بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  مکاتیب بنام حضرت تھانویؒ اور اُن کا جواب

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ

مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ 

مکاتیب بنام حضرت تھانویؒ اور اُن کا جواب

 

مکتوب حضرت بنوری رحمہ اللہ بنام حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سیدي ومولائي، حکيم الأمۃ المحمّديۃ وزعيمہا، أطال اللہ بقائکم في عافيۃ وصحۃ، آمين!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! (۱) 

مدت سے اشتیاقِ ملاقات روز افزوں ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے احسنِ احوال میں بہرہ اندوز فرمائے۔ (۲) درمیاں سال میں پشاور جانے کا کچھ قصد ہو رہا ہے، اگر یہ قصد پورا ہوا تو ارادہ ہے کہ کم از کم دو دن کے ارادے سے آستانہ پر حاضری کی اجازت چاہوں، نسأل اللہ التوفیق! (۳)
کچھ دن ہوئے کہ خواب میں آپ کی زیارت سے بہرہ اندوز ہوا، دیکھا کہ آپ نے بہت سفید کپڑے پہنے ہیں، اور خانقاہ میں تشریف رکھتے ہیں، سامنے ایک کتاب وقلم بھی موجود ہے، جیسا کچھ لکھنے کا ارادہ ہو، آپ کے پہلو میں، میں بھی حاضر ہوں، اور کوئی نہیں، میں نے کوئی رسالہ ہاتھ میں لیا، مطالعہ کر رہا ہوں، پھر اس کو رکھا کہ یہ ادب کے خلاف ہے کہ آپ تشریف رکھتے ہوں اور میں مطالعہ کروں، جب میں نے اس خیال سے کتاب رکھ دی، آپ میری طرف متوجہ ہوئے، اور میرے ہاتھ کو پکڑ لیا، اور اپنی طرف کھینچا، اور انگوٹھے کو دبایا اور توجہ دی، یہاں تک کہ میں بے ہوش ہونے لگا، پھر آپ نے چھوڑ دیا، اور اس وقت میں محسوس کر رہا تھا کہ بتدریج میرے دماغ میں ایک کیفیت بے ہوشی کی سی چڑھ رہی ہے، اور دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوئی۔ بیدار ہوا تو دیر تک ’’بین النوم والیقظۃ‘‘ کی سی حالت طاری تھی، اور اس کیفیت سے لذت اندوز ہو رہا تھا، اور گمان کرتا ہوں کہ اب تک اس کا اثر دل میں باقی ہے، نہ معلوم کچھ فیض حاصل ہونے کی طرف اشارہ ہے یا کوئی اور چیز ہے؟! بہرحال اگر خیال بھی (ہے) تو ایسا خیال بھی مبارک ہے۔ اگر کوئی تعبیر ہو اور مطلع فرمائیں تو ممنون ہوں گا۔ (۴)
اللہ تعالیٰ آپ کے مبارک وجود کو دیر تک سلامت رکھے، اور تشنگانِ فیض کو اس ابرِ کرم سے سیراب فرماتا رہے، آمین یا رب العالمین!(۵) میں خیر وعافیت سے ہوں اور اپنے علمی مشاغل میں تقریباً مصروف ہوں۔ (۶)براہِ کرم اپنی عافیت سے مطلع فرمائیں۔ (۷)
                                                     مشتاقِ لقاء، محتاجِ دعاء 
                                                   محمد یوسف البنوری عفا اللہ عنہ 
                                                 از ڈابھیل، شنبہ ۹ ؍صفر سنہ ۱۳۶۰ھ

جوابِ حضرت تھانوی رحمہ اللہ 

(۱) السلام علیکم 
(۲) ایسا امرِ اہم نہیں کہ اس کو اشتیاق وانعام کا یہ درجہ دیا جائے، جب بدونِ تکلف میسر آجاوے، کافی ہے۔ تعلق دل سے کافی ہے، ضروری منافع ہیں، یا یہی ملاقات کے برابر ہے۔ 
(۳) اُس وقت بھی وہی اصول قابلِ اعادہ ہیں۔ 
(۴) میرے مذاق میں خواب کا درجہ بہت مؤخر ہے، جس کا ماخذ وہ حدیث ہے جس میں رؤیا صالحہ کو مبشرات میں سے فرمایا گیا ہے، اور تبشیر کا اثر قرآن میں ’’فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْقَانِطِیْنَ‘‘ (سو آپ نااُمید نہ ہوں۔ ) ہے، جس کا حاصل تقویتِ رجاء ہے، نہ کہ حصولِ قرب، اس لیے مجھ کو نہ خواب سے زیادہ دلچسپی، نہ تعبیر میں ذہن چلتا ہے، نہ بشارت میں تفصیل کی ضرورت، البتہ دعائے برکت کرتا ہوں۔ 
(۵) اللہ تعالیٰ اس محبت کا صلہ عطا فرماوے۔ 
(۶) اللّٰہمّ بارک في ہٰذہ العلوم والأعمال والأحوال والأشغال. 
(۷) بحمد اللہ میں بھی ہر طرح بعافیت ہوں۔

من پشاور تحریرًا في ۲۵ رمضان سنۃ ۱۳۶۰ھ
 

..................................

صاحب المآثر والمعالي السائرۃ، سيدنا حضرۃ حکيم الأمۃ، أطال اللہ بقائہم في عافيۃ للدين والعلم والمسلمين! 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! (۱)

مدت سے حضرت اقدس کی طبیعتِ مبارکہ کے بارے بعضے تشویش ناک خبریں سنتا رہا،(۲) سوائے عاجزانہ دعا کے کوئی اور مقدور نہ تھا۔ (۳) جناب محترم وصل صاحب بلگرامی (نامور شاعر اور حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  کے مسترشد) کے مکتوبِ گرامی سے یہ معلوم ہوکر انتہائی خوشی حاصل ہوئی کہ حضرت اقدس کے مزاجِ گرامی اب رُو بصحت ہیں، اور کوئی تشویش کی بات نہیں، اور لکھنو سے عازمِ وطن ہو رہے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس آفتابِ علم کی تابانی سے امتِ مرحومہ کو دیر تک مستفید فرمائے، آمین! (۴) سالِ گزشتہ کے وسط میں پشاور آکر ڈابھیل گھر والوں کو صرف اس خیال سے لے گیا تھا کہ ماہِ رمضان المبارک وغیرہ ایامِ تعطیل کو تنہائی میں وہیں گزاروں، تاکہ کچھ سکونِ قلب میسر آئے، لیکن میرے محترم قبلہ والد ماجد (مولانا محمد زکریا بنوری) صاحب دس سال سے کابل میں مقیم تھے، اور دس سال سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی، وہ پشاور تشریف لائے، اور اتنے طویل عرصہ میں ان کا انتظار رہا، اس لیے ایامِ تعطیل میں ان کی ملاقات کو ترجیح دی اور پشاور آیا، اور تقریباً وسطِ ماہِ شوال میں ان شاء اللہ تعالیٰ عزمِ ڈابھیل کروں گا۔ زیارت کا بے حد مشتاق ہوں، لیکن گھر والے اور سامان کی وجہ سے (ریل گاڑی سے) اُترنے میں بہت دقت ہے، اس لیے اب غائبانہ دعوات کا محتاج ہوں۔ (۵) حضرتِ اقدس کے مکارم ومراحمِ عالیہ سے اُمیدوار ہوں کہ ان ایامِ مبارکہ میں دو تین دفعہ دعا سے سرفراز فرمائیں گے۔ (۶) واللہَ سبحانہ وتعالیٰ أسأل أن یُطیل حیاتَکم الطیبۃ في عافیۃ وھناء، ونفع الأمۃ أجمعین، وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہٖ سیدنا ومولانا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وتبعہٖ إلٰی یوم الدین۔
میرے قبلہ والدِ محترم، خدمتِ اقدس میں تحیاتِ مسنونہ عرض کرتے ہیں۔ (۷)
                                                                                           کتبہ 
                                                      محمد یوسف البنوری عفا اللہ عنہ 
                                                     از پشاور ۲۵ ؍رمضان المبارک 

جوابِ حضرت تھانوی رحمہ اللہ 

(۱) السلام علیکم 
(۲) اس میں راویوں کا مبالغہ بھی تھا۔ 
(۳) اگر مقدور بھی ہوتا تو وہ دعا سے زیادہ بہتر نہیں ہوتا۔
(٤) اللہ تعالیٰ اس محبت کا صلہ عطا فرماوے۔ 
(۵) ہمچناں میرو کہ زیبا میروی (آپ یونہی جائیے کہ خوب صورت چال چلتے ہیں۔)
(۶) بہ دل وجان۔ 
(۷) میری طرف سے بھی سلامِ مسنون وطلبِ دعا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین