بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولانا قاری افتخار احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ

مولانا قاری افتخار احمد شہیدv

 

ایک عرصہ سے دشمن نے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ، طلبہ اور متعلقین کو نشانے پر رکھا ہوا ہے، ابھی ایک شہید کاغم ہلکا نہیں ہوتا کہ دوسرے کسی استاذ کو شہید کردیا جاتا ہے۔ حضرت مولانا ڈاکٹر محمدحبیب اللہ مختار شہیدv، حضرت مولانا عبدالسمیع شہید نور اللہ مرقدہما سے لے کر حضرت مولانا قاری افتخار احمد شہیدvتک دو درجن سے زائد اساتذہ اور طلبہ کرام کا خون بہایا گیا۔ کس کے سامنے روئیں اور کس سے فریاد کریں، ان سب کا ایک ہی گناہ تھا کہ یہ دین دار کیوں اور اس زمانہ میں دین کی بات کیوں کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی سے انصاف کے خواستگار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی ان شہادتوں کا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔بہرحال حکومت وقت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امن وامان پر توجہ دے اور بے گناہ ومعصوم لوگوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے سے بچائے۔ حضرت مولانا قاری افتخار احمد شہیدv جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذ، شعبہ مساجد ومدارس کے معاون نگران اور جامعہ کے تعمیری امور میں بھی خدمات سرانجام دیتے تھے۔ ۱۲؍ ربیع الثانی ۱۴۳۶ھ مطابق ۲؍ فروری ۲۰۱۵ء بروز پیر بعد نماز عشاء دہشت گردوں نے تین ہٹی کے مقام پر نوری مسجد کے باہر فائرنگ کرکے آپ کو شہید کردیا، جب مسجد میں امامت کرانے کے بعد آپ گھر جارہے تھے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمٰی۔ مولانا قاری افتخار احمد شہیدv محب دین جناب جام محمد اعظمؒ کے گھر بستی جام محراب، سردار گڑھ ضلع یار خان میں ۱۹۷۶ء میں پیدا ہوئے۔آپ نے عصری تعلیم پرائمری تک سردار گڑھ میں حاصل کی، پھر مدرسہ عربیہ ترتیل القرآن رحیم یار خان میں قاری محمد احمد اورقاری عمر فاروق صاحب کے پاس حفظ قرآن کی تکمیل کی اور درجہ اعدادیہ بھی یہیں پڑھا ۔ درجہ اولیٰ اور ثانیہ مدرسہ انوارالقرآن نیوکراچی میں پڑھنے کے بعد درجہ ثالثہ مدرسہ رحمانیہ بفرزون میں پڑھا۔ اس کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخ مدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمرؓ سہراب گوٹھ میں داخلہ لیا، درجہ رابعہ اور خامسہ دو درجے یہاں پڑھ کرجامعہ مرکزمیں منتقل ہوئے، اوردرجہ سادسہ سے دورہ حدیث تک تعلیم حاصل کرکے ۱۹۹۴ء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد جامعہ کے کتب خانہ میں بطور معاون ناظم تقرر ہوا، تقریباً ایک سال تک کتب خانہ میں کام کرتے رہے۔ پھر جامعہ کی انتظامیہ کے حکم پر جامعہ کی شاخ مدرسہ عثمانیہ عثمان آباد شومارکیٹ میں بطور نگران بھیج دیا گیا، تقریباً تین ماہ وہاں نگران رہے، پھر ۱۹۹۶ء کے لگ بھگ جامعہ مرکز میں مولانا بشیر احمدنقشبندی صاحب کے ساتھ علامہ بنوری ٹرسٹ شعبہ مساجد ومدارس میں بطور معاون لائے گئے، اس وقت سے شہادت تک تقربیاً بیس سال اس شعبہ سے منسلک رہے۔ مساجد ومدارس کے جامعہ سے الحاق کی کارروائی اور اکثر وبیشتر مساجد میں کمیٹیوں کے تنازعات اور دیگر معاملات جامعہ کی انتظامیہ اور ذمہ دار حضرات کی مشاورت اور حکم کے مطابق آپ ہی نمٹاتے اور سلجھاتے تھے، اس کام کے لیے جن صفات کا پایا جانا ضروری ہے، مثلاً معاملہ فہمی، خوش اخلاقی ، فریقین کو مطمئن کرنے کی صلاحیت ، تو وہ ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ جامعہ مرکز کی جدید تعمیرات اور شاخہائے جامعہ: مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر، مدرسہ رحمانیہ بلال کالونی کورنگی، مدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمرؓ اور ٹھٹھہ کی شاخ کے تعمیراتی کاموں کی نگرانی بھی انہیں کے ذمہ تھی۔ اس کے علاوہ جامعہ کے عدالتی امور، ٹیکس اور وقف پراپرٹی کے معاملات بھی موصوف دیکھتے تھے۔ موصوف جامعہ کے کاموں میں انتہائی اخلاص کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، نہ دن دیکھتے نہ رات، کسی بھی کام کے لیے ہمہ وقت تیار وحاضر باش رہتے۔ آج قحط الرجال کے دور میں ایسے باصلاحیت، محنتی اور تجربہ کار آدمی کا جلد ملنا بہت ہی مشکل نظر آرہا ہے۔جامعہ میں اس قدر مصروفیت اور ذمہ داریوں کی کثرت کے باوجود مسجد میں امامت وخطابت بھی کرتے تھے، پہلے کچھ عرصہ میفئیر پلازہ صدر کی مسجد میں اور پھر تقریباً تین سال سے تین ہٹی روڈ پر قائم نوری شاہ مزار سے متصل جامع مسجد نوری میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، اسی مسجد سے عشاء کی نماز پڑھا کر واپس آتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ کچھ عرصہ سے یونین محکمہ اوقاف کراچی کے صدر بھی مقرر ہوئے تھے۔ آپ کی ایک نمازِ جنازہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں رات ساڑھے گیارہ بجے حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہٗ کی امامت میں ادا کی گئی۔ اور دوسری نمازِ جنازہ آپ کے علاقہ میں استاذ العلماء حضرت مولانا منظور احمد نعمانی دامت برکاتہم العالیہ کی اقتدا میں ادا کی گئی، جس میں جامعہ کے اساتذہ وفضلاء کے علاوہ علاقہ بھر کے علمائ، طلبہ، دینی عمائدین اور عام مسلمانوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ آپ نے پسماندگان میںتین بیٹے، دو بیٹیاں، ایک بیوہ، تین بھائی اور والدہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، ان کی کفایت فرمائے۔ مولانا شہیدv کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ آمین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین