بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت بنوری رحمہ اللہ

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ


مکاتیب حضرت مولانا ابوالوفا افغانی رحمہ اللہ
بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

 

مکتوب حضرت مولانا ابو الوفا افغانی رحمہ اللہ بنام حضرت بنوری رحمہ اللہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جلال کوچہ نمبر ۴۶۵ ، حیدرآباد دکن (ہند) 

۱۹؍ ماہِ مبارک صیام، سنہ ۷۵ ھ 

عزیزِ محترم مولوی یوسف جان حفظہ اللہ وأھلَ بیتہٖ من الآفات، آمین! 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ!

 

مکتوبِ مبارک ۲۳ ؍ شعبان کو وصول ہوا، جواب کی فرصت نہیں ملی، خصوصاً ماہِ صیام میں ہمت کی کمی، ضعف وامراض وادویہ کے دوام سے کم توقع تھی کہ جواب دے سکوں، لیکن اللہ جل شانہ کا فضل وکرم شاملِ حال ہے کہ آج لکھنے کا ارادہ کرکے بیٹھا ہوں۔ آپ کے مدرسہ کی کیفیت سے خوشی ہوئی، اور توقع ہوئی کہ ان شاء اللہ وہ آئندہ اچھی رفتار سے چلنے کے قابل ہوگا۔ 
’’کتاب الآثار‘‘ کے نسخے تُجار سورتی کے ہاں ۴۰ سے کم نہیں ہیں، ۴ ؍روپیہ اس کی قیمت مقرر کی ہے، مجلس میں اس کے ۶-۷ سے زائد نسخے نہیں ہیں، اور وہ برائے فروخت بھی نہیں، اس لیے آپ ان سے معاملہ طے کرلیجیے، میں نے بھی ان کو لکھ دیا ہے۔ یہ بہت اچھا ہوا کہ آپ نے اسے نصاب میں رکھ دیا ہے، آثارِ شیبانی تو بازار میں نہیں ہے، اس لیے اسے نصاب میں رکھنا کیونکر ہوسکتا تھا؟! البتہ ہم نے اس کی تصحیح کی ہے، اگر وہ طبع ہو جائے تو نسخہ مصحّحہ پھر کام آسکتا ہے، توقع ہے کہ ’’کتاب الحجۃ‘‘ (امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ) طبع ہوجائے تو اسے بھی نصاب میں رکھ سکیں گے۔ 

افسوس کہ آپ نے ایسے شہر (کراچی) میں بود وباش اختیار کی کہ آب وہوا کے لحاظ سے رہنے کے قابل نہیں ہے، اخیر عمر میں آپ پچھتائیں گے کہ آپ کا بدن امراض کا گھر ہو جائے گا، اور پھر کچھ نہ کرسکیں گے، آپ کے اہلِ بیت بھی دائمی مصائب کا شکار ہوں گے۔ 

کتابوں کی رقم کے متعلق اگر آپ نہیں بھجواسکتے تو میں رقم حاصل کرنے کے بارے میں سوچ سکوں۔ ’’أصول‘‘ (اصولِ سرخسی) کے اشتہار کی ضرورت اس لیے ہے کہ لوگ اس کی اشاعت سے واقف ہوجائیں، کیونکہ وہیں اس کے بہت سے نسخے فروخت ہونے کی توقع ہے، یہاں تو سرد بازاری ہے، صرف ۱۰؍ نسخے سورتی تُجار نے خریدے ہیں، ان کو بھی شکوہ ہے کہ کہیں سے فرمائش نہیں آئی۔ ہندوستان میں علم کا چراغ گُل ہوچکا ہے، یہاں کے علماء تن پروری میں مشغول ہیں، اور بعض مایوسی سے دو چار۔ مجلسِ علمی سے آپ کا تعلق نہیں، مگر آپ کی لکھی ہوئی کتاب کی تکمیل اور اس کے بعد اس کی اشاعت از بس ضروری ہے۔ 

مولوی زاہد حسین نے مجھے لکھا تھا کہ ’’أصول‘‘ کا نسخہ ان کے ادارے کے لیے ہدیہ دے دیا جائے۔ نیز لغتِ حدیث اردو کا مقدمہ بھی روانہ کیا تھا، میں نے اسے دیکھا تو اس میں بہت اغلاط پائیں، اور ان کو نصیحت لکھ بھیجی .....۔ 

آپ کی اور آپ کے اہلِ بیت کی صحت کے لیے دست بدعا ہوں کہ اس خادمِ علم کو صحت سے نوازے، ونیز متعلقین کو کہ خدمت اس پر موقوف ہے۔ میری صحت دو تین سال سے بہت گر گئی ہے، کمزوریِ دماغ ونزلہ کا بار بار حملہ، ضعفِ اعصاب سے دو چار، ۱۲ مہینے سے برابر دوا جاری ہے، خصوصاً موسمِ گرما میں بہت ہی لاچار ہوجاتا ہوں، اس لیے دعا کا محتاج ہوں، اب تو میں چراغِ سحری ہوں۔ ’’معجم الصحابۃؓ‘‘ للإمام عبدالباقي بن قانع کے عکوس استانبول سے وصول ہوگئے ہیں، سنا ہے ’’کتاب الأصل‘‘ کی ایک جلد ’’بیوع‘‘ سے جامعہ مصریہ نے شائع کردی ہے، نسخہ ابھی اس کا وصول نہیں ہوا، بغرضِ اطلاع لکھ دیا گیا۔                       والسلام ودُمتُم بالخیر والعافیۃ

بچوں کو اور اہلِ بیت کو سلام ودعا فقیر کی پہنچا دی جائے۔
                                                                                                                                                                                                                                                                                                   ابوالوفا

...................................

از جلال کوچہ نمبر۴۶۵، حیدرآباد دکن (ہند)

۲۷ ؍ربیع الثانی، سنہ ۷۶ ھ 

عزیزِ محترم دامت معالیہ! 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ! 


گرامی نامہ دربارۂ تعزیتِ اخی مخدوم بیگ مرحوم موصول ہوا، میں آپ کے ہمدردی کے احساس کا شاکر ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ ان کے بچوں کو عمرِ طویل ورزقِ وسیع وعلمِ نافع مع العمل نصیب فرمائے۔ 

مجھ سے تو سرِ دست علمی کام احیاء المعارف (النعمانیہ) کے چھوٹ گئے! دائرۃ المعارف (العثمانیہ) سے تاریخِ بخاری، جلد سوم (تصحیح کی) مزدوری لے لی ہے، تاکہ اس کی اُجرت سے بچوں کی خدمت کرسکوں، نہایت تنگ دستی کا شکار ہوں، جس کا بیان نہیں کرسکتا، بعض قیمتی کتابیں بیچنے (کے لیے) تیار ہوگیا ہوں، تاکہ قرضے ودیون زندگی میں ادا کرسکوں۔ مجلس (احیاء المعارف النعمانیہ) کو کراچی منتقل کرنے کا تو سوال ہی نہیں، یہاں خود حکومت عربی کتب کی اشاعت کی قدردان ہے، کیونکہ دُولِ عربیہ سے وہ عمدہ تعلقات رکھنے کی متمنی ہے، اور ان کی خوشنودی کو پسند کرتی ہے، چنانچہ اس سال حکومت نے دائرۃ المعارف کو چالیس ہزار کی امداد دی ہے، لیکن افسوس کہ احیاء المعارف اتنی رقم سے اپنے پیر پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ آٹھ دس سال پہلے مجھے خیال تھا کہ اسے مصر منتقل کردیا جائے کہ وہاں اس کے اہل علماء موجود ہیں اور وہ قدردان بھی زائد ہیں، مگر بسبب کمیِ سرمایہ اور عدمِ اتفاقِ ارکانِ مجلس وہ رائے بھی کامیاب نہ ہوسکی، میں صرف تنہا مجلس کا مختار نہیں، میرے سوا بھی متعدد ارکان ہیں، جن کی رائے ہمیشہ میری رائے پر غالب رہ سکتی ہے، غرضیکہ اگر اللہ جل شانہ کو منظور ہو تو اسے باقی رکھے گا، ورنہ بظاہر اب اس کی بقا بہت ہی کمزور ہے، اس پر بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں، وما ذٰلک علی اللہ بعزیز! 

میں نے کمیشن کے متعلق خلاف نہیں کیا، آپ نے غور نہیں کیا، مطلب یہ ہے کہ ’’أصول‘‘ (اصولِ سرخسی) کی قیمت ؀ ۲۰ روپیہ ہندی ہے، اگر پاکستانی سکہ اس کے معادل (مساوی) ہے تو اسی قیمت سے دی جاتی، ورنہ اتنے میں جو اس کے معادل ہو۔ خمس بہرحال تُجار کو بیک مشت دس نسخوں پر دیا جانا طے شدہ ہے، اس میں کلام نہیں۔ ’’مختصر الطحاوي‘‘ کی قیمت ؀ ۱۰؍ سکۂ ہند یا اس کے معادل دیگر سکے ہیں، دس نسخوں پر اس میں بھی خمس طے شدہ ہے، ایسا نہ ہو کہ پاکستان میں وہ وہاں کے سکہ سے دس میں دی جائے، اور اس کے معادل ہمیں یہاں آٹھ روپیہ ملیں۔ آپ نے لکھا تھا (کہ) اس وقت مساوی متبادل کی کوئی صورت نہیں، اس پر میں نے لکھا کہ یہاں سے وہاں ارزاں دینے کو ہم کسی طرح گوارا نہیں کرتے۔ 
مفتی صاحب (بظاہر مفتی مہدی حسن شاہ جہاں پوری) نے اتنے دور اپنے حالات آپ کے پاس تو روانہ کردیئے، لیکن میرے باوجود قرب کے بار بار تقاضے پر بھی مجھے اس کا جواب تک نہیں دیا، میں نے شوال سے قبل ان کو لکھا تھا کہ دو ماہ کی رخصت لے کر اس عرصہ میں تعلیق کو ختم کر دیجیے، ان ایام کی تنخواہ ہم مجلس سے آپ کو دیں گے، مگر انہوں نے جواب تک اس کا نہ دیا، پھر لکھا کہ اگر اس کام کو پورا نہ کریں گے تو کتاب ادھوری تو چھپ نہیں سکتی، مجلس کی امداد سال سال کی رک جائے گی، اس کی بھی پرواہ نہ کی، اب سورت (گجرات، انڈیا) سے ایک خط لکھ کر کہتے ہیں کہ اس بارے میں جو فردِ جرم بھی آپ مجھ پر لگانا چاہیں میں حاضر ہوں.....۔
نور محمد کے ذمہ جو رقم ہے، اس کے عوض میں اس خط کے ساتھ جو رقعہ ہے، اس کے موافق وہ کتابیں رعایتِ تاجرانہ سے مجلس کے پتہ سے روانہ کریں، توقع ہے کہ اصول کی قیمت سے وصول ہوجائے۔ حاجی جمال الدین صاحب کو جو نسخہ دیا گیا، غالباً وہ قیمت سے ہی دیا گیا ہوگا، ورنہ قیمت وصول کرلی جائے۔ 
مولانا طاسین صاحب(1) سے ملاقات کے وقت کہہ دیجیے کہ آپ کو خط لکھا، مگر رسید اس کے لفافہ میں ڈالنا بھول گیا تھا، اس لیے یہ رسید اُن کو دے دی جائے۔ جواب کی فرصت نہ ملنے کی وجہ سے جواب میں بہت دیر ہوئی، میری صحت بھی اچھی نہیں، دوائیں جاری ہیں۔ مصر پر بمباری ہوئی، اگر اس سے خدانخواستہ اُصول وغیرہ کتب پر اثر پڑا ہو تو پھر کتابیں ملنا دشوار ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنا رحم فرمائے۔                                                                        والسلام: ابوالوفا

حواشی

(1)    حضرت بنوری رحمہ اللہ کے داماد اور اس دور میں مجلسِ علمی کراچی کے ناظم۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین