بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مولانا عبد العزیز پرہاڑوی رحمۃ اللہ علیہ …حیات وخدمات… (پہلی قسط)

مولانا عبد العزیز پرہاڑویv

…حیات وخدمات…              (پہلی قسط)

نام ونسب       حضرت علامہ اپنی تصنیف ’’الزمرد‘‘ کے ص :۳ پر اپنے نام اور نسب کے متعلق لکھتے ہیں :      ’’ابو عبد الرحمن عبد العزیز بن ابی حفص احمد بن حامد القرشی۔‘‘(۱)      موصوف کے والد محترم متقی ،صوفی اور بعض علوم شریعہ کے عالم تھے ،علم ریاضی میں انہیں خاص درک تھا۔(۲)      موصوف کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا ، کہا جاتا ہے کہ یہ خاندان ’’کابل‘‘ سے ’’پنجاب‘‘آیا تھا، لیکن ان کے نزول کی حتمی تا ریخ معلوم نہیں ہوسکی۔ (۳)  تاریخِ ولادت، جائے ولادت       حضرت علامہ مرحوم کے سن پیدائش اور جائے پیدائش میں مؤرخین کا کا فی اختلاف ہے، بعض نے سن پیدائش ۱۲۰۶ ھ/۱۷۹۲ئ، بعض نے ۱۲۰۷ھ اور بعض نے ۱۲۰۹ھ کہا ہے، اسی طرح جائے ولادت میں بعض نے’’احمد پور شرقیہ‘‘، بعض نے علاقہ ’’غزنہ‘‘(مضافاتِ افغانستان) اور بعض نے ’’پرھاڑ‘‘نامی بستی کہا ہے، اور تیسرا قول راجح ہے۔ (۴)  بستی’’ پرھاڑ‘‘کا محل و قو ع اور آب و ہوا      موصوف اپنی کتاب ’’الزمرد‘‘ میں لکھتے ہیں :  ’’بیرھیار‘‘ - جعلھا اللّٰہ دار القرار-  وھو موضع عذب الماء ، طیب الھواء ، بقرب الساحل الشرقی لنھر السند من مضافات قلعۃ أدّو علی نحو أربعۃ وعشرین میلا من دا ر الأمان ملتان إلی المغرب مائلا إلی الشمال ۔‘‘(۵)  ترجمہ:’’بستی پرھاڑ میٹھے پانی اور خوشگوار ہوا کی حامل بستی ہے، جو کوٹ ادُّو کے مضافات میں دریائے سندھ کے مشرقی ساحل کے قریب ملتان سے ۲۴؍ میل دور شمال مغربی جانب واقع ہے۔‘‘ ابتدائی تعلیم اور اساتذہ      موصوف کے بچپن کے تفصیلی حالات معلوم نہ ہوسکے،جس کے تین اسباب کی طرف ڈاکٹر ظہوراحمد اظہر (پروفیسر بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ،ملتان)نے اشارہ کیا ہے۔      ۱:… علامہ ایسے پسماندہ علاقہ میں رہائش پذیر تھے، جہاں نہ اہل علم کواور نہ ان کی سوانح کو اہمیت دی جاتی تھی۔      ۲:… ان کا نہایت کم عمری میں انتقال ہو گیا تھا۔     ۳:… موصوف کی بود وباش جس علاقے میں تھی،وہاں چاروں طرف ان کے حاسدین تھے،جو ہر وقت ان کی تحقیر و تذلیل میں لگے رہتے ، اور یہی ان کی تالیفات کے ضیاع کا سبب بنا۔ (۶)      ڈاکٹر ظہور صاحب کی یہ باتیں ہمیں چند وجوہات کی بنا پر ناقابل قبول ہیں:      ۱:… مرحوم کا زمانہ علم دوست زمانہ تھا،جس میں وقت کا ولی عہدشاہ نواز اُن سے کتب لکھنے کی فر ما ئش کرتا ہے، اوربہت سی سوانح عمریاں اس دور کی یاد گار ہیں،جب کہ ڈاکٹر صاحب کے قول کے مطابق علماء اور ان کی سوانح سے عدم اعتناء کا زمانہ تھا۔      ۲:…دوسری بات جو ڈاکٹر صاحب نے کم عمری کی لکھی ،یہ امر بھی راقم کو ہضم نہیں،اس لیے کہ تاریخ ایسے حضرات سے بھری پڑی ہے کہ ان حضرات کا نہایت کم عمری میں انتقال ہوا اور ان کی سوانح عمریاں آج ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔       ۳:… اور تیسرا سبب تو انسان کی شہرت کا ذریعہ ہے، نہ کہ اُسے پردۂ خفاء میں بھیجنے کا،خصوصاً جب محسود سلسلۂ چشتیہ کا پیر طریقت اور عارف باللہ بھی ہو، اور محاورہ ہے: ’’تعرف الأشیاء بأضدادھا۔‘‘      راقم کے خیال میں علامہ مرحوم کی سوانح کی عدم دستیابی مرحوم کی وہ للہیت اور تقویٰ تھا،جس کی وجہ سے وہ شہرت اور ناموری سے کو سوں دور بھاگتے تھے، اور ان کے علم کے ضیاع کا سبب یہ ہوا کہ اُنہیں ایسے شاگرد نصیب نہیں ہوئے ،جو ان کے علوم کو آگے پھیلاسکیں ،جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمروqکے متعلق خود حضرت ابوہریرہq(جو ایک کثیر الروایۃ صحابی ہیں) سے منقول ہے کہ ان کے پاس مجھ سے زیادہ حدیثیں تھیں، مگر ان کی کثرتِ عبادت اور ذی استعداد طلبہ کی عدم دستیا بی کی وجہ سے ان کی صرف (۷۰۰) احادیث منقول ہیں ، جبکہ حضرت ابو ہریرہؓ کی مرویات (۵۳۷۴) ہیں، اور لیث بن سعدvکے بارے میں آتا ہے کہ وہ حضرت امام مالکv سے زیادہ فقیہ تھے ،مگر اُنہیں شاگرد ایسے میسر نہ ہوئے ،جو ان کے علم کو مدوَّن کرسکیں ۔(۷)      اور اسی طرح ہمارے استاد محترم حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی صاحب -أطال اللّٰہ بقائہٗ ومتعنا اللّٰہ بعلومہٖ، آمین - نے اپنے مقالے (بنام مولانا انور شاہ ؒ) میں علامہ ابن الھمامv (۸۶۱ھ) کا ایک قول نقل کیا ہے، جو انہوں نے علامۃ الدہر شیخ محمد بن محمد الشدالی (۷۶۷ھ) کے متعلق کہا تھا:’’ھذا الرجل لاینتفع بکلامہٖ ولا ینبغی أن یحضر درسہٗ إلا حذّاق العلمائ۔‘‘(۸)      یہی قول یہاں بھی صادق آتا ہے،کیونکہ خود مصنِّف اور مصنَّف اس بات کی گواہی دیتے ہیں ،مصنِّف تو اپنی مصنَّف کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’فإن لنا مؤلفات کثیرۃ فیما ذکرنا، ولکن لم نجد من یفہمہافضلا عن من یستحسنہا‘‘۔(۹)       اور یہی وجہ ہے کہ مرحوم پر پی،ایچ،ڈی،کرنے والے حضرات میں سے کسی نے بھی ان کے شاگردوں کی فہرست تو درکنار ایک شاگرد کا نام بھی نہیں گنوایا۔  اساتذہ      موصوف کے صرف تین اساتذہ کا علم ہوسکا ہے:       ۱:… موصوف کے والد حافظ احمد صاحب ۔(۱۰)      ۲:… حافظ جمال اللہ ملتانی (المتوفی:۱۲۲۶ ھ/ ۱۸۱۱ء )۔ (۱۱)      ۳:…حضرت محبوب اللہ خواجہ خدا بخش ملتانی چشتی(۱۲۵۱ھ)۔ (۱۲)      اول الذکر سے صرف قرآن مجید حفظ کیا، اور بعض ابتدائی کتب اور علم الحساب حاصل کیا۔(۱۳)      اس کے بعد تقریباً دس سال کی عمر میں اپنی بستی سے رختِ سفر باندھا اور حضرت خواجہ نور محمد مہارویv (المتوفی:۱۲۰۵ھ /۱۷۳۰ئ) کے خلیفہ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی چشتی vکی خدمت میں پہنچ کر بقیہ علوم وفنون اُن سے حاصل کیے ۔(۱۴) اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ : موصوف کے علم کا یہ شرف اُنہیں اول تا آخر حضرت خواجہ خدا بخشؒ کی شاگردی میں نصیب ہوا۔(۱۵)   موصوف اور ملاقاتِ حضرت خضر علیہ السلام     بعض حضرات نے حضرت مرحوم کی تمام علوم و فنون پر دسترس کو دیکھ کر کہا کہ: ان کی حضرت خضر m سے ملاقات ہوئی۔ مرحوم نے ان سے اپنی غباوت کا اظہار کیا تو حضرت خضرm نے ان کے لیے دعا کی ۔یہ اسی دعا کا نتیجہ وثمرہ تھا کہ انہیں (۲۷۰ )علوم میں کمال حاصل تھا ،جس کی تصریح خود انہوں نے بھی کی ہے۔(۱۶)      مگر اس واقعہ کا انکار علامہؒ اپنی زندگی میں ہی کر چکے تھے ، چنانچہ ایک واقعہ لکھا ہے: ’’ایک موقع پر حضرت پرہاڑوی vکے ایک ہم مکتب نے ان سے سلطان المشایخ خواجہ خدا بخشؒ کی موجودگی میں پوچھا: ’’تمہیں خضر m مل گئے ہیںکہ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں، جس میں آپ کو مہارت حاصل نہ ہو؟۔‘‘ مولانا پرہاڑویv نے حضرت خواجہ خدا بخشv کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’ان کی موجودگی میں مجھے کسی خضر ؑکی ضرورت نہیں۔‘‘(۱۷)      اور تاریخ میں یہ بات ثبت ہے کہ حضرت خواجہ خدا بخشv کا انتقال ۲؍ صفر۱۲۵۱ھ کو ہوا ہے ، اور تقریباً ۱۲؍ سال پیشتر صاحب ترجمہ اس دارِ فانی کو داغِ مفارقت دے گئے تھے، یعنی جب تک حضرت پرہاڑویv  زندہ تھے،انہیں حضرت خضر m کی ضرورت نہیں پڑی۔       اسی طرح یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی غباوت کی شکایت اپنے استاذ و شیخ حافظ جمال اللہ چشتی سے کی، ان کی دعا کی برکت سے علم و حکمت کے دروازے آپ پر کھل گئے۔ غالباً اسی واقعہ کی طرف انہوں نے اپنے ان اشعار میں اشارہ کیا ہے: علم ایشاں نظری و کسبی بود

علم ما اشراقی و وھبی بود من کیم امداد فضل ایزد است

بعد ازاں فیض نبی و مرشد است(۱۸)  حضرت علامہؒ اور ذو ق سخن      حضرت علامہؒ کی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے، ان کی اکثر کتب کے شروع اور آخر میں ان کا کلام مذکور ہے، جن کا ذکر ان کی تصانیف کے تذکرہ میں آئے گا ۔ باقی اس صنف میں مستقل ان کی کسی تصنیف کا ہمیں علم نہیں، البتہ کتاب ’’معدل الصلاۃ‘‘ میں ان کے ۲۲؍ اشعار درج ہیں، جس میں وہ علمائے ہند پر کافی برہم دکھائی دیتے ہیں ،لکھتے ہیں:  أیا علماء الہند طال بقاء کم

وزال بفضل اﷲ عنکم بلاء کم رجوتم بعلم العقل فوز سعادۃ

وأخشی علیکم أن یخیب رجاء کم فلا فی تصانیف الأثیر ہدایۃ

ولافی إشارات ابن سینا شفاء کم ولا طلعت شمس الہدی من مطالع

فأوراقہا دیجورکم لاضیاء کم وما کان شرح الصدر للصدر شارحا

بل ازداد منہ فی الصدور صداء کم وبازغۃ لاضوء فیہا إذا بدت 

وأظلم منہا کاللیالی ذکاء کم وسلّمکم مما یفید تسفّلا

ولیس بہ نحو العلو ارتقاء کم فما علمکم یوم المعاد بنافع

فیا ویلتی ماذا یکون جزاء کم أخذتم علوم الکفر شرعا کأنما

فلاسفۃ الیونان ہم أنبیاء کم مرضتم فزدتم علۃ فوق علۃ

تداووا بعلم الشرع فہو دواء کم صحاح الحدیث المصطفی وحسانہ

شفاء عجیب فلیزل منہ داء کم (۱۹)  فارسی نمونۂ کلام  روزے کہ نظر در ساعت طامع گردد

روزے کہ موافق ہمہ واقع گردد باسعد نکو کن وبا نحس بدی

تا عملہائے تو نافع گردد (۲۰)      اس کے علاوہ موصوف نے ایک کتاب’’الإیمان الکامل‘‘ عقائد پر فارسی نظم میں لکھی ہے۔(۲۱)  علامہ پرہاڑوی v علماء و محققین کی نظر میں      ۱:-  نبراس کے محشِّی مولانا محمد برخوردار صاحبv لکھتے ہیں:  ’’ہذہٖ تعلیقات علی مواضع متفرقۃ من کتاب النبراس للحافظ العلامۃ والحبر الفہامۃ حامل لواء الشریعۃ محقق المسائل الاعتقادیۃ صاحب تصانیف الجلیۃ کالیاقوت… مولانا عبد العزیز الفرہارویؒ کان محدثا، مفسرا، جامعا للمعقول والمنقول، ماہرا للفروع والأصول۔‘‘ (۲۲)       ۲- علامہ عبد الحئی لکھنوی v(۱۳۴۱ھ / ۱۹۲۳ئ) لکھتے ہیں: ’’الشیخ العالم المحدث عبد العزیز بن أحمد بن الحامد القرشی الفریہاری الملتانی أبوعبد الرحمٰن کان من کبار العلمائ، لہٗ مصنفات کثیرۃ فی المعقول والمنقول‘‘۔(۲۳)      ۳:- امام المحد ثین،نجم المفسرین،زبدۃ المحققین،مولانا محمدموسیٰ روحانی البازیv (متوفی: ۱۴۱۹ھ/ ۱۹۹۹ئ)لکھتے ہیں :  ’’ہو العلامۃ الکبیر بل ذو الشان العظیم، نادرۃ الزمان، سلطان القلم والبیان، کان آیۃ من آیات اللّٰہ بلا فریۃ ونادرۃ من نوادر الدہر بلامریۃ۔ ہیہات لایأتی الزمان بمثلہٖ إن الزمان بمثلہٖ لبخیل داہیۃ من الدواہی، وباقعۃ من البواقع، کم من عوارف ہو ابن بجدتہا، وکم من فنون ہو أبو عذرتہا، وإن أقسم أحد أن أرض إقلیم فنجاب من باکستان لم یولد فیہا مثلہٗ منذ خلق اللّٰہ ہذہٖ الأرض ودساہا لکان بارا حسب ما نعلم من التاریخ‘‘۔(۲۴)      ۴:- شیخ عبد الفتاح ابو غدہ v(متوفی :۱۴۱۷ ھ/۱۹۹۷ئ) لکھتے ہیں :  ’’ العلامۃ النابغۃ الشیخ عبد العزیز الفرھاروی الھندیؒ ذو التآلیف المحققۃ‘‘۔(۲۵) تصانیف      مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی v فرماتے ہیں کہ : انہوں نے ہر علم وفن میں تصنیف کی۔       لکھتے ہیں : ’’صنّف کتبا فی کل فن ما یحیر الألباب۔‘‘(۲۶)      اور موصوف خود لکھتے ہیں: ’’فإن لنا مؤلفات کثیرۃ۔‘‘(۲۷)     حضرت علامہؒ علوم ظاہری وباطنی میں یگانہ روزگار تھے، علماء وفقراء سے بے حد الفت کرتے،مطالعہ میں بڑا انہماک تھا، رشد وتدریس کے سلسلے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا ذوق کامل بھی رکھتے تھے۔ (۲۸)       کم قسمتی سے آپ کی اکثر کتب حوادثات زمانہ کی نذر ہوگئیں ، ان کی چند تصانیف مطبوعہ ہیں ، اور ان کی طرف منسوب بعض کتب کے نا موں کی بازگشت چلی آ رہی ہے، چند مطبوعہ تصانیف کا تعارف حسب ذیل ہے:  ۱:… السلسبیل      کتاب کے سرورق پر اس کا پورا نام ’’السلسبیل فی تفسیر التنزیل‘‘ لکھا ہے،یہ کل اُنتیس (۲۹) پاروں کی تفسیر ہے، جسے کاتب عبد التواب نے۶؍ ذو القعدہ بروز جمعرات ۱۳۰۷ ھ /۱۸۹۰ء میں لکھا۔      کتاب کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے:’’باسمک مصلیاً ومسلماً وآلہٖ وأصحابہؓ۔‘‘ اور آخر اس طرح ہے:’’وھذا قیل: (فی الدنیا)، ارکعوا (صلوا ) بعدہٗ (بعد القرآن)۔‘‘      اس کے بعد کاتب مرحوم لکھتے ہیں:  ’’إلیٰ ھنا وجد التفسیر، ولعلہٗ لم یتیسر للمصنف إتمامہٗ لدرک الموت أو لغیرہٖ، واللّٰہ أعلم۔‘‘      اس کتاب کی ڈاکٹر شفقت اللہ خان نے تحقیق کرکے جامعہ پنجاب ،لاہور سے پی،ایچ،ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ۲ :…الصمصام      کتاب کے سرورق پر اس کا پورا نام ’’الصمصام فی أصول تفسیر القرآن‘‘ درج ہے، جبکہ علامہ عبد الحئی لکھنو یv کی تصریح کے مطابق یہ تاو یل کی مذمت پر ہے۔ (۲۹)      اس کی کتابت عظمت اللہ صاحب نے بروز ہفتہ۱۸؍رجب/۱۳۰۵ ھ/ ۱۸۸۷ء کو مکمل کی، درمیان میں یہ رسالہ ناقص ہے۔ یہ رسالہ موصوف کی کتاب’’ نعم الوجیز‘‘ کے حاشیہ پر مکتبہ سلفیہ محلہ قدیر آباد ملتان سے شائع ہوا تھا، سن طباعت درج نہیں۔  ۳ :…نعم الوجیز      یہ کتاب بروز جمعہ ۱۷؍ صفر۱۲۳۶ ھ / ۲۲؍نومبر۱۸۲۰ء کو مکمل ہوئی۔      اس کا پورا نام کتاب کے سرورق پر یوں درج ہے: ’’نعم الوجیز فی البیان والبدیع ‘‘ جبکہ اسی کتاب کے دوسرے صفحہ پر خود مصنف لکھتے ہیں :’’نعم الوجیز فی إعجاز القرآن العزیز۔‘‘     یہ کتاب مکتبہ سلفیہ محلہ قدیر آباد ملتان سے شائع ہوئی تھی، سن طباعت درج نہیں۔      اس کتاب کی سن ۱۹۹۲ء میں حبیب اللہ صاحب نے تحقیق کرکے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ، پھر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے اس میں ایک قیمتی مقدمہ کا اضافہ کیا ، اور۱۹۹۴ء میں ’’المجمع العربی الباکستانی‘‘ نے شائع کی۔  مراجع ومصادر ۱:… دیکھئے :الزمرد از مؤلف، طبع: حاجی چراغ الدین سراج الدین تاجران کتب بازار کشمیری لاہور ،مطبع رفاہ عام بابو نور الحق،سن طباعت: ۱۳۴۵ ھ/۱۹۲۶ئ۔  ۲:… القلم: جلد:۵ ، شمارہ:۵ ، صفحہ:۲۵۵ ۔ ڈاکٹر محمد شریف سیالوی: ادارہ علوم اسلامیہ ،جامعہ پنجاب ،لاہور۔  ۳:… القلم:جلد:۵، شمارہ:۵ ، صفحہ:۲۵۵ ۔ ڈاکٹر محمد شریف سیالوی: ادارہ علوم اسلامیہ ،جامعہ پنجاب ،لاہور۔  ۴:… القلم: جلد:۵، شمارہ:۵، ص:۲۵۲ ۔ اور دیکھئے : مکمل اسلامی انسائیکلو پیڈ یا ، ص : ۱۰۴۰۔  ۵:…  دیکھئے:الزمرد از مؤلف، ص :۱۳۵، طبع:حاجی چراغ الدین سراج الدین تاجران کتب بازار کشمیری لاہور، مطبع رفاہِ عام بابو نور الحق،سن طباعت: ۱۳۴۵ ھ/۱۹۲۶ئ۔  ۶:… القلم: جلد:۵،شمارہ:۵، ص:۲۵۶۔  ۷:… تفصیل کے لیے دیکھئے :تہذیب الکمال للمزی: ۱۵ /۴۴۴، ترجمہ لیث بن سعد: قول امام شافعی، طبع : دار الفکر بیروت، سن طباعت:۱۴۴۴ھ/۱۹۹۴ء ۔  ۸:… دیکھئے : مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی ، مقالہ بنام مولانا انور شاہ صاحب ، معارف اعظم گڑھ، ص:۳۴۱، شمارہ نمبر:۵ ، جلد نمبر:۱۰۰ ، طبع:اعظم گڑھ ۔ ۹:… مناظرۃ الجلی فی علوم الجمیع للفرھاروی، ص:۱۰۹، کوثر النبی کے ساتھ مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں) شائع ہوئی۔  ۱۰:… بحوالہ مکمل اسلامی انسائیکلو پیڈیا،ص:۱۰۴۰۔ ۱۱:…  بحوالہ مکمل اسلامی انسائیکلو پیڈیا،ص:۱۰۴۰ ، اور ا لقلم:۵ ،شمارہ:۵ ، ص:۲۵۶۔ ۱۲:… بحوالہ سوانح محبوب اللہ حضرت خواجہ خدا بخش، مرتب:مختار احمد پیر زادہ ، طبع : اردو اکیڈمی بہاولپور، ص: ۴۶،وص:۴۸ وص:۶۸تا ۶۹۔  ۱۳:…  بحوالہ مکمل اسلامی انسائیکلو پیڈیا، ص:۱۰۴۰، اور ا لقلم:۵، شمارہ:۵ ، ص:۲۵۶۔  ۱۴:… بحوالہ مکمل اسلامی انسائیکلو پیڈیا، ص:۱۰۴۰، اور ا لقلم:۵، شمارہ:۵ ، ص:۲۵۶ تا۲۵۷۔   ۱۵:… بحوالہ سوانح محبوب اللہ حضرت خواجہ خدا بخش، مرتب:مختار احمد پیر زادہ ، طبع : اردو اکیڈمی بہاولپور، ص:۴۶۔   ۱۶:… مناظرۃ الجلی فی علوم الجمیع للفرھاروی، ص:۱۰۵ ، کوثر النبی کے ساتھ مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں)شائع ہوئی۔   ۱۷:… بحوالہ سوانح محبوب اللہ حضرت خواجہ خدا بخش، مرتب:مختار احمد پیر زادہ ، طبع : اردو اکیڈمی بہاولپور، ص:۴۶۔   ۱۸:… القلم: جلد:۵،شمارہ:۵، ص: ۲۵۷۔   ۱۹:… معد ل الصلاۃ از علامہ محمد بن پیر علی المعروف ببرکلی(المتوفی:۹۸۱ھ)،ص:۱۶ ، طبع: مکتبہ سلفیہ قدیر آباد ملتان ،سن طباعت:۱۳۲۸ھ۔   ۲۰:… السر المکتوم مما أخفاہ المتقدمون للفرھاروی، حاشیہ صفحہ :۱۴، طبع: العزیز اکیڈمی ، کوٹ ادّو، ضلع مظفرگڑھ، مصنف کی کتاب ’’رسالۃ الأوفاق‘‘ کے ساتھ غالباً ۱۳۹۷ھ میں شائع ہوئی۔  ۲۱:… القلم: جلد:۵،شمارہ:۵، ص: ۲۵۷۔  ۲۲:… القسطاس :۲، مطبع خضر مجتبائی، ملتان، سن طباعت: ۱۳۱۸ھ۔  ۲۳:… نزھۃ الخواطر:۷ / ۲۸۳، طبع دوم، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ /۱۹۷۹ء مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد دکن، ھند۔  ۲۴:… حاشیۃ الطریق العادل إلی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول والحاصل للجامی للروحانی البازی ص :۲۲۷ ، الطبعۃ السابعۃ ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ/۲۰۰۶ء ، ادارۃ التصنیف والادب ، لاہور ، پاکستان۔  ۲۵:… تعلیقات الرفع والتکمیل از شیخ عبد الفتاح ابو غدہ، ص: ۲۸۹، قد یمی کتب خانہ کراچی۔ ۲۶:… حاشیۃ الطریق العادل إلی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول والحاصل للجامی للروحانی البازی، ص :۲۲۷ ، الطبعۃ السابعۃ، سن طباعت: ۱۴۲۷ھ/۲۰۰۶ئ، ادارۃ التصنیف والادب، لاہور ، پاکستان۔  ۲۷:… مناظرۃ الجلی فی علوم الجمیع للفرھاروی، ص:۱۰۹، کوثر النبی کے ساتھ مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں) شائع ہوئی۔  ۲۸:… بحوالہ مکمل اسلامی انسائکلو پیڈیا، ص:۱۰۴۰۔  ۲۹:… نزھۃ الخواطر:۷ / ۲۸۳ ، طبع دوم، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ /۱۹۷۹ئ، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد دکن، ھند۔                                                                                       ( جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین