بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  مکاتیب بنام حضرت تھانویؒ اور اُن کا جواب


مکاتیب حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ 

مکاتیب بنام حضرت تھانویؒ اور اُن کا جواب

 

مکتوب حضرت بنوری رحمہ اللہ بنام حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ھو اللہ
لکلِّ زمانٍ واحدٌ يُقتدٰی بہ
ھٰذا زمانٌ أنت لا شك واحدہ (1)
سیدي ومولائي، صاحب المآثر العظیمۃ، أدام اللہ مآثرکم العالیۃ في رُقيّ ونماء!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!(۱)

حق تعالیٰ شانہ کے فضل وکرم سے امید ہے کہ حضرت والا خیر وعافیت سے ہوں گے۔(۲)
اور حاضرین کو سیراب فرماتے ہوں گے۔ (۳)
آرزو تھی کہ ایامِ تعطیل میں سے چند یوم آپ کی صحبت میں گزارنے کی توفیق مل جائے تو میری خوش نصیبی ہوگی، مگر افسوس کہ مختلف قسم کے موانع سے بظاہر اس سعادت سے محروم نظر آرہا ہوں۔(۴)
آپ کی خدمتِ بابرکت میں عریضہ لکھا تھا اور آپ نے جواب سے سرفراز فرمایا تھا۔ خدائے تعالیٰ کا شکر ہے کہ آپ کی دعا کی برکت سے پریشانی سے نجات مل گئی، گو اسبابِ پریشانی موجود ہیں۔ اس وقت عریضہ لکھنے سے صرف اتنا مقصد ہے کہ ان ایامِ مبارکہ اور لیالیِ قدر میں میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ علمِ صحیح اور معرفتِ صحیحہ اور اتباعِ سنت کی توفیق عطا فرمائے، اس کے سوا کوئی مقصد نہیں ہے، اس کے لیے کوئی جواب کی ضرورت نہیں۔ (۵)
 کیونکہ مجھے مکارمِ عالیہ سے قوی امید ہے کہ میری اس درخواست کو قبول فرما لیں گے؛ کریم، سائل ومحروم دونوں کو نوازتے ہیں، لیکن جواب کے لیے لفافہ صرف اس لیے رکھتا ہوں، شاید چند حرف سے نوازیں اور نصفُ الملاقات کی کیفیت سے بہرہ اندوز ہوجاؤں۔ أرجو اللہَ سبحانہٗ أن يطيل بقاءکم في عافيۃ لنشر العلم والدين، وأن يديم آثارَکم الباقيۃَ في عزۃ وبہاء ۔
وفي الختام أقبّل يديکم الکريمتين(۶) راجيًا دعواتکم المبارکۃ۔(۷)
                                                                                              توجہات کا محتاج 
                                                              محمد یوسف بنوری عفا اللہ عنہ وعافاہ 
                                                                 یومِ شنبہ ۲۴؍ رمضان المبارک سنہ ۱۳۵۹ھ 
پس نوشت: شہرِ پشاور میں اور مختلف نواحی میں پہلا روزہ یومِ پنج شنبہ سے ہے، اطراف میں رؤیت ہوئی ہے، اور شہر میں شہادت گزری ہے، اس کے بعد رؤیتِ ہلال شبِ پنج شنبہ، یومِ چہار شنبہ کی خبریں صوبہ سرحد میں تواتُر کو پہنچ گئی ہیں، اطلاعًا عرض ہے۔ 

جوابِ حضرت تھانوی رحمہ اللہ 
 

(۱) وعلیکم السلام 
(۲) ہاں، الحمدللہ 
(۳) توبہ! والأمر للہ! 
(۴) خدا نہ کرے، ’’مرحوم‘‘ اپنے کو ’’محروم‘‘ کیوں سمجھیں؟! 
(۵) کیا غیر ضروری کام نہیں کیا جاتا جب اس (سے) مسلمان بھائی کو مسرت ہو؟! سو دعاگو ہوں۔
(۶) إذا أذنتُ۔(میں اجازت دوں تب!) 
(۷) يقع الرجاء بلا تقبيل(دست بوسی کے بغیر بھی اُمید کی جا سکتی ہے)۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ھو اللہ
صاحب المآثر والمعالي، سیدي ومولائي، أطال اللہ بقاءکم في مجد وعافیۃ وافیۃ! 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!(۱)
 

اواخرِ شوال میں اپنے کام پر جامعہ ڈابھیل پہنچ گیا، بہت مشتاق تھا کہ بوقتِ مراجعت زیارتِ بابرکات اور دیدارِ پُر انوار سے فیض یاب ہوتا، مگر تاخیر مجھے بہت ہوگئی تھی اور مہتمم صاحب پہنچنے کے شدید منتظر تھے، اس لیے سعادت سے محظوظ نہ ہوسکا۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آپ کی زیارت کی دل میں کتنی محبت ہے! اور خدمت میں رہنے کا کتنا شوق ہے! لیکن نہ معلوم کہ اس سے سرفرازی کب ہوگی؟! اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمارے حالات کو بہتر فرمائے۔(۲)
 عریضہ لکھنے سے مقصد صرف اُمیدِ دعا ہے۔ میں اس وقت جامعہ میں چار گھنٹہ مدرسہ کا کام کرتا ہوں، جس میں قابلِ ذکر ’’درسِ سننِ ابوداود شریف‘‘ ہے، عنقریب دو گھنٹہ یومیہ ’’مجلسِ علمی‘‘ کا کام تالیف کا سلسلہ شروع کروں گا، سالِ گزشتہ بھی کرتا تھا۔ ’’العَرف الشذي‘‘ دوبارہ اس طرز پر مرتب کرنا ہے کہ ہر ہر حرف اور ہر ہر حوالہ اپنے اصلی مآخذ میں دیکھ کر عمدہ ترتیب سے اور مہم زیادات کے ساتھ مرتب کیا جائے، جو ایک اعلیٰ اور مستقل شرح سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ ’’کتاب الطہارۃ‘‘ قریبُ الاختتام ہے۔ صحت میری ان اطراف میں زیادہ اچھی نہیں رہتی، اس لیے آپ اپنے خاص اوقات میں دعواتِ مبارکہ سے سرفراز فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ صحت وعافیت کے ساتھ علمِ صحیح اور معرفتِ صحیحہ اور فہمِ صحیح عطا فرمائے، اور ان سب کو اپنی رضا کا سبب بنائے۔(۳)
 وعلی اللہ أجرکم ومثوبتکم أضعافًا مضاعفۃً۔ 
دل بہت کچھ لکھنے کو چاہتا ہے، خوفِ تکلیف سے اختصار کرتا ہوں۔ (۴) فالسلام ختام! 
                                               دعوات کا محتاج، زیارت کا مشتاق 
                                    محمد یوسف البنوری عفا اللہ عنہ وعافاہ
                                                 یومِ جمعہ ۲۰؍ذی قعدہ سنہ ۱۳۵۹ھ 
                                                   از ڈابھیل (سورت) 

جواب حضرت تھانوی رحمہ اللہ 
 

(۱) وعلیکم السلام 
(۲) الخیرُ في ما وقع، وھو الخیر.
(۳) دل سے دعا کرتا ہوں۔ 
(۴) ما قلّ ودلّ تو خاص درجہ میں محبوب 
 

حاشیہ: (1) ترجمہ: ہر زمانے میں ایک قابلِ اقتدا شخصیت ہوا کرتی ہے اور بلاشبہ یہ آپ کا ہی دور ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین