بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  مکتوب بنام حضرت تھانویؒ اور اُن کا جواب

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ


مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ 

مکتوب بنام حضرت تھانویؒ اور اُن کا جواب

 

مکتوب حضرت بنوری رحمہ اللہ بنام حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ھو اللہ
صاحب المعالي والمآثر، سيدي ومولاي أطال اللہ حياتکم النافعۃ المبارکۃ لنا وللأمۃ جمعاء!

 السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ! 

میں پشاور پہنچ گیا، لیکن دل تھانہ بھون میں ہے۔ قیام بہت مختصر رہا، لیکن طویل قیام کا مشتاق وآرزو مند بنادیا۔ حضرت والا نے جو ظاہری وباطنی توجہات وعنایات سے سرفراز فرمایا، اور جو احسانِ عظیم فرما دیا، اس کے شکر سے زبان قاصر ہے، لیکن الحمدللہ دل کو احساس ہے، اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی کو دیر تک سلامت باکرامت رکھے، اور ہم تشنگانِ فیض کو سیراب فرمائے۔ حضرتِ محترم! میں بہت پیاسا آیا ہوں، دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جلد دوبارہ پہنچا دے، اور کچھ سیرابی کا سامان محض اپنے فضل وکرم سے میسر فرمادے۔ رخصت ہوتے وقت دل نے بہت چاہا کہ دستِ مبارک کو بوسہ دوں، لیکن ’’ادب‘‘ اس ’’ادب‘‘سے مانع رہا۔ رات (کو) میں نے خواب، بلکہ بین النوم والیقظۃ   میں دیکھا کہ آپ نے مجھے سینہ سے لگایا اور بہت زور سے دبایا، اور مجھے بے حد حظ وشرف وانشراح حاصل ہوا، اللّٰہم زِد فَزِد! دل بہت کچھ لکھنے کو چاہتا ہے، مگر کہیں تطویل باعثِ ملالِ خاطر نہ ہو، اس لیے ترک کرتا ہوں۔ اب صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ حضرتِ والا کی توجہات کا بہت مشتاق ہوں، اور دعواتِ صالحہ کا بہت محتاج، امید ہے کہ کبھی خیال آئے تو اپنی توجہات اور دعوات سے نوازیں گے، وأجرکم علی اللہ سبحانہٗ وتعالٰی۔
گھر میں بیماری ہے، جس سے طبیعت کو پریشانی ہے، امید ہے کہ ایک دو وقت دعا فرمائیں گے، تاکہ اللہ تعالیٰ دل کو ان فضول پریشانیوں سے نجات دلا کر مطمئن فرمائے۔ اپنے بعض کوائف کسی دوسرے عریضہ میں عرض کروں گا۔ والسلام ختام 
میں ہوں آپ کا خادم، توجہات ودعوات کا محتاج اور زیارت کا مشتاق ۔                                             

                                             محمد یوسف البنوری عفا اللہ عنہ 

                                                                             از پشاور 
                                                             ۲۷ ؍رجب ۱۳۵۹ھ 
جناب مولانا شبیر علی صاحب اور جناب وصل صاحب بلگرامی اگر مجلس میں حاضر ہوں تو سلام عرض ہے۔ 
جواب: اس وقت پاس نہیں۔(1)

حاشیہ: (1) نوٹ: حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا معمول تھا کہ خط کے جواب میں عام طور پر اس صفحے پر متعلقہ مقام پر لکیر کھینچ کر اطراف وحواشی میں اس کا جواب درج کردیا کرتے تھے، پیش نظر مکتوب میں بھی یہی اسلوب برتا گیا ہے۔

جواب حضرت تھانوی رحمہ اللہ 

منبعِ اخلاص ومحبت، معدنِ اختصاص ومودت،  أدامہ اللہ كما يتمناہ ويرضاہ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! 

ہر ہر جزء کا جواب میری استعداد سے بالا ہے، اس لیے صرف دو شعر پر اکتفا کرتا ہوں، ایک اپنی حالت کے متعلق، یعنی: 

طاؤس را بہ نقش و نگارے کہ ہست خلق 
تحسیں کنند او خجل از پائے زشت خویش(1)

اور ایک باوجود حالتِ ناکارگی مذکور کے اپنی خدمت کے متعلق، یعنی :

بیا جامی رہا کن شرمساری
ز صاف و درد پیش آر آنچہ داری(2)

حواشی

(۱) اس (اللہ تعالیٰ) نے مور کو نقش ونگار سے مزین پیدا کیا ہے، لوگ اس کی (خوب صورتی پر) تعریف کرتے ہیں، جبکہ مور خود اپنے پاؤں کی بدصورتی پر شرمسار ہے۔

(2) جامی آجاؤ اور شرمساری چھوڑ دو، جوکچھ تمہارے دامن میں ہے صفائے قلب اور درد سے پورا سامنےلاؤ۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین