بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولانا عبد العزیز پرہاڑوی رحمۃ اللہ علیہ …حیات وخدمات…(تیسری اور آخری قسط)

مولانا عبدالعزیز پرہاڑویv

…حیات وخدمات…              (تیسری اور آخری قسط)

 علامہ پرہاڑوی v کا فقہی مسلک      بعض حضرات نے موصوف کی سوانح عمری بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: انہوں نے تقلید کا دامن چھوڑ کر فرقہ لامذہبیہ کی چادر تان لی تھی، جیسا کہ علامہ عبد الحیv نے لکھا ہے: ’’وکان شدید المیل إلی اتباع السنۃ السنیۃ ورفض التقلید‘‘۔ (۱)      ان کا استدلال موصوف کی اس عبارت سے ہے،وہ ناقل ہیں:’’قال فی الیاقوت : وبالجملۃ لایرتاب مسلم فی أن اللّٰہ سبحانہٗ أمر باتباع رسولہٖ ، فلا نترک الیقین بالشک، ومن لامنا فلیلم‘‘۔     یہ عبارت مصنف کے رسالہ ’’الیاقوت‘‘ کی ہے، جس کے متعلق لکھنوی صاحبؒ کا یہ خیال ہے کہ یہ رسالہ تقلید کی مذمت میں ہے،اسی طرح موصوف کی کتاب ’’کوثر النبیؐ‘‘ کی ایک طویل عبارت کو اپنا مستدل بنایا ہے،لیکن موصوف کی یہ بات کئی وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے۔       پہلے تو ہمیں یہ تسلیم نہیں کہ موصوف نے تقلید کی مذمت پر رسالہ لکھا، کیونکہ جس رسالہ’’الیا قوت‘‘ کا ذکر علامہ لکھنویؒ صا حب کر رہے ہیں، ان کے علاوہ کسی تذکرہ نگار نے ان کی سوانح میں اس رسالہ کا تذکرہ نہیں کیا۔ ’’یاقوت‘‘ نامی جن کتب کا ہمیں علم ہوسکا ،وہ تصنیفات کے ذیل میں آگئیں ہیں، جن میں سے ایک کتاب ’’الیاقوت‘‘جس کی تحقیق و دراسہ ڈاکٹر شریف سیالوی صاحب نے کی ہے ،ہمیں اس کتاب کے مطالعہ کا اتفاق نہیں ہوا،مگر اس کتاب میں اس طرح کا کوئی مسئلہ ہوتا تو ڈاکٹر صاحب اس کی ضرور گرفت کرتے، حالانکہ ڈاکٹر صاحب اپنے مقالہ میں مولانا کے مسلک کے تحت رقم طراز ہیں :’’ ورغم کونہ علی مذھب أبی حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- کانت لدیہ النزعۃ القویۃ إلی الاجتھاد وترک التقلید الأعمٰی۔‘‘(۲)      علامہؒ نے جس عبارت کو بطور دلیل پیش کیا ہے ، وہ ’’کتاب معدل الصلوۃ‘‘ میں اس طرح درج ہے: ’’اختلف الفقہاء فیما یجد المقلد حدیثا صحیحا یخالف فتوٰی إمامہٖ، فعن أبی یوسفؒ محمول علی العامی الصرف الذی لایعرف معنی الحدیث، وعن أبی حنیفۃؒ قیل لہٗ: إذا قلت قولا وخبر الرسول یخالفہٗ، قال: اترکوا قولی بخبر الرسول a وشنع صاحب الفتوحات المکیۃ علی من یترک الحدیث بقول إمامہٖ وقال: ہذا نسخ الشریعۃ بالہوٰی مع أن صاحب المذہب قال: إذا عارض الخبر کلامی فخذوا بالخبر، فلیس أحد من ہؤلاء المقلدین علٰی مذہب إمامہٖ، ولیت شعری کیف یترک ہؤلاء حدیثا صحیحا علی زعم أن إمامہٗ أحاط علما بالسنن، فرجع بعضہا علی بعض مع أن الإحاطۃ غیر معلومۃ بل یرد علی مدعیہا قول الأئمۃ:اترکوا أقوالنا بقول رسول اللّٰہ a وبالجملۃ لایرتاب مسلم فی أن اللّٰہ سبحانہٗ أمر باتباع رسولہٖ، فلانترک الیقین بالشک ومن لامنا فلیلم نفسہٗ۔‘‘ (۳)      اس عبارت میں مرحوم واضح اور صریح حکم میں صرف اپنے امام کے قول کی وجہ سے چھوڑنے کی تردید کر رہے ہیں، نہ کہ مذ ہب حنفی سے براء ت کا اظہار، ورنہ موصوف کا یہ ذکر کرنا کہ:’’ عن أبی حنیفۃؒ:قیل لہٗ: إذا قلت قولاوخبر الرسول یخالفہ؟ قال:اترکوا قولی بخبر الرسول‘‘ کا کیا مطلب ؟ کیا اس سے وہ مذہب حنفی کی تردید کررہے ہیں؟ نہیں ، بلکہ موصوف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مذہب حنفی میں اس کی گنجا ئش ہے، اسی وجہ سے اپنی عبارت کی ابتدا میں جو اقوال پیش کیے ،وہ احناف ہی کے اختلاف سے پیش کیے ہیں، البتہ اس عبارت ’’اترکوا قولی…‘‘میں احناف کے ایک گروہ کے قول کو علامہؒ نے اختیار کیا ،جس سے وہ مذہب حنفی سے نکلے نہیں ہیں۔     مرحوم نے جو’’ کوثر النبیؐ‘‘ کی عبارت کو دلیل بنایا ہے ،ہم اس عبارت کو نقل کرتے ہیں: ’’وإلٰی اللّٰہ المشتکٰی من المعاصرین، ومن علمائہم المتعصبین القاصرین، اتخذوا علم الحدیث ظہریًا، ونبذوا التخریج نسیًا منسیًا، فأوعظہم ألہجہم بالأکاذیب، وأعلمہم أکذبہم فی الترغیب والترہیب، ولیس ہذا أول قارورۃ کسرت فی الإسلام، بل ہذہ الشنیعۃ متقادمۃ من سالف الأیام، فإن الأبالسۃ أفسدوا بالوضع والتزویر، فانخدع لہم مدونوا المواعظ والتفسیر، ولم یزل خلف یتلقاہا من سالف ویہلک بتدوینہا تالف بعد تالف، واللّٰہ الناصر الموفق للمحدثین، وموکلہم عن نفی الکذب فی الدین، ولما رأیت ہذا العلم منطمسۃ، ومدارسہ  بلاقع ومندرسۃ، أردت تجدید الإظلال، مستعینًا بذی الجلال۔‘‘      فن تاریخ کے طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں ،کہ علم حدیث کا ارتقاء متحدہ ہندوستان میں کب ہوا، اور اس کے اصول پر کتنے رسائل وکتب منظر عام پر آئے(۴)، اس پیرایہ میں مصنف یہ شکوہ وشکایت کر رہے ہیں کہ ہمارے زمانہ کے علماء نے علم حدیث کو پس پشت ڈال دیا ہے، علم حدیث اور اس کی تخریج کے اصول نسیاً منسیاً ہو چکے ہیں، و اعظین وعلماء ترغیب و ترہیب کی من گھڑت حدیثیں سناتے ہیں، یہ سب اصول حدیث سے ناواقفی کی بنا پر ہو رہا تھا …۔       کیا اس قسم کے شکوہ کی بنا پر کوئی حنفیت سے نکل سکتا ہے؟ نہیں!بلکہ اس عبارت میں صرف فن حدیث سے بے اعتنائی کا ذکر ہے، نہ کہ فقہ حنفی سے بیزاری کا۔      اب ہم وہ دلائل ذکر کریں گے جن سے موصوف کے حنفی ہونے کی گواہی ملتی ہے۔     پہلی دلیل:… حضرات غیر مقلدین امام اعظم ابو حنیفہv  کی تابعیت کا انکار کرتے ہیں ، غیر مقلدین کے مشہور عالم میاں نذیر حسین دہلویؒ (متوفی: ۱۳۱۰ھ/۱۹۰۲ء ) نے اپنی کتاب’’ معیار الحق‘‘ میں امام صاحبv کے تابعی ہونے کی تردید کی ہے۔ (۵)      جبکہ علامہ پرہاڑویv ان کی تابعیت کے قائل ہیں، چنانچہ موصوف نے اپنی کتاب ’’کوثر النبیؐ‘‘ میں ان کی تابعیت کے بارے میں اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ’’ اختلف فی أن الإمام أبی حنیفۃؒ من التابعین أوأتباعھم ، الجمھور علی الثانی ، والجزریؒ والتوربشتیؒ والیافعیؒ علی الأول، وھو الصحیح۔‘‘(۶)      یہاں امام صاحبv  کے بارے میں اپنے مؤقف کی تصریح کردی کہ وہ تابعی ہیں۔     دوسری دلیل:… غیر مقلدین حضرات کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ v کو صرف سترہ احادیث یاد تھیں، جیسا کہ صادق سیالکوٹی نے لکھا ہے۔(۷)      اس کے برعکس علامہ پرہاڑوی v امام صاحب کو کثیر الحدیث اور چار ہزار اساتذہ سے حدیث کا سماع کرنے والا بتاتے ہیں، چنانچہ موصوف نے لکھا ہے: ’’وکان أبوحنیفۃؒ کثیر الحدیث، سمع أربعۃ آلاف رجل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‘‘(۸)     تیسری دلیل: … پھر اس پر یہ اعتراض ہوتا کہ کثیر الحدیث تھے تو کثیر الروایۃ بھی ہونے چاہیے تھے، تو اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ مرحوم فرماتے ہیں : ’’لاشک أن اللفظ أفضل، ویشبہ أن یکون فی ہذا الزمان واجبا، بضعف معرفۃ أنبائہٖ بأسالیب الحدیث، وکان المتورعون من السلف یلتزمونہٗ احتیاطا، ولعلہ السبب فی قلۃ الروایۃ عن أبی بکر الصدیقؓ وإمامنا أبی حنیفۃؒ۔‘‘(۹)      دوسری جگہ بعض شافعیہ کے اشکال (کہ حنفیہ اصحاب الرائے اور شافعیہ اصحاب الحدیث ہیں) کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’أن أصحاب ہذا المذہب ’’الحنفیۃ‘‘ لم یجمعوا أحادیث مذہبہم: فإن إمامہم کان لایری الروایۃ إلا من الحفظ وکان یتورع الروایۃ بالمعنی، فلم یشتہر عنہ إلا المسند الصحیح۔‘‘(۱۰)      اس عبارت میں اگر غور کیا جائے تو سابقہ اعتراض کے دفعیہ کے ساتھ موصوف نے امام صاحبv کی مسند کو صحیح بھی کہا، بلکہ مرحوم کی اپنی کتاب میں اختیار کردہ روش سے پتہ چلتا ہے کہ وہ امام صاحب v کی مسند کو صحاح ستہ کے درجہ پر رکھتے ہیں، کیونکہ حدیث ’’من مات یوم الجمعۃ وقی عذاب القبر‘‘ کے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’رواہ من الصحابۃ أبوھریرۃؓ ، وعائشۃؓ، وجابرؓ، ومن المحدثین أبو حنیفۃ الإمامؒ، و الطبرانیؒ، وأبو نعیمؒ، وأحمدؒ، والترمذیؒ، وابن ماجۃؒ، واللفظ لأبی حنیفۃؒ عن أبی ھریرۃؓ۔‘‘(۱۱)      اس عبارت میں پہلے امام صاحب v کو انہوں نے محدثین میں شمار کیا، اور پھر جس طرح دیگر حضرات صحاح ستہ سے حدیث اپنی کتاب میں لاتے ہیں ، تو مصنف امام صاحب v کے الفاظ لائے ، بلکہ بات صرف امام صاحب v کو محدث اور ثقہ ماننے کی نہیں ، بلکہ جہاں کہیں امام صاحب v پر کسی نے اعتراض کیا تو اپنی تصانیف میں اس کا جواب بھی دیا ، چنانچہ ایک اعتراض جو امام ابوعبد اللہ حاکم نیشاپوریؒ نے کیا کہ:   ’’أخبرنا أبو یحیی السمرقندیؒ قال: حدثنا محمد بن نصر ، قال: حدثنا أحمد بن عبد الرحمٰن بن وہب قال: حدثنا عمی، قال: أخبرنی اللیث بن سعد عن یعقوب بن إبراہیم عن النعمان بن ثابت عن موسی بن أبی عائشۃ عن عبد اللّٰہ بن شداد عن أبی الولید عن جابرؓ قال: قال رسول اللّٰہ a: ’’من صلی خلف إمام فإن قراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘ قال أبو عبد اللّٰہ: عبد اللّٰہ بن شداد ہو بنفسہ أبو الولید، ومن تھاون بمعرفۃ الأسامی أورثہ مثل ہذا الوہم۔‘‘ (۱۲)      علامہ پرہاڑویv اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد تین جوابات دیتے ہیں :  ’’أولا: ویجب أن لاینسب ہذا الوہم إلی الإمامین، بل أملی من بعدہما من الرواۃ۔ ثانیا:وقد یجاب باحتمال أن یکون أبو الولید فی الإسناد غیر عبد اللّٰہ المکنی بأبی الولید۔ ثالثا:أو بأن یکون قولہ :’’عن أبی الولید‘‘ بدلاً بإعادۃ الجار۔‘‘(۱۳)      اور اپنی سب سے آخری تصنیف ’’نبراس‘‘ میں بھی امام صاحب v کا دفاع کیا ہے، مسئلہ رؤیت باری تعالیٰ کے تحت کہ ’’جنوں کو رؤیت حاصل ہوگی یا نہیں؟‘‘ امام صاحب v کا قول نقل کیا ہے: ’’لارؤیۃ للجن، بل نسب إلی الإمام الأعظمؒ أنہٗ قال: لایدخل الجن الجنۃ، وغایۃ ثوابہم النجاۃ من النار، ولعل ہذہ النسبۃ غیر صحیح۔‘‘(۱۴)     چوتھی دلیل:… غیر مقلدین صوفیاء اور اتقیاء کانام تک سننا گوارہ نہیں کرتے، جبکہ موصوف اپنی کتب میں صوفیاء پر اعتراضات کے نہایت شد ومد سے جواب دیتے ہیں : ’’قلت: ہذا التعصب کثیر فی أصحاب الظواہر، فإن عقولہم قصرت عن إدراک حقائق الصوفیۃ، فأنکروا علیہم حتی کفروہم، ومن نظر فی مؤلفات الصوفیۃ ظہر أنہم منصورون منصبغون بصبغۃ النبیa ولذٰلک اعترف کثیر من العظماء العلماء المتشرعین بکمال مراتب الصوفیۃ وتقربہم إلی اللّٰہ سبحانہ۔‘‘(۱۵)      اصحاب ظواہر سے یہی غیر مقلدین مراد ہیں کہ ان میں تعصب بہت ہوتا ہے۔     پانچویں دلیل:… لا مذہبیت (غیر مقلدیت) بیعت ِطریقت کو شرک بتلاتی ہے، جبکہ علامہ خود سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے جلیل القدر شیخ ہیں، آپ کا مختصر شجرۂ طریقت ہدیۂ ناظرین ہے :      مولانا عبد العزیز پرہاڑویؒ خلیفہ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی خلیفہ قبلہ عالم حضرت نور محمد مابروی خلیفہ حضرت فخر الدین محدث دہلوی خلیفہ مولانا نظام الدین اورنگ آبادی خلیفہ شاہ کلیم اللہ خلیفہ مولانا یحییٰ مد نی ، مولانا مدنی سے یہ سلسلہ ان کے خاندان سے ہوتا ہوا علامہ کمال الدین تک پہنچتا ہے، اور وہ شاہ نصیر الدین چراغ دہلوی کے اور وہ سلطان المشایخ نظام الدین اولیا ء اور وہ بابا فرید شکرگنجؒ اور وہ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ اور وہ شاہ معین الدین چشتی اجمیری ؒکے خلیفہ تھے،اور یہ سلسلہ چشتیہ آگے چل کرحضرت ممشاد دینوریؒ ،حذیفہؒ ،ابراہیم بن ادہمؒ، عبد الواحدؒ ، حسن بصریؒ، پھر حضرت علیؓ کے واسطے سے سرور کونین a سے جا ملتا ہے۔(۱۶)     چھٹی دلیل:… علامہؒ اپنی مشہور اور آخری تصنیف ’’النبراس‘‘ میں غیر مجتہد کے متعلق لکھتے ہیں : ’’ثم من لم یکن مجتہدا وجب علیہ اتباع المجتہد…پھر چند سطور کے بعد تحریر فرماتے ہیں:’’ فاتفق العلماء علی إلزام المقلد مجتہدا واحدا، ونظروا فی عظماء المجتہدین فلم یجدوا فی أہل التدوین منہم کالعلماء الأربعۃ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔‘‘(۱۷)     ساتویں دلیل:… اس سے بھی بڑھ کر مولانا کی وہ عبارت دلیل ہے ،جو اسی کتاب میں مذکور ہے، مقلد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ والمقلد من لا یستدل علی الحکم، ولکن یعتقدہٗ کاتباعنا فی الفقہ أبا حنیفۃؒ۔‘‘(۱۸)      اس سے بڑھ کر موصوف کے حنفی اور کٹر حنفی ہونے کی اور کیا دلیل پیش کی جاسکتی ہے؟!۔      آٹھویں دلیل:… اور تقریباً آٹھ (۸) جگہ اپنی کتاب ’’کوثر النبیؐ‘‘ میں امام صاحب v کو ’’إمامنا الأعظمؒ‘‘اور ’’إمامنا أبی حنیفۃؒ ‘‘ کہا ۔(۱۹) ، اور اپنی کتاب’’ الناھیۃ‘‘ میں بھی ’’إمامنا الأعظم‘‘ لکھا ہے۔ (۲۰)      تو بحث کا خلاصہ یہ نکلاکہ اولاً تو یہ رسالہ اور مسئلہ مصنف کی طرف غلطی سے منسوب ہوا ہے ، اگر بفرض ومحال یہ تسلیم بھی کیا جائے کہ اس مسئلہ کی ان کی طرف نسبت صحیح ہے ،تب اس کی وہ توجیہ ہوگی ،جو اس مسئلہ کے تحت ہم بیان کرچکے، اگر کسی کووہ توجیہ بھی ناقابل قبول ہو،تب اس کے لیے چند موٹے موٹے دلائل ذکر کیے ہیں۔  وفات     موصوف علوم دینیہ کی تدریس ، بیعت و ارشاد اور طب کا کام بیک وقت کرتے تھے ، تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا، اور حیرت یہ ہے کہ عمر صرف تیس ۳۰ برس تھی، ۱۲۳۹ ھ میں انتقال فرمایا،(۲۱) مولانا موسیٰ روحانی بازی ؒ نے مولانا غلام رسول دیروی صاحبؒ کا بیان نقل کیا ہے کہ مرحوم کے معاصر شیخ احمد دیروی نے علامہ پر سحر کرادیا تھا، پہلے پہل مولانا اُسے عام مرض سمجھے ، جب حقیقت کھلی تو وقت گزر چکا تھا ، توموصوف کہنے لگے: ’’کاش کہ مجھے پہلے پتہ چلتا تو میں اس کا توڑ کردیتا۔‘‘(۲۲)      مولانا محمد برخوردار بن مولوی عبد الرحیم ملتانیؒ لکھتے ہیں : ’’ وألف ھذا الکتاب ’’النبراس‘‘ فی ۱۲۳۹ھ، وعاش بعدہٗ قلیلاً - رحمہ اللّٰہ -۔ ‘‘(۲۳)      مولانامحمد موسیٰ روحانی بازی v نے بھی یہی لکھا ہے: ’’مات بعد سنۃ ۱۲۳۹ھ بقلیل‘‘ ۔(۲۴)      ’’کتاب معد ل الصلوۃ‘‘ پر ان کی تاریخ وصال کے بارے میں لکھا ہے :’ ’عبد العزیز بن أحمد الفریھاری الملتانیؒ المتوفی إلی رحمۃ اللّٰہ قبل الأربعین سنۃ بعد مضی مئتین وألف ہجرۃ …‘‘ (۲۵)      ڈاکٹر سیالوی صاحب نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔(۲۶)      اور علامہ عبد الفتاح ابو غدہv نے ان کی تاریخ وفات ۱۲۴۱ھ بعمر۳۲ سال لکھی ہے۔(۲۷)      صاحب ’’نزھۃ الخواطر‘‘ نے ان کی تاریخ و سن وفات سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ (۲۸)  واللہ اعلم بالصواب  حوالہ جات ۱:…نزھۃ الخواطر:۷ /۲۸۴ ، طبع دوم، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ /۱۹۷۹ء مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد دکن، ھند.  ۲:… دیکھئے : القلم: جلد:۵،شمارہ:۵، ص: ۲۶۰۔  ۳:…معد ل الصلاۃ از علامہ محمد بن پیر علی المعروف ببرکلی(المتوفی:۹۸۱ھ)،ص:۱۶ ، طبع: مکتبہ سلفیہ قدیر آباد ملتان، سن طباعت:۱۳۲۸ھ۔  ۴:… تفصیل کے لئے دیکھئے: المقدمات البنوریۃ علی المؤلفات العربیۃ والفارسیۃ والأردیۃللمحدث الکبیر علاّمۃ العصر الشیخ محمد یوسف البنوری: ۲۸ ، ط: المکتبۃ البنوریۃ بنوری تاؤن کراتشی سنۃ:۱۴۰۰ھ /۱۹۸۰ء ، باکستان۔  ۵:… معیار الحق از میاں نذیر حسین دہلوی، ص:۱۴۔ ۶:… کوثر النبی:۸۱ ، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں)شائع ہوئی۔  ۷:… بحوالہ حقیقت فقہ از صادق سیالکوٹی، ص: ۱۸۔  ۸:…کوثر النبی:۵۴ ، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں)شائع ہوئی۔  ۹:…کوثر النبی:۷۳ ، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں)شائع ہوئی۔  ۱۰:…کوثر النبی:۵۳، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں)شائع ہوئی۔  ۱۱:… کوثر النبی:۵۰ ، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں)شائع ہوئی۔  ۱۲:… معرفۃ أنواع علوم الحدیث للحاکم النیسابوری: ۱۷۸، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت، لبنان، الطبعۃ الثانیۃ:۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ء ۔  ۱۳:… کوثر النبی:۹۰ اور ۹۱ ، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں)شائع ہوئی۔  ۱۴:… النبراس از مؤلف،ص:۲۸۹، یہ شرح القسطاس حاشیہ کے ساتھ مطبع خضر مجتبائی شہر ملتان سے شائع ہوئی۔  ۱۵:…کوثر النبی:۱۰۱ ، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں)شائع ہوئی۔  ۱۶:… تا ریخ مشا یخ چشت ، خلیق احمد صاحب نظامی ، ند وۃ المصنفین اردو بازار دہلی ،طبع اول :۱۳۷۲ھ رمضان المبارک ،۱۹۵۳ء ،مئی۔  ۱۷:… النبراس از مؤلف،ص:۱۰۹ ، یہ شرح القسطاس حاشیہ کے ساتھ مطبع خضر مجتبائی شہر ملتان سے شائع ہوئی۔  ۱۸:…النبراس از مؤلف،ص:۵۷ ، یہ شرح القسطاس حاشیہ کے ساتھ مطبع خضر مجتبائی شہر ملتان سے شائع ہوئی۔  ۱۹:…کوثر النبی، مکتبہ قاسمیہ نزد سول ہسپتال چوک فوارہ ملتان سے (۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں)شائع ہوئی۔  ۲۰:…الناھیۃ عن طعن امیر المومنین معاویۃؓ از مولف ، ص: ۷۰، طبع: استا نبول ترکی ،سن طباعت: ۱۴۰۰ھ/۱۹۸۰ء ،پھر اسی کتب خانے نے ۱۴۲۵ ھ/۲۰۰۴ء دوبارہ شائع کی۔  ۲۱:… بحوالہ مکمل اسلامی انسائکلو پیڈیا، ص:۱۰۴۰۔  ۲۲:… حاشیۃ الطریق العادل إلی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول والحاصل للجامی للروحانی البازی ص :۲۲۸ ، الطبعۃ السابعۃ ، سن طباعت:۱۴۲۷ھ/ ۲۰۰۶ء ، ادارۃ التصنیف والادب ، لاہور ، پاکستان۔   ۲۳:… حاشیۃ القسطاس علی النبراس از مولوی محمد برخوردار بن مولانا عبدالرحیم ،ص:۲، طبع: مطبع خضر مجتبائی شہر ملتان۔  ۲۴:…حاشیۃ الطریق العادل إلی بغیۃ الکامل علی بغیۃ الکامل السامی شرح المحصول والحاصل للجامی للروحانی البازی ص :۲۲۷ ، الطبعۃ السابعۃ ، سن طباعت:۱۴۲۷ھ /۲۰۰۶ء ، ادارۃ التصنیف والادب ، لاہور ، پاکستان۔   ۲۵:… معد ل الصلاۃ از علامہ محمد بن پیر علی المعروف ببرکلی(المتوفی:۹۸۱ھ)،ص:۱۵ ، طبع: مکتبہ سلفیہ قدیر آباد ملتان، سن طباعت:۱۳۲۸ھ۔  ۲۶:… دیکھئے : القلم: جلد:۵،شمارہ:۵، ص: ۲۶۰۔  ۲۷:… تعلیقات الرفع والتکمیل از شیخ عبد الفتاح ابو غدہ، ص:۲۸۹ ، قد یمی کتب خانہ کراچی۔  ۲۸:… نزھۃ الخواطر:۷ /۲۸۵ ، طبع دوم، سن طباعت: ۱۳۹۹ھ /۱۹۷۹ء مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد دکن، ھند. 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین