بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولانا محمد اسحاق صدیقی سندیلوی رحمۃ اللہ علیہ   اور عقیدۂ نزولِ مسیح  ؑ ایک فریب کا تحقیقی جائزہ!

مولانا محمد اسحاق صدیقی سندیلوی رحمۃ اللہ علیہ   اور عقیدۂ نزولِ مسیح  ؑ

ایک فریب کا تحقیقی جائزہ!

حضرت مولانا محمد اسحاق صدیقی سندیلویؒ ۲۴؍صفر ۱۳۳۱ھ مطابق ۱۲؍فروری ۱۹۱۳ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے، آپ نے دینی تعلیم دار العلوم ندوۃالعلماء لکھنو سے حاصل کی، بعد از اں وہاں کے شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ آپ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مرید اور ڈاکٹر عبد الحی عارفیؒ کے خلیفہ مجاز تھے‎۔ ۱۹۷۰ء میں محدث العصر علامہ مولانا محمد یوسف بنوری الحسینیؒ کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے، اور جامعہ بنوری ٹاؤن میں ’’شعبہ تخصصِ دعوت وارشاد‘‘ کے مُشرف مقرر ہوئے، نیز مجلس دعوت وتحقیقِ اسلامی کے رکن بھی رہے، تاہم حضرت بنوریؒ کی وفات کے کئی سال بعد جامعہ سے استعفاء دے دیا، اور ۲۲؍اکتوبر ۱۹۹۵ء کو دارِ فانی سے کوچ کرگئے، آپ نے مختلف عنوانات پر کئی کتابیں تصنیف کیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
1- مسئلہ ختمِ نبوت علم وعقل کی روشنی میں، 2- آخری نبی، 3- اسلام کا سیاسی نظام، 4- ایمان وایمانیات، 5-دینی نفسیات، 6 - عقائدِ اہل سنت والجماعت کی بنیاد۔
آپ کی کتاب ’’دینی نفسیات‘‘ ۱۹۷۶ء میں حضرت بنوریؒ کے اِشراف میں شائع ہوئی، پھر آپ کی وفات کے بعد ۱۹۹۷ء میں کسی نے اس میں انکارِ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام پر مشتمل ایک باب اضافہ کرکے شائع کیا، جس میں یہ تأثر دینے کی کوشش کی کہ گویا یہ حضرت سندیلوی صاحبؒ    کا اضافہ کردہ ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے رسالہ بینات ربیع الثانی ۱۴۲۴ھ کے شمارے میں مولانا سعید احمد جلال پوری شہید ؒ نے اس کتاب کا جواب دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ یہ مولانا سندیلویؒ پر افتراء عظیم ہے، لیکن پھر اس کی طرف کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں کی اور کتاب کا جدید نسخہ اہلِ علم کے ہاتھوں میں آ گیا، جس سے آپ کے ناقدین اور مادحین یکساں متأثر ہوئے۔ امسال ایک معروف شخصیت نے اپنے بیان میں عقید ہ نزولِ مسیح  ؑپر بات کرتے ہوئے مولانا اسحاق سندیلوی صاحبؒ کی طرف کتاب ’’دینی نفسیات‘‘ کی جدید اشاعت کی روشنی میں اس عقیدہ کا انکار منسوب کیا، نیز ایک صاحب کی تحریر بھی نظر سے گزری، جو مولانا کے مداحین میں ہیں، انہوں نے بھی اس نسبت کے درست ہونے کا تأثر دیا، ضرورت اس بات کی تھی کہ اس موضوع پر مستقل تحقیق کرکے اس نسبت کی حقیقت معلوم کی جائے، چنانچہ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اس غلط عقیدے کی نسبت مولانا کی طرف ہر گز درست نہیں، اور جیسا کہ مولانا جلالپوری شہیدؒ نے فرمایا: یہ واقعتاً افتراء عظیم ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے پوری تحقیق پیش خدمت ہے ۔

اشکال اور باعثِ اشکال کی وضاحت

مولانا محمد اسحاق سندیلوی ؒ نے ایک کتاب بنام ’’دینی نفسیات‘‘ مرتب کی، کتاب کچھ اہم کلامی مباحث پر مشتمل ہے، جن میں وجودِ باری تعالیٰ، توحیدِ باری تعالیٰ، آخرت، اور ایمان بالغیب پر فاضلانہ تحقیق آپ نے پیش کی ہے، کتاب پہلی دفعہ سنہ ۱۹۷۶ء میں مجلس دعوت وتحقیقِ اسلامی جامعہ بنوری ٹاؤن سے شائع ہوئی، کتاب کے مذکورہ ایڈیشن میں عقیدہ نزولِ مسیح  ؑسے متعلق کسی بھی قسم کی گفتگو کا ذکر نہیں ملتا۔
مولانا  ؒ نے سنہ ۱۹۹۵ء میں کراچی میں وفات پائی، مولانا محمد طاسین صاحب ؒ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی، اور کراچی ہی میں فیڈرل بی ایریا نزد غریب آباد کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
مولانا کی وفات کے دو سال بعد ۱۹۹۷ء میں ’’دینی نفسیات‘‘ کا نیا ایڈیشن شائع ہوتا ہے، جس پر اسحاق اکیڈمی کراچی کا پتہ مذکور ہے۔ اس ایڈیشن میں گزشتہ ایڈیشن کی تمام مباحث من وعن موجود ہیں، مزید یہ کہ اس میں بابِ چہارم مستزاد ہے، اور اس کے تحت مسئلہ نزولِ مسیح پر بحث کی گئی ہے۔ اس ایڈیشن کے کل صفحات ۵۹۰ ہیں، صرف بابِ چہارم عقیدہ نزولِ مسیح  ؑ۱۲۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس بابِ چہارم کا لبِ لباب یہ ہے کہ عقیدہ نزولِ مسیح  ؑقرآن وسنت کے خلاف ہے، نیز اس سے عقیدہ ختمِ نبوت پر زد پڑ تی ہے۔ مزید یہ کہ یہ جہلاء کا خود ساختہ عقیدہ ہے، اور شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس سے متعلق روایات پر کلام ہے، خلاصہ یہ کہ اس باب میں عقیدہ نزولِ مسیح  ؑ کا انکار کیا گیا ہے ۔
ظاہر ہے مذکورہ باب کی تمام مباحث جمہور امت کے متفقہ موقف سے قطعاً معارض اور خاص طور پر علماء دیوبند کے مسلک ومشرب سے یکسر انحراف ہے، کتاب کے مذکورہ ایڈیشن کے منظرِ عام پر آنے سے علمی حلقوں میں بہت کچھ سوالات اُٹھائے گئے، کچھ لو گوں نے اسے مولانا کا موقف قرار دے کر مولانا ؒ کی ذات پر سخت قسم کی حرف گیری کی، دوسری طرف خود جامعہ بنوری ٹاؤن کے نمائندہ مجلہ بینات کے توسط سے اس بات کی وضاحت کی گئی کہ کتاب بنام ’’دینی نفسیات‘‘ بیشک مولانا کی تصنیف ہے، البتہ اس کا بابِ چہارم در عقیدہ نزول مسیح  ؑکسی زائغ اور شریر کی طرف سے مستزاد ہے، مولانا ؒ کا بذاتِ خود اس سے ایک حرف کا تعلق نہیں، عقیدۂ نزولِ مسیح  ؑسے متعلق مولانا کا وہی موقف ہے جو جمہور علماء امت اور خاص طور پر علماء دیوبند کا ہے۔ جیسا کہ ماقبل میں ہم وضاحت کرچکے کہ ’’دینی نفسیات‘‘ کا اضافہ کردہ ایڈیشن مولانا ؒ کی وفات کے بعد شائع ہوا، اور شائع کرنے والا بھی غیر معروف اور مجہول شخص ہے۔ یہی بات اس کی تکذیب کے لیے کافی ہے۔

عقیدۂ نزولِ مسیح  ؑمولانا سندیلوی ؒ کی اپنی تحریرات کی روشنی میں

اولاً: مولانا مرحوم کی تین کتابوں سے آپ کا عقیدہ نقل کر کے پھر ’’دینی نفسیات‘‘ کے بابِ چہارم پر مختصر تبصرہ کیا جائے گا۔

1- عقیدہ نزولِ مسیح کا اقرار مولانا کی تالیف ’’مسئلہ ختمِ نبوت علم و عقل کی روشنی میں‘‘ کے تناظر میں

مولانا سندیلوی ؒ ‎ اپنی کتاب ’’مسئلہ ختمِ نبوت علم و عقل کی روشنی میں‘‘ کے بابِ دوم میں بعنوان ’’نزولِ مسیح علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے آسمان سے اُترنے کو نقلی وعقلی دلائل سے ثابت کیا ہے، اور بڑی تفصیل سے اس پر بحث کی ہے، اور اس کے عقیدہ متواتر ہونے کا اقرار کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:‎
’’ارشاداتِ قرآنی اور احادیثِ صحیحہ کثیرہ سے جو حدِ تواتر کو پہنچی ہیں، نیز اجماعِ امت سے ثابت ہے کہ عمرِ دنیا کے اختتام کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے، اور اُمتِ محمدیہ علیہ الف الف تحیہ میں شامل ہو کر اپنے برکات وفیوض سے امت کو مستفیض فرمائیں گے، ہوسکتا ہے کسی کو یہ اشکال پیش آئے کہ یہ صورت تو ختمِ نبوت کے منافی معلوم ہوتی ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلسلۂ نبوت ختم ہوجانے کے بعد کسی نبی کے تشریف لانے کا کیا معنی؟ بادی النظر میں یہ اشکال کچھ وقیع نظر آتا ہے، لیکن غور کیجئے تو صرف سطح بینی اور قلتِ فکر کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ آپ نے پچھلے صفحات ملاحظہ فرمائےہیں، ہم نے ختمِ نبوت کی تشریح کے سلسلے میں ہمیشہ یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ: ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کی بعثت نہیں ہوسکتی۔‘‘ جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی نئے شخص کو ابتداء ً یہ منصبِ عظیم عطا فرماکر اور سندِ نبوت دے کر نہیں بھیجا جاسکتا۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ انبیاء سابقین میں سے کوئی نبی بھی دوبارہ دنیا میں تشریف نہیں لاسکتے‎، (بلکہ) بعثت کے معنی یہ ہیں کہ حق تعالیٰ اپنے کسی بندے کو تاجِ نبوت سے سرفراز فرماکر ہدایتِ خلق اللہ کا کام سپرد فرمائیں، جو پہلے ہی منصبِ نبوت پر سر فراز ہوچکے ہوں، انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج دینے کو بعثت نہیں کہتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ہوچکی ہے اور وہ بنی اسرائیل میں اپنا کام انجام دےکر زندہ آسمان پر تشریف لے گئے، نہ انہیں طبعی موت آئی، نہ انہیں شہید کیا جاسکا، جیسا کہ قرآن مجید میں صاف عیاں ہے، اب اگر وہ دوبارہ آسمان سے دنیا میں تشریف لائیں تو یہ ختمِ نبوت کے منافی کیوں ہے؟ اور اس سے سلسلۂ نبوت کا جاری رہنا کس طرح لازم آتا ہے؟ مثالِ ذیل جواب کی مزید تشریح کر دے گی: ایک شخص کسی ملک کے سول سروس میں داخل ہو کر کسی صوبہ کا گورنر مقرر ہوتا ہے اور ریٹائرڈ ہونے کے بعد کسی دوسرے ملک میں چلا جاتا ہے، کچھ مدت کے بعد وہ اسی صوبہ میں پھر واپس آتا ہے، مگر گورنر کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک عام شہری کی حیثیت سے تو کیا اس سے موجودہ گورنر کا عہدہ اور اعزاز میں کوئی فرق پیدا ہوجائے گا؟ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس صوبہ میں دو گورنر موجود ہیں؟ اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ سابق گورنرکے پاس جو سند سول سروس کی ہے، وہ بھی باقی رہے گی، اور اس کے اعزاز میں بھی کوئی فرق نہیں آسکتا، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی سندِ نبوت بھی بدستور باقی رہی گی، مگر اس سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصبِ ختمِ نبوت میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آئے گا۔ اسی مقام سے ہمیں اصل اشکال کے ایک دوسرے جواب کی طرف راہنمائی ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری بحیثیت نبی کے نہ ہوگی، بلکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک اُمتی کی حیثیت سے ہوگی، وہ نہ تو کوئی نئی کتاب لائیں گے، نہ کوئی دوسری شریعت، بلکہ قرآن مجید اور شریعتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الف الف تحیہ ہی پر عمل فرمائیں گے، یہاں تک کے انجیل جو خود انہی پر نازل ہوئی تھی، اسے بھی لے کر نہیں تشریف لائیں گے، نہ اس پر عمل پیرا ہوں گے، بلکہ اس کے بجائےقرآن مجید ہی پر عمل کریں گے، ایسی حالت میں اس کا وہم کرنا بھی نادانی ہے کہ ان کا تشریف لانا ختمِ نبوتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافی ہے، بلکہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کی تشریف آوری ہر گز ختمِ نبوت کے منافی نہیں۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کا خاص مقصد مسیح دجال کو قتل کرنا ہے اور اس کے شر سے امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی سلطان کسی خاص مجرم کو سزا دینے کے لیے کسی شخص کو مامور کرے، اس مدت کے لیے اس مقررہ شخص کا ملک کے کسی حصےمیں جانے سے اس حصے کے حاکم کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ یہ جب تک اس حصہ میں ہے، اس وقت تک اسی حاکم کے ماتحت سمجھا جائے گا اور اسے حاکم کسی حالت میں بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فتنۂ دجال کے استیصال کے لیے تشریف لائیں گے، اس حالت میں ان کی حیثیت امتِ محمدیہ علیہ الصلاۃ والسلام کے ایک فرد کی ہوگی، اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب خاتم النبیین پر ذرہ برابر بھی کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔‘‘(۱)

2- عقیدہ نزولِ مسیح کا اقرار مولانا کی تالیف ’’آخری نبی‘‘ کے تناظر میں

مولانا اپنی ایک اور تالیف بنام’’ آخری نبی‘‘ میں ’’نزولِ عیسیٰ  علیہ السلام ‘‘ کے عنوان کے تحت عقیدۂ نزولِ مسیح   ؑپر روشنی ڈالتے ہوئے یوں رقم طراز ہوتے ہیں : 
’’ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کو طبعی موت نہیں آئی، نہ انہیں صلیب دی گئی، بلکہ وہ زندہ آسمان پر اُٹھالیے گئے اور قیامت کے قریب خروجِ دجال کے زمانہ میں آسمان سے دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور دجال کو قتل کرکے ادیانِ باطلہ کو ختم کریںگے۔ اس عقیدے کی وجہ سے قادیانی مبلغین مسلمانوں کو یہ دھوکا دیتے ہیں کہ دیکھو عیسیٰ  علیہ السلام  کا دوبارہ آنے کا اعتقاد عقیدہ ختمِ نبوت کے خلاف ہے۔ قادیانیوں کے اس مغالطے کا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کا دوبارہ اس دنیا میں آنا ختمِ نبوت کے خلاف نہیں، سلسلۂ نبوت محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت کا مرتبہ نہیں دیا جاسکتا، یہ مطلب نہیں اور نہ ہوسکتا ہے کہ جو انبیاء گزر چکے ہیں العیاذ باللہ! ان کی نبوت چھین لی جائےیا وہ کبھی دنیا میں دوبارہ نہ آسکیں، ہاں! کسی شخص کو نئے سرے سے نبوت نہیں دی جاسکتی۔‎ ‎عیسیٰ علیہ السلام پہلے سے نبی ہیں اور آج بھی اللہ کے رسول اور نبی ہیں، ان کے دوبارہ تشریف لانے کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں نئے سرے سے نبی بنایا جارہا ہے، وہ تو پہلے ہی سے نبی ہیں، اللہ تعالیٰ بعض مصلحتوں اور حکمتوں سے انہیں دوبارہ دنیا میں بھیجیں گے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک امتی کی حیثیت سے آسمانِ چہارم سے اُتر کر دنیا میں تشریف لائیں گے، کیونکہ ان پر موت طاری نہیں ہوئی، بلکہ جب یہود نے انہیں سولی پر چڑھانا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اُٹھالیا اور ان کے دشمن ناکام و نامراد ہوگئے، جیسا کہ قرآن کریم سے روشن ہے، پھر قیامت کے قریب جب دجال خروج کرےگا اس وقت وہ پھر دنیا میں تشریف لائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے، جیسا کہ بکثرت صحیح احادیث میں صاف صاف بیان فرمایا گیا ہے۔ وہ جب آئیں گے تو شریعتِ محمدیہ الف الف تحیہ ہی کی پیروی کریں گے اور آنحضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک اُمتی بن جائیں گے، اس لیے ان کا آنا ختمِ نبوت کے خلاف نہیں، پھر یہاں بھی وہی گورنر کی مثال سے سمجھایا ہے ۔‘‘ (۲)

3- عقیدہ نزولِ مسیح  ؑکا اقرار مولانا کی تالیف ’’عقائدِ اہلِ سنت والجماعت کی بنیاد چہل آیات ‘‘ کے تناظر میں

اس کتاب میں بڑی وضاحت کے ساتھ مولانا ؒ نے لکھا ہے کہ عقیدہ نزولِ مسیح  ؑہرگز عقیدۂ ختمِ نبوت کے خلاف و معارض نہیں، اس سے جہاں اس عقیدہ کا ثبوت ہوتا ہے، وہیں اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ دینی نفسیات کا اضافہ کردہ (مدسوس) ایڈیشن کا چربہ کسی ایسے ضال اور منکرِ حدیث کا تیار کردہ ہے جو شاید مولانا کے مزاج سے بھی اچھی طرح واقف نہیں۔ مولانا لکھتے ہیں: 
’’آیت ’’مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ الخ‘‘ کا ترجمہ لکھ کر فائدہ نمبر دو میں لکھتے ہیں: حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرانے نبی ہیں، ان کی کوئی بعثت نہ ہوگی، ان کا تشریف لانا ختم نبوت کے خلاف نہیں، اگر قدیم انبیاء سب کے سب دنیا میں آجائیں تو بھی ختم نبوت کے خلاف نہیں، البتہ نئے نبی کا آنا غیر ممکن ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لاکر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں شامل ہوجائیں گے، یہاں بھی پھرگورنر کی مثال دی ہے۔‘‘(۳)

4- عقیدۂ نزولِ مسیح کا اقرار مولانا کی تالیف ’’ایمان و ایمانیات‘‘ کے تناظر میں

اس کتاب میں مذکور ہ عقیدہ پر بحث کرتے ہوئے مولانا نے عقیدۂ نزولِ مسیح  ؑکو صحیح الثبوت اور اس کا عقیدۂ ختمِ نبوت کے خلاف نہ ہونے کو بیان کیا ہے، چنانچہ عقیدۂ نزولِ مسیح  ؑپر حاشیہ نگاری کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’علاماتِ قیامت کے سلسلہ میں یہ عقیدہ بہت مشہور ہے کہ اس کے قربِ زمانہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے، اُمتِ محمدیہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رہبری اور سربراہی فرمائیں گے، اور دجال کو قتل کریں گے، یہ عقیدہ صحیح ہے، اور عقیدۂ ختمِ نبوت کے خلاف نہیں۔‘‘(۴)
مولانا کی چار کتابوں سے بڑی تفصیل کے ساتھ عقیدۂ نزولِ مسیح  ؑکا بیان ہوگیا۔ ان تمام عبارات میں اس بات کا شائبہ تک نہیں کہ مولانا ؒ کو اس عقیدہ میں کسی قسم کا تردُّد ہے! نیز مولانا ؒ نے وہی بات ہر جگہ لکھی ہے جو جمہور علماء خصوصاً اکابرینِ دیوبند کا موقف ہے۔ 

دینی نفسیات محرّف ایڈیشن پر راقم کا مختصر تبصرہ

یہودی کائنات کی وہ خائن اور ملعون قوم ہے، جس نے انبیاء تو انبیاء‘ افتراء علی اللہ سے بھی باز نہیں آئے، ان کی اس بدبختی کو قرآن بیان کرتا ہے، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: ’’ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ الْکَذِبَ‘‘۔ ‎موسیٰ علیہ السلام نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا‎‎: ’’وَیْلَکُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ الْکَذِبَ‘‘ پھر اس قوم میں سے ایک شخص عبد اللہ بن سبا یہودی بظاہر مسلمان ہو کر اسلام میں وہی کرتب دکھاتا ہے جو اس کے آبا ء واجداد کرتے تھے، اگر دینِ محمدی کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے نہ لی ہوتی تو یقیناً ان کی سازشیں اور چالیں اس قدر سخت تھیں کہ اسلام بھی صرف نام کا رہ جاتا، اس کے شیطانی مکر وفریب سے کیا قیامت برپا ہوتی، اس کے بیمار ذہن میں سوائےدجل وفریب اور شیطانیت کے سوا کچھ بھی نہ تھا، لیکن بھلا ہو ہمارے محدثین اور فقہاء کا کہ ان کی دوررس نگاہ نے قرآن وسنت اور اسلامی فقہ کو بڑی جدوجہد سے ان کے دجل وتلبیس سے بچالیا، لیکن ہماری تاریخ کو اتنا گدلا کردیا جسے اسلام یا مسلمانوں کی تاریخ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اس قوم میں سوائے اسلام دشمنی، اخلاقی گھناؤ ناپن، دنیا پرستی، ہوسِ اقتدار، عہد شکنی، ضمیر فروشی، جھوٹ وفریب، خیانت، ظلم، بزدلی، بغض وحسد، کینہ وری، موقع پرستی اور شیطانیت کے سوا کسی خوبی کا کوئی وجود نہیں، ان کے اور ان کے حواریوں کے پیش نظر ایک ہی بات ہوتی ہے کہ ہمارے خبثِ باطن میں جتنے بھی غلاظتوں کے ڈھیر ہیں، اس میں سے حکایتیں بناکر بناکر کسی کے دامن کو داغدار کردیا جائے۔
 ان امور کا مشاہدہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والا جنگِ جمل وصفین کے واقعات میں کرسکتا ہے اور پھر بعد کے ادوار میں ان کی روحانی اولاد اپنے گمراہ کن نظریات پر کتابیں لکھ کر اس کے ٹائٹل پر سنی عالم کا نام لکھ دیتے تھے، تاکہ بعد میں آنے والے سنی انہیں اپنی کتاب سمجھ کر اس گمراہی کو قبول کریں یا کسی سنی عالم کی کتاب پر الحاقات وتدسیسات کے ذریعے اپنے نظریات اس میں شامل کرتے تھے، جو اہلِ علم پر مخفی نہیں۔ مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ کے ساتھ عقیدۂ نزولِ مسیح  ؑکے بارے میں ایک خبیث الباطن منکرِ حدیث نے یہی کیا، اور ان کی اہم تالیف ’’دینی نفسیات‘‘ کو اپنے طور شائع کرکے اس میں پورے ڈیڑھ سو صفحات کا غلط اضافہ کرکے اس خوشنما چادر کو بد نما بنانے کی کوشش کی، مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ مولاناکا دفاع کرتے ہوئےلکھتے ہیں: 
’’حالات اور واقعات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولس اور ابنِ سبا کی ذریت اب بھی موجود ہے اور اس کا مذموم کردار متحرک ہے اور وہ اپنے آباء واجداد کی طرح اب بھی اسلام اور اسلامی عقائد کے قلعہ میں نقب لگاکر اسے مسمار کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں سننے میں آرہا تھا کہ اسلام کے نام پر کفر، دین کے نام پر بے دینی، تحقیق کے نام پر تحریف اور عقائد و ایمانیات کے نام پر اِلحاد کا زہر پھیلایا جارہا ہے، جس کا سب سے بھیانک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک عالم دین حضرت مولانا محمد اسحاق صدیقی  ؒ کے نام پر کیا جارہا ہے، جو حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے مسترشد، عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی  ؒکے خلیفہ مجاز اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ تخصصِ دعوت وارشاد کے مُشرف و نگران رہے ہیں‎ ۔‘‘
پھر آگے جاکر لکھتے ہیں:
’’حضرت مرحوم کی رحلت کے بعد ان کے نام نہاد معتقدین اور بدخواہوں بلکہ صحیح معنی میں ان کے دشمنوں نے ان کی تصنیف ’’دینی نفسیات‘‘ کو اپنی تحریفات کا نشانہ بناتے ہوئے اُسے نئی کمپوزنگ کے ساتھ شائع کیا، جس میں ایسی کتربیونت اور تحریف و مسخ کا مظاہرہ کیا، بلاشبہ انہوں نے اس میدان میں اپنے پیش رو پولس اور ابنِ سبا کے بھی کان کترڈالے، یقیناً اس موقع پر شیطان بھی انگشت بدنداں ہوگا کہ یہ عقل تو اسے بھی نہ سوجھی تھی۔‘‘(۵)
جیسا کہ ماقبل میں بیان ہوا کہ مولاناؒ کی کتاب ’’دینی نفسیات‘‘ پہلی دفعہ سنہ ۱۹۷۶ء میں حضرت بنوری نور اللہ مرقدہٗ کے حکم اور مشورہ سے جامعہ بنوری ٹاؤن سے شائع ہوئی، جس میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کسی قسم کی کوئی بحث نہ تھی، دوسری بار ۱۹۹۷ء میں آپ ؒ کی وفات کے بعد کسی نے تحریف وتدسیس کر کے چھاپی تو قریب وبعید کے کئی لوگوں نے مختلف باتیں لکھیں، ان میں اصل بات وہی ہے جو مولانا سعید احمد جلال پوریؒ کا مضمون ہے، یار لوگوں نے بغیر کسی تحقیق کے مولانا پر مفتریات کو پھر سے اچھال کر اس بند باب کو کھولنے کی ناکام کوشش کی، نہیں معلوم کہ جان بوجھ کر ایسا کیا گیا یا اَن جانے میں ہوگیا ہے، واللہ اعلم۔‎ 
مولانا محمد عبداللہ احمد پوری ؒ ’’عقیدۂ نزولِ عیسیٰ ؑ قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘ نامی کتاب کے آخر میں ’’دینی نفسیات‘‘ کے بابِ چہارم پر رد کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’ہم اب بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ بابِ چہارم ان کا لکھا ہوا نہیں، یہ کسی افتراء پرد از دروغ گو جاہل کا اضافہ ہے، ایسی سازشیں زنادقہ اور ملحدین کی طرف سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے ۔(۶)
مولانا سعید احمد جلال پوری ؒ کے مضمون پر مطلع ہونے کے بعد مولانا عبد اللہ احمد پوری ؒ کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ لکھتے ہیں: 
’’ نوٹ :‎ہم نے اپنے مقالہ میں مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ کی کتاب ’’دینی نفسیات‘‘ کے جدیدایڈیشن سے کچھ اقتباسات نقل کر کے ان کی تردید کی ہے، مولانا کی سابقہ تصانیف کے مدِنظر ہم نے بھی باور نہیں کیا تھا کہ کتاب کے حصہ سوم کا بابِ چہارم ان کے قلم سے نکلا ہے، چنانچہ دو تین جگہ ہم نے اس تردُّد اور تأمل کا اظہار کیا، ماہنامہ بینات کراچی اشاعت ماہِ ربیع الثانی ۱۴۲۴ھ میں حضرت مولانا سعید احمد صاحب جلال پوری زیدمجدہم کا ایک مضمون اس سلسلہ میں آیا ہے، جس میں انہوں نے بڑی شد ومد سے اس کا مولانا مرحوم کے مضمون ہونے کی تردید کی ہے۔ ہمیں پہلے بھی ایک حد تک یقین تھا کہ مولانا مرحوم اس ملحدانہ نظریہ /انکارِ نزولِ عیسیٰ  ؑسے بری ہیں۔ اگر واقعی مضمون کی نسبت مولانا مرحوم کی طرف افتراء اور بددیانتی پر مبنی ہے تو ہم مولانا مرحوم کی روح سے معذرت خواہ ہیں۔‘‘(۷)
دینی نفسیات پر مولانا سعید احمد جلال پوریؒ اور مولانا عبد اللہ احمد پوریؒ کی تصریحات نقل کرنے کے بعد مزید کسی تردید کی گنجائش نہیں رہتی، لیکن صفحہ: ۵۰۴ پر مفترِی نے ایک حاشیہ لگا کر جو افترا پردازی کی ہے وہ قابلِ تبصرہ ہے، لکھتے ہیں: 
’’گویا کہ سندیلوی صاحب لکھتے ہیں: بچپن میں آدمی وہی عقائد وافکار اختیار کرتا ہے جس کی تعلیم اس کے بزرگ دیتے ہیں یا جو اس کے ماحول میں پھیلے ہوتے ہیں، میں بھی قربِ قیامت نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا قائل تھا، بلکہ علومِ دینیہ سے فراغت کے بعد بھی اپنے دورِ درس و تدریس میں مدتِ دراز تک اسی کا قائل رہا، میں ستمبر ۱۹۷۰ء میں پاکستان آیا، گویا ۱۹۷۱ء سے پاکستان میں قیام پذیر ہوں، یہاں آنے سے آٹھ نو سال قبل جبکہ میں دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں بحیثیت استاذ تدریس میں مشغول تھا، ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’’مسئلہ ختمِ نبوت علم وعقل کی روشنی میں‘‘ یہ لکھنو ہی میں شائع ہوئی، اس میں میں نے قربِ قیامت نزولِ مسیح  ؑکو اہلِ سنت کا متفق علیہ عقیدہ لکھا اور اس بنیاد پر قادیانی جو اعتراض مسلمانوں پر کرتے ہیں، اسے نقل کرکے اس کا وہی جواب دیا جو عام طور پر علماء اسلام دیتے ہیں۔‘‘
 پھر آگے جا کر لکھتا ہے:
’’۷۱ء کے بعد کراچی میں یہ کتاب دوبارہ شائع ہوئی، اس وقت میں نزولِ مسیح  ؑکا قائل نہیں تھا، مگر کتاب کی عبارت میں، میں نے کوئی ترمیم نہیں کی، جس کی وجہ یہ تھی کہ جمہور علمائے اہلِ سنت کا یہی اعتقاد تھا، ان کی طرف سے قادیانیوں کو جواب دینا تھا، اس لیے ان کے اعتقاد کو مکمل نقل کرنا ضروری تھا۔‘‘
مفتری کی مذکورہ عبارت کا تجزیہ اور تبصرہ
ہم نے آپؒ کا عقیدہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام آپ کی چار کتابوں سے واشگاف کیا ہے۔ ’’دینی نفسیات‘‘ کے بابِ چہارم میں (جو سراسر حضرت سندیلویؒ پر افتراء ہے اور ان کی وفات کے دوسال بعد مرتب ہوا) صرف نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا نہیں، بلکہ خروجِ دجال، امام مہدی اور قراءتِ متواترہ کا بھی انکار کیا گیا ہے ۔
نزولِ عیسیٰ  ؑکے بارے میں لکھا ہے:
۱-’’ عقیدۂ ختم نبوت کے منافی ہے۔‘‘دیکھئے:’’دینی نفسیات‘‘ ( ص: ۵۲۳)
۲- ’’کُنْتُمْ خُیْرُ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ کے خلاف ہے۔ ‘‘ دیکھیے:’’دینی نفسیات‘‘ (ص:۵۲۹)
۳-آیتِ کریمہ ’’لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ‘‘ کے لیے ناسخ ہے ۔ ‘‘ دیکھیے:’’دینی نفسیات‘‘ (ص: ۵۱۷)
۴-’’ آیاتِ جہاد کا نسخ لازم آرہا ہے ۔ ‘‘ دیکھیے:’’دینی نفسیات‘‘ ( ص:۵۱۶)
۵- ’’آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ صحیحہ رد ہوں گے۔ ‘‘ دیکھیے:’’دینی نفسیات‘‘ (ص:۵۳۱)
۶- ’’نزولِ عیسیٰ کا عقیدہ شیعوں کے عقیدۂ امامت کی تائید ہے۔ ‘‘ دیکھیے: ’’دینی نفسیات‘‘ (ص:۵۳۴)
۷- ’’امام ابوحنیفہؒ سے ایک لفظ بھی منقول نہیں۔ ‘‘ دیکھیے: ’’دینی نفسیات‘‘، (ص:۵۵۳)
۸- ’’یہ عقیدہ اسماعیلی شیعوں کی دعوت کا حصہ ہے۔ ‘‘ دیکھیے: ’’دینی نفسیات‘‘، (ص:۵۵۹)
۹- ’’یہود نے ان روایتوں میں ایسے مضامین شامل کردئیے جن سے قرآن کی صداقت مشتبہ ہورہی ہے۔‘‘ دیکھیے: ’’دینی نفسیات‘‘، (ص:۵۶۱)
۱۰- ’’نزولِ عیسیٰ  ؑکا عقیدہ ختمِ نبوت کے خلاف ہے۔ ‘‘ دیکھیے:دینی نفسیات، (ص:۵۶۴)
۱۱- ’’اس عقیدہ کو ماننے سے قرآن کی سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر: ۱۱۰ اور ۱۱۶ صحیح نہیں ہوسکتی۔ ‘‘ دیکھیے: ’’دینی نفسیات‘‘ (ص:۵۶۴=۵۶۶)
۱۲- ’’دجال کے لیے احیاء موتی وغیرہ کے خرقِ عادت افعال و اوصاف ثابت کرنا قرآن کے خلاف ہے۔ ‘‘ دیکھیے: ’’دینی نفسیات‘‘ (ص: ۵۸۱)
۱۳- ’’اس عقیدے کا قائل ہونا جائز نہیں۔ ‘‘ دیکھیے: ’’دینی نفسیات‘‘ (ص: ۵۸۵)
۱۴- ’’مزعومہ نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ بدیہی طور پر عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف ہے۔ ‘‘ دیکھیے:’’دینی نفسیات‘‘( ص:۵۸۶)
۱۵- ’’عقیدۂ ختم نبوت ضروریاتِ دین میں داخل ہے، اس کے خلاف کسی فکر وعقیدے کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘ دیکھیے:دینی نفسیات، ص: ۵۸۶
۱۶- ’’علمائےماضی میں یہ عقیدہ نہیں تھا۔ ‘‘ دیکھیے: ’’دینی نفسیات‘‘ (ص:۵۸۶)
۱۷- ’’نزولِ عیسیٰ کا عقیدہ یقیناً ختمِ نبوت کے منافی ہے، آیاتِ ختم نبوت کے خلاف ہے۔ ‘‘ دیکھیے: ’’دینی نفسیات‘‘ (ص: ۵۸۹)
قارئین کرام! آپ نے یہ عبارات پڑھ لیں، اب وہاں موجودہ حاشیہ بھی دوبارہ پڑھ لیں، اس محشی کے نزدیک عقیدہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام ختمِ نبوت کے قطعی یقینی طور پر خلاف ہے، قرآن مجید کی آیات سے معارض ہے، حتیٰ کہ بعض کی تکذیب لازم آرہی ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ یہ سب عبارات مولانا اسحاق سندیلوی صاحبؒ کی ہرگز نہیں، بلکہ کسی منکرِ حدیث کا آپ پر افترا ہے۔ اب مفتری نے حاشیہ میں یہ تأثر دیا ہے کہ میں نے ( سندیلوی صاحب) پاکستان آنے کے بعد اپنی کتاب ’’مسئلہ ختمِ نبوت علم و عقل کی روشنی میں‘‘ دوبارہ چھپوائی اور اس وقت نزولِ عیسیٰ کا قائل نہیں تھا، لیکن کتاب میں اس لیے تبدیلی نہیں کی کہ جمہور اہلِ سنت کا نظریہ یہی تھا اور ان کی طرف سے قادیانیوں کو جواب دینا تھا، جبکہ مولاناؒ نے اسی سال یعنی ۱۹۷۱ء میں سورۃ الفلق کی تفسیر لکھی، اس میں اس عقیدہ پر بحث کرتے ہوئے مولانا نے صاف صاف لکھا ہے:
’’حق تعالیٰ شانہ سے اِلحاح کے ساتھ دعا کریں کہ ہمیں اپنی پناہ میں لے لیں، ہر قسم کے غیر اسلامی افکار سے جو ہمارے ان عقیدوں اور ایمان کے خلاف ہیں، اپنے ذہن کو محفوظ رکھے، اگر ذہن ان غیر اسلامی افکار کو اس وقت نہ شناخت کرسکے، جو ان بنیادی اسلامی عقائد کے خلاف ہیں، تو اجمالاً اس طرح توبہ کرلینا بھی ان شاء اللہ کافی ہے، یا ارحم الراحمین! میں ہر اس تصور اور خیال سے توبہ کرتا ہوں جو ان اسلامی عقائد کے خلاف ہو، اور عزم کرتا ہوں کہ اس قسم کے جس تصور کا مجھے علم ہوگا اسے ضرور اپنے ذہن سے نکال دوں گا اور اس کی تکذیب کروں گا۔‘‘(۸)
کسی نے اس مفتری کو بتا دیا ہوگا کہ حضرت پر آپ یہ الزام نہیں لگاسکتے، انہوں نے اپنی فلاں کتاب میں اس عقیدہ کو نہ صرف تسلیم کیا ہے، بلکہ دلائل سے ثابت بھی کیا ہے تو اس نے کہا ہوگا: ’’میں ایسا کھیل کھیلوں گا کہ شیطان بھی پناہ مانگے گا۔‘‘
بر سبیلِ تذکرہ چند دن پہلے مولانا سندیلویؒ کے شاگردِ خاص مولانا محمد طیب کشمیری صاحب زید مجدہٗ سے راقم نے ملاقات کی اور اس موضوع پر گفتگو کی تو حضرت نے سختی سے انکار کیا کہ یہ ہمارے استاذجی مولانا سندیلوی ؒ کا عقیدہ ہرگز نہیں‎ ہے۔

گزارش و عرض داشت

مولانا مرحوم سے کسی کا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اہلِ علم کا اختلاف بھی تحقیق کے دائرے میں ہونا چاہیے، الزام، بے سروپا باتیں یہ ایک عالمِ دین کو زیب نہیں دیتیں اور ہم دیوبندیوں کا اپنے اکابر کے بارے میں یہی نظریہ ہے، اگر ان سے خطا ہوجائے تو اس کی تاویل کرتے ہیں، نہ کہ فتویٰ بازی۔ اگر کسی کا تفرُّد ہو تو وہ بھی کوئی قابلِ تعجب نہیں، حضرت سندیلوی صاحبؒ شیخ التفسیر و الحدیث، فقیہ العصر، مؤرخِ اسلام اور ایک جید مفکر عالمِ دین تھے، اگر کسی مسئلے میں انہوں نے علمائےدیوبند سے اختلاف کیا ہے تو اس جیسی شخصیت سے کوئی بعید نہیں اور نہ یہ مذموم ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلائے، آمین۔

حواشی وحوالہ جات

۱- تفصیل کے لیے دیکھئے: مسئلہ ختمِ نبوت علم وعقل کی روشنی میں (ص: ۱۲۱ تا ۱۲۴)، ط: مجلس دعوت وتحقیقِ اسلامی کراچی، سنہ ۱۹۷۴ء۔
۲- ’’آخری نبی‘‘ مشمولہ کتاب ’’احتسابِ قادیانیت‘‘ جلد :۳۴، صفحہ: ۵۲۶، ‎ط: عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت، حضوری باغ روڈملتان، نومبر ۲۰۱۰ء۔
۳- ’’عقائد اہلِ سنت والجماعت کی بنیاد‘‘(ص: ۲۸) ط: دائرۃ المعارف کراچی، ۱۹۷۸ء۔
۴- ’’ایمان وایمانیات‘‘ سب انبیاء پر ایمان (ص: ۴۹) ط: مجلس دعوت وتحقیق اسلامی کراچی، ۱۹۷۵ء۔
۵- ‎ماہنامہ بینات کراچی( صفحہ:۳۹‎)، ربیع الثانی ۱۴۲۴ھ ۔
۶-احتسابِ قادیانیت (ج:۴۶، ص:۱۲۱)
۷-احتساب قادیانیت (ج:۴۶، ص:۱۴۴)۔
۸-ماہنامہ بینات، (ص: ۱۶)، شمارہ رمضان المبارک، ۱۳۹۲ھ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین