باسمہ العظیم
وحقِّکم ما لذّ لي غیرُ ذکرکم
وذکرُ سواکم في فمي قطّ لا یحلو
فمن شاھدتࣿ عیناہ نورَ جمالکم
یموت اشتیاقًا نحوکم قطّ لا یسلو (1)
مخدومُنا المُعظّم، دامت برکاتکم ماطرۃً علینا إلی یوم التّناد!
بعد سلامِ مسنون عرض بہ لَبِ ادب ہوں کہ والانامہ عنبر شمامہ مدتِ مدید کے بعد مل کر باعثِ صد امتنان ومُوجبِ سکون واطمینان بن کر آنکھوں سے لگایا۔ الحمدللہ کہ حرمین سے واپسی ہوئی، اللہ تعالیٰ آپ کے وجود کو باعثِ رحمتِ عالم بنائے، اور میرے جیسے نا اہلوں کے لیے باعثِ ہدایت بنائے۔ مجھے تو آپ کی آمد کی خبر مولانا ایوب جان صاحب (بنوری) نے سنائی، جبکہ وہ زلزلہ متاثرین کے معاینہ کے لیے تشریف لائے تھے کہ آپ پشاور (میں) ایک رات گزار کر تشریف لے گئے، واللہ! مجھے قطعاً آپ کی آمد کی خبر بجز اس کے اور نہیں ملی۔ میرا ارادہ تو اوائلِ شوال میں تھا، آپ کے سفرِ انگلینڈ کی اطلاع ملنے پر ارادہ ملتوی ہوا، پھر سفرِ حج کی اطلاع آپ کے لیے آپ کے تشریف لے جانے کے بعد ملی، آمد کی اطلاع بھی صرف والا نامہ ہی سے ملی، اب چنیوٹ کانفرنس کی تاریخ ۲۹ ، ۳۰ ، یہ جنوری ہے یا اسلامی ہے؟ یہ اشکال بظاہر رہ جاتا ہے، اگرچہ تحریر میں سفرِ حج کی آمد میں جنوری کی تصریح اس کا قرینہ ہے کہ غالباً یہ تاریخیں جنوری کی ہیں، مگر باعثِ تشویش ضرور ہے، بہر تقدیر میرا ارادہ محرم کے اختتام پر حاضری کا ہے، یہ ہفتہ سہ ماہی میں تعطیل کا ہوگا، اگر تقدیرِ خداوندی سے چنیوٹ تشریف آوری پر پشاور کا پروگرام بنا تو از راہِ کرم مطلع فرمائیں تو میں پشاور حاضر ہوجاؤں گا:
لعلّ إلہي أن يّمنّ بجمعنا
فقد طال في سجن الفراق عَنائي (2)
واللہ! یہاں نہ کوئی انیس نہ کوئی مسافر، وحشت کی زندگی گزر رہی ہے، مدرسہ میں ایک سو ستر طلبہ ہیں، بیس کے قریب دورہ حدیث کے شرکاء ہیں، گزشتہ سال تک مدرّسین کی تنخواہیں مدّ زکات سے دی جاتی رہیں، جس کی ہمیں قطعاً خبر نہ تھی۔ اس سال الحمدللہ سات آٹھ ماہ کا انتظام اللہ تعالیٰ نے کردیا ہے، آگے اللہ مالک ہے، میں نے تو ایسا ہی ٹھان لیا ہے، جیسے ایک مرتبہ آپ نے فرمایا تھا کہ: ’’غیر زکات سے مدّ زکات کا قرضہ پورا نہ ہو، جب تک میں تنخواہ نہ لوں گا، اس پر بھی نہ ہوا تو اساتذہ سے صاف کہہ دوں گا، جس کا جی چاہے لوجہ اللہ پڑھائے، ورنہ تشریف لے جائے، میں نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا، اللہ کا دین ہے، حفاظت کا ذمہ اس نے خود لیا ہے۔‘‘ بس یہی راستہ میرا بھی ہوگا، اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، ہر نشیب وفراز میں ہمارے لیے آپ کا نمونۂ عمل خدا کی قسم! ایک عظیم راہنما ہے۔ ایک مرتبہ مفتی شفیع صاحب نے فرمایا تھا کہ: ’’ہم خود تو انسان نہ بن سکے، مگر انسانوں کو دیکھا ہے، انسان اور بیل میں فرق کرسکتے ہیں۔‘‘ سچ کہا ہے، جس نے بھی کہا ہے:
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا!
یہاں تو علماء کا یہ عالم ہے کہ ہر قدم پر زکات، صدقۃ الفطر، خیرات، صدقات کا حصول، اور عوام سے رابطہ کا مقصد انہیں چیزوں کا وصول کرنا۔ میں واللہ! زکات، صدقاتِ واجبہ سے، بلکہ نکاح کے معاوضہ اور خیرات خوری سے بھی احتراز کرتا رہا۔ اس سولہ مہینے کے عرصہ میں مشکل سے لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ مولوی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ نکاح یا کوئی دوسرا کارِ خیر بغیر معاوضہ انجام دے، اس لیے اب لوگ مدرسہ کی طرف اور ہماری مسجد کی طرف متوجہ ہوئے، دوسرے مقامات کے لوگ بھی اختلافی مسائل میں یہاں سے رجوع کرنے لگے، اللہ تعالیٰ شہرت پسندی کے زہر سے بچائے۔ بہرحال فضا مولویوں کے ہاتھ سے بے حد مکدّر ہے، خصوصًا جب مدرسہ کو ہم نے تالا لگا دیا کہ تنخواہوں میں موظّف اساتذہ کو زکات دینے سے زکات ادا نہیں ہوتی، اور یہ مسئلہ سارے سوات میں پھیل گیا، اور لوگوں نے ان مولویوں پر لعن طعن شروع کردیا، تو اس کے بعد میرے دشمن وحُسّاد بن گئے۔ اب صحیح لوگ ایسے مدرسوں کو زکات نہیں دیتے، جس میں زکات مدرّسین کو تنخواہوں میں دی جاتی ہے، وہ لوگ ان پر سخت بدظن ہوگئے۔ بہرحال صوبۂ سرحد میں اکثر مدارس کا حال یہی ہے، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ ہم نے مدّ زکات کی رقم سے طلبہ کے لیے دس روپیہ ماہوار مقرر کردیا ہے، جب تک امکان ہوگا یہ سلسلہ رہے گا، استطاعت نہ ہوگی تو اعلان کردیں گے کہ کچھ نہیں رہا۔ کسی کا قرضہ تو نہیں کہ خواہ مخواہ عوام کی خوشامد کرکے وصول کیا جائے اور طلبہ کو دیا جائے، اس لیے قلب پر کوئی بار محسوس نہیں ہوتا۔ قصہ لمبا چوڑا ہو ہی گیا، بہت روز کے بعد تخاطب کا موقع جو ملا، معاف فرمائیں!
والسلام مسک الختام
فضل محمد
مدرسہ مظہر العلوم، مینگورہ، سوات
۷؍ محرم یوم الاثنین
۲۳ ؍شوال سنہ ۱۳۹۶ھ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
گرامی الطاف، وگرامی افضال، محترم المقام، زادکم اللہ عزًّا وسیادۃً!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نامہ مکارم نے ممنون فرمایا، اور حسبِ معمول مسرور! جزاکم اللہ خیرا! ’’اکبر دار العلوم‘‘ سے انکار فرمایا، اگر استخارہ فرما دیتے تو شاید کسی قدر راحت کا سامان مل جاتا، اللہ تعالیٰ وہ کرے جس میں آپ کے سکونِ قلبی اور ظاہری وباطنی عافیت کا ذریعہ ہو۔
میں یہاں سے وہاں (سعودی عرب) کے ۲۵ ؍رمضان کو روانہ ہوا تھا، رات عند العشاء پہنچا تھا، رات اور ۲۶ ؍کا دن الی العصر برائے راحت گزارا، تازہ دم بعد العصر پہنچا، الحمدللہ کہ ۲۷ ؍شب کا عمرہ نصیب ہوا، طوافِ عمرہ قبیل المغرب کیا، اور سعی ۲۷ کو بعد صلاۃ الفجر کی۔ پوری رات بحالتِ احرام گزر گئی، حاجی عبد اللہ ساتھ تھے بعد میں، مدتوں کے بعد اس آن وشان سے لیلۃ القدر کا جلوہ ہوا تھا، جس میں ملائکہ کرام کے نزول کے علاوہ انبیاء عظام علیہم الصلاۃ والسلام کا بھی ورود ہو رہا تھا، والحمدللہ علٰی ذٰلک!
وہیں اقامت رہی، عید مکہ میں کی، عید کے دوسرے روز مدینہ منورہ پہنچے، پانچ دن قیام کیا، واپسی جدہ سے ہوئی، یکم اکتوبر کو کراچی روانگی ہوئی، کل ایک عشرہ ہوا۔ دو تین یوم کے بعد برائے سکون اور ایک مقالہ کی تحریر کے لیے سکھر گیا، اسی روز رات کو حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کا وصال ہوگیا، صبح اس روز سکھر سے ہوائی جہاز (کے بارے میں معلومات لیں) معلوم ہوا کہ ’’موئن جودڑو‘‘ (لاڑکانہ) سے ہوائی جہاز ہے، ٹیلیفون پر کوشش کی، امید واروں میں نام لکھا گیا، وہاں سکھر سے۸۵ میل تھا، ۲۶۰ میں ٹیکسی کی، لیکن ۵ گھنٹہ سے زیادہ سفر کرکے بے نیل ومرام واپس ہوا، جگہ نہ مل سکی۔
ریاض میں ’’مؤتمر الفقہ الإسلامي‘‘ کی دعوت ہے، اصرار وتقاضا ہے، استخارہ کرچکا ہوں، اگر خیرًا ہوا تو ان شاء اللہ تعالیٰ جانا ہوگا، ورنہ نہیں۔ ابھی صحیح بخاری یوم الاثنین شروع کرنے والا ہوں، یوم الاربعاء دار العلوم والوں نے شروع کرنے کی خواہش کی کہ حضرت مفتی (محمد شفیع) صاحبؒ کی نیابت ہوجائے، وہ شروع کرایا کرتے تھے۔ باقی خیریت ہے، حالات غنیمت ہیں، بقیہ تفصیلات کی ہمت نہیں۔ اپنی خیریت اور مدرسہ کے احوال سے مطلع فرماتے رہا کریں۔
محمد سلّمہ نے ہدایہ ثانی، نور الانوار وغیرہ لی ہیں۔ شیخ الحدیث نے (محمد بنوری پر)پابندی لگا رکھی ہے کہ بھامجی، لغاری کے ساتھ کبھی بھی ان کی موٹر میں نہ جایا کریں، کبھی ضرورت پیش آئے تو ٹیکسی سے جایا کریں، کسی کی سفارش وغیرہ کے لیے نہ جائیں، ماہانہ رپورٹ تعلیمی ان کو بھجوایا کریں کہ کیا پڑھا ہے؟ اور کتنی حاضریاں تھیں؟ وغیرہ، وغیرہ۔
والسلام
محمد یوسف بنوری عفا عنہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحيم
مولانا الشيخ محترم المقام، صاحبَ الفضل والکرم، مولانا فضل محمد عافاہ اللہ وشفاہ، ووفقہٗ لما يحبہٗ ويرضاہ، آمين!
تحيۃً وسلامًا وأشواقًا وہُيامًا، وبعد:
خطابُکم الکريم وقصيدتُکم العصماء کل ذٰلک أصبح سکونًا للقلب وتسليۃً للفؤاد، وإن کان أشجاني مرضکم، جعلہ اللہ خيرَ وسيلۃٍ لرفع الدرجات ۔
کنتُ رأيتُ في المنام بجدّۃ ۴ من الشوال سنۃ ۱۳۹۴ھ عند رجوعي من المدينۃ أني اُعطيتُ لوحًا مُدوّرًا عليہ وَشْيٌ دقيقٌ فائقٌ في غايۃ الحسن والجمال من فضۃ، کأنہٗ صِلۃ وعطيۃ من اللہ، ومکتوب عليہ قولہ: ’’إنہٗ من سليمان وإنہٗ بسم اللہ الرحمٰن الرحيم‘‘ بخطّ جميل طُغْرائي، ففہمتُ في الرؤيا أنہ بشارۃ بمولود وإشارۃ إلٰی أن أسميہ بسليمان۔ انتہت الرؤيا ۔ وقد تواطئت الرؤی بولادتہٖ قبل أيام من بناتي وزوجتي، وبشری زوجتي المرحومۃ أم محمد رحمہا اللہ، وبشارۃ جدّي السيد آدم بن إسماعيل قدس اللہ سرہٗ، فکانت تؤکّد وتصدّق تلک الرؤيا والبشری، ولولا تلک الرؤيا لسمّيتُہ إسماعيل عملاً بالآيۃ الکريمۃ: ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ ‘‘ فنرجو دعواتکم الصالحۃ لأن يرزقہٗ حياۃ طيبۃ تقر بہ العيون، وأن يجعلہٗ عالما صالحا وعارفا کاملا ۔
والحمد للہ يوم سابع الولادۃ الخميسَ الغابرَ قمتُ بالعقيقۃ المسنونۃ والخِتان الذي ہو من سنن الأنبياء ومن سنن الفطرۃ بغايۃ العنايۃ، وقد عُوفِيَ والحمدللہ وہو في السند في ’’سکّر‘‘، وسيأتي مع الوالدۃ والجدّۃ يوم الأحد القادم ۲۱ نوفمبر إلی کراتشي۔
ہٰذا، وأنتم علی علمٍ أني لا أزال أتفکر وأجتہد لإقامتکم في کراتشي بأيۃ صورۃ، وقد حالتْ مسألۃُ السَّکَن دون کل أملٍ مرجوٍّ، وقد بدأنا في مساکن الطلبۃ الجديدۃ الجنوبيۃ لأجل بناء البيت، ولکن ضاع السعي وخاب الأمل، والآن مسجد ’’بريتو رود‘‘ الذي کان الخطيب فيہ القارئ يوسف الہزاروي، وقد سافر إلی ’’ليبيا‘‘ ويبحثون عن الإمام، ومع المسجد بيت حاوٍ علی ثلاث غُرَفٍ مع المراوح والغاز، وہو جدُّ موزونٍ للسکن، وہو قريب جداً من المدرسۃ، ويريدون إماماً يکون صاحبَ عائلۃٍ وأن يکون کَہْلاً، وأن يجتنب عن خضاب اللحيۃ الأسود، وأن يَعِظَ الناس بعد الجمعۃ علی المنبر، والشروطُ الأربعۃ متوفرۃ في فضيلتکم، فإن رضيتم أتکلم مع أرباب التولي والسلطۃ، فالرجاء أن تخبروني للموافقۃ تلفونياً بقول: نعم، ثم أن تدبّروا للسفر في عطلۃ الأضحی، وأن تصلوا قبل العيد، ہذا رجائي أرجوکم أن لا تخيبوني۔
والسلام عليکم ورحمۃ اللہ
مخلصکم محمد يوسف البنوري عفي عنہ
ملاحظۃ: کتبتُ الکتاب ونسيتُ البعث إلی البريد، وربما يکون ذٰلک لما حصل من التردد في الموضوع، فسمعتُ أن ہناک شيئًا من الاختلاف في المعتقد بين المأمومين، وبالجملۃ الرجاء الاستخارۃ، ثم فَصْلُ الأمر، ولا أريد أن أکون سبباً لتشويش خاطرکم الکريم ۔ والسلام البنوري۔
والمولوي عبدالحنان في غايۃ الإلحاح والإصرار، ويُثْنِيْ علی السکن ويحثني علی الطلب، وأسأل اللہ الخير کلہٗ لکم ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مولانا، شیخ، محترم مقام، صاحبِ فضل وکرم، مولانا فضل محمد صاحب!
اللہ تعالیٰ آنجناب کو عافیت وصحت اور اپنی مرضیات کی توفیق سے نوازے، آمین!
تحیہ وسلام اور قلبی شوق و مودّت!
بعد سلام، آپ کا والا نامہ اور محفوظ قصیدہ، قلبی سکون اور دلی تسلّی کا سبب بنا، اگرچہ آپ کی بیماری (کی خبر) نے مجھے رنجیدہ کردیا، اللہ تعالیٰ اس مرض کو رفعِ درجات کا بہترین وسیلہ بنائے۔
مدینہ منورہ سے واپسی پر ۴ شوال سنہ ۱۳۹۴ھ کو جدہ میں، میں نے خواب دیکھا تھا کہ مجھے ایک گول سی تختی/ پلیٹ دی گئی، جس پر چاندی کے باریک، اعلیٰ اور نہایت خوب صورت نقش ونگار تھے، اور اس پر خوب صورت طغرائی خط کی صورت میں یہ جملہ لکھا تھا: ’’اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ (وہ سلیمان کی طرف سے ہے، اور اس میں یہ [مضمون)] ہے: شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان، نہایت رحم والا ہے۔) خواب میں ہی میں یہ سمجھا کہ یہ نومولود کی خوش خبری ہے، اور اشارہ ہے کہ میں اس کا نام سلیمان رکھوں گا۔‘‘ خواب مکمل ہوا۔
اتفاق سے کچھ ایام قبل میری بیٹیوں اور زوجہ نے بھی بچے کی ولادت، میری مرحومہ زوجہ اور میرے جدّ امجد سید آدم بن اسماعیل قدّس اللہُ سرّہ کی جانب سے (ولادت کی) بشارتوں کے یکساں خواب دیکھے ہیں۔ یہ تمام خواب (میرے) اس خواب اور بشارت کی تاکید وتصدیق کرتے ہیں۔ اگر یہ خواب نہ ہوتے تو میں اس آیتِ کریمہ پر عمل کرتے ہوئے بچے کا نام اسماعیل رکھتا: ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ‘‘ (تمام حمد (ثناء) خدا کے لیے (سزاوار) ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق (دو بیٹے) عطا فرمائے۔) آپ سے دعواتِ صالحہ کی اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بچے کو پاکیزہ زندگی بخشے، جس سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے، اور اُسے صالح عالم اور کامل عارف بنائے۔
الحمد للہ ولادت کے ساتویں روز گزشتہ جمعرات کے دن عقیقہ مسنونہ کیا اور ختنہ کا عمل کیا، جو انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور فطری عمل ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بچہ عافیت سے ہے، اور سکھر (سندھ) میں ہے، آئندہ ہفتہ ۲۱؍ نومبر کو (اپنی) والدہ اور نانی کے ساتھ کراچی آئے گا۔
آپ کے علم میں ہے کہ میں مستقل فکر مند ہوں اور کسی صورت بھی کراچی میں آپ کے قیام کے لیے کوشاں ہوں، لیکن رہائش کا مسئلہ ہر اُمید کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، ہم طلبہ کے جنوبی دار الاقامہ میں گھر کی تعمیر شروع کرچکے تھے، لیکن یہ کوشش ضائع اور اُمید نامراد ہوئی۔ ’’بریٹو روڈ‘‘ کی مسجد جس میں قاری یوسف ہزاروی خطیب تھے، اور وہ ’’لیبیا‘‘ کے سفر پر ہیں، (اہلِ مسجد) امام کی تلاش میں ہیں، مسجد کے ساتھ تین کمروں پر مشتمل گھر بھی ہے، پنکھے اور گیس بھی مہیا ہے، رہائش کے لیے بہت موزوں ہے، اور (یہ مسجد) مدرسہ کے انتہائی قریب ہے۔ وہ لوگ شادی شدہ، اور ادھیڑ عمر امام چاہتے ہیں، جو کالے خضاب سے اجتناب کرتا ہو، اور جمعہ کے بعد منبر پر لوگوں کو وعظ کہہ سکتا ہو۔ آنجناب میں یہ چاروں شرطیں موجود ہیں، اگر آپ راضی ہوں تو (مسجد کے) متولی حضرات سے بات چیت کروں۔ اُمید ہے کہ آپ ٹیلی فون پر ’’ہاں‘‘ کہتے ہوئے موافقت کی اطلاع دیں گے، پھر آپ عید الاضحی کی تعطیلات میں سفر کا نظم بنالیں گے، اور عید سے قبل ہی (کراچی) پہنچ جائیں گے۔ یہ میری اُمید ہے، اور توقع ہے کہ آپ مجھے (اس امید میں) نامراد نہ ہونے دیں گے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا مُخلص محمد یوسف بنوری عفی عنہ
نوٹ: میں یہ خط لکھ چکا تھا، لیکن ڈاک کے لیے بھیجنا بھول گیا، شاید اس معاملے میں تردّد کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اس دوران سننے میں آیا کہ (اس مسجد کے) مقتدیوں کے درمیان عقیدے کا کچھ اختلاف ہے۔ بہرکیف! اُمید ہے کہ استخارہ کے بعد اس معاملہ کا فیصلہ کریں گے؛ میں آپ کے قلبِ کریم کی تشویش کا سبب بننا نہیں چاہتا۔ والسلام البنوری
پس نوشت: مولوی عبد الحنان حد درجہ اِلحاح و اصرار کر رہے ہیں، وہ رہائشی گھر کی تعریف کر رہے، اور (آپ سے) مطالبہ پر مجھے اُبھار رہے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے ہر طرح کی خیر کے لیے دعاگو ہوں۔
(1) ترجمہ: آپ کے حق کی قسم! آپ کے تذکرے کے علاوہ میرے لیے کوئی شے لذیذ نہیں، اور آپ کے علاوہ کسی کا تذکرہ میرے دہن میں کبھی شیریں نہیں ہوتا۔ جس کی آنکھوں نے آپ کے جمال کی تابناکی کا مشاہدہ کیا ہو، وہ آپ کے اشتیاق میں مر جائے گا، کبھی تسلی نہ پائے گا۔
(2) ترجمہ: شاید میرا اللہ ہمیں یکجا کرکے احسان کرے گا، کیونکہ فراق کی قید میں میری تکان طویل ہوگئی ہے۔