بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولانا عطاء الرحمان شہیدؒکے والد گرامی ، تسلیم و رضا کے پیکرمجسم

مولانا عطاء الرحمان شہیدؒکے والد گرامی      تسلیم و رضا کے پیکرمجسم

 وَ إِنَّ أَبَا عَطَآئٍ ذُوْ کُرُوْبٍ یُعَزِّیْہٖ جَمِیْعُ الْأَصْدِقَآئِ وَرَا ضٍ بِالْقَضَآئِ مِنَ الْإِلٰہٖ وَ قَاہُ اﷲُ أَہْلٌ لِلثَّنَآ ئِ شیخ عطاء شہیدؒ کے والد گرامی کئی حوالوں سے غم و کرب سے دو چار ہیں اور تمام دوست احباب ان کو تعزیت کر رہے ہیں ، قضاء الٰہی پر راضی ہیں، اﷲ ا ن کواپنی حفاظت میں رکھے،قابل تعریف شخص ہیں ۔ مولانا عطاء الرحمان شہیدؒ کے تمام متعلقین، شاگرد اور دوست واحباب جانتے ہیں کہ آپ کے والدین گرامی عمر کے اعتبارسے  ’’من شاب شیبۃً فی الإسلام کانت لہ نوراً یوم القیامۃ‘‘ کے زندہ مصداق ہیں، بالخصوص والد گرامی جن کی عمر اس وقت ۸۰ سال ہے، شوگر وقلب کا عارضہ بھی لاحق ہے،ٹانگ ٹوٹنے کی وجہ سے صاحب فراش ہیں،ُ انہی کی عیادت و تطییب قلب کی خاطر مولانا شہیدؒ بار بار گاؤں حاضری دیتے تھے۔ شہادت والے سفر کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ بوڑھے والدین کی زیارت ، عیادت و خدمت کی سعادت حاصل کی جائے، ایسے میں یہ سفر ان کی اچانک موت کا پیام لے آیا ، جو اعزہ واقرباء ،دوست احباب اور جان پہچان والوں کے علاوہ اجنبیوں کے لئے بھی ناقابل برداشت صدمہ کی شکل اختیار کر گیا۔ ایسے والدین کی کیا حالت رہی ہو گی، بالخصوص والد گرامی کی؟ اس لئے جس واقف حال نے بھی تعزیت کی غرض سے رابطہ کیا، پہلا سوال یہ کیا: مولانا کے والد صاحب کاکیا حال ہے؟ اس سوال کے پیچھے مولانا شہیدؒ کی زندگی بھر کا والدین کے بارے میں حسن و سلوک پر مبنی طرزِ عمل مضمر ہے ۔آپؒ اپنے تمام متعلقین کو والد گرامی کی صحت و بیماری کے حالات کے بارے میں بتلاتے اور والد گرامی کو متعلقین کے احوال سے باخبر رکھتے۔ اس دوطرفہ حسن سلوک کا ہی نتیجہ تھا کہ ہر ایک دوست کو مولانا کے والد گرامی کے متعلق پریشانی لاحق رہی، جس کا اظہار وہ متذکرہ بالا سوال کی صورت میں کرتے رہے۔سانحہ وقوع پذیر ہونے کے بعد واقعتاً یہی ایک اہم مرحلہ تھا کہ والد گرامی کوبیٹے،بیٹی اور خاندان کے ایک فرد کی طرح کے دوست کی اچانک المناک موت کی خبرسے کس طرح مطلع کیا جائے؟ ان کو مطلع کرنے کی جرأت کون کرے؟ اس اطلاع کے بعد وہ کس کیفیت سے دوچار ہونگے؟ مولانا شعیب صاحب جیسے بلند ہمت شخص نے تو دو ٹوک انداز میں یہ ذمہ داری اٹھانے سے صاف انکار کر دیا۔ میرے بھائی حافظ احسان اﷲ نے اس تاکید کے ساتھ فون پر بات کروادی کہ ٹالنے کی کوشش کریں۔کوشش توکی، لیکن ایک ایسے سانحہ کی خبرکو کس طرح خفیہ رکھا جاسکتا تھا،جس کی نوعیت مرحومین کے مرثیہ خوانوں کے الفاظ میں کچھ یوںہو: ھٰذَا لَعَمْرُاللّٰہِ سَاعَۃُ حَسْرَۃٍ وَتَوَجُّعٍ أَلَمًا عَلٰی لَأْوَآئِہٖ ترجمہ:’’بخدا یہی الم و کرب اور افسوس کی گھڑی ہے جس کی شدت اور رنج و تکلیف مزید د ردو اذیت کی باعث بن رہی ہے ‘‘۔  أَتٰی نَبَأٌ عَظِیْمٌ ذُوْشُجُوْنٍ فَزَعْزَعَ کُلَّنَا قَبْلَ الْعِشَآئِ ترجمہ:’’ عشاء سے پہلے غم و اندوہ والی بہت بڑی خبر آئی، جس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ‘‘۔ فَفَی الْغَبْرَآئِ وَ الْخَضْرَآئِ  ضَجٌّ وَضَوْضَآئٌ وَذَا وَقْتُ الْمَسَآئِ ترجمہ:’’ زمین کی وسعتوں اور آسمان کی بلندیوں میں چیخ و پکار اور شور و غوغامچا ہوا تھا اور اسی وقت شام کے اندھیرے چھا رہے تھے ‘‘۔ یہ منظر کشی محض شاعرانہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت بھی یہی تھی، جدید ترقی کا کرشمہ کہئے کہ ہوا کے دوش پر الیکٹرانک میڈیا نے آنکھ جھپکنے میں ہر سو یہ خبر پھیلائی، جام شہادت نوش کرنے والے تمام مسافروں کے نام نشر ہونے لگے۔ مولانا شہید کا نام حادثہ کا شکار ہونے والی مشہور شخصیات میں سرِفہرست آنے لگا ۔ مزید برآںماموں جان (مولانا کے والد گرامی)جن کو بچپن سے ہی ماما جی کہہ کر پکارتے ہیں، کی عادت یہ ہے کہ وہ ہر بات کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں، ہر معاملے کی تفصیلات سے باخبر رہنا چاہتے ہیں، قابل تحسین امور پر تحسین وتشجیع فرماتے ہیں، اور اصلاح طلب امور کی اصلاح و تصحیح فرماتے ہیں۔ بالخصوص روانگی کے وقت سفرکا شیڈول بتانے اور واپسی پرسفر کی روداد سنانے سے ان کو اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ مولانا عطا ء الرحمن شہید رحمہ اﷲ کو اپنے والد محترم کی اس عادت شریفہ کا خوب علم تھا۔ تطییب قلب کے لئے آپ کو تفصیلات بتانے کا پورا پورا اہتمام فرماتے تھے، چنانچہ کراچی تا اسلام آباد تا بابوزئی اس (آخری) سفر کی تفصیل بھی ماما جی کو معلوم تھی۔ انہوں نے اندازہ لگایا تھاکہ پانچ بجے جب کراچی سے روانگی کا وقت ہے، تو ۷ بجے اسلام آباد پہنچنا ہے، اور پہنچ کر ہی بذریعہ فون اپنی آمد سے مطلع کرنا ہے۔ آٹھ بجے تک جب کسی قسم کی اطلاع نہیں ملی تو ان کا پریشان ہونا یقینی تھا،ان کے تمام مزاج شناس اس بات سے واقف تھے۔ برادرم حفظ الرحمن صاحب نے سانحہ واقع ہونے کے فوراً بعد ائیر پورٹ ہی سے مجھے بذریعہ فون بتایا کہ دا جی( والد محترم) سے ریڈیو ہٹوا نے کا اہتمام کیا جائے، تاکہ ان کو خبر نامے کے ذریعے اطلاع نہ ہو ،لیکن ان کی زیرک مزاجی سے واقفیت تھی، اس لئے میں نے عرض کیا، یہ کیسے ممکن ہے؟ اور اس سے تو ان کو پختہ یقین ہو جائے گا کہ کچھ نہ کچھ ہوا ہے ۔ یہ اطلاع ان کو کیسے پہنچی؟ اور رات کیسے گزاری؟ بعد میں خود فرمانے لگے کہ آپ لوگ تو مجھے نہیں بتا رہے تھے اور میرے پاس رابطہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، میں چلنے پھرنے سے قاصرتھا، مولانا کی والدہ محترمہ نے کئی مرتبہ احمد الرحمن کو تلاش کیا، لیکن وہ بھی اپنے کمرے میں موجود نہیںتھے، لیکن مجھے رات آٹھ بجے ریڈیو کے خبر نامہ سے واقعہ کی اطلاع ہوئی، اور نو بجے کی خبروں میں ان کے نام بھی نشر ہونے لگے، میں اپنے بچوںکے نام پہچاننے میں کیسے غلطی کرتا؟ جب کہ ریڈیو والے وہی نام نشر کر رہے تھے، جو پیدائش کے وقت میں نے رکھے تھے۔ اس تمام اذیت ناک صورتحال کے باوجود آپ صبر و حوصلہ اور تسلیم ورضا کا مجسم پیکر بنے ہوئے تھے۔ رات ہی رات مولانا شہیدؒ کی والدہ کو تسلی دیتے ہوئے ماضی کے چندا لمناک واقعات کا حوالہ دیاکہ ان کو یاد کر کے اپنے غم کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ بہرحال بڑھاپے ، ضعف اور بیماری کی حالت میں المناک طریقے سے عظیم بیٹے ، عزیز بیٹی اور گھر کے تمام افراد کے پیارے اور محبوب دوست(مولاناعرفان شہیدؒ) کی اچانک جدائی کی شدت کو بیان کرنے کے لئے کسی شاعر کی قادرالکلامی ہی کافی ہو سکتی ہے: صُبَّتْ عَلَیَّ مَصَآئبُ لَوْأَنَّھَا صُبَّتْ عَلٰی الْأَیَّامِ صِرْنَ لَیَالِیاَ ترجمہ:’’ایسی شدید مصیبتوں کے پہاڑ مجھ پر ڈھائے گئے ،اگر دنوں کے اوپر ڈھائے جاتے تووہ دن ان کی شدت کی وجہ سے راتوں میں تبدیل ہوجاتے‘‘۔  یہ اشعار غالباً اس طرح کے حادثات کے لئے کہا گیا ہے۔ حادثے کے بعدماموں جان کے شب و روز کیسے گزرہے ہیں؟ کس طرح کی کیفیات و احساسات سے دوچار ہوتے ہیں؟ اس کا اندازہ  ہر وہ شخص لگا سکتا ہے،جو ان کے ساتھ تھوڑی دیر کے لئے نشست کرے۔ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے افراد خانہ اور دیگر دوست واحباب صاف طورپر محسوس کرتے ہیں کہ آپ مختلف اور متضاد کیفیات و احساسات کی حا لت میں حیات مستعار کے باقی ماندہ لمحات اور شب وروز کاٹ رہے ہیں ۔ پشتو ،اردو اور فارسی ادب شناس ہیں، اور موقع شناس بھی، اس لئے اپنے احساسات و کیفیات کے اظہار میں کسی قسم کی دقت محسوس نہیں کرتے۔ حالِ دل کو زبانِ قال کے ذریعے سامنے رکھ دیتے ہیں۔اچھی طرح جانتے بھی ہیں کہ تکلیف اور درد کی حالت میں مومن کی شان کیا ہونی چاہئے، لیکن اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ مولانا شہیدؒ کی وفات سب کے لئے کتنا بڑا المیہ ہے ۔ آس و یاس کی ان مختلف کیفیات سے جب گزرتے ہیں، تومناسب حال واقعات اور اشعار سناتے ہیں۔ آنسوں تو تقریباً ہر وقت ان کی آنکھوں سے جاری رہتے ہیں، لیکن عموماً تسلیم و رضا والی کیفیت غالب رہتی ہے، اور جب بھی تعزیت کے لئے کوئی آتا ہے، تو ان کے سامنے زبان سے اس کیفیت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’ رضا بالقضاء ‘‘اور کبھی علامہ اقبالؒ کے اس شعر کا سہارا لیتے ہیں: رہ رو را منزل تسلیم بخش قدرت ایمان ابراہیم بخش ایک عظیم بیٹے اور معصوم بیٹی کی اندوہناک طریقے سے اچانک جدائی کا صدمہ بوڑھے، نحیف اور صاحب فراش والدین کے لئے ناقابل برداشت کہنا بہت ہلکے الفاظ ہیں ،ایسے غم کو سہنے والے ’’صبر یعقوبی ‘‘کا مصداق کہلانے کے حقدار ہیں۔ ماموں جان اپنے آپ کو اور ہم سب کو تسلی دینے کے لئے اس عظیم صدمے میں بھی مثبت پہلو تلاش کرتے ہیں۔ سانحے کے چوتھے پانچویں دن، جب زخم ابھی تازہ ہی تھا، میں نے ایک گھریلومجلس میں افراد خانہ کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ درحقیقت ماموں جان مولانا شہید کی ہر ترقی پر انتہائی مسرت کا اظہار فرماتے،دوست احباب کو بتلاتے ، حج وعمرہ کایا کوئی اوردعوتی و تبلیغی سفر ہوتا، مدرسہ میں تدریسی حوالے سے اگلے درجات میں ترقی ہوتی، بلکہ مولانا شہیدؒ کی تو ساری ہی زندگی قابل رشک تھی، توماموں جان بہت خوش ہوتے اور اس خوشی کا اظہار بھی فرماتے ۔ اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ شہادت کے ذریعے مولانا شہید کو ملنے والے مقام کابھی مشاہدہ ان کو زندگی میں کرائیں، اس لئے اس ضعف کے باوجود اﷲ نے اس سانحہ کا مشاہدہ ان کو کرایا، صدمے کو برداشت کرنے کی ہمت دی۔حاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا کہ ماموں جان کل خود بھی ایک بے تکلف قریبی دوست کے سامنے یہی بات ارشاد فرما رہے تھے۔ اگلے دن میں نے ان کے سامنے خیالات  کے اس توارد و توافق کا تذکرہ کیا، خاموشی سے سنتے رہے، میری بات ختم ہونے کے بعد کچھ دیر خاموش رہے،پھر ہاتھ کے اشارے سے حیرت واستعجاب کا اظہار کیا، روتے ہوئے پشتو زبان میںحافظ الپوری کے حسب ذیل اشعار سنائے، جو انہوں نے اپنے جوان عمر بیٹے ’’ اولیائ‘‘ کی وفات پر کہے تھے۔ ھغہ طوطی چہ چغیدہ چغا اوس ولے نہ کہ مرگی یہ مُہر پہ خلے یخے دے گویا بہ نشی  ترجمہ:’’وہ چہچہاتا ہواطوطی اب کیوں نہیں نہیں چہچہاتا؟ درحقیقت موت نے ان کے لبوں پر مہر خاموشی لگا دی ہے، اس لئے اب کبھی بھی نہیں بولے گا ‘‘۔ سپین کٹہ بازم  پہ َمنگُل ناست وو، ناسا پہ والوت کہ درست جہاں پسے پرہ کمہ نورا بہ نشی ترجمہ:’’ خوبصورت سفید باز میری کلائی پر بیٹھا ہوا تھا، جو اچانک اڑ گیا، اب اگر میں اس کی تلاش میں سارا جہاں چھان ماروں ، تو واپس نہیں آئے گا ‘‘۔ اصلی گوہر زما دلاسہ پہ دریاب کے ڈوب شہ کہ ڈک سِندُونہ پسے اُوچ کڑمہ پیدا بہ نہ شی ترجمہ:’’حقیقی گوہر نایاب میرے ہاتھ سے دریا برد ہو گیا، اب اگر میں موجیں مارتے ہوئے دریاؤں کے پانی کو بھی خشک کروں، اور ان کو ڈھونڈوں، تو نہیں ملے گا ‘‘۔ کہ پہ جہان کے خے بشرے د مہریا نوشتہ دے حافظ بہ ئے  سہ کاندے پہ سیر د(اولیائ) بہ نشی ترجمہ:’’ اگر اس دنیا میں مہ جبینوں کے خوبصورت چہرے موجود ہیں، تو حافظ نے ان سے کیا لینا ہے؟ وہ میرے پیارے بیٹے ’’ اولیآء ‘‘ ( عطاء ) کی طرح خوبصورت نہیں ‘‘۔ رنج والم کی کیفیت میں ایک غمگین والدکی حقیقی دلی کیفیت کی برجستہ اور بر محل ترجمانی نے فضا کو سوگوار بنادیا، اور ہم سب کے مصنوعی ضبط ٹوٹ گئے ۔ ’’ افسردہ دل، افسردہ کند انجمنے را ‘‘۔ سانحہ کے بعد کم ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے کہ ہم افراد خانہ حاضر خدمت نہ ہوئے ہوں اور ماموں جان کے رونے کی وجہ سے فضا سوگوار نہ ہوئی ہو۔ ماموں جان ساری زندگی شعبۂ تدریس سے متعلق رہے ہیں، بلاناغہ ڈیوٹی سرانجام دینا اور بروقت مقام کار پر پہنچنا نمایاں خصوصیت رہی ہے ۔ ہمیں بھی اس کی تلقین اور بوقت ضرورت سرزنش کرتے رہے ہیں ۔ اس سانحہ سے پہلے جب بھی ہم لوگ، جو تقریباًسب کے سب  مدارس دینیہ میں تعلیم و تعلم کے شعبہ سے منسلک ہیں، ملک کے اندر یا بیرون ملک مقام کارپر جانے کے لئے رخت سفر باندھتے ، اجازت لینے اور الوداعی ملاقات کے لئے حاضر خدمت ہوتے ، تو سفر کی تفصیلات معلوم کرتے، خوشی کا اظہار فرماتے اور بالخصوص صاحب فراش ہونے سے پہلے کبھی بھی اظہار غم نہیںکیا، جیسا کہ عموماً ایسے مواقع پر کیا جاتا ہے ۔ لیکن سانحہ کے تقریباً پندرہ دن بعد جب مولانا شہیدؒ کے تین طالب علم بیٹوں کی کراچی جانے کے متعلق مولانا امداﷲ صاحب نے ان کی رائے معلوم کی، تو بے اختیار ایسے روئے کہ سب حاضرین مجلس کو رلا دیا۔اسی مجلس میں مولانا امداﷲ صاحب ایک اور معاملے کے بارے میں بھی مشاورت کرنا چاہتے تھے ، لیکن ان کی حالت دیکھ کر اپنے اندر بات کرنے کی جرأت نہ پا سکے ۔ ابھی چند دن پہلے میں نے خیریت دریافت کی،تو فرمانے لگے:پوری رات آنسو بہنے میں گزر جاتی ہے ، جس کی وجہ سے بینائی مزیدمتاثر ہوئی ہے۔گویا’’  یٰأَسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ  مِنَ الْحُزْنِ فَھُوَ کَظِیْمٌ ‘‘ کے مصداق ہیں۔ لیکن بایں ہمہ غموم و ہموم، تسلی وتعزیت کے لئے آنے والے تمام مہمانوں سے صبر و حوصلہ سے بات کرتے ہیں، ان کی خیریت دریافت کرتے ہیں، حال احوال معلوم کرتے ہیں، اور تسلیم و رضا پرمبنی گفتگو فرماتے ہیں، اور دعاؤں کے ساتھ ان کو رخصت فرماتے ہیں۔ مولانا کی شہادت کے بعد یہ معمول ہے کہ نماز عصر و مغرب مسجد میں باجماعت ادا فرماتے ہیں، اور درمیانی وقفہ مسجد ہی میں تشریف فرما رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ والدین کو اولاد کی جدائی کے اس غم کو تحمل و حوصلہ سے برداشت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں، اور ان کا سایہ تادیرہم سب پر برقرار رکھیں ۔آمین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین