بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مولانا عبد الحی فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخی خدمات (تیسری اور آخری قسط)

مولانا عبد الحی فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخی خدمات                                 (تیسری اور آخری قسط)

    یہ تو خاص تراجم واحوالِ علماء کی کتاب ہے۔ مولانا عبد الحیv کے مؤرخانہ رجحان کا ایک مظاہرہ یوں بھی ہوا کہ فن کی کتاب کی وہ خدمت کرتے یا جس فن میں خود کوئی تصنیف کرتے، اس میں حوالے اور سند کے طور پر اگر کسی کتاب سے اقتباس دیتے تو اس کے مصنف کا مختصر احوال بھی حاشیہ پر درج کردیتے تھے، مختصر احوال میں اس کی دوسری تصانیف کا بھی ذکر ہوتا اور اس کے زمانۂ وفات کا بھی، یہ معمول ان کا اپنی ہر تصنیف، شرح اور حاشیہ میں رہا ہے، اسی ضمن میں اپنے ایک معاصر مصنف نواب صدیق حسن خان (وفات ۱۸۸۹ئ/۱۳۰۷ھ) کی بعض غلطیوں کی تصحیح بھی انہوں نے کی جو تراجم وسوانح میں سنین وفات کے سلسلے میں نواب صاحب سے ہوگئی تھیں، ایسے مواقع پر نواب صاحب کا نام لیے بغیر ’’بعض أفاضل عصرنا‘‘ کا اشارہ استعمال کرتے تھے، اس احتیاط کے باوجود یہ گرفتیں نواب صاحب کی بدمزگی کا باعث ہوئیں اور مولانا نے ارادہ کرلیا کہ آئندہ سے ان کی غلطیوں کی طرف توجہ بھی نہیں دلائیںگے، ا س لیے کہ مولانا کے علم میں آگیاکہ:     ’’إنہ یحزن منہا ویحملہا علی التعصب والعناد‘‘ یعنی ’’نواب صاحب کو اس سے ملال ہوتا ہے اور اسے وہ تعصب وعناد پر محمول کرتے ہیں۔‘‘ سوء اتفاق ادھر مولانا نے یہ ارادہ کیا، ادھر نواب صاحب کے ایک حمایتی کے نام سے جو فرضی معلوم ہوتا ہے، ایک رسالہ مولانا عبد الحیv کے جواب میں شائع ہوگیا جس کانام ’’شفاء العیّ عما أوردہٗ الشیخ عبد الحی‘‘ تھا۔نواب صاحب پر اعتراضات بھی تاریخی پہلو سے کیے گئے تھے، جوابی رسالے میں بھی تاریخی مباحث زیر بحث آئے، مولانا کو بھی اس رسالے کا جواب لکھنا پڑا، جس میں ’’شفاء العی‘‘ کے جوابات کا رد بھی کیا اور نئے اعتراضات بھی وارد کیے۔ مولانا کے اس جوابی رسالے کا نام ’’إبراز الغی الواقع فی شفاء العی‘‘ ہے۔ اس جوابی رسالے میں جس کا سالِ تالیف ۱۸۸۰ئ/ ۱۲۹۷ھ ہے، بڑے دلچسپ تاریخی مسئلے اعتراض وجواب کے ضمن میں آگئے ہیں، مثلاً ابن تیمیہv کی قدح کرنے پر علامہ ذہبیv نے جو تنبیہی خط علامہ سبکیv کو لکھا تھا وہ کون علامہ سبکیؒ تھے، تقی الدین سبکیؒ، جو علامہ ابن تیمیہv کے معاصر اور مقابل تھے یا ان کے بیٹے علامہ تاج الدین سبکیؒ، مولانا کا خیال تھا کہ علامہ ذہبیv کا خط بیٹے کے نام ہے، نواب صاحب کا دعویٰ تھا کہ یہ خط باپ کے نام ہے، اس موضوع پر مولانا نے روایتاً اور درایتاً خوب بحث کی ہے۔     مولانا کے جوابی رسالہ ’’إبراز الغی‘‘ کا بھی جواب نواب صاحب کی طرف سے دیاگیا جس کا لہجہ بھی تیز تھا اور نام بھی طنز بھرا، یعنی ’’تبصرۃ الناقد برد کید الحاسد‘‘ اس کے جواب میں مولانا نے ایک ضخیم کتاب لکھی جس کا نام ’’تذکرۃ الراشد برد تبصرۃ الناقد‘‘ ہے، یہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور بعض علمی گھرانوں میں ان کو فن مباحثہ میں رکھاگیا ہے، حالانکہ موضوع کے اعتبار سے یہ خالص تاریخی تصانیف ہیں۔     ’’ تذکرۃ الراشد برد تبصرۃ الناقد‘‘ کی علمی اور تاریخی اہمیت کے ساتھ ساتھ ایک ادبی اہمیت بھی ہے، مولانا عبد الحیv عربی ادب کے میدان میں کبھی نہیں آئے، سیدھی سادی علمی عربی ہی میں وہ اظہارِ خیال کرتے رہے، لیکن ’’تذکرۃ الراشد‘‘ میں خصوصاً اس کے دیباچے میں ان کا قلم انشا پردازی کا شاہکار تھا، چونکہ مولانا سے عربی ادب وانشاء کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی، اس لیے ’’تذکرۃ الراشد‘‘ کی اشاعت کے بعد چہ مگوئیاں ہونے لگیں، یہاں تک کہ حریف حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ مولانا نے یہ عربی اپنے ایک معاصر عربی ادب کے ماہر مفتی محمد عباس لکھنویؒ سے لکھوائی ہے، جن سے مولانا کی دوستی تھی، حالانکہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو مولانا عبد الحیv کے لیے ناممکن ہو۔     ’’تذکرۃ الراشد‘‘ کی تصنیف کا اختتام ربیع الاول ۱۸۸۳ئ/ ۱۳۰۰ھ میں ہوا۔ ’’إبراز الغیّ‘‘ اور ’’تذکرۃ الراشد‘‘ کے مطالعہ کے بغیر مولانا عبد الحیv کی وسیع اور ناقدانہ تاریخی نظر سے کما حقہ واقفیت آسان نہیں ہے، پہلا رسالہ تو خفی قلم اور نستعلیق رسم خط میں ۶۴؍ صفحات کا ہے اور دوسرا رسالہ پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے، جس کا رسم خط نسخ ہے اور قدرے جلی تھا۔     ان خالص تاریخی تصانیف میں مولانا عبد الحیv کی ایک اور تصنیف کو بھی شامل کیاجاسکتا ہے، جو اگرچہ مختصر ہے مگر تذکرہ نویسی ہی سے ا س کا تعلق ہے، اس کا نام ’’حسرۃ العالم بوفات مرجع العالم‘‘ ہے، یہ کتاب مولانا نے اپنے والد مولانا عبد الحلیم فرنگی محلیv (وفات ۱۸۶۸ئ/۱۲۸۵ھ) کے احوال میں ان کی وفات کے بعد لکھی تھی۔     مولانا عبد الحیv کی مؤرخانہ دیانت کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ اگر قدیم حوالے اور سند کی بنیاد پر انہوں نے کسی رائے کا اظہار کیا، پھر ان کی ذاتی تحقیق سے وہ رائے اُنہیں غلط معلوم ہوئی تو اپنی دوسری تصانیف میں اس کی خود ہی تردید کرکے اپنا تحقیقی فیصلہ لکھ دیتے ہیں، جامع صغیر کے مقدمہ ’’النافع الکبیر‘‘ میں مولانا نے فقہ کی بعض غیر معتبر کتابوں کے ذکر میں ’’المحیط البرہانی‘‘ کو بھی شامل کیا تھا اور لکھا تھا کہ: ’’المحیط البرہانی‘‘ کا مصنف اگرچہ بڑے درجے کا فقیہ اور مجتہد فی المسائل کے طبقے کاہے، لیکن فقہاء نے صراحتاًلکھا ہے کہ اس کتاب کی بنیاد پر فتویٰ دینا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں رطب ویا بس سب جمع کردیاگیا ہے۔‘‘1     اس سلسلے میں مولانا نے صاحب ِ بحر الرائق ابن نجیمv کا حوالہ بھی دیا ہے، جنہوں نے ابن امیر الحاج الحلبیv کی ’’شرح منیۃ المصلی‘‘ کے مقدمے سے یہ رائے اخذ کی تھی کہ ’’المحیط البرہانی‘‘مستند نہیں ہے، لیکن ’’الفوائد البہیۃ‘‘میں جب  ’’المحیط البرھانی‘‘ کے مصنف کا اس کے مشہور نام محمود بن الصدر السعید تاج الدین احمد بن الصدر الکبیر برہان الدین عبد العزیز بن عمر بن مازہ بن برہان الدین کے تحت احوال لکھے تو پہلے محیط ہی کے حوالے سے مولانا نے تصحیح کی کہ اصل نام محمود نہیں محمد ہے، اس لیے کہ محیط کے آغاز میں مصنف نے اپنا نام محمد بن الصدر الکبیر لکھا ہے، اس کے بعد یہ لکھتے ہوئے کہ مقدمہ جامع صغیر میں ’’المحیط البرہانی‘‘ کو غیر معتبر کتابوں میں جو شمار کیاگیا تھا وہ صحیح نہ تھا، مولانا لکھتے ہیں: ’’پھر جب فضل خداوندی سے مجھے اس کتاب کے مطالعے کا موقع ملا تو میں نے کتاب کو بہترین پایا، جو مستند مسائل پر مشتمل اور غیر معتبر اور نامانوس مسائل سے محفوظ ہے، ہاں! چند مقامات پر غیر معتبر مسائل ضرور ہیں تو وہ بہت سی مستند کتابوں میں بھی ہیں، بہرحال میرے اوپر یہ منکشف ہوگیا کہ محیط سے فتویٰ دینے کو جو ناجائز بتایاگیا ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ یہ کتاب عام طور پر لوگوں کی نظر سے نہیں گزری تھی اور مفقود ونایاب تھی، خود کتاب میں یا اس کے مؤلف میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی کہ اس کتاب سے فتویٰ دینا ناجائز ہوجائے۔‘‘2     اس کے بعد ایک کلیہ کے طور پر مولانا نے تحریر کیا کہ ایسا ہوا کرتا ہے کہ زمانہ اور مقام کے اختلاف کی بنا پر بعض کتابیں ایک جگہ مفقود ہوتی ہیں اور دوسری جگہ مُتَدَاوَل و مشہور، یا ایک وقت میں نایاب ہوتی ہیں اور دوسرے عہد میں عام طور پر پائی جاتی ہیں: ’’تو جب محیط برہانی ابن امیر الحاج الحلبیv کے زمانے میں ۔۔۔۔۔۔۔مفقود تھی تو اس کو ان کتابوں میں انہوں نے شمار کیا جو نایاب ہونے اور غیر مشہور ہونے کی بنا پر اس درجے میں ہیں کہ ان سے فتویٰ دینا درست نہیں ہے، پھر جب دوسرے زمانے اور دوسرے اطراف میں وہ رائج اور مشہور ہوئی تو اس سے فتویٰ نہ دینے کا حکم بھی ختم ہوگیا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محیطِ برہانی فی نفسہ قابل اعتماد ومستند ہے، مستند لوگوں نے اس پر بھروسہ کیا ہے اور اس سے فتویٰ دیا ہے۔‘‘3     اسی طرح مقدمۂ جامع صغیر میں جہاں طبقاتِ فقہاء سے مولانا نے بحث کی ہے، کفویؒ، ابن کمال پاشا رومیؒ، اور عمر بن عمر الازہری مصریؒ کی کتابوں، طبقاتِ کفوی، الاصلاح والایضاح اور جو اہر نفسیہ شرح الدرۃ المنیفۃ وغیرہ کے حوالے سے طبقۂ مجتہدین سے لے کر آخری طبقہ یعنی مقلدین کے طبقے تک تمام مشہور فقہاء کی درجہ بندی انہوں نے قدماء کے مسلک کے مطابق درج کی، مگر اس درجہ بندی میں بعض اعلیٰ درجے کے فقہاء کا ادنیٰ درجے میں اندراج جو قدیم سے چلا آرہا تھا‘ مولانا کے لیے خلجان کا سبب بنا، وہ بعض فقہاء کو جو کم تر درجے میں رکھے گئے ہیں درجۂ اعلیٰ کا اہل سمجھتے تھے، بعض کو اس کے برعکس، پھر بھی اس بحث کو وہ اپنی رائے کے مطابق چھیڑنے میں پس وپیش اس لیے کررہے تھے کہ: ’’جھگڑا لو حضرات کا خوف مجھے اپنے خلجان کے اظہار سے مانع ہورہا تھا کہ میرے ایک ہم عصر فاضل نے مجھے کتاب مذکور (یعنی ’’ناظورۃ الحق‘‘) بھیجی اور میں نے اس کا مطالعہ کیا اور اس سے استفادہ کیا تو اپنی رائے اور صاحب ’’ناظورۃ الحق‘‘ کے خیالات میں تَوارُد پر خدا کا شکر ادا کیا۔‘‘4     مولانا نے ’’ناظورۃ الحق‘‘ کی عبارتوں کا مفصل اقتباس دے کر قدماء کی درجہ بندی کی خامیوں پر روشنی ڈالی ہے، مثلاً ابوبکر الجصاص الرازیv کو قدماء نے ان مقلدین فقہاء میں شمار کیا ہے جو سرے سے اجتہاد کا حق ہی نہیں رکھتے ہیں، ’’ناظورۃ الحق‘‘ کے مصنف ہارون بن بہاء الدین المرجانیv  نے اس سے سخت اختلاف کیا، مولانا عبد الحی v نے مصنف سے اتفاق کرتے ہوئے اس کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’ابوبکر الجصاص الرازیv کو طبقۂ مقلدین میں شمار کرنا ان کے حق میں بہت بڑی زیادتی ہے اور بلند مقام سے ان کو نیچے اُتار لینا ہے، جو شخص بھی ابوبکر الرازیv کی کتابیں اور ان کے منقول اقوال کا پتہ لگا کر مطالعہ کرے گا، وہ یہی مانے گا کہ وہ لوگ جنہیں مجتہد مانا گیا ہے جیسے شمس الائمہؒ اور ان کے بعد والے بعض حضرات وہ سب فقہ میں ابوبکر الرازیv کے محتاج ہیں۔‘‘5     ان مثالوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولانا عبد الحیv تاریخی اقوال کے محض ناقل نہیں تھے، بلکہ ان کو پرکھنے کا خاص ملکہ بھی انہیں حاصل تھا۔     مولانا عبد الحیv نے یہ بھی پروگرام بنایا تھا کہ دو جلدوں میں ایک ایسی کتاب تالیف کی جائے جس میں مختلف مذاہب کے علماء کے احوال اور ان کی مشہور تصانیف کی تفصیلات کا بیان ہو، اس پروگرام کے تحت انہوں نے کام شروع کرتے ہی اپنا فیصلہ ذرا سا بدل دیا، بجائے دو جلدوں میں ایک تالیف کرنے کے انہوں نے یہ طے کیا کہ ایک کتاب اس طرح لکھی جائے کہ مصنف علماء کا حال اصلاً اور ان کی تصانیف کا ذکر ضمناً ہو اور یہ کتاب انہوں نے تصنیف کرلی جو ’’طرب الأماثل فی تراجم الأفاضل‘‘ کے نام سے طبع ہوچکی ہے، اس کتاب کا اختتام ۳؍صفر ۱۳۰۳ھ میں ہوا، یعنی مولانا کی وفات سے ۱۴؍مہینے قبل۔     اسی سلسلے کی دوسری کتاب اس طرح تصنیف کی کہ تصانیف کا ذکر اصلاً اور ان کے مصنفین کا احوال ضمناً درج کیا، جس کا نام انہوں نے ’’فرحۃ المدرسین بذکر المؤلفات والمؤلفین‘‘ رکھا، مولانا کے شاگرد اور تذکرہ نویس مولانا عبد الباقی فرنگی محلیv نے ’’حسرۃ الفحول‘‘ میں اس کتاب کے سلسلے میں لکھا ہے کہ: ’’یہ کتاب مکمل نہ ہو سکی کہ اس کا مصنف سفر آخرت پر چلا گیا اور رب العالمین کے حضور پہنچ گیا‘‘۔     مولانا آزاد لائبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے فرنگی محل کلکشن میں اس کا مخطوطہ موجود ہے جو بقلم مصنف ہے، مخطوطے کے سرورق پر خود مصنف کے قلم سے لکھا ہواہے: ’’الفراغ منہ غرۃ ربیع الأول یوم الأربعاء ۱۳۰۳ھ ۔‘‘ ’’اس کتاب کی تصنیف سے ربیع الاول ۱۳۰۳ھ کی چاند رات کو چہار شنبہ کے دن فراغت ہوئی۔‘‘     لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی ورق پر مصنف کے قلم ہی سے لکھا ہے کہ حروف :’’ث، ذ، ز، ل، و، ی‘‘ کے تحت مؤلفات کا ذکر باقی ہے اور تمام حروف کے تحت مولانا نے اہم مؤلفات کا ذکر اصلاً اور ان کے مؤلفین کا ذکر ضمناً کیا ہے۔ مولانا عبد الباقی فرنگی محلیv نے اس مخطوطے کے شروع میں ایک صفحہ کا دیباچہ لکھا ہے، جس میں انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مصنف اس کتاب سے فارغ ہوچکا تھا۔     ان دونوں کتابوں کی تصنیف کے علاوہ جن سے وہ فارغ ہوچکے تھے‘ مولانا نے یہ بھی پروگرام بنایا تھا کہ تین جداگانہ تصانیف جو علمائے ہند اور دوسرے معاصر علماء کے احوال پر مشتمل ہوں تصنیف کی جائیں، ان تینوں تصانیف کے نام بھی الگ الگ مولانا نے تجویز کردیئے تھے اور تینوں کتابوں کے مجموعے کا نام ’’أنباء الخلان بأنباء علماء ہندوستان‘‘ رکھا تھا۔     اس مجموعے کی پہلی کتاب کا نام تھا ’’خیر العمل بتراجم علماء فرنجی محل‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کتاب علمائے فرنگی محل کے احوال کے لیے مخصوص تھی، مولانا نے اس کا بیشتر حصہ مرتب کرلیا تھا، مگر اسے مکمل نہ کرسکے کہ وفات فرماگئے۔ ’’خیر العمل‘‘ کا مسودہ خود مصنف کا لکھا ہوا‘ تیس برس پہلے تک فرنگی محل میں پایا جاتا تھا، ’’تذکرۂ علمائے فرنگی محل‘‘ کے مصنف مولانا محمد عنایت اللہ فرنگی محلی مرحوم جب ۳۰-۱۹۲۹ء میں یہ تذکرہ ترتیب دے رہے تھے تو ’’خیر العمل‘‘کا اصل مسودہ ان کے پیش نظر تھا، انہوں نے جگہ جگہ ’’خیر العمل‘‘سے حوالے دیئے ہیں، بیشتر حوالے ترجمے کی شکل میں ہیں، کہیں کہیں عربی اقتباس بھی دیا ہے، مگر اب یہ مسودہ باوجود تلاشِ بسیار کے دستیاب نہیں ہوا۔     خوش قسمتی سے اس کی ایک نقل مولانا کے شاگرد مولانا عبد الباقی فرنگی محلی مہاجر مدنیؒ نے کرلی تھی اور وہ اس کا تکملہ کرنا چاہتے تھے، ۱۹۲۵ء میں’’خیر العمل‘‘اور اس کے تکملہ کو جو مولانا عبد الباقی مرحوم کے قلم سے تھا‘ مدینہ منورہ میں مولانا عبد الباقی مہاجر مدنیؒ کے کتب خانے میں میں نے دیکھا تھا اور اس کا پورا مطالعہ کیا تھا، جو طلبہ کی ایک سائز کاپی کے تقریباً سوصفحات پر مشتمل تھا، یہ اصل اور تکملہ دونوں پر حاوی تھا۔     مولانا عبد الحیv نے اپنے طریقۂ تصنیف کے مطابق حروف تہجی کے تحت علمائے فرنگی محل کے احوال تحریر کیے تھے اور بعض حروف کے تحت بیاض تھا، پھر بھی تقریباً تمام قابل ذکر علمائے فرنگی محل کا ذکر ’’خیر العمل ‘‘میں آگیا ہے اور ’’خیر العمل‘‘کے ضروری اقتباسات مولانا قیام الدین محمد عبدالباری فرنگی محلی مرحوم کی عربی تصنیف ’’آثار الأول من علماء فرنجی محل‘‘ اور مولانا مفتی محمد عنایت اللہ فرنگی محلی مرحوم کی اردو تصنیف ’’تذکرۂ علمائے فرنگی محل‘‘ میں نقل ہوگئے ہیں۔     مجموعہ ’’أنباء الخلان‘‘ کے دوسرے جزء کا نام مولانا نے ’’النصیب الأوفر فی تراجم علماء المائۃ الثالثۃ عشر‘‘ رکھا تھا، یعنی اپنی صدی کے معاصر علماء کے احوال پر یہ کتاب مشتمل قرار دی گئی تھی اور اسی مجموعے کے تیسرے حصے کا نام انہوں نے متعین طور پر تجویز نہیں کیا تھا،’’ رسالۃ أخری فی تراجم السابقین من علماء الہند‘‘ کے نام سے اس کا ذکر اپنی تصانیف کے ضمن میں انہوں نے کیا ہے اور اس کے آگے یہ بھی تحریر کیا ہے:’’ ولم یتم إلٰی الآن‘‘ یعنی ابھی تک ’’أنباء الخلان‘‘ کے مجموعے کے تحت آنے والی تینوں تصانیف پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچی ہیں، پایۂ تکمیل کو نہ پہنچنا اشارہ ہے کہ ان ہر سہ کتب کی تالیف کا آغاز مولانا کرچکے تھے، جن میں سے ایک یعنی ’’خیر العمل‘‘ بڑی حد تک تالیف ہوچکی تھی، جیساکہ اوپر گزر چکا۔     ’’النصیب الأوفر فی تراجم علماء المائۃ الثالثۃ عشر‘‘ بھی اگر زیر تالیف آچکی تھی تو افسوس ہے کہ اس کا ایک صفحہ بھی کہیں دستیاب نہیں ہوا ہے۔     ’’رسالۃ أخری فی تراجم السابقین من علماء الہند‘‘ کے نام سے بھی مولانا کا کوئی مسودہ نہیں پایا جاتا اور اُسے بھی مفقود ومعدوم ہی ماننا پڑتا، لیکن ایک بے نام اور بے ترتیب مسودہ فرنگی محل کے کتب خانے میں ایسا ملا ہے جس پر نہ مصنف کا نام ہے، نہ کتاب کا، مگر ہے علمائع ہند کا تذکرہ اور تحریر بھی مولانا عبد الحی vکی دوسری تحریر وں کے عین مطابق ہے، ،متفرق قلمی تحریروں کی حیثیت سے اس مسودے کے اوراق کو مجلد کرایا گیا تھا، کتب خانے کے کسی ناواقف منتظم نے بطور خود اس کا نام ’’تذکرۃ الصلحائ‘‘ تجویز کرکے اس کے سرورق پر لکھ دیا اور ’’تذکرۃ الصلحائ‘‘ ہی کے نام سے یہ مخطوطہ درج فہرست رہا۔ ا س مسودے کی اصلیت کا اندازہ سب سے پہلے مولانا مفتی محمد عنایت اللہ فرنگی محلی مرحوم نے کیا اور مسودہ کے سرورق پر انہوں نے تحریر کردیا ہے: ’’ہذا الکتاب من مؤلفات مولانا عبد الحیؒ کما یعرف من أحوال الملا غلام یحیٰی البہاری وأنا أعرف خطہٗ أیضاً ۔ (فقیر محمد عنایت اللّٰہ غفر لہٗ اللّٰہ)۔‘‘ ’’یہ مسودہ مولانا عبد الحیv کی تصانیف میں سے ہے، جیساکہ ملاغلام یحییٰ بہاریؒ کے احوال کے ضمن میں ظاہر ہوگیاہے، اس کے علاوہ میں مولانا عبد الحیv کی شانِ خط کو بھی پہچانتا ہوں۔‘‘ (فقیر محمد عنایت اللہ غفرلہٗ اللہ)     ملا غلام یحییٰ بہاریv کے احوال میں مصنف نے ان کے اس حاشیہ کا جو ’’حاشیۂ غلام یحییٰ بہاری‘‘ کے نام سے موسوم ہے‘ حوالہ دیا ہے۔ یہ حاشیہ میر زاہد ہرویv کی اس شرح پر ہے جو انہوں نے رسالہ قطبیہ مولفہٗ قطب الدین الرازیv (رسالۃ فی التصور والتصدیق) کی‘ کی ہے، اس رسالے کی شرح کو عام طور پر میر زاہد رسالہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو منطق کی ایک انتہائی کتاب مانی جاتی ہے، مصنف نے ’’حاشیۂ غلام یحییٰ بہاری‘‘ کے ذکر میں لکھا ہے: ’’وقد کتبتُ علیہا حین قراء تی بتلک الحاشیۃ حضرۃ الوالد المرحوم تعلیقًا مختصرًا سمیتہٗ بہدایۃ الوریٰ ، تعقبتُ فیہا علٰی کثیر من أقوال الخیرآبادی (المولوی عبد الحق بن المولوی فضل حق الخیر آبادی) ثم ألفتُ تعلیقًا کبیرًا مسمی بمصباح الدُّجٰی ولما کتب الفاضل الخیر آبادی تعلیقا مختصرا أجاب فیہا عن إیراداتی علیہ ألفتُ تعلیقًا ثالثًا مختصرًا ردًا علیہ سمیتہٗ ب’’نور الہدی‘‘ وہذہٖ الحواشی الثلاثۃ قد وقعت بحمد اللّٰہ مقبولۃً فی أعین الکملۃ ومفیدۃ للطلبۃ۔‘‘ ’’میں نے ’’حاشیۂ غلام یحییٰ بہاری‘‘ پر جب میں اپنے والد مرحوم سے اُسے پڑھتا تھا، ایک مختصر حاشیہ لکھا تھا جس کا نام ’’ہدایۃ الورٰی‘‘ رکھا تھا، میں نے اپنے اس حاشیہ میں مولانا عبدالحق بن مولانا فضل حق خیر آبادی کے بہت سے اقوال پر- جو انہوں نے ’’حاشیۂ غلام یحییٰ بہاری‘‘ پر اپنے حاشیے میں درج کیے تھے- اعتراضات کیے تھے، اس کے بعد ایک مفصل حاشیہ بھی میں نے اسی ’’حاشیۂ غلام یحییٰ بہاری‘‘ پر لکھا جس کا نام ’’مصباح الدُّجٰی‘‘ رکھا، پھر جب فاضل خیر آبادی نے اپنے دوسرے مختصر حاشیہ میں میرے اعتراضات کے جواب دیئے تو میں نے تیسرا مختصر حاشیہ اسی ’’حاشیۂ غلام یحییٰ بہاری‘‘ پر لکھا جس کا نام ’’نور الہدٰی‘‘ رکھا، اس آخری حاشیہ میں میں نے فاضل خیر آبادی کے جوابات کا رد کیا ہے، میرے یہ تینوں حاشیے خدا کے فضل سے علماء کی نظر میں مقبول ہوئے اور طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوئے۔‘‘     ’’حاشیۂ غلام یحییٰ بہاری‘‘ پر ’’ہدایۃ الورٰی‘‘ ، ’’مصباح الدجٰی‘‘ اور ’’نور الہدٰی‘‘ کے نام سے جو تین حاشیے ہیں، وہ بلاشبہ مولانا عبد الحی فرنگی محلیv کے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ بے نام مسودہ مولانا عبد الحیv ہی کا ہے، خود میں نے جب اس مسودے کو لفظاً لفظاً پڑھا تو اور شہادتیں بھی اس کی ملیں کہ یہ مسودہ مولانا ہی کا ہے، مثلاً حسن صنعانی کے احوال میں مصنف نے لکھا ہے: ’’أوردتُ نبذاً منہا فی الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ۔‘ ‘ ’’حسن صنعانی کا کچھ احوال میں نے ’’الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ‘‘ میں درج کیا ہے۔ ‘‘     یا مثلاً شیخ عبد النبی بن شیخ احمد بن شیخ عبد القدوس گنگوہی v کے ذکر میں مصنف نے لکھا ہے: ’’وقد ذکرت ترجمتہٗ فی ۔۔۔۔۔ النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر وفی التعلیقات السنیۃ علٰی الفوائد البھیۃ۔‘‘  ’’شیخ عبد النبی کا حال میں نے جامع صغیر کے مقدمہ ’’النافع الکبیر‘‘ کے حاشیہ پر اور ’’الفوائد البہیۃ‘‘ کے حاشیہ ’’التعلیقات السنیۃ‘‘ میں لکھا ہے۔‘‘     یہ اندرونی شہادتیں تصدیق کررہی ہیں کہ یہ بے نام مسودہ جس پر مصنف کا نام بھی درج نہیں ہے، یقینا مولانا عبد الحیv کے قلم کا ہے اور یقینا یہ اسی ’’أنباء الخلان بأنباء علماء ہندوستان‘‘ کے مجموعۂ کتب کا ایک حصہ ہے۔     مجموعۂ ’’أنباء الخلان‘‘ کی تین تصانیف میں سے ایک کا نام ’’خیر العمل بتراجم علماء فرنجی محل‘‘ ہے جس کا ذکر اوپر گزرچکا ہے۔ دوسری تصنیف ’’النصیب الأوفر فی تراجم علماء المائۃ الثالثۃ عشر‘‘ تھا، یہ مسودہ جو بے نام ہے ’’النصیب الأوفر‘‘ نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ ایسی تصنیف کو تیرھویں صدی ہجری کے علماء کے تذکروں تک محدود ہونا چاہیے تھا۔ زیر نظر مسودہ ان حدود میں محدود نہیں ہے، لامحالہ اس کو ’’رسالۃ أخرٰی فی تراجم السابقین من علماء الہند‘‘ قرار دینا پڑے گا، جس میں تقریباً ڈیڑھ سو علمائے ہند کے احوال ہیں جو کسی ایک صدی میں محدود نہیں ہیں۔ اور یہ مسودہ بھی مکمل نہیں ہے، اس کے کچھ اوراق گم ہوچکے ہیں، اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب اوراق کے ترک کی مطابقت کی جانچ پڑتال کی، حرف المیم میں سیدمحمد مرتضیٰ المحدث المیمنی البگرامی کے احوال میں ان کی تصانیف کا ذکر صفحہ کے اختتام پر کرتے ہوئے مولانا نے ان کی ایک تصنیف ’’إتحاف الأصفیاء فی سلاسل الأولیائ‘‘ کا آدھا نام یعنی ’’اتحاف الأصفیائ‘‘ تک لکھا اور صفحہ ختم ہوگیا۔ باقی نام دوسرے صفحے پر لکھا، مگر دستیاب مسودہ میں دوسرا صفحہ اور اس کے بعد کے کئی صفحے سادہ ہیں، حالانکہ مکتوبہ صفحہ کے نیچے ترک کے طور پر ’’سلاسل الأولیائ‘‘ خود مولانا کے قلم کا تحریر کیا ہوا موجود ہے، اس کے معنی یہی ہیں کہ اگلے صفحہ کی عبارت ’’سلاسل الأولیائ‘‘ سے شروع ہونے والا صفحہ نہیں ہے، اس کے بعد جو مکتوبہ صفحہ آتا ہے وہ حرف النون سے شروع ہوتاہے، ماننا پڑتا ہے کہ یہی نہیں کہ یہ تصنیف مکمل نہیں ہوپائی، بلکہ جو کچھ مولانا نے لکھ لیا تھا، وہ بھی سب کا سب موجود نہیں ہے، حرف المیم کے کتنے صفحات غائب ہیں، یہ اندازہ کرنا ناممکن ہے، مسودے کے شروع میں خود مولانا کے قلم کی لکھی ان ناموں کی فہرست بھی ہے، جن کے احوال اس تصنیف میں لکھے گئے ہیں، مگر افسوس ہے کہ فہرست کا بھی ایک صفحہ دستیاب ہوا ہے جو حرف الالف سے شروع ہوکر حرف العین کے پانچ ناموں کے بعد ختم ہوگیا ہے، حالانکہ مسودے میں حرف الیاء تک کے نام ہیں، الف سے لے کر یا تک ڈیڑھ سو علمائے ہند کا ذکر اس مسودے میں ملتا ہے، احوال میں بھی خاص توجہ تصانیف اور سلسلۂ تلمذ پر مرکوز رہی ہے۔  (انتہیٰ) حواشی 1…االنافع الکبیر، ص: ۱۲        2…الفوائد البہیۃ،ص:۸۵        3…ایضاً 4…النافع الکبیر، ص:۵            5…ایضا               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین