بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا احمد رضا بجنوری   رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ


مکاتیب حضرت مولانا احمد رضا بجنوری   رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مکرم و مُخلصم مولانا المحترم! دُمتم بالسیادۃ والمجد والإکرام، ومتّعنا اللہ بِطُولِ حیاتِکم الطیبۃ‎!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

کرم نامہ صادر ہوا، بڑی مسرت ہوئی کہ جلد یاد فرمایا، اور کتاب (انوار الباری) کے بارے میں بھی حوصلہ افزائی فرمائی۔ میں نے غالباً پہلے بھی لکھا تھا اور اب پھر لکھتا ہوں کہ آپ کو میرے اس کام میں خاص توجہ فرماکر مدد کرنی ہوگی۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ آپ کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں، مگر اپنے تعلقات پر اعتماد کرتے ہوئے غالباً میری یہ توقع یا جسارت بے جا نہیں ہے۔‎ 
میں بجنور چلا گیا تھا، اس لیے فوراً جواب نہ لکھ سکا، کل آپ کی تحریر فرمودہ فروگزاشت کے لیے مراجعت کی۔ حضرت حماد بن ابی سلیمان ؒ کے بارے میں (ص: ۳۹) میں نے لکھا ہے کہ امام بخاریؒ ومسلمؒ نے ان سے روایت کی ہے، چنانچہ امام بخاریؒ نے ’’الأدب المفرد‘‘ میں اور مسلمؒ نے ’’صحیح‘‘ میں روایت کی ہے۔ ’’تہذیب‘‘ ( ’’تہذيب التہذيب‘‘) میں بھی ’’بخ‘‘ اور ’’م‘‘ کے نشان موجود ہیں۔‎ 
اس لیے جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے وہ بھی درست ہے؛ کیونکہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ان سے روایت نہیں ہے، اگرچہ اقوال اس میں بھی موجود ہیں۔ ’’قال حماد‘‘ سے نقل کرتے ہیں، جس پر (مولانا محمد انور) شاہ صاحب (کشمیری) کے ’’ملفوظات‘‘ (ملفوظاتِ کشمیری) میں، (اور) میں نے کچھ ’’نقش‘‘ میں لکھا بھی تھا، غالباً ملاحظہ سے گزرا ہوگا۔ ایک ’’قال حماد‘‘ تو (ص :۳۰۶) بخاری میں ہے، اور وہ یہی حماد ہیں۔ میرا مقصد تو صرف یہ تھا کہ امام بخاریؒ ومسلمؒ کے شیوخ میں (سے) ہیں۔ اُمید ہے کہ پوری کتاب (حصہ اول، ’’انوار الباری‘‘) جلد ملاحظہ فرماکر مجھے اپنے قیمتی مشوروں سے مستفید کریں گے؛ تاکہ دوسرے حصے میں ان کی رعایت ہو۔‎ 
اس (مقدمہ ’’انوار الباری‘‘) میں امام بخاریؒ سے اب تک کے اکابر محدثین کے تذکرے آئیں گے۔ مولانا ابوالوفاء صاحب (افغانی) نے بھی حیدرآباد سے تذکروں کے قیمتی ہونے کا ذکر کیا ہے۔ افسوس کہ ’’ذیول تذکرۃ الحفاظ‘‘ علامہ (محمد زاہد) کوثری کی تعلیقات والے یہاں کہیں نہیں ہیں، ورنہ ان سے مزید حالات لیے جاتے۔ حضرت (مولانا محمد انور) شاہ صاحب رحمہ اللہ کے حالات صرف علمی، بلکہ محدّثانہ رنگ کے لکھوں گا، اور خصوصی تلامذہ کے تذکرہ میں آپ کا بھی ذکر آئے گا، ورنہ یوں زندہ حضرات کے تذکرے کم آئیں گے بجز چند کے، جیسے: شیخ الحدیث (مولانا محمد زکریا کاندھلوی) سہارن پوری، مفتی (مہدی حسن شاہ جہان پوری) صاحب، وغیرہ، مولانا (محمد ادریس) کاندھلوی، مولانا فخر الدین (مراد آبادی) صاحب۔ آپ حضرات کا تذکرہ حضرت شاہ صاحبؒ کے ساتھ آئے گا۔ امید ہے کہ آپ بھی اس خیال سے اتفاق کریں گے، جو رائے ہو لکھیے گا۔‎ 
بعض حضرات نے خواب میں حضرت شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کو دیکھا کہ دارالعلوم (دیوبند) میں پھر تشریف لائے، اور دار الحدیث میں درس دیا، سامنے ’’انوار الباری‘‘ بھی ہے، اس کو وہیں مطالعہ فرماکر تحسین کی، اور یہ بھی فرمایا کہ : ’’اس (مرتّبِ کتاب) کو یہ کام پہلے سے کرنا چاہیے تھا۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا کہ: ’’ترمذی کا (کام) بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔‘‘ خواب کی بات ہی کیا؟! تاہم عجب نہیں کہ خدا محض اپنے فضل سے ان حضرات کی توجہات کا کچھ حصہ اس طرف مبذول کرادے، اور اس ظلوم وجہول سے محض اس کی توفیق سے کچھ کام ہوجائے، ورنہ آپ حضرات کی موجودگی میں اس طرف قدم بڑھانا میرے لیے کہاں موزوں تھا؟‎! 
دسویں صدی تک حالات کی کتابت ہوچکی ہے، اس حصہ میں تقریباً چار سو محدثین آئیں گے۔‎ 
ایک بات خاص طور سے جلد غور فرماکر مجھے لکھیے: حضرت شاہ ولی اللہ صاحب (دہلویؒ) کے حالات میں علامہ کوثریؒ کی تنقید نقل کروں یا نہیں؟ (1) مولانا ابوالوفاء اور مفتی (مہدی حسن) صاحب کی تو رائے ہے کہ علامہ کوثریؒ کے حوالہ سے نقل کردو۔ آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔ زیادہ تردّد صرف عالمِ مثال کے مسئلہ سے ہے کہ بظاہر کوثری صاحبؒ نے اس سے انکار کیا ہے، اور ہمارے حضرات اس کو مانتے آئے ہیں، اور ماننا بھی چاہیے۔ ایک احتمال یہ ہے کہ کوثری صاحب اس ’’اصطلاح’’ (عالمِ مثال) پر نکیر کرتے ہوں، یوں حقیقت کے معترف ہوں۔ اور ’’عبقات‘‘ (شاہ اسماعیل شہید  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب) میں بھی اس اصطلاح سے انکار ہوسکتا ہے، مگر حقیقت کا وجود ماننا پڑے گا۔ آپ نے کوثری صاحبؒ سے کچھ زبانی بھی سنا ہوگا، یا کسی جگہ انہوں نے اس کے بارے میں اپنے خیالات لکھے ہوں تو اس کی نشان دہی کردیں۔‎ 
دوسری (بات) یہ کہ کوثری صاحب کے حالات میں اگر کسی خاص خاص مسئلہ میں واقعی غلطی یا بے جا تشدد ہوا ہے تو اس کو بھی ہمیں لکھ دینا چاہیے، اور ان کی تعیین بھی آپ فرمادیں۔‎ 
علامہ ابن تیمیہؒ کے حالات میں‘ میں نے ان کے تفرّدات پر اپنے اکابر کی تنقید لکھ دی ہے، اور دوسرے کمالات بھی بطورِ مدح لکھ دیئے ہیں۔ مسائل پر بحث شرح میں آئے گی۔ نیز میں نے ان حضرات سے فقہی مسائل میں ان کی تائید واتفاق سے فائدہ بھی اٹھایا ہے، جیسا کہ امام صاحب (امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ ) کی مدح میں ابن تیمیہؒ کے اقوال نقل کیے ہیں۔ اپنی رائے لکھیے گا۔‎ 
امام بخاریؒ کے اس قدر زیادہ امام صاحبؒ وغیرہ سے بُعد وتنفّر کی معقول وجہ اب تک نہ ملی، اس پر بھی آپ روشنی ڈال دیتے تو اچھا ہوتا۔‎ 
ابن حزمؒ کی دراز لسانیوں کا بھی کچھ جواب دینا ہے، ’’القدح المعلّی لردّ المحلی‘‘ (2) تو ملتی نہیں، کسی اور جگہ سے سامان (متعلقہ مواد) مل سکے تو اس کی نشان دہی کریں۔‎ 
افسوس ہے کہ زیادہ ضرورت کے وقت آپ سے مستفید ہونے سے معذور ہوں، تاہم آپ کے کچھ اشارات، نشان دہی، اور خاص معاملات میں صرف رائے بھی کافی ہے، اس لیے تکلیف دیتا ہوں۔ واللہ یُعینکم وینصرکم ویبارک في علمکم وعمرکم‎! 
افسوس کہ ’’عبقات‘‘ (مطبوعہ: مجلسِ علمی) میں مہم اغلاط رہ گئیں، اور مطبوعہ نسخہ میں بھی تھیں، بطور مثال کچھ دیکھے ہوئے حصہ سے چند اغلاط لکھ کر مولانا طاسین صاحب کو بھیج دی ہیں۔‎ 
ارادہ ہے کہ چند روز کے لیے لائل پور (حال فیصل آباد)، بہاولپور، کراچی کا سفر کروں۔ بہاولپور سے مولانا ناظم صاحب وغیرہ بھی بلا رہے ہیں، اور توقع دلاتے ہیں کہ (کتابوں کے) کئی سو خریدار کرادیں گے۔ مولانا محمد انوری صاحب (تلمیذ علامہ کشمیریؒ، مقیم فیصل آباد) نے بھی خریدار بھیجے، یوں بھی اس وقت زیادہ تر خریدار پاکستان کے ہی ہیں۔‎ 
علامہ کوثریؒ کی ’’التاج اللُّجیني‘‘ (3) آپ کے پاس ہے یا نہیں؟ عینیؒ کے شروع میں جو اس کا خلاصہ بطور مقدمہ ہے، اس سے حالات لیے ہیں، اور بھی چند تصانیف نہیں ہیں، کیا سب کہیں سے ملتی ہیں؟ ’’مقالات‘‘ (مقالات الکوثري) تو میں نمنکانی (مصر کے مشہور عالم اور کتب فروش) سے لے آیا تھا۔
مولانا طاسین صاحب سے فرمائیے کہ مقدمہ (انوار الباری) پر رسائل واخبارات میں تبصرہ کرادیں، جیسا کہ انہوں نے وعدہ بھی کیا تھا، اس کے لیے جس جس کو وہ لکھیں گے کتاب بھیج دوں گا۔ ایک شخص کو صرف ایک کتاب جاسکتی ہے۔‎ بچوں کی عافیت، اپنی صحت وغیرہ سے مطلع فرماتے رہیں، اور دراز نفسی کو معاف کریں۔‎                                                والسلام‎ 
                                                              احقر احمد‎ (دیوبند‎ )
                                                           ۶؍‎ دسمبر سنہ ۶۱ء

حواشی

(1)  علامہ کوثریؒ  نے ’’حسن التقاضي في سیرۃ الإمام أبي یوسف القاضي‘‘ کے آخر میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ  کی بعض آراء پر تنقید کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
(2)  بعینہ اس نام سے کوئی کتاب تلاش بسیار کے باوجود ہمیں نہیں ملی، البتہ اس کے قریب قریب نام کی ایک اور کتاب ہے: ’’القدح المعلی في الکلام علٰی بعض أحادیث المحلّی‘‘ یہ کتاب قطب الدین عبدالکریم بن عبدالنور حلبی کی ہے، ممکن ہے یہی کتاب مراد ہو، نیز ’’القِدح المعلّی في إکمال المحلّی‘‘ کے نام سے محمد بن خلیل عبدریؒ کا تکملہ بھی ہے۔
(3) مکمل نام ’’تذھیب التاج اللُّجیني في ترجمۃ البدر العیني‘‘ ہے، یہ رسالہ ’’دارُ النور المبین‘‘ اُردن اور دیگر اداروں سے شائع ہوچکا ہے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین