بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا بدرِ عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ 


سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ 

مکاتیب حضرت مولانا بدرِ عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ 

 


حضرت مولانا بدرِ عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ بنام حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ 

۵؍ شوال المکرم
محترم المقام جناب مولانا محمد یوسف صاحب دام مجدکم السامي
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

جناب کا فیصلہ کن مکتوب ماہِ رمضان المبارک میں مل گیا تھا، اسی وقت مولانا احتشام الحق صاحب کی خدمت میں ارسال کردیا گیا تھا، غالباً وہ جواب لکھ چکے ہوں گے۔ آپ کے دوٹوک فیصلہ سے بہت اطمینان ہوا، اب آپ کی آمد کا شدت سے انتظار رہے گا۔ اکثر حضرات بہ حیثیت ملازمت آرہے ہیں، میری دلی تمنا یہ تھی کہ کوئی صاحب تاسیسی جذبات لے کر آتے اور میری ہم نوائی فرماتے، آپ کی تشریف آوری سے مجھے بڑی حد تک توقعات لگ رہی ہیں۔ میں بہت قلیل مدت آپ کا شریک کار رہوں گا اور اس علمی شجر کے سرسبز ہونے کے بعد شاید بہت جلد ہی علیحدگی اختیار کرلوں گا، کیوں کہ اب میرے سن کا تقاضا یہی ہے۔ یہ وقت نوعمروں کے میدان میں آنے کا ہے، نہ کہ ہم جیسے فرسودہ اور نکموں کا، واللہ الموفق۔
ڈابھیل کے جدید اساتذہ میں مولوی منتخب الحق صاحب نامی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، بظاہر مستعد شخص نظر آتے ہیں، کیا آپ وضاحت سے یہ مطلع فرماسکتے ہیں کہ ڈابھیل میں ان کی تعلیمی نوعیت، طلبہ میں قبول، مزاجی توازن اور اسلامی دیانت کا حال کیا تھا؟ اور کن وجوہات کی بنا پر ان کی علیحدگی ہوئی؟
ہمیں مدرسین کی بہرکیف ضرورت ہے، اگرچہ انتخابات ہوچکے ہیں، تاہم ان کا نام بھی ذہن میں رہے تو بہتر ہے، داشتہ آید بکار!۔
نصاب آجاتا تو ہمارے لیے بڑی روشنی کا موجب ہوتا، اگرچہ آخری فیصلہ آپ کی تشریف آوری کے بعد ہی ہوگا، تاہم جو کچھ میرے ژولیدہ خیالات ہیں ان کی جولانگاہی کے لیے کوئی میدان تو درکار ہے۔ حج کے تصور سے میں بھی خالی ہوں، اگرچہ خیالی سہی، تاہم مایوسی نہیں ہے۔ آپ کے معلم کا نام کیا ہوگا؟ کہیں بخت خفتہ اگر بیدار ہوگیا تو ملاقات کی سعادت میں سہولت رہے گی۔
ابھی ابھی آپ کا گرامی نامہ ملا، مجھے حرفاً حرفاً آپ کی تجویز سے اتفاق ہے، یہی سب صورتیں ذہن میں موجود ہیں، صرف اقتصادیات وغیرہ کو درس میں لازمی سمجھتا ہوں، وقت کی اہم ضرورت کو طلبہ کی ذہانت پر چھوڑا نہیں جاسکتا۔
دینیات کے سلسلہ میں جو ہم درس میں حاصل کرچکے وہ کرچکے، بعد میں بہت وہ تھے جنہوں نے اس استعداد سے کام لے کر کوئی قدم آگے بڑھایا، اس لیے فلسفہ کی جگہ ان علوم کو دی جانی مناسب ہے۔ منطق کے ڈھیر کی ہمیں ضرورت نہیں۔ جو اسماء جناب نے تجویز فرمائے ہیں اس میں مدت ہوئی مولانا عبدالعزیز صاحب کو تو خط بھی لکھ دیا گیا اور مولانا عبدالقدیر صاحب کو کل خط لکھا جاچکا ہے۔ اول الذکر کا تو تقرُّر باضابطہ ہوگیا ہے۔ ابتداء ًزیادہ اسٹاف بڑھانا پسند نہیں، معلوم نہیں طلبہ کی آمد کی کیا صورت ہے، ڈابھیل کا تجربہ تو بہت سخت رہا۔ 
مدرسہ حیدر آباد کے ایک بڑے قصبہ میں واقع ہے، جہاں جملہ ضروریات مہیا ہیں، حتیٰ کہ بجلی بھی۔ آب وہوا بہتر ہے، لیکن گرم ہے۔ معاشی لحاظ سے بہت ارزانی ہے، تفریح کے لیے بھی مقامات اچھے ہیں، متصل نہر جاری ہے، اور خود مدرسہ کی جائے وقوع ایک باغ میں ہے۔ دعا فرمائیے اور حجاز جاکر خاص طور پر فرمائیے کہ جو جمعیۃ یکجا ہوجائے، اس میں قلبی اتحاد رہے۔ طلبہ ذی استعداد وذی شوق اس طرف متوجہ ہوجائیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ بحالاتِ موجودہ اس کے سواء مالیات کی طرف سے تو بڑی حد تک اطمینان ہے۔ صرف کتب خانے کے لیے ایک صاحب نے پچاس ہزار روپے کی رقم منظور کی ہے، وہٰکذا وہٰکذا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین