بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولوی،معاشرہ اورجدید فضلاء کی ذمہ داری!

 

مولوی،معاشرہ اورجدیدفضلاء کی ذمہ داری!  

 مدرسہ دورِجدیدکی دجالی تہذیب کے مقابلے میں ’’حق‘‘ کا بہت بڑا مورچہ ہے، مدرسہ کی آبادی وشادابی تہذیبِ جدید کے نمائندوں کی آنکھ کاکانٹاہے اوران کے مالی وسائل کاایک بڑا حصہ مدرسہ کے کردار کو غیر مؤثر کرنے کی کوششوں پر خرچ ہورہا ہے۔ کئی این جی اوزاس حوالے سے سرگرم ہیں، ان کے ارباب کو کبھی ایک دن بھی مدرسہ میں گزارنے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن وہ لاکھوں خرچ کرکے مدارس کی اصلاح کے لیے سیمینارز منعقد کررہے ہیں اور جدید فاضل کو ’’حسی تمدن‘‘ اور ’’دجالی تہذیب‘‘ سے ہم آہنگی کا درس دے رہے ہیں، تاہم یہ بات واضح ہے کہ اگر مدارس میں خوداحتسابی کا عنصر باقی ہو اور اپنی کمزوریوں کے ادراک اورتدارک میں تساہل نہ برتاجائے تو اس کے تشخص اور نظریہ کودنیاکی کوئی طاقت بہ زور ختم نہیں کرسکتی اوراس کی آئندہ نسلیں پہلوں سے بڑھ کرمیدان سنبھالنے کی اہل ہوں گی۔  جدیدفاضل ہماری محنتوں کاثمرہ اور نیک توقعات کا محور ہے۔ عصرجدید کی پیچیدہ ترین علمی وعملی تحدیات میں اُمت کی رہنمائی کا فریضہ اسی نے انجام دینا ہے، لہٰذاضروری ہے کہ اس کی ذہنی وعملی استعدادیں اس درجہ قوی ہوں کہ وہ ان تحدیات کی مقاومت اور ان سے بخوبی عہدہ برا ہونے کا فرض نبھاسکے۔ اس حوالے سے اپنے جدید فضلاء کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنی ہیں۔ امیدہے کہ معاشرہ میں ایجابی کام کے حوالے سے ان کی اہمیت محسوس کی جائے گی۔ ۱:…ہم جس ماحول میں جی رہے ہیں یہ اپنی روح کے اعتبار سے اسلامی نہیں، اسلامی اقدار: دیانت ،امانت،فرض شناسی، حیا، عدل وانصاف اور ایثار ومروت وغیرہ کی معاشرتی وریاستی سطح پر پامالی مُشاہَد ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عالمی طاقتوں کا جبراً مسلط کردہ دجالی نظام ہے جس کی بنا مادیت پرستی، نتائجیت پرستی، عقلیت پرستی اور جمہوریت پر قائم ہے۔ یہ اقداراپنی ماہیت میں اسلامی اقدار سے بالکلیہ متصادم ہیں۔ فحاشی وعریانی کے چہارسوپھیلے مظاہر،شہوانی جذبات کی برانگیختگی کاسبب ہیں۔ ملاوٹ، دھوکہ دہی، کام چوری،حرام خوری، جھوٹ ،حرص اورمادی ترقی کے لیے حلال وحرام کی تمیز کا خاتمہ اب کلچر کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ ان منفی اقدار کے اثرات سے حفاظت ایک مشکل اور کٹھن کام ہے۔ بڑے بڑے عبادت گزاراوردین دار کہلانے والے دانستہ یانادانستہ ان کی زَد میں ہیں۔ موجودہ مادی ثقافت سے ہم آہنگی تبھی ممکن ہے جب یہ منفی اقدارطبع پر پوری طرح حاوی اور مزاج کا حصہ ہوں۔ ان کے مقابل اگر روحانی اقدار کو غلبہ دیا جائے تو عصر جدید کے مادی وحسی تمدن سے مقابلہ کے لیے عمل کی وہ قوت حاصل کی جا سکتی ہے جو مدرسہ سے حاصل شدہ علم کے عین مطابق ہوگی، لیکن اس ماحول میں فاضل کے لیے اپنے علم (قرآن وحدیث) اور عمل کے اندرکامل مطابقت پیدا کرنا ایک بڑاچیلنج ضرور ہے۔ ہمارا فاضل اس مقاوَمت میں احساسِ کمتری کے باعث فکری ونظریاتی شکست اور تہذیبِ جدیدسے ہم آہنگی کے میلانات کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنے آپ کو مادیت کی ہمہ جہتی، چکاچوند اور حسی تمدن کے اثرات سے محفوظ رکھنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ وہ فقرِ بوذرؓاور خوئے حیدریؓ کاعلم رکھنے کے باوجوداُسے عملاًبرتنے میں ناکام رہتاہے۔ اُسے بھی مادی آسائشوں سے مستفید ہونے اوراپنی دینی خدمات کی انجام دہی کے لیے مادی طرق اور حسی نمائشوں کواپنانے میں دل چسپی پیدا ہوجاتی ہے۔ حالانکہ انبیاء کرام B، صحابہs اورمجددین کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے اَدوارکے مادی اورحسی تمدن سے بغاوت کی ہے، اور اُسے اپنے مقاصدکے لیے سب سے بڑی آڑ سمجھا ہے۔ انبیاء oاورمجددین کے مقابل طبقات ہمیشہ سے مادی وحسی تمدن کے نمائندے رہے ہیں۔ حق کے غلبہ کے بعدان اساطین نے اس مادی تمدن کے مظاہرسے مستفید ہونے کی بجائے اس کا خاتمہ اور اپنے متعلقین کواس سے بچانے کی سعی کی ہے۔ حضرت موسیٰ m کے مقابلے میں جب فرعون غرق ہوا تو آپ نے ان کے محلات کی طرف دیکھاتک نہیں۔ صحابہ کرامs نے روم وفارس کے بڑے بڑے مراکز فتح کرنے کے باوجود اپنا تختِ خلافت مساجدکی چٹائیوں پر سجائے رکھا اور ان کے محلات اورآسائشوں کی طرف مطلق توجہ نہ کی۔ آج دین کی تبلیغ کے لیے مسجدکے بجائے ہوٹلوں کے ہالوں،منبرکی جگہ سٹوڈیوکاانتخاب اورمدارس کی تعمیراورجلسوں میں حسی تمدن کی نقالی مادیت کے اسی ہمہ گیرسیلاب سے تأثرکانتیجہ ہے۔  ہمارے فاضل کواس تمدن میں اپنا ایجابی کردار ادا کرنے اورتحزُّب و تشتُّت سے بالاتر ہوکر اس کی تحدیات سے نبردآزما ہونے کے لیے علم وعمل کی مطابقت کا جو معرکہ سر کرنا ہے اس کا واحد ذریعہ ’’تزکیۂ باطن’’ہے۔سنت اللہ یہی ہے کہ اس کا حصول اہل اللہ کی صحبت کے بغیر مشکل ہے۔ انسان زمین پر اللہ کاخلیفہ ہے، اس کودوجہان عطاکیے گئے ہیں: ایک جہانِ اصغریعنی اس کی ذات اورایک جہانِ اکبریعنی خطۂ ارضی۔ ان دونوں جہانوں پر طاغوت کے غلبہ کااستیصال اور احکام الٰہی کانفاذہی فریضۂ خلافت کا اولین تقاضا ہے۔ منصب ِخلافت کی انجام دہی کا کام جہانِ اصغر پر غلبہ کے سفر سے شروع ہوتا ہے۔ ذاتِ انسانی کے اندرنفس وشیطان کی کار فرمائی اورماحول کی معاونت سے رذائل اورشیطانی اقدارکا ایک پورا جہان آباد ہے۔ اس جہان کو ’’جہادِاکبر‘‘ سے فتح کرکے مغلوب کرنا، تکبر، حرص ،حبِ جاہ ومال، خیانت اور شہوت وغضب جیسی باغی اور مہلک قوتوں کی پامالی اور روح، نفس، قلب اور عقل جیسے اساسی اداروں کواللہ تعالیٰ کے قانون ودستور پر استوار کرنا قیامِ خلافت کا پہلا مرحلہ ہے،کیونکہ یہ باغی طاقتیں انسان کے اندر’’اقتداری نفسیات‘‘ کی افزائش کرتی ہیں اور اسے آزاد اور بے لگام رکھناچاہتی ہیں۔اس نفسیات کے ہوتے ہوئے ’’عبودیت‘‘کے تقاضے ہرگز پورے نہیں ہوسکتے اورعبودیت کامزاج بنے بغیراحکام الٰہی کے امتثال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مغربی تہذیب کاحاصل یہی ہے کہ انسان ہر مقتدرِ اعلیٰ سے آزاد اور خودمختار اقتدار کا مالک ہو، اس کے اندر شیطانی اقتدار پوری قوت سے کارفرماہو اوراس کی اقتداری نفسیات مضبوطی سے قائم ہوں۔ اسلام اسی نفسیات کے توڑنے کے لیے آیا ہے، کیونکہ ان نفسیات کے ہوتے ہوئے پانچ فٹ کے بدن پر احکام الٰہی کی تنفیذناممکن ہے، چہ جائیکہ عالم انسانی میں معروف کی ترویج اور منکر کے خاتمے کا کٹھن کام کیاجاسکے، لہٰذا معاشرہ میں دعوت اوراقامتِ دین کی محنت اورشیطانی تہذیب کی تحدیات کا مقابلہ اسی پرموقوف ہے کہ’’جہانِ اصغر‘‘کی بہیمی قوتوں کومغلوب کردیاجائے اوران کا اقتدار چھین کر روحانی اَقدارکے حوالے کردیا جائے۔ جب اپنے اعضاء وجوارح پر احکام کے نفاذ کا مرحلہ سر ہو تو خارجی ماحول کی مقاومت آسان اور اس کی تحدیات سے عہدہ برا ہونا ممکن ہوجاتا ہے، لہٰذا جدید فاضل کی اولین ذمہ داری اپنی ذات پر ’’خلافتِ صغریٰ‘‘ کا قیام ہے۔ اس کے بغیر عہدِ جدید کے طوفانوں اور تباہ کن اَثرات سے بچاؤ ایک خواب تو ہوسکتا ہے‘ حقیقت نہیں۔ اقامتِ دین کے لیے ہماری کاوشیں بَر نہ آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں اجتماعی نوعیت کے کاموں میں تَن دہی ہمارا نصب العین بن جاتا ہے، جب کہ علم وعمل کی مطابقت کا معرکہ تشنہ تکمیل رہتا ہے۔ یوں ان کاوشوں سے ’’خیر‘‘ اور ’’حق‘‘ کا بھرپور پرچار نہیں ہوپاتا، بلکہ ان سے تخریب وتفرقہ کی افزونی ہوتی ہے اور ہم اس ’’غرور‘‘ کا شکار رہ جاتے ہیں کہ خیر اور حق ہمارے ہی اندر دائر ہے۔ علم وعمل میں عدمِ مطابقت سے فاضل کی زندگی سینکڑوں مسائل ومشکلات کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ ہروقت ذہنی دباؤ، مزاج میں عدمِ توازن، گفتگو میں بے احتیاطی، معمولی باتوں پر اشتعال، مداہنت وخوف کی نفسیات، احساسِ کمتری واحساسِ برتری کی کیفیات، عزیزواقارب اور اپنے متعلقین سے کشیدگی اور احساسات کی نزاکت جیسے مسائل کا اُسے سامنا رہتا ہے اور یہ دشواریاں اس کی زندگی کا ظاہری وروحانی سکون چھین کر اُسے تلخ بنادیتی ہیں۔ ۲:…فاضل کے پیشِ نظر یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ مدارس سے حاصل شدہ معلومات اور استعداد پر قناعت اپنے ساتھ بڑا دھوکہ ہے۔ ہمارا نصاب ’’عالم‘‘ نہیں بناتا، بلکہ علم کی ’’راہ‘‘ کھولتا ہے۔ اس کوپڑھ کر اپنے تئیں عالم باور کرانا ’’جہل‘‘ ہے۔ نصاب میں جن علوم وفنون کو پڑھا ہے ان کے مزید مطالعہ کامعمول اور جن کے پڑھنے کی استعداد پیدا ہوتی ہے‘ ان کا بلاتاخیر حصول اولین اہداف میں سے ہونا چاہیے۔ ایک فاضل کو قرآن وحدیث، فقہ واصولِ فقہ، بلاغت وادب، منطق و فلسفہ اور ضروری جدید فنون سے نہ صرف مناسبت ہونی چاہیے، بلکہ اپنی استعداد اس درجہ بڑھانی چاہیے کہ ان علوم وفنون پر جدیدوقدیم ذخیرہ سے استفادہ ممکن بناسکے۔ عصری اسالیب ِبیان سے واقفیت حاصل کرسکے اور ان علوم وفنون پر اُٹھنے والے جدید اشکالات ومباحث کی درست تفہیم اور حل پیش کرسکے۔ ۳:… جدیدفاضل کے لیے بہترین علمی صلاحیت کی افزائش کے ساتھ اپنے اندر ’’داعیانہ نفسیات ‘‘کی تشکیل بھی ازحدضروری ہے۔ داعی میں جس لگن، محنت، تڑپ اور فکر کا پایا جانا ضروری ہے، عموماً ہم اس سے محروم رہتے ہیں۔ ہمارا مزاج یہ ہے کہ ہم اپنے مخاطب کوبہت جلد ’’مخالف‘‘ ڈیکلیئر کرکے مخاصمانہ روش پر اتر آتے ہیں، جب کہ داعی اُسے’’مخاطب‘‘ ہی سمجھتا ہے۔ اس جوہری فرق کی وجہ سے ہم اپنے مخاطب کوزیادہ سے زیادہ قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوراس کے لیے ’’دلیل‘‘ کو سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتے ہیں، جب کہ داعی مخاطب کو قائل کرنے کی بجائے ’’مائل‘‘ بلکہ ’’گھائل‘‘ کرنے کی فکرمیں رہتا ہے اوراس کے لیے دلیل سے بڑھ کر عمل، محبت اور دعا کو کام میں لاتا ہے۔ مغربی تہذیب نے نسل نوکی ذہنی ساخت و پرداخت جن واہی تباہی افکار پر تشکیل دی ہے، انہیں اس بھنورسے نجات کے لیے داعیانہ سوزوساز کی ضرورت ہے۔ اس کی استعداد کسی طبقے میں اس قوت سے پائی جانا ممکن نہیں، جتنی حاملانِ قرآن وحدیث سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ جدید فاضل کے لیے اس سلسلے میں مولانا ابوالحسن علی ندویv کی تصانیف سے اعتناء ضروری ہے۔ دعوتِ دین کے لیے جدید ذرائع خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کا استعمال بھی آج کے جدید فضلاء پر بھوت کی طرح سوار ہے اور اُسے مصالح اورضرورت کی خاطر گوارا کیا جارہا ہے۔ یادرکھیں! مصالح کی حد درجہ رعایت تساہل وبے باکی کو جنم دیتی ہے۔ حضرت تھانویv فرماتے ہیں کہ’’مصالح‘‘پیسنے کی چیزیں ہیں‘ ان کو پیس کر ہی دین میں مزا آتا ہے۔ مصالح کے نام پر الیکٹرانک میڈیا کو گوارا کرنا بدترین تساہل ہے۔ میڈیا اپنے اقدار کے اعتبار سے ایک خالص شیطانی آلہ ہے۔ اس کی بالکلیہ تطہیر ناممکن ہے۔ ایسے آلودہ آلات سے تبلیغ دین کا مبارک مقصد ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مجددین کی دعوت کا ثمرہ منصوص طرقِ دعوت کو اختیارکرنے سے سامنے آیا ہے۔ جن فقراء کے ہاتھوں پر لاکھوں لوگ اسلام لائے ہیں اور کفریہ معاشروں کی کایا پلٹی ہے‘ وہ منصوص طرق سے سرمو نہیں ہٹے۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ دعوتِ دین کے کام میں ذرائع کی حیثیت ثانوی ہے، اصل داعی کا اخلاص، للہیت، سوزوساز اور تڑپ ہے۔ تبلیغ دین کا جو ذریعہ اسلامی اقدار سے متصادم ہو اس کی ہمہ گیریت کے باوجود اس سے ’’خیر‘‘ کا پھیلاؤ ممکن نہیں۔ جدید فاضل کو انبیاء کرام o ومجددین کی تاریخ سامنے رکھ کر دعوتِ دین کی حکمت عملی مستنبط کرنی چاہیے۔ گوکہ اس کادائرہ محدود ہو، لیکن اس کے اثرات ضرور ہمہ گیر ہوں گے۔   مشاہدہ یہی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر دینی تبلیغ نے علماء کے وقار کو کم اور اباحت پسندی کے رجحانات میں اضافہ کیا ہے۔ علماء کی ایک بڑی تعداداس کے باعث مادی سیلاب سے دوچار ہوئی ہے اور علمی وعملی تساہل کے نتیجے میں حقائق کی جگہ محض چرب زبانی اور لفظوں کے کھیل نے لے لی ہے۔  ۴:…اس وقت علمی وعملی فتنوں کی بہتات ہے، جدیدفاضل کے سامنے آئے دن نئے نئے افکار وخیالات آئیں گے۔ ان فتنوں سے بچاؤ کا واحد راستہ جمہورسلف کے فہم دین پر اعتماد ہے۔ نراعلم تعلّی اور دعویٰ کی جس نفسیات کو جنم دیتاہے‘ اس کو اعتدال پر لائے بغیربھٹکنے کا خطرہ اور اپنے فہم کو حرف آخر سمجھنے کا جذبہ زوروں پر ہوتا ہے۔ عصر حاضر کے متجددین ایسے فضلاء کی تاک میں رہتے ہیں جوتحقیق کے نام پر خودرائی کا شکار ہوسکیں اور سلف پر عدم اعتماد کی برملا جرأت کرسکیں۔ حالانکہ جولوگ علم و تحقیق کے نام پرجمہورسلف سے جداگانہ راہ اختیارکیے بیٹھے ہیں، ان کی کوئی فکر نئی نہیں، بلکہ یہ بھی تاریخ کے ان آوارہ فکر افراد یاطبقات کی آراء کی جگالی کر رہے ہیں، جنہیں امت کااجتماعی ضمیربہت پہلے ردکر چکا ہے، بس! ان کے افکار کو نیا لبادہ پہنانے کی کاوش ضرور اُن کی ہے۔ ایسے لوگوں کی مساعی کا حاصل یہی ہوتا ہے کہ مشاہیر کے تفردات سے اپنے من پسند نتائج کشید کریں یاماضی کے گمراہ طبقات کے افکار پر معاشرہ کی اجتماعی دینی ضروریات کی بنیاد رکھ کرایک آزاد فکر پیش کرنے کی کوشش کریں۔ اسی سے انکارِحدیث، اجتہاد کے نام پر تحریف و تاویل، انکارِ اجماع، تقلید سے فرار اور اکابر پر عدمِ اعتماد کی فضاء ہموار ہوئی ہے۔ محض عمل کی غلطی سے تباہی نہیں آتی، ہاں! جب عمل کی کوتاہی کو سہارا دینے کے لیے’’علم‘‘ غلط ہوجائے، تو تباہی کئی نسلوں تک متعدی ہوجاتی ہے۔ یہ جدت پسند علم کی غلطی کا شکار ہوکر نسل نوکی بربادی کا سامان مہیا کررہے ہیں۔ دین کے طے شدہ مسائل کا خودرائی کی بنیاد پر ازسرنو جائزہ اور اس میں آزاد اور تساہل پسند افراد کی آراء کی اتباع عصرحاضر کا فیشن بن چکا ہے۔ علم ودانش کے افلاس کا یہ عالم ہے کہ ایسے افراد کو ’’محقق‘‘ سمجھا جاتا ہے اور جس کی فکری آوارگی کا دائرہ جتنا وسیع ہو‘ اُسے اتنی ہی مقبولیت اور شہرت سے نوازا جاتا ہے۔ ان متجددین میں ایک بھی ایسانہیں جس نے اُمت کو درپیش تحدیات کا کوئی معقول حل پیش کیا ہو اور سیاسیات، معاشیات یا عمرانیات کے درپیش جدید مسائل پر کوئی کام کیا ہو۔ ہاں! قدیم ذخیرے کو مشکوک بنانے،طے شدہ مسائل واحکام میں تساہل وآزادی کی راہ کھولنے اور ان کی مغربی تہذیب کے آثار ومظاہر سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ ۵:… ہمارے فاضل کو یہ بھی مسئلہ درپیش رہتا ہے کہ اس نے دینی خدمات کا اپنا ایک دائرہ مقرر کیا ہوتا ہے اوراس کے علاوہ کسی اوردینی کام یامحنت کے لیے اس کی طبیعت آمادہ نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات دیگرکاموں سے استخفافی رویہ برتا جاتا ہے،مثلاً: مدارس کے کثیر طلبہ ’’تدریس‘‘ ہی کو اصل کرنے کا کام سمجھتے ہیں اور اس مغالطہ کا شکار رہتے ہیں کہ اگر تدریس نہ ملی تو ان کی استعداد ضائع ہوگی اور یہ ’’محرومی’’ کی علامت ہوگی، حالانکہ مطالعہ کی وسعت اور استعداد کی بقاء وحفاظت کا تعلق ذاتی ذوق وشوق اورعلمی ماحول کے قیام پر ہے۔ بہت سے مدرسین ایسے ہوتے ہیں جوسال ہاسال سے کسی کتاب کا درس دے رہے ہوتے ہیں، لیکن انہیں اس فن کے اضافی مباحث کی مطلق خبر نہیں ہوتی، وہ اپنے آپ کو ایک اردوشرح تک محدود رکھتے ہیں اور مدرسہ میں مطالعاتی ماحول نہ ہونے کے باعث درسیات کے خول سے باہر نہیں نکل پاتے۔ تدریس بہترین علمی خدمت ہے، تاہم اس کادائرہ انتہائی محدودہے،اس کی نسبت امامت اور مسجد کو اپنی دینی سرگرمیوں کا مرکز بنانا زیادہ مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح عامۃ الناس کے لیے مفید دینی تعلیمی پروگرام، درسِ قرآن وحدیث، خطابت اور دعوت وتبلیغ کی محنت بھی فاضل کے پیش نظر رہنی چاہیے، ان میں سے کل وقتی کوئی کام میسر نہ ہو تو حلال روزگارکی کوشش کے ساتھ جزوقتی سرگرمی اختیار کی جائے اور اُسے غنیمت سمجھا جائے۔ اس کے ساتھ کسی ماہر استاذ کی نگرانی میں اپنے مطالعہ کومسلسل وسعت دی جائے۔ ۶:…یہ بات بھی پیش نظررہے کہ معاشرہ میں مولوی کا مقام زوال پذیر ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں جومستقل گفتگوکے متقاضی ہیں، تاہم ایک بڑا سبب ہمارے طبقہ میں دینی کاموں کی ترقی کی حرص میں معاشرہ سے ’’طمع‘‘ کا تعلق ہے۔ علم اور طمع کا باہم کوئی جوڑ نہیں اور اس جوڑ کو قائم کرنے کی کوشش ذلت وخواری پر منتج ہوتی ہے۔ مولوی کے اندر روزافزوں ’’طمع کی نفسیات‘‘ اس ذلت وخواری کا بڑا سبب ہے۔ دینی کاموں کا دائرہ اتنا ہی رکھنا چاہیے جس کے لیے اپنے منصب کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے وسائل مہیا کیے جاسکیں۔ بازاروں اورمسجدوں میں مدارس کی تعمیرات واخراجات کے لیے اعلانیہ ہاتھ پھیلانے والوں کے ذمے اس حد تک جانا ہرگز واجب نہیں ہوتا، لیکن وہ اس پر اپنے آپ کو آمادہ کرلیتے ہیں، جس کا نتیجہ ’’منصب‘‘ کی بے وقعتی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جدید فاضل کے لیے اس حوالے سے حضرت تھانویv کے ملفوظات وخطبات میں رہنمائی کا کافی سامان ہے، اسے حرزِجان بنانا چاہیے۔ ۷:…جدیدفاضل کو اپنے مقام واحترام کے حصول کے لیے معاشرہ اور متعلقین سے توقعات رکھنا بھی زیب نہیں دیتا۔ یہ جذبات ’’امتیازی شان‘‘کی نفسیات پیدا کرتے ہیں۔ اس نفسیات کے حامل ہمہ وقت اس خوف کا شکار رہتے ہیں کہ کہیں ان کی ’’مقبولیت‘‘ کم یامتاثر نہ ہو، ان کی کاوشوں کا محور اپنے اسی خول کی حفاظت رہتی ہے اور وہ کوئی کارنامہ انجام دینے کے قابل نہیں رہتے۔ ایسے لوگ اپنے اورمعاشرہ کے درمیان خلیجوں کو جنم دیتے ہیں اور اپنے مخصوص ماحول اورطبقہ سے بالاتر ہوکر سوچنے کے اہل نہیں رہتے۔ معاشرہ میں اکابر علماء کے احترام ومقام کی پشت پر طویل مجاہدات ہوتے ہیں۔ ان کی حالیہ زندگی دیکھ کر ان کی نقالی شروع کردیناکم ظرفی کی علامت ہے۔ معاشرے میں ایجابی کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو مجاہدات کی بھٹی سے گزرکر اورشدائد و مشکلات برداشت کرکے آگے بڑھے ہوں۔ آج اداروں اورتحریکات میں بغیرکسی مجاہدہ اور کردار کے ’’صاحبزادگان‘‘ کی گدی نشینی سے جو ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں‘ وہ کسی فہمیدہ شخصیت پر مخفی نہ ہوں گے۔ بغیر کسی تدریجی وارتقائی سفر کے لیڈر اور مہتمم بننے والوں کومخدومیت ومقبولیت کامنصب ملتاہے تووہ اسی خول میں بندہوکر رہ جاتے ہیں، اس کا تحفظ اور بقاء ہی ان کامقصد وحید ہوتا ہے۔یوں رفتہ رفتہ ادارے اورتحریکات اپنا مقام کھودیتے ہیں۔ جدید فاضل کو اپنے مقام واحترام کی کوئی توقع معاشرے سے وابستہ نہیں کرنی چاہیے اور نہ اس نیت سے کام کرنا چاہیے۔ خلوص وللہیت کے ساتھ جہدمسلسل کی خوڈالنی چاہیے۔ ان شاء اللہ ! محنت ومجاہدہ سے یہ سارے مراحل فطری طور سے طے ہوں گے اور دینی ودنیوی مقبولیت قدم چومے گی۔ ۸:…خواہشات ِزندگی کے طول اورمغربی تہذیب کے تسلط کے نتیجے میں معیارِ زندگی کی جبری بلندی نے ہمارے طبقہ میں بھی اسراف وتبذیراورعدمِ قناعت کا رجحان پیدا کردیا ہے، جس کے باعث ’’معاش‘‘ کامسئلہ پیداہورہاہے ،اس میں شک نہیں کہ ہمارے طبقہ کے مالی وسائل بہت محدود ہوتے ہیں، لیکن ضروریات کادائرہ دستیاب مالی وسائل کے اندر رکھنا ہی قناعت ہے اورفاضل سے یہی مطلوب ہے۔ ضروریات فقراء کی بھی پوری ہوجاتی ہیں اورخواہشات بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں۔ ضرورت وخواہش کی تمیزکرکے اقتصادوقناعت سے کام لیناناگزیرہے ، وگرنہ زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ جدید فضلاء سے یہ چندبکھری باتیں اپنے نفس کوسامنے رکھ کر کی گئیں ۔ امید ہے یہ مذاکرہ خیر کا باعث بنے گا۔اللہ رب العزت ہم سب سے اپنے دین متین کی مقبول خدمت لے۔   ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین