بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولانا عبد الحی فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخی خدمات (پہلی قسط)

مولانا عبد الحی فرنگی محلی vکی تاریخی خدمات                                    (قسط :۱)

    فرنگی محل کے نامور عالم دین مولانا ابوالحسنات محمد عبد الحی انصاری v وفات: ۱۸۸۶ئ- ۱۳۰۴ھ کی جو عظیم شہرت برصغیر ہندوپاکستان اور براعظم ایشیا میں ہوئی اور آج تک ہے وہ محدث، فقیہ، متکلم، معقولی، صاحب افتاء اور مستند حنفی کی حیثیت سے ہے، تذکرہ نویس، ماہر اسماء الرجال اور مؤرخ کی حیثیت سے نہیں ہے اور یہ حیثیت معاصر اربابِ علم وصاحبانِ تصانیف کے رجحان کو دیکھنے میں من جملۂ نوادر تھی، ان کا بلند مرتبہ ان کے عہد میں زیادہ قابل توجہ نہیں سمجھا گیا، اس عہد کا مزاج ہی یہ تھا کہ عالم دین کے لیے مؤرخ یاتذکرہ نویس ہونا، نہ سببِ امتیاز تھا نہ قابل ذکر اور جسے تذکرہ نویس مان لیاگیا اُسے مستند عالم دین کا درجہ دینا کم ہی گواراکیاگیا۔مولانا فرنگی محلیv نے اپنی مختصر عمر(۱) میں جو شمسی کیلنڈر کے اعتبار سے صرف ۳۸ سال دوماہ اور تین دن تھی، بڑی چھوٹی سو سے زیادہ تصانیف کیں، جو مصنف کے سامنے ہی طبع ہوکر دوردور تک رائج ہوگئی تھیں۔ (۲) مولانا کی کثرتِ تصانیف کے سلسلے میں شام کے ایک عالم اور محقق مفتی عبد الفتاح ابوغدہv کا خیال یہ ہے کہ: ’’جب بھی ان بڑے بڑے مصنفوں کا ذکر کیا جائے گا جن کی تصانیف پچاس یا سو سے متجاوز ہیں تو بلاشبہ امام عبد الحی لکھنویv کا ذکر سرفہرست ہوگا، اس لیے کہ ان کی تصانیف کی تعداد ایک سو چودہ تک پہنچ گئی ہے اور اگر ان کی مختصر عمر کی نسبت سے ان کی تصانیف کا حساب کیا جائے گا تب تو یہ بہت زیادہ ثابت ہوں گی۔میں نے ان کی بیشتر تصانیف جمع کرلی ہیں، جو رہ گئی ہیں ان کو بھی حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں اور میرا حتمی ارادہ ہے کہ ان کی ان مفید اور کثیر تصانیف کے صفحات کا شمار کرکے ان کی عمر کے ایام پر اُنہیں تقسیم کروں، اس طرح تصنیف وتالیف میں ان عظیم الشان اور نادر الوجود مہارت کا انکشاف ہوسکے گا، میرا تو خیال ہے کہ اس طرح حساب لگانے سے ان تمام بڑے بڑے مصنفین پر -جن کی عمریں لمبی ہوئیں اور جنہوں نے بڑی تعداد میں تصانیف چھوڑی ہیں جیسے علامہ ابن جریرؒ، علامہ ابن جوزیؒ اور امام فخر الدین رازیؒ وغیرہ- امام عبد الحی لکھنویv کو اس لحاظ سے فوقیت حاصل ہوگی کہ ان کی روزانہ لکھنے کی مقدار سب سے زیادہ نکلے گی۔‘‘ (۳)      منطق، فلسفہ، مناظرہ، کلام، نحو، صرف، حدیث، فقہ اور تاریخ وتراجم میں سے ہرموضوع کی مولانا عبد الحی فرنگی محلیv نے خدمت کی اور بجاطور پر انہیں محدث، فقیہ، اصولی، منطقی،بَحّاث، نقاد اور مؤرخ کہاجاسکتا ہے۔ سب سے زیادہ خدمت انہوں نے نے فقہ اور حدیث کی کی، ان دونوں موضوعات پر ان کی تصانیف کی مجموعی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ دوسرے نمبر پر تذکرہ نویسی اور تراجم واحوال سے متعلق ان کی تصانیف ہیں جو ڈیڑھ درجن کے قریب ہیں۔     مولانا عبد الحی فرنگی محلیv نے تاریخ کی دو پہلوؤں سے خدمت کی:     ۱:… علماء ومصنفین کے احوال وتراجم ایک مخصوص نظام کے تحت مرتب کیے ۔     ۲:…اور فنون وعلوم کی تاریخ بھی قلم بند کی، علوم وفنون کی تاریخ پر ان کے قلم نے اس وقت روشنی ڈالی جب وہ بعض اہم قدیم تصانیف کو اپنے حواشی اور مقدمات کے ساتھ شائع کرانے کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اس انداز پر شائع کیا جسے موجودہ زبان میں کتاب کا ایڈٹ کرنا کہتے ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندویv تو اس حد تک مدعی ہیں کہ کتاب کو ایڈٹ کرنے کا طریقہ ایجادہی مولانا عبد الحی فرنگی محلیv نے کیا، اپنے مضمون ’’ہندوستان میں علم حدیث‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’یورپ میں قلمی کتابوں کو ایڈٹ کرنے کو جو اہمیت حاصل ہے اور جس طرح وہ مختلف نسخوں کی فراہمی، مقابلہ، تصحیح اور ساتھ ہی مصنف اور تصنیف کے متعلق ہرقسم کی معلومات مقدمہ میں فراہم کرتے ہیں، مولانا نے یعنی مولانا عبد الحی فرنگی محلیv نے یورپ کے طریقہ کار کے علم سے پہلے ہی اس کام کی طرف توجہ کی اور بالکل اسی طریق پر بلکہ اس سے بہتر طریقے پر اس کو انجام دیا، جس کتاب کو شائع کیا اس کے مختلف نسخوں کو فراہم کیا اور ان کا مقابلہ کرکے ایک صحیح نسخہ ترتیب دیا، پھر اس پر حواشی لکھے، شروع میں ایک مقدمہ لکھا، جس میں ماتن، شارح اور اس کے دیگر شارحین کے حالات لکھے، اس کتاب اور اس فن پر دوسری کتابوں کے حالات ذکر کیے، نفس اس فن کی جس میں یہ کتاب تھی تاریخ لکھی۔مولانا عبد الحی فرنگی محلیv نے ہی مقدمہ نگاری کی ایجاد کی، مولانا سے پہلے کسی شارح یا محشی نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔‘‘(۴)      اب تو عام دستور بن چکا ہے کہ جس کتاب کو ایڈٹ کیا جاتا ہے، اس سے متعلق تمام تحقیقی مواد کتاب کے شروع میں بطور مقدمہ درج کردیا جاتا ہے۔ مولانا عبد الحی فرنگی محلیv نے بقول علامہ سید سلیمان ندویv کے اس دستور کو ایجاد کیا اور معمول بہٖ بنایا، اس طرز کے ان کے قابل قدر مقدمات ہیں: ۱:۔۔۔۔۔مقدمۃ عمدۃ الرعایۃ فی حل شرح الوقایۃ ۔۲:۔۔۔۔۔مقدمۃ موطا امام محمد الموسوم بالتعلیق الممجد ۔۳:۔۔۔۔۔مقدمۃ الجامع الصغیر المسماۃ بالنافع الکبیر۔ ۴:۔۔۔۔۔مقدمۃ الہدایۃ وذیلۃ الموسومۃ بمذیلیۃ الدرایۃ ۔۵:۔۔۔۔۔اور  مقدمۃ السعایۃ فی کشف مافی شرح الوقایۃ  ہیں۔     ان کے علاوہ جس چھوٹی بڑی درسی کتاب پر مولانا نے حاشیہ لکھا، اس کے شروع یا خاتمے پر اس کتاب، اس کے مصنف اور تصنیف کے عہد کا ذکر بھی ضرور کیا۔درسی کتابوں پر لکھے گئے مقدمات کی حیثیت خواہ وہ کتنے ہی گراں قدر ہوں حلقۂ درس میں بہرحال ضمنی سمجھی جاتی رہی ہے، اس لیے کہ درسی کتابوں سے اصل مدعا، کتاب کے مطالب ومباحث سے واقفیت حاصل کرنا رہا ہے، کم از کم مشرقی درسگاہوں نے تو زیر درس کتابوں کے پڑھانے یعنی ان کے مطالب سمجھنے سمجھانے میں ا س درجہ انہماک کا ثبوت دیا ہے کہ زیر درس کتاب کے مصنف کا نام تک جاننا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ مصنف کی دوسری تصانیف اور مصنف کے عہد کی خصوصیات سے واقفیت کی بات تو بہت دور کی بات ہے، اس صورت حال کے جو نقصان دہ نتائج برآمد ہوئے ان کی خود مولانا عبد الحی فرنگی محلیv نے اس طرح نشان دہی کی ہے: ’’ہمارے زمانے ہی کے علماء نہیں، ہمارے ملک کے پیشرو بیشتر علماء بھی مصنفین اور علماء کے احوال وتراجم کو حقیر چیز قرار دیتے تھے اور انہوں نے اس اہم (علمی) پہلو کو پس پشت ڈال رکھا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تراجم علماء ان کے لیے گم شدہ خزانہ ہو گئے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نسیاً منسیاً ہوگئے، اس صورت حال کی بدولت ہمارے علماء اندھیرے گڑھے میں جاپڑے اور اندھی سواری کی پیٹھ کے سوار بن گئے۔ہمارے علماء کا حال یہ ہے کہ متقدمین کی کتابوں میں جن علماء کا ذکر ہے ان کے اصلی ناموں سے بھی یہ ناواقف ہیں، ان کے حالات اور خصوصیات کا کیا ذکراور ان کی ولادت ووفات سے واقفیت کا کیا سوال؟ کتب فقہ میں مذکور کسی فقیہ کے بارے میں جو لقب یا نسب سے یاد کیاگیا ہے، اگر ان علماء سے یہ پوچھ لیا جائے کہ اس کا نام کیا ہے؟اس کا کام کیا ہے؟ کس زمانے میں تھا؟ اور کہاں کا رہنے والا تھا؟ تو وہ وحشی جانوروں کی طرح ادھر اُدھر دوڑ بھاگ کرنے لگیں گے اور حیران وپریشان کی طرح مبتلائے فکر ہوجائیں گے، دیکھ لو! اپنی تصانیف میں یہ علماء ایک فقیہ کی تصنیف کو دوسرے فقیہ سے منسوب کردیتے ہیں، اس مصنف اور دوسرے مصنف کے درمیان ان کو کوئی وجہ امتیاز بھی نظر نہیں آتی، خاص کرجب نام، لقب، نسب اور عہد بھی دونوں مصنفوں کا اتفاق سے ایک ہو تو ہمارے علماء دونوں میں بالکل تفریق نہیں کرپاتے۔ اگر کسی فقہی مسئلے میں علماء کا اختلاف رہا ہے تو ہمارے زمانے کے علماء درجہ اول کے عالم کو درجہ آخر میں اور درجہ آخر کے علماء کو درجہ اول میں محض اپنی واقفیت سے رکھ دیتے ہیں، اقوال مقبول ومردود مشہور وغیر مشہور کے درمیان بھی فرق نہیں کرپاتے۔‘‘ (۵)      جس عام ناواقفیت کا نقشہ مولانا عبد الحیv نے کھینچا ہے، اگرچہ اس کا عمومی رخ فقہیات کی طرف ہے، لیکن معاملہ وہیں تک نہ تھا، دوسرے علوم وفنون کا حال بھی بعینہٖ یہی تھا اور اس ناواقفیت کے نقصانات وہاں بھی محسوس کیے جاتے تھے، البتہ فقہ کا معاملہ زیادہ اہم اس بنا پر تھا کہ فن میں متقدمین اور سلف کی آراء متاخرین اور خلف کی آراء کے مقابلے میں زیادہ وزن رکھتی ہیں، اسی لیے مولانا نے اس اہم معاملے کو اپنی اولین توجہ کا مستحق قرار دیا، کیونکہ اس سے دینی ضرورت وابستہ تھی، وہ لکھتے ہیں: ’’اس صورتِ حال کے پیش نظر میں نے علمائے احناف کے احوال جمع کرنے کی طرف اپنے ارادے کی باگ موڑدی (اللہ تعالیٰ ہمارے علماء کو اپنے ظاہر اور پوشیدہ الطاف سے مخصوص فرمائے) اس لیے کہ ہمارے معاصر حنفی علماء کو قدیم علمائے احناف کے احوال جاننے کی ضرورت زیادہ تھی، خصوصاً ہمارے ملک میں تو اس کی احتیاج اظہر من الشمس تھی۔‘‘(۶)     علمائے احناف کے احوال میں لکھی جانے والی کتابوں کے مصنفین: عبد القادر قرشیؒ، مجد شیرازیؒ، قاسم بن قطلوبغاؒ، قطب مکیؒ اور ملا علی قاریؒ کا، نیز احناف وغیر احناف علماء کے احوال میں لکھی جانے والی ملی جلی کتابوں کے مصنفین جلال الدین سیوطیؒ، حافظ ذہبیؒ، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ، سخاویؒ، یافعیؒ اور محمد بن فضل المحبیؒ کا حوالہ دینے کے بعد مولانا عبد الحیv نے اپنے زمانے کے علماء کی طرف سے معذرت بھی کی ہے کہ چونکہ مذکورہ مصنفین کی تصانیف ہمارے ملک (اکثر شہروں) میں مفقود ہیں اور پوشیدگی کے پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں۔(۷)     اس لیے ضرورت تھی کہ جن علماء کو ان مفقود ومخفی تصانیف تک رسائی حاصل ہوگئی ہے، وہ نہ صرف یہ کہ خود ان سے کام لیں، بلکہ ان سے حاصل کردہ معلومات کو منفعت عامہ کے لیے عام اور مشتہر بھی کریں۔ مولانا نے اس اہم خدمت کا بیڑا اُٹھالیا، اس لیے کہ انہوں نے اپنی ذاتی کوشش وکاوش سے مطبوعات کا ایک ایسا منتخب ذخیرہ فراہم کرلیا تھا کہ کسی علم و فن کی کوئی ضروری اور اہم کتاب مشکل سے ایسی ہوگی جو اُن کے کتب خانے میں نہ ہو، نادر مطبوعہ اور قلمی کتابوں سے ضروری معلومات کے اخذ کرلینے کا عجیب و غریب ملکہ بھی ان کو حاصل تھا، مفتی عبد الفتاح ابوغدہv انتہائی حیرت واستعجاب کے ساتھ کہتے ہیں: ’’بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے- مولانا عبد الحی فرنگی محلیv کے- ہاتھ میں ایک ٹارچ ہے جس کی روشنی اَندھے خزانوں میں رکھی کتابوں کے اندرونی صفحات تک پہنچ کر ان کی سطروں کو منور کررہی ہے اور مخفی مطالب کو سامنے لے آرہی ہے۔‘‘ (۸)     مفتی عبد الفتاح ابوغدہv، مولانا عبد الحیv کی دوکتابوں ’’الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل‘‘ اور ’’الأجوبۃ الفاضلۃ للأمثلۃ العشرۃ الکاملۃ‘‘ کو ایڈٹ کرنے اور ان دونوں کتابوں میں درج اقتباسات کو اصل تصانیف سے نکالنے کے دوران اپنی مرعوبیت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں: ’’میں حیرانی میں پڑجاتا تھا اور سوچنے لگتا تھا کہ ا س شیخ کو -مولانا عبد الحیv کو- کتابوں، وہ بھی بیشتر قلمی کتابوـں کے صفحات پر بکھری ہوئی اپنے مطلب کی عبارتوں کو ڈھونڈھ نکالنے اور ان تک رسائی حاصل کرلینے کی کیسی عجیب وغریب قدرت حاصل تھی۔‘‘(۹) حواشی وحوالہ جات ۱:-مولانا عبد الحیv کی ولادت خود ان کی تصریحات کے مطابق ذوالقعدہ ۱۲۶۴ھ کی چھبیسویں کو سہ شنبہ کے روز مطابق ۲۴؍اکتوبر ۱۸۴۸ء اترپردیش کے شہر باندا علاقہ بندیل کھنڈ میں ہوئی، جہاں ان کے والد ماجد مولانا عبد الحلیم انصاری وفات ۱۲۸۵ھ-۱۸۶۸ء نواب باندا ذو الفقار الدولہ کے عہد میں مدرسۂ نواب میں مدرس تھے۔ مولانا کی تاریخ وفات ۳۰؍ربیع الاول ۱۳۰۴ھ شب دوشنبہ مطابق ۲۷؍دسمبر ۱۸۸۶ء ہے۔ حوالے کے لیے۱:۔۔۔تذکرۂ علمائے فرنگی محل از مولانا عنایت اللہ فرنگی محلی مرحوم، صفحہ: ۱۳۱،۲:۔۔۔ کنز البرکات از مولانا حفیظ اللہ اعظم گڑھی، صفحہ: ۳۵ اور ۳:۔۔۔ حسرۃ الفحول از مولانا عبد الباقی فرنگی محلی، صفحہ: ۱۴۔ ۲:-دوہی ایک کتابیں ان کی ایسی ہیں جو باوجود مکمل ہوجانے کے ان کے سامنے طبع نہ ہو سکیں، جیسے ظفر الامانی بشرح المختصر المنسوب الی الجرجانی جس کی تصنیف سے مولانا عبد الحیؒ ۱۲ صفر ۱۳۰۴ھ-۱۸۸۶ء کو فارغ ہوئے تھے اس کے ڈیڑھ ہی مہینے بعد ان کی وفات ہوگئی۔ ان تصانیف کا یہاں ذکر نہیں جو زیر تصنیف تھیں اور مکمل نہ ہوسکیں۔ ۳:- ’’مقدمۃ الأجوبۃ الفاضلۃ‘‘ از مفتی عبد الفتاحv، مولانا عبد الحی لکھنوی فرنگی محلیv کی کتاب ’’الأجوبۃ الفاضلۃ للأسئلۃ العشرۃ الکاملۃ‘‘ کو ایڈٹ کرکے شائع کیا ہے، اس سے قبل وہ مولانا کی ایک اور تصنیف ’’الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل‘‘ کو اسی طرح ایڈٹ کرکے شائع کرچکے ہیں، مولانا کی تیسری تصنیف ’’إقامۃ الحجۃ علی أن الاکثار فی التعبد لیس ببدعۃ‘‘ اس کے بعد یعنی ۱۹۶۶ء میں اسی طرح ایڈٹ کرکے انہوں نے شائع کردی۔ مولانا کی چوتھی تصنیف ’’تحفۃ الأخبار فی إحیاء سنۃ سید الأبرار‘‘ کو اسی معیار سے ایڈٹ کرکے شائع کرنے کا اعلان ان کی طرف سے ہوچکا ہے۔ ۴:-مقالات سلیمانی، حصہ دوم، شائع کردہ دار المصنفین اعظم گڑھ۔ ۵:- ’’الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ‘‘ از مولانا عبد الحی فرنگی محلیv صفحہ: ۸، تیسرا ایڈیشن، مطبوعہ: یوسفی پریس لکھنؤ ۱۸۹۵ئ۔ ۶:-أیضاً۔                                ۷:-أیضاً۔ ۸:- ’’مقدمۃ الأجوبۃ الفاضلۃ‘‘،صفحہ ۱۵ مطبوعہ حلب (شام) ۱۹۶۴ئ۔         ۹:-أیضاً۔                        (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین