بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا احمد رضا بجنوری   رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ

مکاتیب حضرت مولانا احمد رضا بجنوری  رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
۱۳؍ ‎نومبر ۱۹۴۳ء
مکرم ومحترم مولانا البنوری دامت ألطافکم‎!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎! ‎

گرامی نامہ مؤرخہ ۹ ؍ذیقعدہ کل ملا، شکریہ! میں نے بھی ۷ ؍نومبر کو ایک کارڈ بھیجا تھا۔ اُمید ہے کہ وہ خط ملا ہوگا۔۔۔۔حضرت مولانا شبیر احمد صاحب (عثمانی) مدظلہ کا خط ملا ہے، وہ اس آئندہ سہ شنبہ (منگل) تک آجائیں گے۔۔۔۔ سنا ہے کہ مولوی عبد الجبار صاحب بھی نہیں آئیں گے، آپ سے شاید ملے ہوں۔ ۔۔۔ مشہور ہے کہ مولوی شمس الحق صاحب (افغانی) قلات والوں کو بھی دعوت دی ہے۔ ۔۔۔اب مہتمم صاحب، مولوی ابراہیم کاوی صاحب کو بلا رہے ہیں؛ کیونکہ مولوی سعید صاحب ان کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔‎ ‎آپ کی ملاقات مولوی ہاشم صاحب سے ہوگئی، بہت اچھا ہوا۔ میں ان کو جلد خط لکھوں گا، اور آپ کی ملاقات کا بھی حوالہ دوں گا، امید ہے کہ آپ کی گفتگو کا اثر اچھا ہوا ہوگا، اور شاید وہ خود ہی سعی کرکے بقیہ مطبوعات بھجوا دیں۔ حیدرآباد سے مولوی عزیز احمد صاحب نے اپنی کتابیں وضع کرکے باقی بھیج دی ہیں، میں نے تجلیف کے خیال سے پارسل سورت منگوایا ہے، ابھی دو تین روز قبل پارسل آیا ہے۔ جو یادداشت پہلی مولوی صاحب موصوف نے بھیجی تھی، اس کے مطابق ہی (کتابیں) آئی ہیں، بلکہ ’’إعراب القرآن‘‘ اور ’’المعتصر‘‘ بھی نہیں وصول ہوئیں، وعدہ ہی ہے۔‎ 
مولانا آجائیں تو ان سے بھی مہدی یار جنگ کو پھر خط لکھوانے کا ارادہ ہے۔ نواب صدیق حسن خان صاحب کی کتابیں خرید لینی چاہئیں، ضرورت پڑتی ہے، اور بعض مفقود ہوگئی ہیں۔ آپ بھی جو کتابیں مجلس (علمی) کی ضرورت کی مل سکیں ضرور خرید لیں، اور قیمت ہم سے منگوالیں۔‎ ‎
’’‎مخزنُ الادویہ‘‘ کی صرف جلد اول اگر کارآمد ہو، یا دوسری سے اول زیادہ نافع ہو تو ضرور خرید لیں اگر قیمت مناسب ہو، ورنہ پھر مکمل ہی کی فکر کریں۔ فارسی کا ’’مخزنُ الادویہ‘‘ پرانا نسخہ بھی خرید لیں، اچھا ہے۔ ’’رموز الاطباء‘‘ جلد دوم شاید نہ ملی ہوگی، اور نہ ’’مخزنِ حکمت‘‘ جلد دوم، ورنہ آپ ضرور ذکر کرتے۔‎ ‎’’جامع الحکمت‘‘ ہر دو جلد مکمل کا بھی کوئی پرانا نسخہ مناسب قیمت سے مل جائے تو خریدلیں۔ مولانا عبد الحی صاحب (لکھنوی) کے رسائل بھی کچھ ملیں تو خرید لیں، بازار وغیرہ سے۔مخدوم محترم حضرت والد صاحب قبلہ (مولانا محمد زکریا بنوری صاحب) اور دیگر حضرات کی خدمت میں سلام مسنون۔ اگر والد صاحب کی طبی کتب میں کوئی بہت اچھی کتاب ہو اور وہ مل سکے تو خرید لیں۔ اس سال یہاں (گجرات، انڈیا) متوسط درجہ کی گائے ایک سو (۱۰۰) کی اور بکرا چالیس (۴۰) کا اچھا ملتا ہے، اور بہت اچھی گائے سوا سو ڈیڑھ سو تک ہے۔ مہتمم صاحب نے کہا کہ آپ نے وہاں (پشاور میں) گائے کی قیمت پچاس روپے (۵۰) لکھی ہے، تعجب ہوا؛ کیونکہ دو تین سال قبل بھی ہماری طرف (بجنور میں) ۳۵،۴۰ کی گائے اچھی ملتی تھی، اور اب تو ادھر بھی متوسط ۶۰-۷۰ میں ملے گی، جو کسی درجے میں یہاں (ڈابھیل) کے افریقی مالداروں کے لیے قربانی کے واسطے موزوں ہو۔ عزیزہ عائشہ سلمہا کیسی ہے؟ اس کا بھی کچھ حال لکھا کریں، باقی حالات بدستور ہیں۔ انگور وسیب وغیرہ کے نرخ کیا ہیں؟ چڑے بھی ارزاں ہیں یا نہیں؟ شہد کا نرخ کیا ہے؟‎          والسلام‎ ‎
                                                                                                                                                                        احقر احمد رضا عفا اللہ عنہ (از سملک)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ یکم اپریل سنہ ۴۵ء ، یک شنبہ (اتوار‎)
مکرم ومُخلصم مولانا  دام کرمُکم‎ ! ‎
سلامِ مسنون‎! ‎

پرسوں آپ کا کارڈ ملا، حالات وخیریت معلوم ہوکر اطمینان ہوا، افریقہ سے بھی خط آیا ہے، ارسال کرتا ہوں۔ ارسالِ (کتب خانہ) مجلس (علمی) کے متعلق میرے خط میں الفاظ حسبِ ذیل ہیں‎:
’’‎مجلس کو سملک سے کسی مرکزی جگہ پر لے جانے کے لیے اور رسالہ ماہانہ کے اجراء کے بارے میں جنگ اور گرانی کی وجہ سے بہت سے اشکالات ہوں گے، اور اس لیے فی الحال مناسب نہیں ہے۔ تاہم آپ اس بارے میں تحقیق، تلاش وتجویز کیجیے، اور دونوں کاموں کے تخمینے تیار فرمائیے؛ تاکہ اس پر غور کیا جائے، اور اسباب فراہم ہوسکیں، اس سلسلے میں اخراجاتِ سفر وغیرہ مصارف کے لیے دو سو روپے خرچ کیجیے، اور اچھی، مناسب اطمینان کی جگہ تلاش فرماکر روئیداد لکھ بھیجیے، ان شاء اللہ سرمایہ مہیا ہوجائے گا۔‘‘
دوسرا جزء یہ ہے‎:
’’‎گزشتہ سالوں کے ’’الفرقان‘‘ (لکھنو) میں ’’جماعتِ اسلامیہ‘‘ اور ’’دارالاسلام‘‘ لاہور کا کچھ حال پڑھے، اس تجویز کے متعلق آپ کی اور مولوی محمد یوسف صاحب سلمہ کی کیا رائے ہے؟ اور یہ خیال کامیاب ہوا یا نہیں؟ اگر معلوم ہو تو تفصیل سے لکھیے۔‘‘
تیسرا جزء یہ ہے‎:
’’برادر مولانا محمد یوسف صاحب کے متعلق اجمالی جواب حسبِ طلبِ آں محترم تار سے لکھ چکا ہوں، اس بارے میں مولانا احمد بزرگ صاحب، حاجی ابراہیم چچا صاحب اور آپ جو کچھ مناسب تجویز فرمادیں، مجھے منظور ہے۔‘‘
پہلی چیز کہ اپنے اور میرے خط کے الفاظ کی روشنی میں غور کیجیے کہ ان کا جواب تسلی بخش ہے کہ نہیں؟ میں نے مولوی عتیق الرحمٰن صاحب (عثمانی) اور مولوی حکیم اسماعیل کو دہلی خطوط لکھے ہیں کہ کوئی جگہ ’’قرول باغ‘‘ یا ’’دریا گنج‘‘ میں تجویز کریں، یا وہاں (دہلی میں) اس وقت ممکن نہ ہو تو شاہدرہ (مضافاتِ لاہور) وغیرہ میں۔ غرض اس سفر میں اس چیز کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔ دوسری چیز کے متعلق بھی آپ اب جدید معلومات کچھ ادھر سے فراہم کریں کہ اب یہ لوگ کچھ کر رہے ہیں یا نہیں؟‎ تیسری چیز کا تعلق آپ کی تنخواہ وغیرہ سے ہے، اس لیے اس کو ڈابھیل واپس ہوکر طے کرلیا جائے گا، ان شاء اللہ‎! ‎
’’‎دیوبند‘‘ سے حضرت مولانا (محمد انور) شاہ صاحب (کشمیریؒ) کی کتابیں ابھی تک ’’ڈابھیل‘‘ نہیں گئیں، اب میں نے خط لکھا ہے کہ ان کو ’’بجنور‘‘ ہی بھیج دیں؛ تاکہ یہاں ہم قیمت کا تعین کردیں، اور صرف ضرورت کی کتابیں یہاں سے ساتھ لے جائیں یا روانہ کردیں، اور باقی یہاں محفوظ کردیں کہ پھر دہلی وغیرہ کو ’’مجلس‘‘ منتقل ہوگی تو وہاں چلی جائیں گی۔ آپ اُمید ہے کہ ’’بجنور‘‘ تشریف لائیں گے، اسی وقت یہ کام بھی ہوجائے گا، ان شاء اللہ‎! بخدمتِ والد صاحب قبلہ (مولانا محمد زکریا بنوری)، ماموں صاحب (مولانا فضل صمدانی) اور سردار گل صاحب وغیرہ سلامِ مسنون‎! ‎
واپسی کا ارادہ کب تک ہے؟ اگر ممکن ہو تو ’’احرار کانفرنس، بجنور‘‘ میں شرکت کریں۔ مولانا حسین احمد صاحب (مدنی) کا بیان ’’زمزم‘‘ (اخبار) اور مدینہ(اخبار) میں شائع ہوا ہے، دیکھ لیں۔ ڈابھیل سے مولوی حبیب اللہ صاحب کا خط ملا تھا، آپ کے گھر پر سب طرح خیریت لکھی ہے۔ یہاں والدہ صاحبہ اور سلیم سلمہ کا علاج ہو رہا ہے، دونوں کو اِفاقہ ہے، البتہ بچی کو ادھر کا دودھ موافق نہیں، اس لیے رُو بہ انحطاط ہے۔  والسلام
                                                                                                                                                                                                        احقر احمد رضا عفا اللہ عنہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  بنام مولانا بجنوری رحمۃ اللہ علیہ 

ہو اللہ‎! ‎

المجدُ عُوفي إذ عُوفيتَ والکرمُ
وزالَ عنک إلٰی أعدائک الألَمُ
۔۔۔۔
صحّتْ بصحّتِک الآمالُ وابتہجتْ
بہا الـمَکارمُ وانہلّت بہا الدِّيَمُ
السيّد السميدع المحترم العلّامۃ، أطال اللہُ حياتَکم الطيّبۃ في توفيقٍ لخدمۃ الدين، آمين‎! ‎

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎! ‎

والا نامہ نے سرفراز فرمایا، ازالۂ درد وکرب سے خوشی ہوئی، لیکن بقاء ضعف سے بہت فکر ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے صحتِ کاملہ اور شفاء عاجل نصیب فرمائے، اور قوت وتوانائی دے؛ تاکہ علمی ودینی مُہمّات انجام دینے میں مزید تعویقات (رُکاوٹیں) پیش نہ آئیں۔ یہ ضروری ہے کہ جب تک پوری صحت عود کر نہ آئے دماغی بوجھ نہ اُٹھانا چاہیے۔ آپ کا مکتوبِ گرامی پہنچنے سے پہلے عریضہ ارسال کردیا تھا، ملاحظۂ سامی سے گزرا ہوگا۔’’سید پور‘‘ اور ’’بھاگل پور‘‘ حضرت مولانا حسین احمد صاحب (مدنی) پر شدید قاتلانہ حملے ہوئے، اخبارات میں پڑھ چکے ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور بچالیا۔ کل ہی ایک خط سے معلوم ہوا کہ ’’سید پور‘‘ کے اسٹیشن پر جس شقی نے حضرت کی ٹوپی پاؤں سے روندی تھی، اور پھر جلائی تھی، اگلے دن دریا میں غرق ہوگیا۔ اور جس تھانہ دار نے لیگی ہونے کی وجہ سے انتہائی تغافل کیا تھا، اس کا نوجوان لڑکا اگلے ہی روز مرگیا۔ نعم، ’’من آذی لي ولیًّا فقد آذنتہٗ بالحرب‘‘ صدق اللہُ ورسولُہ الکريم‎۔
(‎کتب خانہ مجلسِ علمی، ڈابھیل کے) دہلی منتقل ہونے میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے تعویق ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ کوئی صورت مہیا فرمائے۔(حاشیہ:1)

(حاشیہ:1)

نوٹ: اس مکتوب پر تاریخ درج نہیں، لیکن خط کے مندرجات کی بنا پر قرینِ قیاس ہے کہ سنہ ۱۹۴۶ء  کی کسی تاریخ کو لکھا گیا ہے، انہی دنوں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے ساتھ مذکورہ ناخوش گوار واقعہ پیش آیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیے: چراغِ محمد از مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی رحمہ اللہ، ص: ۴۲۲ تا ۴۲۷، ط: دارالارشاد ، اٹک۔ ‎

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین