بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مولانا محمد اکبر خانؒ ، مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ ، مولانا فضل ربی ندویؒ

مولانا محمد اکبر خان رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت!


مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہٗ کے شاگردِ رشید، جامعہ قاسم العلوم ملتان کے فاضل اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اکبر خانؒ ۲۰ ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ مطابق ۶ دسمبر ۲۰۲۰ء بروز اتوار اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شئ عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
آپؒ لکی مروت کے قریب ایک قصبہ کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں رہ کر حاصل کی۔ دورۂ حدیث جامعہ قاسم العلوم ملتان سے کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ جامعہ شمس العلوم ، بستی مولویاں، ضلع رحیم یار خان میں تدریس کا آغاز کیا، اس کے بعد جامعہ باب االاسلام کہروڑ پکا، ضلع لودھراں میں بھی پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد اپنی مادرِ علمی جامعہ قاسم العلوم کو اپنی جولان گاہ بنایا اور تادمِ آخر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ آپ کا درس طلبہ میں بہت مقبول تھا ، آپ کے ہزاروں شاگرد مختلف مدارس میں تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرتؒ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے، اور اُن کے صدقاتِ جاریہ کی حفاظت فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ 

 

محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ کے شاگردِ رشید، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل، مجاہدِ ختمِ نبوت، جامع مسجد غلہ منڈی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے خطیب حضرت مولانا محمد عبداللہ لدھیانویؒ ۱۷ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۲ھ مطابق ۲؍جنوری ۲۰۲۱ء بروزہفتہ صبح ساڑھے تین بجے اس دنیائے رنگ وبو میں ۷۸ بہاریں گزار کر راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
آپؒ کی پیدائش ۱۹۴۳ء میں چھنگیاں ماچھواڑہ، ضلع لدھیانہ میں ہوئی۔ تقسیم کے بعد آپ کا خاندان ماچھی وال ضلع وہاڑی میں آکر آباد ہوا۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ سے حاصل کی، میٹرک بورے والہ شہر سے کیا۔ اس کے بعد دینی تعلیم کی طرف توجہ کی، ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز مدرسہ احیاء العلوم ماموں کانجن سے کیا ، جہاں حکیم العصر شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ استاذ تھے، کئی درجات وہاں پڑھے، دورۂ حدیث کے لیے آپ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تشریف لائے۔ دورۂ حدیث کے اسباق آپؒ نے محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ، حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھیؒ، حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ ؒ سے حاصل کیے۔ ۱۹۶۶ء میں آپ دینی تعلیم سے فارغ التحصیل ہوئے۔ محدث العصر حضرت بنوریؒ نے فتنۂ قادیانیت کے استیصال کے لیے آپؒ کو مولانا لال حسین اخترؒ مرکزی راہنما عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت پاکستان کے سپرد کیا۔ کچھ عرصہ کراچی میں بطور مبلغ کے کام کیا، اس کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ غلہ منڈی مسجد کے امام وخطیب مقرر ہوئے۔ تقریباً پچاس سال یہاں دینی خدمات انجام دیں۔ آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے بیٹے وجانشین حضرت مولانا سعد اللہ لدھیانوی صاحب نے پڑھائی، جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے، آپ کی دینی خدمات کو قبول فرمائے، آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے اور آپ کے لواحقین اور اعزہ واقرباء کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا فضل ربی ندوی رحمۃ اللہ علیہ 

 

محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ کے شاگرد، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ودارالعلوم ندوۃ العلماء انڈیا کے فاضل، مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے معتمد، مجلسِ نشریاتِ اسلام کے بانی ونگران حضرت مولانا فضل ربی ندویؒ ۷؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۲ھ مطابق ۲۳؍ دسمبر ۲۰۲۰ء بروزبدھ سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
مولانا فضل ربی ندویؒ ۱۹۴۳ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صاحب کاروباری شخصیت تھے، علمائے کرام سے آپ کا تعلق ہوا تو اپنے بیٹے فضل ربی کودارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل کرادیا، جیساکہ مولانا فضل ربی ؒاپنے حالات میں لکھتے ہیں:
’’ہمارا تعلق پنجابی سوداگراں دہلی سے ہے۔ ہماری برادری کاروباری ہونے کے ساتھ خاصا مذہبی رجحان رکھتی ہے۔ یہ ۱۹۵۷ء کی بات ہے کہ میں کلکتہ میں ایک انگلش اسکول میں زیرِتعلیم تھا، اس وقت میری عمرکوئی پندرہ سال ہوگی۔ والد محترم حاجی محمد عارفین رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا علی میاں ندوی قدس سرہٗ اور ندوۃ العلماء سے تعلق کی وجہ سے مجھے اسکول سے نکال کر دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل کردیا۔ یہ اللہ کا عظیم احسان اور میری بڑی سعادت اور خوش بختی کی بات تھی۔ اس طرح میں ندوہ کے قیام کے دوران حضرت نوراللہ مرقدہٗ کے زیرِنگرانی و سرپرستی میں ۱۹۶۴ء تک رہا۔ ان سات برسوں میں حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ کوقریب سے دیکھا، آپ کی مجلسوں میں بیٹھا، تکیہ رائے بریلی میں بھی خدمت میں رہا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ذات مجموعۂ محاسن تھی۔ اخلاص، سچائی ،متانت ، دل جوئی، دل کی پاکی، عمل کی قوت، تواضع و خاکساری، عبادت و ریاضت، اللہ تعالیٰ نے ان تمام اوصاف سے مزین فرمایا تھا۔ مجھ ناچیز پر حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی محبتیں، شفقتیں ناقابلِ فراموش ہیں۔‘‘ (مولاناعلی میاںؒ کے خطوط، ص:۱۱)
۱۹۶۵ء میں آپ کے والد صاحب مستقل پاکستان آگئے تو مولانا فضل ربی صاحب نے دورہ حدیث کے اسباق دوبارہ جامعہ علومِ اسلامیہ میں سماعت کیے۔ آپ کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی تمام کتابوں کو پاکستان میں چھاپنے کے لیے حقوق حاصل کرنے کے بعد عمدہ اور معیاری انداز میں اُن کو چھاپا، علمائے کرام سے آپ کا ہمیشہ قریبی تعلق رہا۔ حج وعمرہ کا بھی آپ کو کافی ذوق تھا۔ وسط ایشیا کی آزاد ہونے والی ریاستوں میں وہاں کے مسلمانوں کو قرآن کریم کی ضرورت تھی، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نور اللہ مرقدہٗ کے حکم پر پانچ لاکھ قرآن کریم کی طباعت کا مرحلہ تھا، تو حضرت مولانا مفتی جمیل خان شہیدؒ کی معیت میں دوبار اُن ریاستوں کا دورہ کیا اور وہاں چھپنے والے قرآن کریم کی طباعت واشاعت کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے، آپ کے لواحقین کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ اس دنیا سے رخصت والے تمام مرحومین کے لیے قارئینِ بینات سے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین