بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا ابوالوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ

 

مکاتیب حضرت مولانا ابوالوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

 

مکتوب حضرت مولانا ابو الوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
از جلال کوچہ، حیدرآباد دکن (ہند) 
چار شنبہ ۱۸؍ صفر سنہ ۷۸ھ 
عزیزِ محترم مولانا سید محمد یوسف صاحب دام مجدُہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ!

کرم نامہ بلا تاریخ ۱۶؍ صفر کو وصول ہوا۔ خوشی ہوئی کہ کتابیں ارسال ہوئیں، مجھے حلب (شام) سے وصول یابی کی اطلاع وصول نہیں ہوئی، امید (ہے) کہ وصول ہوئی ہوں گی، میں دریافت کرتا ہوں، نہ پہنچی ہوں تو ڈاک خانہ میں دریافت کرنا، تفصیلی حساب لکھنے کی بہت جلد ضرورت ہے۔ میں ہر طرف سے تعلقات قطع کرتا جاتا ہوں کہ میں ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوجاؤں، کیونکہ اب زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ نور محمد (کراچی کے معروف کتب خانہ کے مالک) سے بھی رقم حاصل کرلیجیے، تاکہ ان سے تعلق باقی نہ رہے، بہت ہی سبک آدمی ہے، قابلِ تعلق نہیں۔ کوئٹہ کو جو کتابیں ’’مختصر الطحاوي‘‘ و ’’أصول السرخسي‘‘ آپ نے ارسال کی تھیں، وہ بھی آپ کے پاس واپس آنے والی ہیں۔ 
واقع یہ ہے کہ ہمارے دوست حافظ خان محمد کا انتقال ہوگیا ہے، ان کے پاس ۴۹ عدد (نسخے) ’’مختصر‘‘ کے اور ۲ عدد اصول کے امانت ہیں۔ اتنے عرصہ میں ان کے پاس صرف دو ہی نسخے مختصر کے بکے اور اصول کے ۳؍ عدد میں نے قندھار بھجوائے تھے، باقی دو ویسے ہی ان کے پاس ہیں، میں نے پرسوں وہاں لکھا ہے، اگر ان کتب کا حساب مل گیا تو آپ کے ہاں واپس ہوں گی۔ آپ موجودہ فروخت شدہ کتب کا حساب ارسال فرمائیں، تاکہ میں دفتر میں اس کا حساب لکھ کر رکھ لوں۔ آپ نے لکھا ہے کہ ضعفِ اعصاب میں مبتلا ہیں، افسوس آپ کی جوانی کا عالم ہے، اس میں یہ عارضہ موجبِ خسرانِ علم ہے، اللہ جل شانہ آپ کو صحت عطا فرمائے۔ مجھے اڑھائی سال ہوئے کہ مسلسل اس مرض کی دوا کھا رہا ہوں، اور اس پر بھی آئے روز کچھ نہ کچھ کھٹ کھٹ رہتی ہے۔ 
آپ فرماتے ہیں (کہ) قندھار کا ارادہ تو نہیں، کاش! اس بہانہ سے زیارت نصیب ہوتی، ہيہات!، اب میری اور آپ کی ملاقات بظاہر ناممکن ہے، مجھ میں اور آپ میں بُعد المشرقین ہے، کہاں میں اور کہاں قندھار؟! نہ بدن میں خم وکس ودم اور نہ اتنے مصارف کہ سفر کرسکوں۔ اس وقت بھی مصارف‘ قندھار سے آئے تھے، اور کچھ مرحوم مفتی مخدوم بیگ نے دیئے تھے۔ جب میں آپ کی گلی میں تھا اور ملاقات کے لیے تڑپتا تھا تو آپ نے پیٹھ پھیر دی، اور کوئی خواہش نہ کی، اب خواہش کی کوئی صورت ہی نہیں۔ ’’پس ازاں کہ من نمانم بچہ کار خواہی آمد‘‘ (جب میں ہی اس دنیا میں نہ رہا تو تم کس کام کے لیے آنا چاہو گے؟!) ہاں! دعوات کا تعلق جانبین سے ہے، اگر کسی وقت یاد رہے اور اللہ رب العزت کو اس فقیر البائس کے لیے پکارا تو زہے قسمت، یہ فقیر تو اپنے عزیزوں دوستوں کو نہیں بھولتا، یہ اللہ کی مہربانی ہے، اعمال تو نہیں، یہی دعائیں شاید کام آجائیں۔
کتاب ’’رد المحتار‘‘ کامل(۱۵۰)، طبع استنبول، مستعمل، جلد عمدہ، نو، ایک نسخہ میرا ذاتی ہے، اور ایک نسخہ فائق، کاغذ عمدہ، جلد فاخر(۴) اور نصف اول ’’مجمع بحار الأنوار‘‘ (۵۰) اس فقیر کے ہیں، بسبب ضرورتوں کی مجبوری کے فروخت کرنے (کو) آمادہ ہوں، بشرطیکہ ان کی قیمت موجودہ نرخ پر وصول ہوجائے۔ اس وقت فقیر پر باوجود صحت خراب ہونے کے بھی کام کی کثرت ہے، ’’شرح زیادات الزیادات للسرخسي‘‘ اور ’’للعتابي‘‘ چھوٹی سی کتابیں ہیں، ایک سال سے زیرِ طبع تھیں، عن قریب فراغت کی توقع ہے، اخیر پروف آج آجائے گا، اور مقدمہ طبع ہونا (باقی ہے) اور فہرست بھی، اس کے بعد کتاب تیار ہوئی تو آپ کے پاس بھی نسخے آجائیں گے، ان شاء اللہ! اخیر ربیع الاول تک فراغت کی توقع ہے، بشرطیکہ زندگی وصحت باقی ہو۔ والسلام ودُمتُم بالخیر!
جواب کا انتظار رہے گا، غالباً کتبِ مرسلہ کی قیمت، مجلس کی رقم سے آپ نے ادا کردی ہوگی۔                                                                     ابوالوفا

از جلال کوچہ نمبر ۴۶۵، حیدرآباد دکن (ہند) 
پنج شنبہ ۸؍ جمادی الاولیٰ سنہ ۷۸ھ 
عزیزِ محترم سلمہ اللہ! 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! 

مرسلہ کارڈ وصول ہوا، میں نے کتابوں کی فروخت کے تفصیلی حسابات مانگے تھے، تاکہ کتابچۂ فروخت میں درج کر دیئے جائیں، حسابات تاہنوز نامکمل ہیں، حیات کا بھروسہ نہیں، اس لیے جلد لکھ کر روانہ کیجیے۔ رقم کی وصول یابی سے بحث نہیں۔ کتابیں جو حلب (شام) روانہ کی گئی ہیں، ان کی ڈاک خانہ کی رسید کی حفاظت کی جائے، کیونکہ ابھی وہاں سے وصول یابی کی اطلاع نہیں آئی، تاکہ وقت پر کام آسکے۔ ’’مختصر الطحاوي‘‘ کے ۴۹ ؍نسخے ہیں حافظ خان محمد مرحوم کے پاس، دو نسخے فروخت ہوئے، اس کے خمس اور جلد سازی اور محصولِ ریل وضع کیا جائے تو (۱۸) ان کے ذمہ ہیں، اور تین نسخے ’’أصول‘‘ کے میں نے اپنی اغراض میں صرف کیے، اور ۲؍ نسخے آپ کے واپس آئیں گے، مگر افسوس کہ وہ وہاں کے رواج کے موافق مجلد کردیئے گئے ہیں، جو کہ شاید خریدار کی منشا کے خلاف ہو، ۱۲؍ فی جلد دیئے گئے، اس کے پیسے وقتِ فروخت حاصل کرنے ہیں۔ مختصر کی قیمت ۱۲؍ روپیہ ہے، اور اصول کے (۲۴) یہ ملحوظِ خاطر رہے۔ ’’زیادات الزیادات‘‘ کی دو شرحیں ’’النکت للسرخسي‘‘ و ’’شرح العتابي‘‘ طبع ہوگئی ہے۔ اس کے ۴ نسخے روانہ کرتا ہوں، ایک آپ کا، ایک مولوی عبدالرشید صاحب (نعمانی کا)، دو مجلسِ علمی میں مولانا طاسین صاحب کے پاس پہنچا دیجیے۔ 
خط لکھنا شروع کیا تھا کہ درمیان میں کام مُخل ہوگئے، اور تکمیل نہ ہوسکی، آج تکمیل کر رہا ہوں، امید (ہے) کہ کتب وصول ہونے کے بعد مطلع کیا جائے گا، والسلام ودُمتُم بالخیر!                                                یوم پنج شنبہ ۱۷ ؍جمادی (الاولی) سنہ ۷۸ھ
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   ابوالوفا
نوٹ: یہ خط ایک کارڈ پر لکھا گیا ہے، جس پر پتہ یوں درج ہے: بخدمتِ گرامی مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب، مدرسہ عربیہ، جامع مسجد نیوٹاؤن، کراچی (پاکستان)۔

 

سہ شنبہ ۱۰ ؍ذوالقعدۃ الحرام سنہ ۷۸ھ
عزیزِ محترم مولوی سید محمد یوسف صاحب بنوری زادہٗ فضلاً ورفعۃً! 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! 

مکتوبِ مبارک کل دو شنبہ ۹؍ ذق (ذیقعدہ) کو وصول ہوا، بچی (فاطمہ مرحومہ) کی بصارت زائل ہونے پر بڑا صدمہ ہوا، افسوس اس مسکینہ کی حیات مکدّر ہوگئی، اہلِ بیتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلیہم وسلم کا ابتلا ہمیشہ ہوا ہی کرتا ہے، اور دنیا ان کی ہمیشہ مکدّر ہی ہوتی رہی ہے: 

أہْلَ بَيْتِ النَّبِيِّ سُدْتُّمُ النَّاسَ بِتُقًی
وَسِوَاکُمْ سَوَّدَتْہُ الصَّفْرَاءُ وَالْبَيْضَاءُ

(’’اے نبی کے گھر والو! تم اپنے تقویٰ کی بدولت لوگوں کی سیادت کے لائق ہوئے ہو، جبکہ دیگر لوگوں کو مال ودولت نے اس منصب پر فائز کیا ہے۔ ‘‘)
اللہ تعالیٰ آپ کو صبر واجر عطا فرمائے، آمین! اور بچی کو بینائی عطا فرمائے، آمین! 
گزشتہ کتب کے متعلق تو مفصل حسابات مطلوب ہیں، تاکہ لکھ دیا جائے کہ کتنی کتابیں رعایت سے فروخت ہوئیں، اور کتنی اپنی اصل قیمت پر، اس میں بھی آپ نے سب ایک قیمت پر فروخت نہیں کیں، بلکہ مختلف اثمان (قیمتوں) پر، شاید آپ کے پاس تفصیلی نوٹ باقی نہیں، یا ابتدا ہی سے ہر ایک کی امتیازی شکل قلم بند نہیں کی اور فراموش کرگئے، اور یہاں حسابات باقاعدہ رکھے جاتے ہیں۔ اصولِ سرخسی کے نسخے میں روانہ کرتا ہوں، لیکن وقتِ واحد میں نہیں، آہستہ آہستہ پے در پے ارسال ہوں گے، کیونکہ میں اکیلا ہوں، اور مجھ پر آج کل بہت دباؤ بڑھ رہا ہے، مگر میں اس کی قیمت بسکۂ ہند لوں گا بعد از وضعِ خمس نرخ تاجرانہ فی نسخہ کی قیمت ۱۶ ہوگی، جملہ کی قیمت ۳۲۰ روپیہ ہوگی اور ۲۲؍ کی قیمت ۳۵۲ روپیہ ہوں گے، لیکن ہم کو آپ کے ہاتھ فروخت کرنے میں کیا نفع جب وہاں قیمت وصول نہیں ہوسکتی؟ بہتر ہوتا کہ کہ مُجاز تاجرِ کتب کے ذریعہ آپ طلب کرتے تو ہمیں قیمت بھی سہولت سے مل جاتی، اور آپ کو کتابیں بلا ریب وصول ہوجاتیں، اجورۂ ڈاک بھی کم پڑتا۔
 نور محمد کارخانہ سے جتنی رقم وصول ہونے کی ہے، اسے وصول کرکے اپنے پاس رکھ لیجیے، اس کے بعد ان سے کسی قسم کا معاملہ کرنا نہیں ہے۔ حلب (شام) کو جو کتابیں مجلس نے ہماری جانب سے روانہ کیں، اس کی رقم آپ نے لکھ دی تھی، جس کے متعلق آپ کو لکھا گیا تھا کہ مجلس کے مجموعہ رقم سے ادا کردی جائے، اور آپ نے اس کی قیمت واجورہ سب درج کردیا تھا، مگر اب حلب سے خط آیا کہ وہ پارسل وصول ہوا، مگر اس پر ہدیہ لکھا ہوا تھا، چنانچہ پارسل بعینہ ارسال کردیا گیا، یہ کیا ماجرا ہے؟ 
حلب کے خط میں لکھا ہے کہ ’’مختصر الطحاوي‘‘ کلیہ شرعیہ دمشق میں درس میں رکھی گئی ہے، اس لیے اب تم کو اسے دوبارہ طبع کرانا ہوگا، ہم کو استانبول میں ایک تیسرا نسخہ اس کا ملا، جس کا عکس منگایا گیا، اور اس سے مقابلہ وتصحیح بھی از سر نو ہوکر نسخہ محفوظ کردیا گیا، تاکہ طباعتِ ثانیہ میں کتاب ایسی عمدہ طبع ہو۔ شیخ رضوان‘ وکیلِ لجنہ مُصر ہیں کہ اپنی کتابیں ہند منگاؤ، کیونکہ اب ان سے وکالت مجلس کی نہیں ہوسکتی، وہ گاؤں میں رہ گئے ہیں، اس لیے اب بہت مجبوری ہے، کیونکہ کتب کی حفاظت کا کوئی سامان اب وہاں نہیں۔ 
افریقہ سے زکاۃ کی کچھ رقم آئی ہے، اس کی کتابیں خرید کر مدراسِ اسلامیہ میں ارسال کی گئی ہیں۔ کل کی ڈاک سے آپ کے نام بھی چند کتب آئیں گی، انہیں مصرفِ زکاۃ میں صرف فرمائیے اور وصول یابی سے مطلع فرمائیے۔ آپ پشاور جاکر آرہے ہیں، حضرت مولانا صاحب زادہ سید فضل صمدانی صاحب مدظلہ (1) اور آپ کے والد ماجد صاحب مدظلہ العالی کا مزاج کیسا ہے؟ اور عزیزم مولوی حافظ ایوب جان کیا کام کر رہے ہیں؟ رقم کے متعلق حاجی جمال الدین صاحب سے مشورہ اور مدد لیجیے، شاید کوئی عمدہ صورت نکل آئے،واللہ المستعان، وإلیہ المشتکی۔
عزیزم مولوی عبدالرشید صاحب (نعمانی) سے کہیے کہ ’’شرح زیادات الزیادات‘‘ پر تبصرہ کرکے وہاں کے کسی مجلہ یا روزنامچہ میں شائع کیجیے، تاکہ کتاب کا تعارف ہو۔ نیز یہ کہ بھوپال کی کتاب کا رد ایسا ہی ادھورا رہ گیا، اسے پورا کرنا تھا، وہ بہت عمدہ کام تھا۔ والسلام علیہ ورحمۃ اللہ! 
یہ فقیر بحمد اللہ تا دمِ تحریر بعافیت ہے، اعصاب کی کمزوری میں مبتلا چار پانچ سال سے مسلسل علاج جاری ہے، اس وقت یہاں گرمی پورے شباب پر ہے، گرمی میں مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، جبین (پیشانی) کے بائیں جانب ہر وقت پسینہ آتا رہتا ہے۔
 ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ کی بھی وہاں ترویج کرنا، تاکہ درس میں داخل ہو، جتنے نسخے مطلوب ہوں، ارسال کیے جائیں گے ان شاء اللہ۔ اب تک اس کی چار جلدیں طبع ہوچکی ہیں، فی جلد ۶؍ روپیہ سکۂ ہند قیمت مقرر ہے۔ ’’شرح سیر کبیر‘‘ عمدہ تصحیح وآب وتاب کے ساتھ مصر میں طبع ہو رہی ہے، پہلا حصہ طبع ہوچکا، المُحْکَم (لابن سِیْدَہ) لغت کی مشہور کتاب کی طباعت بھی شروع ہوگئی، پہلی جلد شائع ہوچکی، شاید باقی ۱۹-۲۰ جلدیں ہوں گی۔ ’’أنساب الأشراف للبلاذري‘‘ بھی طبع ہو رہی ہے۔ آپ ترمذی کے ’’وفي الباب عن فلان وفلان‘‘ احادیث کی تخریج کر رہے تھے، وہ تخریج کہاں تک پہنچی؟ 
حضرت مفتی (مہدی حسن شاہجہان پوری) صاحب ۲۱ ؍ماہِ رمضان سے بیمار تھے، اب بفضلہ تعالیٰ رُو بصحت ہیں، اب ہند میں یہ ایک صبح کا تارا باقی ہے، اللہ جل شانہ باقی رکھے، آمین! آپ کے مدرسہ کی کچھ حالت لکھیے کہ کتنے طلبہ اس میں زیرِ درس ہیں؟ اور کتنے مدرّس اس میں پڑھاتے ہیں؟ اس کا نصاب کیا ہے؟ مصر میں منکرینِ حدیث کے رد میں ابھی ابھی ایک کتاب ’’الحدیث والمحدّثون‘‘ تصنیف ہوکر شائع ہوئی ہے، اس کے مصنف ابو زھو محمد ازہری ہیں، مجلس میں اس کا نسخہ آگیا ہے، کتاب اچھی ہے، آپ سلف کے عمدہ متبع ہیں، آپ کو اور آپ کے امثال کو اللہ علم کی خدمت کے لیے تا بدیر سلامت رکھے اور توفیقِ رفیق عطا فرمائے، آمین!                                                           والسلام ودُمتُم بالخیر!
                                                                                                                                                                                                                                          ابوالوفا

حاشیہ(1): حضرت بنوری رحمہ اللہ کے ماموں جن کا حضرت کی ابتدائی تعلیم وتربیت میں اہم کردار رہا ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین