بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا ابوالوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ


مکاتیب حضرت مولانا ابوالوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

 

مکتوب حضرت مولانا ابو الوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 
 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
از جلال کوچہ نمبر ۴۶۵ حیدر آباد، دکن
یومِ دو شنبہ ۲۵ جمادی الآخرہ سنہ ۸۱ھ
عزیزِ محترم سلمہ اللہ !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

ماہِ صیام مبارک میں مکتوبِ گرامی، جو کہ حسابات مجلس احیاء المعارف النعمانیہ کی کتبِ فروخت شدہ پر مشتمل تھا، وصول ہوا، مگر میری کم فرصتی کی وجہ سے جواب کا موقع نہ ملا۔ آپ نے اتنا بڑا سفرِ مبارک ختم کرکے پھر واپس آنے کے بعد بھی خط لکھا، مگر میں یہاں بیٹھا ہوا بھی آپ کا جواب نہ دے سکا، اور یہ سب اس لیے کہ ’’یک انار صد بیمار‘‘ کی مثل صادق آرہی ہے، اس پر اللہ جل شانہ کی حمد ہے کہ آپ کو حج وعمروں کے ثواب سے مالامال کردیا: 


ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ (1)

ایک مُذنبِ پُرتقصیر یہاں بھی بیٹھا ہے کہ صرف آرزوئیں کر کر رہ گیا ہے، مگر گھر عارضی سے باہر نکل نہ سکا، نہ صرف آرزوئیں، بلکہ دعائیں کر کے بھی عمر گزر گئی، مگر قبولیت کہاں؟! مُذنبین کی دعاؤں میں کیا اثر؟! اس کا تذکرہ اس لیے کیا گیا، تاکہ آپ کو مزید شکرِ باری کا موقع ملے:

قومے بہ جدوجہد گرفتہ وصلِ یار 

قومے دِگر حوالہ بہ تقدیر می کنند (2)

آپ نے (مجلسِ احیاء المعارف النعمانیہ کی) رکنیت (سے) استعفا لکھ کر بھیجا ہے، آپ تو علمی رکن ہیں، اس سے استعفا کے کیا معنی؟! کیا علم کو استعفا ہے؟! وہ تو موت تک ساتھ رہتا ہے۔ حسابات عارضی طور پر آپ کے ذمہ آئے کہ مصر سے ’’مختصر‘‘ (مختصر الطحاوي) کے نسخے سہو سے آپ کے نام آگئے، ورنہ میں آپ کو تکلیف نہ دیتا۔ چند دن پہلے مجلسِ انتظامی منعقد ہوئی تھی، میں نے اس میں آپ کا استعفا پیش نہیں کیا، نہ کرنے کا خیال ہے، کتابیں اپنے پاس رکھیں، حساب اس کا مولانا عبد الرشید نعمانی اپنے پاس رکھیں، لیکن فروخت کا انتظام آپ اپنے پاس رکھیں، آپ کی ترغیب سے یہ کتابیں فروخت ہو سکتی ہیں، دوسرا یہ کام نہیں کرسکتا۔ عرب کہتے ہیں: ’’یا فصيح، إذا بُليتَ فلا تصيح‘‘ ( اے ذکی انسان! جب تم کسی آزمائش میں مبتلا ہوجاؤ تو چیخ وپکار نہ کرنا) یہ (کتب) فروخت ہوجائیں تو اور کتابیں تو آپ کے پاس آنے کی نہیں، کتاب فروخت ہوجائے تو مولانا نعمانی کو بلا کر کہہ دیا کریں، وہ حساب تاریخ وار لکھ لیا کریں۔ تعجب تو یہ ہے کہ آپ ناراض مجھ سے ہوں اور استعفا مجلس کو دیں، مجلس آپ کی قیمتی خدمات کبھی نہیں بھول سکتی، ’’مختصر‘‘ کی طباعت آپ ہی کی رہینِ منت ہے، نہ آپ ہوتے نہ وہ طبع ہوتی، اگر میرے خطوط سے آپ کو تکلیف پہنچ جاتی ہے تو اس پر آپ صبر کریں کہ میرا ذاتی معاملہ نہیں، اور مجھ پر بھی دیانت‘ باعث ہوتی ہے، آپ اللہ جل شانہ سے معاملہ رکھیں: ’’وما عند اللہ خيرٌ للأبرار‘‘ میرے آپ کے ذاتی معاملات میں کوئی خلل واختلاف نہیں: ’’تعاشروا کالإخوان، وتعاملوا کالأجانب‘‘ (بھائیوں کی طرح رہو، لیکن معاملات اجنبیوں کی طرح کرو)۔ 
حلب کو ’’إعلاء السنن‘‘ کے حصے روانہ کرنے ہیں، پتہ میں مولانا نعمانی کے خط میں لکھا ہے، اب دوبارہ لکھتا ہوں، اسے محفوظ رکھیے، شاید کسی وقت کام آئے: ’’شيخ عبد الفتاح أبوغدۃ، بنايۃ کعکۃ، سيف الدولۃ، حلب، سوريۃ (الدولۃ الشاميۃ) ۔ ڈاک پر اس کی جتنے مصارف ہوں، وہ مولانا نعمانی مجھے لکھیں، میں اسے یادداشت میں لکھ کر رکھ لوں گا، اصل قیمت تو آپ نے تحریر کردی ہے۔ یہ خط جو آپ کو لکھ رہا ہوں، اس کی ابتدا (کو) تقریباً پندرہ بیس دن ہوتے ہیں، آج تکمیل ہو رہی ہے، درمیان (میں) دوسرے کام آگئے تو چھوڑ دیا، اب اخیر رات میں لکھنے بیٹھا ہوں، دوسرا وقت نہیں ملتا۔ پھر جب کچھ لکھا اور درمیان میں فترت (وقفہ) ہوئی تو مضمون خبط ہوجاتا ہے، پھر مراجعت کرنے پر بہت وقت صرف ہوتا ہے۔ بہت اشتیاق ہے کہ ایک مرتبہ ادھر آؤں اور سب کی زیارت کروں، کوئٹہ، پشاور، چمن، ملتان، لاہور، سب ہوکر آؤں، مگر ’’کتاب الآثار‘‘ (کی تحقیق وتعلیق) کے ختم تک تو امکان نہیں، بعد (میں) خدا جانے کہ موقع ملتا ہے یا نہیں۔
 آپ کے والد ماجد (مولانا محمد زکریا بنوری  رحمۃ اللہ علیہ ) اور ماموں صاحب (مولانا فضل صمدانی  رحمۃ اللہ علیہ ) کی ملاقات کا بڑا مشتاق ہوں، اللہ جل شانہ میسر فرمائے۔ آپ کے محل مبارک میں بیماریوں سے دل کو بڑی تکلیف ہوتی ہے، کراچی کی آب وہوا کی برکات ہیں اور آپ کے لیے ابتلا، شریفہ عزیزہ بی بی فاطمہ کی بصارت کے متعلق بھی بڑی فکر رہتی ہے۔ افسوس کہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے دعاؤں میں اثر نہ رہا۔ اب تو آپ کو کسی وقت کارڈ لکھنے میں بار (بوجھ) نہ ہوگا، جب حسابات لکھنے کا بار نہ رہا۔
 یہ خبر بڑے افسوس سے لکھتا ہوں کہ شیخ رضوان محمد رضوان (وکیل إحياء المعارف النعمانیۃ في القاہرۃ) کا ۱۵ ربیع الثانی کو انتقال ہوا، تقریباً دو سال سے بیمار تھے، انہوں نے مجلس کی بڑی خدمت کی کہ کوئی نہیں کر سکتا، اللہ تعالیٰ ان کو اس کا اجرِ جزیل عطا فرمائے، آمین! میری عافیت مطلوب ہو تو میں چلتا پھرتا کام بقدرِ قوت، ضعیفی میں کرلیتا ہوں، ایک ضعیفی، دوسری مُزمِن (پرانی) بیماریاں، دوائیں دائم جاری، ہضم خراب، اعصاب نہایت کمزور، جگر ماؤف دائمی، پھر بھی اللہ جل شانہ کی نعمتوں کی بوچھاڑ ہے، جس کے شکر سے یہ عاصی پُر تقصیر عاجز ہے۔ اُمید (ہے) کہ آپ کا مزاج بعافیت ہوگا، محترم حاجی جمال الدین صاحب کی کیفیت سے زمانہ ہوا بے خبر ہوں، کسی وقت ملاقات ہو اور یاد رہے تو اس فقیر عاجز کا سلام پہنچا دیا جائے، اور آپ کے بچوں کو بھی دعا وسلام۔ ودُمتُم بالخير۔             ابو الوفا

 

از جلال کوچہ نمبر ۴۶۵، حیدر آباد دکن، الہند
سہ شنبہ ۲ ؍شعبان سنہ ۸۱ ھ 
عزیزِ محترم حفظہ اللہ ووفّقہ لکلّ خیر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ نے ’’اصولِ سرخسی‘‘ کے متعلق دریافت کیا تھا، وجہ مولانا عبد الرشید (نعمانی) صاحب کو بھی لکھ دی تھی اور آپ کو بھی اس کا علم ہوچکا، مجھے بھی کم فرصتی کی وجہ سے جواب میں بہت دیری ہوجاتی ہے۔ مفتی مخدوم بیگ مرحوم کی وفات کی وجہ سے اب میں غریق متشبِث ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوں، ’’کجا دانند حالِ ما سبک رانِ ساحلہا‘‘ (ساحل پر ٹہلتے لوگوں کو میرے حال کی کیا خبر؟!) آج (کل) ’’کتاب الآثار‘‘ کی تعلیق میں ہی دن گزر جاتا ہے، خبر نہیں ہوتی۔ آپ اور آپ کے امثال کی دعا کا محتاج ہوں۔ کیا ’’إعلاء السنن‘‘ کے اجزاء (حلب سوریہ کی جانب) ارسال کر دیئے گئے؟ بچی کی بصارت کے متعلق لکھیے کہ اب کیا کیفیت ہے؟
 نیز آپ کے ماموں صاحب (مولانا فضل صمدانی  رحمۃ اللہ علیہ ) کے مزاج کی کیفیت سے زمانہ ہوا کہ بےخبر ہوں، ان کے متعلق لکھیے، نیز آپ کے والد ماجد صاحب کے متعلق بھی کہ ان کا مزاج کیسا ہے؟ ان دونوں کے دیدار کا بڑا شوق ہے، لیکن اللہ جل شامہ کو منظور نہ تھا، اب تک میسر نہیں ہوا۔ امید (ہے) کہ مزاجِ گرامی بعافیت ہوگا۔ دو سطر لکھ کر مطلع فرمانے میں زیادہ وقت صرف نہ ہوگا ان شاء اللہ، جمعہ کے دن لکھ سکتے ہیں، میں بھی یہ کارڈ فجر کی نماز سے پہلے لکھ رہا ہوں۔ والسلام ودُمتُم بالخیر                                                                ابو الوفا
پس نوشت: یہ مکتوب، کارڈ پر لکھا گیا ہے، پشت پر پتہ یوں درج ہے: بخدمتِ گرامی مولانا سید محمد یوسف صاحب بنوری دامَ مجدُہ، مدرسہ عربیہ، جامع مسجد نیو ٹاؤن، کراچی نمبر:۵ (پاکستان غربی)

حواشی:

(1) یہ سعادت اللہ تعالیٰ کی عطا کے بغیر اپنی قوت وطاقت کے زور پر حاصل نہیں ہوسکتی۔
(2) کچھ لوگ جدوجہد کرکے محبوب تک جاپہنچے، جبکہ دیگر لوگ یہ معاملہ تقدیر کے حوالہ کیے بیٹھے ہیں۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین