پر بالکل آمادہ نہیں تھا، لیکن اب مختلف احباب کی خواہش کی وجہ سے کچھ آمادہ ہو رہا ہوں، بشرطیکہ کوئی معاون ساتھ ہو، معاون کے لیے ۵۰ -۶۰ روپے ماہوار تجویز ہو رہے ہیں، مگر اس تنخواہ پر کوئی کام کا معاون دستیاب ہونا متعذر ہے، اس سلسلہ میں موصوف کو کچھ آپ بھی رہ نمائی کریں تو شاید جلد کام شروع ہو جائے، ابھی تو موصوف شش وپنج میں ہیں۔ 
دیوبند سے ’’أنوار الباري‘‘ کا مقدمہ پہنچا ہوگا، اس کی نسبت جناب کے کیا تاثرات ہیں؟ الجامعۃ الإسلامیۃ (مدینہ یونی ورسٹی) کے قیام کا فرمان تو شاہ سعود نے جاری کردیا، اس فرمان پر عمل کب سے شروع ہو رہا ہے؟ اور طلبہ کے داخلہ کی کیا صورت تجویز ہو رہی ہے؟ کچھ معلوم ہو تو لکھیے۔ شرح یا تعلیقاتِ ترمذی (معارف السنن) کے باب میں کیا ہو رہا ہے؟ اس کی طباعت تو بے توقف شروع ہو جانی چاہیے۔                                                   والسلام : حبیب الرحمٰن الاعظمی 

 .....................................

۲۱؍ جمادی الاخریٰ سنہ ۱۳۸۱ھ 

جلیل المآثر، وارث العلوم والمعارف کابرًا عن کابرٍ، زادہ اللہ عزًّا وکرامۃً! 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

والانامہ شرفِ صدور لایا، بڑی مسرت ہوئی، حق تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے، ’’مصنف عبدالرزاق‘‘ کے باب میں ’’ناپ تول‘‘ کا سلسلہ جاری ہے، مجھے لکھا تھا کہ: ’’اگر بصورتِ وظیفہ، ڈیڑھ دو سو پہنچتے رہیں، جس میں آپ کے لیے سو ڈیڑھ سو کا گزارہ ہو، اور پچاس ساٹھ کا کوئی صاف نویس معاون ساتھ رہے الخ‘‘ میں نے لکھا کہ:’’اچھا تو یہ ہے کہ میرا کام بلا معاوضہ رہنے دیجیے، باقی رہا معاون تو ایسا معاون جو میرے کام میں مدد دے سکے (یعنی صرف مسودہ نقل کرنے والا نہ ہو)، پچاس ساٹھ میں یہاں نہ ملے گا، مشکوٰۃ، جلالین وہدایہ پڑھانے والے یہاں سوا سو پاتے ہیں، اس سے کم استعداد کا معاون ساتھ رکھ کر کیا کروں گا؟ اور اگر میرے باب میں بھی معاوضہ پر اصرار ہو تو میں نے آپ کا نام لیا کہ ان سے مشورہ کر لیجیے، وہ جو فرمائیں گے میں قبول کرلوں گا۔‘‘ اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ 
’’أنوار الباري‘‘ کے باب میں میرا تأثر بھی وہی ہے جو آپ کا ہے، میں نے کچھ غلطیوں کی نشان دہی کردی ہے، کچھ مخلصانہ مشورے دے دیئے ہیں، مگر صحیح بات وہی ہے کہ جو آپ نے لکھی ہے کہ کام بہت اہم اور بڑی ذمہ داری کا ہے، ایسی ذمہ داری جس سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں ہے۔ خدا کرے ’’معارف السنن‘‘ کی اشاعت کا جلد سامان ہوجائے، ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ کی پہلی جلد کی نسبت سنا تھا کہ مصر میں چھپنے والی ہے، ناشر وطابع کا نام معلوم نہیں ہوا۔ محمد نمنگانی سے میری خط وکتابت نہیں ہے، میری رائے میں سردست اور کچھ نہیں ہوسکتا تو تنقیدات کے جواب‘ ضمیمہ ہی کے طور پر چھپ جائیں، اور اس کام کی ذمہ داری خود آپ قبول فرمائیں۔ مولانا عبدالرشید صاحب نعمانی کا پتہ مجھے معلوم نہیں ہے، اس مجبوری سے اس لفافہ میں ان کے نام بھی ایک خط بھیج رہا ہوں، اگر ان تک بھجوانے کی زحمت فرمائیں تو کرم ہوگا۔                            حبیب الرحمٰن الاعظمی

.....................................

باسمہٖ سبحانہ
مئو، اعظم گڑھ۱۸ جولائی ۱۹۶۷ء
إلی الأستاذ الخبير الفاضل مولانا محمد يوسف البنوري زادہ اللہ عزًّا!
 السلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! 

آپ کی خوش قسمتی ہے کہ سال بہ سال زیارتِ حرمین کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں، میں تو بے خبر تھا، جب میں نے ’’کتاب الزھد‘‘ آپ کے نام بھجوائی، اس وقت علم ہوا، حق تعالیٰ مبارک فرمائے، اور ہم کو بھی یہ دولت نصیب کرے۔ ’’کتاب الزھد‘‘ پر ہر تبصرہ نگار سے زیادہ آپ کے تبصرہ کا انتظار ہے، اس سے میری حوصلہ افزائی کے علاوہ امید ہے کہ اس کے اقتناء (حصول) کا شوق بھی اہلِ علم کے دلوں میں پیدا ہوگا، اور ’’مجلسِ احیاء المعارف‘‘ کا بار کسی حد تک ہلکا ہوجائے گا، ارکانِ مجلس بھی آپ کے تبصرہ کے لیے چشم براہ ہیں، (آپ کے) دفتر سے (حسبِ دستور برائے تبصرۂ کتب)مکرر نسخہ کا مطالبہ مالیگاؤں پہنچا تھا، ناظمِ مجلس بہت ادب کے ساتھ معذرت خواہ ہیں کہ کتاب کی تیاری پر بہت لاگت آئی ہے، مکرر نسخہ مجلس پر بار ہوگا، محض از راہِ لطف وکرم ایک ہی نسخہ قبول فرما کر تبصرہ فرما دیں تو یہ مجلس کی اعانت ہوگی، مجھے اُمید ہے کہ دفتر کے کارکن حضرات اس معذرت کو قبول فرمائیں گے۔ عزیزم مولانا محمد طاسین سلمہ نے ’’معارف السنن‘‘ جلد سوم کی خوش خبری لکھی تھی، یہ جلد کن ابواب تک پہنچی ہے؟ اب کے سفر میں آپ کو کونسا نادر علمی تحفہ حاصل ہوا؟ اشارہ فرمائیں گے۔ کویت والوں نے فقہی انسائیکلو پیڈیا (الموسوعۃ الفقہيۃ الکويتيۃ) کی تیاری میں قلمی حصہ لینے کے لیے مجھ کو بھی لکھا ہے۔ کبھی کبھی خیر وعافیت سے مطلع فرما دیا کریں تو بہت زیادہ موجبِ مسرت ہوگا، اُمید ہے مزاج بخیر ہوگا۔                                             والسلام :حبیب الرحمٰن الاعظمی  بقلم رشید احمد 
خادم رشید احمد مفتاحی (راقمِ سطور) بھی مؤدبانہ سلام پیش کرتے ہوئے دعائے خیر کا آرزومند ہے۔ 
نوٹ: یہ مکتوب کارڈ کی صورت میں ہے، جس پر پتہ یوں درج ہے: ’’بگرامی خدمت حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری، مدرسہ اسلامیہ عربیہ، نیوٹاؤن کراچی نمبرKarachi:5  (W.Pakistan)  ‘‘

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین