بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا ابوالوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ

مکاتیب حضرت مولانا ابوالوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

مکتوب حضرت مولانا ابو الوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جلال کوچہ نمبر ۴۶۵، حیدر آباد دکن
شنبہ ۲ ؍رجب سنہ ۷۹ھ
عزیزِ محترم مولانا سید محمد یوسف صاحب زاد اللہ فضلاً ورفعۃً! 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! 

امید (ہے) کہ مزاجِ گرامی بعافیت ہوگا۔ بچی کی بصارت کے متعلق اس اثنا میں کیا علاج کیا گیا؟ اور بیماری اب کس درجہ پر ہے؟ تحریر کرنا۔ نیز تحریر کرنا کہ ’’مختصر الطحاوي‘‘ کی صحیح تعداد کیا ہے؟ یعنی ملا خان محمد صاحب مرحوم کے پاس سے کتنے نسخے وصول ہوئے؟ اور ناقص نسخے کی کیا شکل ہے؟ کتنا ناقص ہے؟ اور کس جانب سے؟ نیز ’’اصولِ سرخسی‘‘ کے کتنے نسخے ہیں اس وقت آپ کے پاس؟ اور اس کی کیا حیثیت ہے؟ آپ کے مدرسہ کے لیے لیے گئے یا امانت ہیں؟ اعصاب کی کمزوری کی بیماری مجھے زمانہ سے ہے، لیکن اب بہت بڑھ گئی ہے، بائیں جانب کے اعضاء میں اس کا شدید احساس ہوا ہے۔ خیال تھا کہ آب وہوا کی تبدیلی کے لیے افغانستان جاؤں، لیکن آج کل وہاں کا ماحول شاید سازگار نہ ہو کہ اختلافات ہیں اور پکڑ جکڑ، علماء کا گروہ حکومت کے خلاف ہے۔ پاکستان آب وہوا کی تبدیلی کے لیے جاؤں تو شاید سفیرِ افغانستان کی جانب سے اجازت ملتی ہے یا نہیں؟ اور موسم بھی ناسازگار ہے۔ اُمید (ہے) کہ آپ مع اہل وعیال بعافیت ہوں گے۔ ماموں صاحب (حضرت بنوری کے ماموں مولانا فضلِ صمدانی صاحب رحمہما اللہ) کے مزاج کی خبر ہو تو مطلع کرنا۔ اور عزیزم مولوی عبدالرشید (نعمانی) صاحب کو میرا سلام کہہ دینا۔   والسلام ودُمتُم بالخیر!                                                 ابوالوفا
نوٹ: یہ مکتوب کارڈ کی صورت میں ہے، پتہ مندرجہ ذیل الفاظ میں درج ہے: بخدمتِ گرامی جناب مولانا سید محمد یوسف صاحب بنوری، صدر مدرس مدرسہ عربیہ، جامع مسجد نیو ٹاؤن، کراچی پاکستان (غربی)

 

از جلال کوچہ نمبر ۴۶۵، حیدر آباد، دکن (ہند)
دوشنبہ ۲۲ ؍ماہِ مبارک صیام سنہ ۷۹ھ
عزیزِ محترم أدام اللہ بقاءَہٗ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! 

مکتوبِ مبارک وصول ہو کر موجبِ مسرت ہوا۔ افریقہ سے خط آیا کہ سملک (گجرات، انڈیا) سے چار سو روپے آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ خط آکر کئی دن ہوئے، لیکن آج تک سملک سے روپے نہیں آئے۔ نیز افریقہ کے خط میں لکھا تھا کہ ’’النکت‘‘ کے دو نسخے مجلسِ علمی کو نہیں پہنچے، جس سے مجھے تعجب ہوا، ۴ نسخے آپ کے نام ارسال کیے تھے، ایک آپ کا، اور ایک عزیزم مولوی عبدالرشید کا، دو مجلسِ علمی کے، وصول ہونے کی اطلاع بھی آپ نے دی تھی، اور نسخوں کے مستحقین کا بھی ذکر آپ نے کیا تھا، کیا واقعہ ہے؟ تحریر فرمائیں۔ 
(کتابوں کی خریدوفروخت کے حساب میں) آمد وخرچ سب وضع کرکے تفصیل روانہ کرنا، تاکہ یہاں مجلس کے حسابات کے کتابچہ میں درج ہو، اور میں ذمہ داری سے سبک دوش ہوں، کیونکہ دیانت کے خلاف ہوگا کہ میں مرجاؤں اور حساب غیر مکتوب غیر فیصل شدہ رہ جائے اور میرے بعد معتمدِ مجلس کو حساب نہ ملے۔ 
افریقہ سے ۱۰؍ شعبان کو خط آیا کہ مجلس کی رقم مولانا بنوری کی جانب سے آپ کے ہاں سملک سے آجائے گی، آج ۲۲؍ ماہِ صیام ہے، مگر رقم اب تک نہیں آئی۔ توقع ہے کہ وصول ہوجائے گی، ان شاء اللہ! آپ نے مجھے آب وہوا کی تبدیلی کے لیے کراچی آنا تحریر فرمایا ہے، اس کا میں کیا جواب دوں کہ اول تو میرے پاس اتنا دور سفر کرنے کا سروسامان ہی نہیں کہ وہاں پہنچ سکوں۔ دوسرے وہاں خرچ کرنے کا مسئلہ ہے۔ علاوہ ازیں کراچی کی آب وہوا تو تن درست کو بیمار کرتی ہے، نہ کہ وہاں بیمار اچھا ہو۔ البتہ کوئٹہ وپشاور کی آب وہوا سے فائدہ ممکن ہے، لیکن میں اتنا مصارف کہاں سے کرسکوں؟ نیز اب سر پر گرمی آرہی ہے، اور اُدھر کی گرمی بہت تیز ہوتی (ہے)، جسے میں سہہ نہیں سکتا۔ اب تک جاڑا موافق ہوتا تھا، اس سال وہ بھی موافق نہ رہا، اور جاڑے میں مرض کی زیادتی ہوئی۔ علاوہ ازیں ویزہ وقت پر ملنا بھی کارے دارد! اور اس وقت افغانستان وپاکستان کا اختلاف شباب پر ہے، یہاں کا سفیر وہاں کا ویزہ دیتا ہے یا نہیں؟ غرض کہ دل تو تبدیلِ آب وہوا کا خواہاں ہے، لیکن اسباب نا مساعد ہیں، کیا کیا جائے؟! 

دل مانگے ہے رام کو تن مانگے آرام
دبدا میں گئے دونوں مایا ملی نہ رام 

ایک چیز بہت ہی تعجب کی ہے کہ آپ کے مکاتیب اکثر بلا تاریخ ہوتے ہیں، جس سے بعد از وقت بڑی دقت ہوتی ہے کہ کونسا کب کا؟ اور کونسا مقدم وکونسا مؤخر ہے؟ اہلِ علم کی شایانِ شان نہیں کہ تاریخ جیسی اہم چیز کو فراموش کر دیں۔ مفتی (مہدی حسن شاہ جہانپوری) صاحب کا میرے پاس بھی ایک زمانہ کے بعد خط آیا، وہ بھی جواباً، جس سے معلوم ہوا کہ بیماریوں نے ان کو بہت ضعیف کر دیا ہے، ان کی ہستی اس وقت لاثانی ہے، اللہ جل شانہ ان کو صحت وعافیت سے باقی رکھے، آمین! 
سیدہ فاطمہ سلّمہا کی نابینائی پر دل کو بہت رنج ہے: يا أسفٰی علی يوسف! لیکن اس فقیر کی رجاء منقطع نہیں، واللہ المستعان! 
حلب (شام) سے چند ایام قبل خط آیا کہ ’’مختصر الطحاوي‘‘ کو پھر نصاب کے بیرون (خارج) کردیا گیا، اور اس کے عوض ’’تحفۃ الفقہاء‘‘ ، ’’بدائع‘‘ کا متن طبع کرکے مقرر کر دیا گیا۔ ۶؍ ماہِ صیام مبارک کو آپ کا دوسرا مکتوب بھی وصول ہوا، جواب میں بہت دیری ہوئی۔ ماہِ صیام اور بیماری وضعف، ہاتھ سے کچھ نہیں ہوسکتا، یہ خط میں شعبان سے لکھتا آرہا ہوں کہ آج اس کی تکمیل ہوئی، بحمد اللہ! اس کی نقل بھی کرنی پڑتی ہے، اس لیے اور تاخیر ہوجاتی ہے۔ کتنا بھی آپ کا شغل زاید ہو، مگر جواب اس کا اوائلِ شوال میں جلد ادا کیجیے، تاکہ حسابات مکمل ہوجائیں۔ آب وہوا کی تبدیلی کا بہت خیال ہے، مگر کوئی صورت سمجھ میں نہیں آتی۔ والسلام ودُمتم أنتم وأھل بیتکم بالخیر والعافیۃ! 
مولوی عبدالرشید (نعمانی) صاحب کو فقیر کا سلام پہنچا دیا جائے، نیز اور کوئی دوست واحباب پرسانِ حال ہوں تو ان کو بھی۔                                                   ابوالوفا
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین