بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا ابوالوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ


مکاتیب حضرت مولانا ابوالوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

 

مکتوب حضرت مولانا ابو الوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
۲۲ محرم ۱۳۶۱ھ 
عزیزِ محترم وفقہ اللہ لما یحب ویرضی! 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! 

ہر دو کرم نامے شرفِ صدور لائے، ’’مُصنَّف‘‘ کے متعلق طباعت کا خیال بہت مبارک خیال ہے، بلکہ ہر دو ’’مُصنَّف‘‘ (مصنف عبدالرزاق ومصنف ابن ابی شیبہ رحمہما اللہ) دست یاب ہوسکیں تو دونوں کی اشاعت بے حد اہمیت رکھتی ہے، مگر سوال نسخوں کا ہے، آصفیہ(1) کا نسخہ اس قابل نہیں ہے کہ اس سے نقل ہو یا تصحیح مُمِد ہو۔ 
مولوی سید یوسف ٹونکی مرحوم ایک تاجر تھے، جو کہ جاہل کاتبین سے کتابت سستے داموں کرا کے بہت قیمت سے کتابیں فروخت کیا کرتے تھے، انہوں نے بہت سے اجزا سے نقل کرا کے ایک نسخہ فراہم کیا، بلکہ دو نسخے نقل کرائے، ایک نسخہ دائرۃ المعارف میں بغرضِ فروخت پیش کیا، اور ایک آصفیہ کے ہاتھ فروخت کیا۔ حقیقت میں یہ نسخے ناقص بیاضات سے مَملُو اور اغلاط کا مجموعہ ہیں، کشادہ اور کم سطریں رکھ کر کتاب چار پانچ ضخیم مجلد میں تیار کرکے خریدنے والوں کو مرعوب کردیا اور بہت سی قیمت حاصل کر لی۔ دائرہ میں وہ نسخہ ابھی پڑا ہوا تھا کہ مرحوم کا انتقال ہوا، اس لیے ورثاء نے اسے کسی قدر سستا دے دیا، وہ بھی گراں ہی پڑا۔ ایک دوسرا حصہ جو جدید الخط ہے، ۱۳۲۹ھ میں کاتب نے اس سے فراغت پائی ہے، جو کتب خانہ (میں) بھی پہلے سے موجود ہے، اچھی حالت میں ہے، خط بھی اچھا (ہے)، صحت (تصحیح) بھی اچھی ہے۔ 
البتہ سننے میں آیا ہے کہ مولوی مفتی محمد سعید صاحب مرحوم کے کتب خانہ میں بھی ایک نسخہ ہے، نہ معلوم وہ کامل ہے یا ناقص، مگر وہ قدیم نسخہ ہے، اس کی نقل یا تصحیح ومقابلہ کے لیے اس سے مدد لینا بہت دشوار ہے، کتاب مستعار نہیں ملتی، کتب خانہ کبھی کھلتا ہے کبھی نہیں کھلتا، اور کھلتا بھی ہے تو تھوڑی دیر کے لیے۔ میں نے اسے دیکھا نہیں، فرصت نکال کر اس کی حالت پوری‘ دوسری تحریر میں لکھوں گا، ان شاء اللہ! 
کھانے میں یہاں ہوٹلوں میں دس پندرہ روپیہ سے زائد صرف نہ ہوگا، ٹھہرنے کے لیے مکان کی بھی صورت ممکن ہے۔ البتہ کتب خانہ کے قریب ملنا کسی قدر قابلِ غور ہے، تاہم ممکن ہے۔ البتہ اُجرت پر اہلِ علم سے کاتب ملنا دشوار ہے، اور جاہل (کاتب) بھی ملے تو اجرت یہاں بہت لیتے ہیں، مجھے اس کا تجربہ بھی نہیں۔ نقل کے لیے اپنا ہی آدمی موزوں ہے، لیکن آصفیہ کا نسخہ نقل کے قابل نہیں۔ 
ملتان میں مولوی عبدالجبار نامی ایک شخص نے اس کے دو جز طبع کرائے ہیں، ایک جو طہارت و بعض ابوابِ صلاۃ پر مشتمل ہے، جس کا اخیر ’’باب أفضل الصلاۃ لميقاتہا‘‘ ہے، اور دوسری جوکہ در حقیقت چوتھی ہے، زکاۃ واَیمان ونذور پر مشتمل ہے، یہ کل پندرہ اجزا سے دو جز طبع ہوئے ہیں، پہلا ۲۸۴ صفحوں پر اور دوسرا ۲۰۴ (صفحوں) پر مشتمل ہے۔ ناشر کو مشکلات کی وجہ سے دوسرا وتیسرا جز شائع کرنے میں دیر ہوئی، اس کی بھی تیاری میں مشغول ہے، مگر کب شائع کرے گا؟ اس کا سامان ہے یا نہیں؟ تصحیح میں پریشان ہے، یہاں آئے تھے، ایسا انہوں نے اظہار کیا، واللہ أعلم بحقیقۃ الحال! آصفیہ کے نسخے کو انہوں نے بھی بے کار بتلایا، البتہ مفتی صاحب کے نسخہ کی تعریف کی۔ 
وطن کا ارادہ دو ماہ بعد جانے کا ہے، اگر دشواریاں نہ ہوں، ورنہ مشکل ہے، کیونکہ حال کی فضا بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ آپ کا یہاں آنا ہمارے لیے باعثِ مسرت وبرکت ہوگا۔ مولانا محمد زاہد کوثری کے عنایات آیا کرتے ہیں، اس فقیر پر وہ بہت مہربان ہیں۔ ’’إحقاق الحق‘‘ کے بھی انہوں نے متعدد نسخے ارسال فرمائے ہیں۔ 
یہ فقیر دعاؤں کا بے حد محتاج ہے۔ امید (ہے) کہ فراموش نہ فرمایا جائے گا۔ وفقک اللہ لکل خيرٍ، و دُمْتَ بالخير والعافيۃ، آمين! مولانا سید احمد رضا صاحب کی خدمتِ اقدس میں سلام عرض کرتا ہوں۔                                                                                         ابو الوفا

..............................................................

از جلال کوچہ، حیدرآباد دَکن 
پنج شنبہ ۲۰؍ ذو الحجہ، سنہ ۷۱(ھ)
اے از فیوضِ علمِ تو نفع جہانیاں 
ہرگز نماند آنکہ نخواہد وقارِ تو
عزیزِ محترم مولوی یوسف جان سلمہ اللہ الرحمٰن، آمین! 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! 

مودّت نامہ وصول ہوا مع پرچۂ حسابات۔ مولانا (محمد زاہد کوثری) کی خبرِ وفات وکیلِ لجنہ نے میرے پاس بھی روانہ کی، میں ممبئی گیا ہوا تھا، وہاں سے بیمار آیا تھا، اور بیمار پڑا ہوا تھا کہ مولانا کی وفات کی یہ قیامت خیز خبر وصول ہوئی، اب ان علمی مسائلِ مشکلہ کو کون حل کرے گا؟! اس زمانہ میں ہر فن میں اتنا متبحر عالم ملنا اب کہاں؟! 

قرنہا باید کہ تا یک مردِ حق پیدا شود
با یزید اندر خراساں با اویس اندر قرن 

افسوس کہ ایسے وقت میں انہوں نے رحلت کی کہ ابھی ان کی سخت ضرورت تھی، ان کی کون کونسی چیز یاد کی جائے؟! اس کم سرمایگی میں ان کا علمی ایثار کہ کسی کتاب کے متعلق یا کسی تحقیقِ علمی میں ان سے استفسار ہوا اور انہوں نے ہدیۃً کتابیں روانہ فرمائیں۔ مجلس (إحیاء المعارف النعمانیۃ حیدر آباد دکن، انڈیا) کے پاس تو انہوں (نے) ہزار ڈیڑھ ہزار کی کتب کی تصاویر ہدیۃً روانہ فرمائیں۔ یہ ایثارِ علمی وسخاوت انہی کے ساتھ خصوصیت رکھتی تھی، اگر اس مصیبت پر خون (کے آنسو) بھی روئیں تو کم ہے۔ رمضان میں چند کتابیں روانہ فرمائیں، وہ میرے کسی سوال میں، اور اپنی تصانیف تو بار بار (ارسال فرمائیں)، جسے میں نے تمام ہند میں پھیلایا۔ اور وہ دعائیں جو انہوں نے بار بار دیں، جس سے روح تازہ ہوتی تھی، اب کس کی زبان وقلم سے نکلیں گی؟! اللہ تعالیٰ ان کی روحِ پُر فُتوح کو فرحت دے اور ان سے راضی ہو۔ 
آپ مولانا شیخ رضوان کے ذریعہ ان کی تصانیف منگا کر رکھیے کہ وہاں کے علماء ومدارس کے کام آئیں، خصوص ’’بلوغ الأماني‘‘ وغیرہ، سوانحِ علماء وائمہ دین و ’’نکت‘‘ (النکت الطريفۃ)و ’’تانیب‘‘ (تأنيب الخطيب) و ’’الإشفاق‘‘ (علی أحکام الطلاق) کہ ہمیشہ کام آنے والی کتابیں ہیں۔آپ نے ’’شرحِ جصاص‘‘ کو قدر کے الفاظ سے یاد کیا، حقیقت میں آپ جیسے اہلِ علم ہی ان کی تصانیف کی قدر جانتے ہیں: ’’الشاھد یری ما لایری الغائب‘‘، میں ان کی تحقیق ہر ہر مسئلہ میں دیکھتا ہوں اور دنگ رہ جاتا ہوں کہ ان کا ہی قریحہ تھا، جو کہ مختلف فیہ مسائل میں ایسی نزاکت پیدا کرسکتا تھا، اور پھر ما شاء اللہ حدیث دانی انہی کا حق ہے۔ اخیر استدلال من طریق النظر، امام طحاویؒ کے طریقۂ (شرح) ’’معاني الآثار‘‘ پر کرکے ختم کرتے ہیں۔ کاش! یہ کتاب ہمارے سامنے ہوجاتی تو بڑا کارنامہ تھا، مگر اتنا سرمایہ کہاں؟! صرف اس کے عکوس پر ایک ہزار روپیہ سے زائد کا صرفہ ہے، دو ایک ماہ بعد بقیہ کتاب کی ہر سہ جلد کی تصویر بھی آجائے گی، ان شاء اللہ! فلم لے لیا گیا ہے۔ 
’’اصولِ سرخسی‘‘ کے متعلق ابھی مولانا شیخ رضوان کا خط نہیں آیا، اس کی طباعت میں بھی تقریباً ایک ہزار بارہ سو کی کمی ہے۔ اگر مختصر کے دو تین سو نسخے ایک دم مصر میں فروخت ہوجائیں تو اس کی تکمیل ہوسکتی ہے۔ 
حالیہ مصر کا اغتشاش(2) بھی تکلیف دہ ہے، کاغذ وہاں گراں ہے، کیونکہ برطانیہ کے ساتھ رد وکد ہے، اللہ اپنا فضل فرمائے، تاہم مجھے اللہ کی ذات پاک سے امید ہے کہ ان چند ماہ میں اس کی طباعت شروع ہوجائے گی، فہرستِ کتب طبع کے لیے دی گئی ہے، مگر طباعت میں دیر ہوتی جا رہی ہے، اس لیے کہ ’’دائرۃ المعارف‘‘ کو طباعت کے لیے دی گئی ہے۔ 
اُمید ہے کہ آپ بعافیت ہوں گے، آپ کے مرسلہ روپے وصول ہوگئے، مطمئن رہیے۔                                                                                                                    والسلام
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   ابو الوفا

حواشی

(1)    مکتبہ آصفیہ حید آباد دکن، انڈیا۔ اب اس مکتبہ کا نام بدل کر ’’اسٹیٹ سینٹرل لائبریری حیدر آباد‘‘ کر دیا گیا ہے۔

(2)    بظاہر گرانی اور مہنگائی مراد ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین