بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو الحجة 1446ھ 02 جون 2025 ء

بینات

 
 

 مولانا حامد الحق حقانی شہید  رحمۃ اللہ علیہ  کی شخصیت وکردار پر نظر

 مولانا حامد الحق حقانی شہید  رحمۃ اللہ علیہ  کی شخصیت وکردار پر نظر

شیخ الحدیث مولانا عبدالحق  ؒ کے پوتے، شہیدِ ناموسِ رسالت حضرت مولانا سمیع الحق  ؒ کے فرزندِ اکبر جمعیت علماء اسلام کے سربراہ، جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم، سابقہ ممبر قومی اسمبلی، اعلیٰ اخلاق وکردار کے آئینہ دار، تواضع اور ملنساری کے خوگر، نادار اور غریب لوگوں سے حددرجہ محبت کرنے والے، حق گو وبے باک رہنما، دنیا بھر میں حریت وآزادی کی تحاریک کے پشتیبان، پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے علمبردار، میرے تایازاد اور برادرِ نسبتی حضرت مولانا حامد الحق حقانی کو دیگر ۵؍اَفراد کے ساتھ ۲۸ ؍ فروری ۲۰۲۵ء کو بعد از نمازِ جمعہ دارالعلوم حقانیہ کی مسجد کے دروازے میں ظالموں نے بڑی بے دردی کے ساتھ دھماکے میں شہید کردیا،  إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ اللّٰھم اغفر لھم وارحمہم، آمین بجاہ النبي الکریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ 

شہداء کے اسماء گرامی

دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں ہونے والے خطرناک دھماکے کی آوازمیلوں تک سنائی گئی۔ مولانا حامدالحق شہید رہائش گاہ کے سامنے مسجد کے دروازے میں نماز کی ادائیگی کے بعد نکل رہے تھے کہ اس دوران یہ دھماکہ کیا گیا۔ اس حادثہ میں دارالعلوم حقانیہ کے شعبہ حفظ کے نگران مولانا قاری شفیع اللہ صاحب کے معصوم فرزند، مجذوب شاکراللہ، دارالعلوم حقانیہ سے عقیدت رکھنے والے غریب رنگساز، کتابی ذوق کے حامل ضلع صوابی کے گاؤں جلسئی سے تعلق رکھنے والے جناب تجمل خان، اکوڑہ خٹک کے قریب دریا پار علاقہ ترلاندی سے تعلق رکھنے والے حقانیہ کے عقیدت مند جناب شیر داد صاحب، مولانا حامدالحق شہیدؒ کے جگری دوست قدیم محلہ ککے زئی کے رہائشی جناب تنویر افضل جان اور سب انسپکٹر ریلوے پولیس ملک بخشش الٰہی مرحوم کے فرزند ملک اشتیاق بھی شہادت پاگئے۔ 

شہید مولانا حامدالحق  ؒ کی کیفیت

جن بدبختوں اور شقی القلب لوگوں نے یہ گھناؤنی حرکت کی ہے وہ انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں۔ مولانا حامدالحق  ؒ حملہ میں نشانہ تھے، دشمن ان کی جان لینے میں بظاہر کامیاب ہوئے، لیکن درحقیقت انہوں نے دنیا وآخرت کا خسارہ مول لیا۔ مولانا حامدالحق  ؒ کو فوری طبی امداد کے لیے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال نوشہرہ پہنچایا گیا، لیکن طبی ماہرین کاکہنا تھا کہ وہ موقع پر شہادت پاگئے تھے۔ اس خطرناک دھماکے میں جسے خودکش قرار دیا گیا ہے باوجود بھاری بارود کے مولانا شہید کا بدن سرکے بالوں سے پاؤںکے ناخن تک مکمل سالم تھا، یعنی کوئی عضو یاحصہ علیحدہ نہیں ہوا۔ اس پر یہ کہنا مناسب ہے کہ یہ ان کی پس از مرگ کرامت ہی تھی، جسم اور پیٹ میں بارودی چھرے لگنے اور زخموں کے سبب ان کی موت واقع ہوئی۔ مولانا حامدالحق  ؒ کے بڑے فرزند مولانا عبدالحق ثانی اس حادثے کے وقت مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اُتر آئے تھے، اس طرح وہ بفضل اللہ تعالیٰ محفوظ رہے،لیکن ان کی ناک زخمی ہوگئی، ان کے چھوٹے فرزند حافظ محمد احمد بحمداللہ محفوظ ہیں، سوشل میڈیا پر ان کی شہادت کی خبر غلط مشہور ہوئی ہے۔ 
مسجد میں مخصوص جگہ دائیں جانب پہلی صف میں جہاں مولانا حامدالحق  ؒ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے، اس احاطہ میں ہمارے خاندان کے تقریباً جملہ لوگ جو کہ چھوٹوں، بڑوں سمیت ۱۵؍ افراد پر مشتمل ہوتے، نماز میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اپنے فضل وکرم کے طفیل بچالیا۔ 
مولانا حامدالحق  ؒ شہادت کی خلعتِ فاخرہ پاکر جنت الفردوس کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہوچلے۔ ان کا ناگہانی سانحہ بہت بڑے غم وکرب وافسوس کاباعث ہے، لیکن رضا مولیٰ ازہمہ اولیٰ۔ واقعہ کے وقت احقر اتفاقاً ایک جنازہ میں شرکت کی غرض سے قریبی مسجد میں۲ بجے سے قبل ہی نماز پڑھنے چلا گیا، فارغ ہوکر آیاتو مسجد میں خطبہ ہورہا تھا۔ 

دھماکے کے بعد کی صورت حال

احقر نے گھر میں ہی ہولناک دھماکے کی آواز سنی توفوراً دارالعلوم دوڑ کر آیا،جہاں بھگدڑ مچی تھی، یہاں دارالحدیث کے سامنے دو تین لاشیں خون میں لت پت پڑی تھیں، انسانی بدن کے چیتھڑے دیواروں، چھتوں، زمین پر دور دور تک نظر آرہے تھے۔ دل دہلادینے والی اس کیفیت کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ میری ذہنی کیفیت بالکل اَبتر تھی، صحن میں اِدھر اُدھر دیوانہ وار چکر کاٹ رہا تھا کہ یہ کیا قیامت خیز منظر ہے۔ اکوڑہ خٹک کے بعض ساتھی مجھے پکڑ کر مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی رہائش گاہ کی طرف لے گئے، وہاں جاکر بے چینی اور بڑھ گئی، کبھی اُٹھتا، کبھی بیٹھتا، کبھی گیٹ کی طرف جالپکتا، ہسپتال جاکر صورت حال دیکھنے کابھی خواہاں تھا، لیکن میری حالت اور ہوش وحواس کی صورت حال کی بنا پر حفاظتی و سیکورٹی اہل کاروں نے باہر جانے سے منع کر دیا۔ 
دریں اثناء سخت پریشانی میں برادرم اسامہ سمیع الحق سے موبائل پر رابطہ ہوا جنہوں نے بتایا کہ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ وہ شہید ہوچکے ہیں۔ اس بات کے سنتے ہی ایسا لگا جیسے دل اور کلیجہ کسی نے چیر دیا ہو، میں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی سے کہا کہ میت گھر لانے کا نظم بناؤ اور شہید کے اہلِ خانہ کو ذہنی طور پر تدریجاً تیار کرو۔  

شہید کی شخصیت کے مختلف زاویے

شخصیت وکردار کے عناصر

دماغ میں مولانا حامدالحق  ؒکی شخصیت واخلاق وکردار کے حوالہ سے نقشہ گھوم رہا تھا کہ ہائے اس شخصیت کوظالموں نے مارتے ہوئے یہ نہ دیکھا کہ یہی وہ عظیم انسان ہے جو غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے جمعہ کے روز مسجد میں مسلمانوں کے جذبات کو گرما کران کے لیے تائید حاصل کررہا تھا، یہی وہ درمند تھا کہ کشمیری مسلمانوں کے لیے جب بھی ان کی ریاست کو عقوبت خانہ بنایا گیا تو ہر موقع پر ان مظالم پرآواز اٹھانے کے لیے پاکستان بھر میں اجتماعات کرواتااور خود سڑک پر نکل کر ان کے لیے آواز اٹھاتا، افغانستان میں بیرونی جارحیت جس دور میں بھی ہوئی تسلسل کے ساتھ حریت وآزادی کے لیے کام کرنے والی تحریکوں کے ساتھ اپنی آواز ملاتا، تحفظ وتقدسِ حرمین کے متعلق مؤثر آوازہر پلیٹ فارم پر پیش کرتا، عراق، لیبیا، بوسنیا، جہاں بھی مسلمان مظلو م ومقہور ٹھہرا اُن کے ساتھ اپنی یکجہتی کا ثبوت دیتا، پاکستان اور دنیا بھر میں اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جوش وجذبہ کے ساتھ میدانِ عمل میں کودتا۔ ان جیسے سینکڑوں امور میں اپنی بھرپور تڑپ وتحریک کے ساتھ شریک ہوتا۔ یہ ان کے کردارکی ایک تصویر ہے۔ دوسری طرف تحفظِ ختم نبوت کا مسئلہ ہو، ناموسِ رسالت وناموسِ صحابہؓ کا مشن ہو، عظمتِ قرآن کا معاملہ ہو، ہر جگہ وہ اپنی حاضری لگانا فرضِ منصبی سمجھتا۔ الہ العالمین! آج اس آواز کو مٹانے اور ختم کرنے کی مذموم کو شش کی گئی، حقیقت یہی ہے کہ :

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

کردار کا تیسرا رخ پارلیمنٹ میں شریعت بل کی جدوجہدہو، نوشہرہ کے عوام کے حقوق کی تحفظ کی بات ہو، اس میں بھی آپ ہمہ وقت سرگرم عمل نظر آتے رہے۔ ہم ان کی کس کس ادا کو یاد کریں گے ؟ان کی شخصیت کا چوتھارخ مملکتِ عزیزپاکستان کے دفاع وتحفظ کے لیے میدان میں نکلنے کاکردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ چند جملوں میں ان کے کردار کا احاطہ ممکن نہیں، تاہم یہ ایک جھلک ہی تھی جو پیش کی گئی۔ 
رات کو تقریباً ایک بجے جسد خاکی بذریعہ ایمبولینس اکوڑہ خٹک لایا گیا اور غسل وکفن دیا گیا۔ راقم الحروف کو غسل دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مولانا عبدالحق ثانی، مولانا راشدالحق، مولانا ظفر زمان، مولانا لقمان الحق، مولانااسامہ سمیع، مولانا خزیمہ سمیع، جناب اعجاز حسین، جناب نورحبیب صاحبان میرے معاون تھے۔ 
طویل غور وخوض کے بعد جنازہ اگلے روز گیارہ بجے دارالعلوم حقانیہ میں ہی رکھا گیا۔ 

عمومی دیدارو زیارت اور نظم کے بندھن غیر مؤثر
 

ان کی زیارت کے لیے صبح دس بجے کا وقت مقرر ہوا، دیگر تین شہداء کو بھی ان کے ساتھ جنازہ پڑھوانے کے لیے دارالعلوم لایا گیا۔ دارالعلوم میں ان کے شہادت کے بعد ہزاروں لوگ تعزیت کے لیے جوق درجوق آنے لگے۔ دارالحدیث ہال میں تعزیتی نشست بنائی گئی۔ علماء وزعماء، سیاسی لیڈران، اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے نمائندگان فاتحہ خوانی اورتعزیتی کلمات بھی پیش کرتے رہے۔ راقم نے خانوادۂ شیخ الحدیث مولانا عبدالحق  ؒ کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کرنے کا فریضہ نبھایا۔ لاکھوں لوگوں کے ازدحام کی وجہ سے نظم وضبط کا مضبوط نظام بھی غیر مؤثر رہا۔ سکیورٹی اہلکاروں، مقامی انتظامیہ، ضلعی وصوبائی ایڈمنسٹریشن نے نظم کے لیے بھر پور جتن کیے، لیکن ہر کوئی دیوانہ وار شہیدؒ کی زیارت کے لیے بے صبری کامظاہرہ کرنے پر مجبور نظر آرہاتھا۔ تدفین اپنے والد کے پہلو اور والدہ کے پاؤں میں کی گئی۔ قبر میں اُتارنے کی سعادت مولانا مفتی غلام قادر حقانی، احقر عرفان الحق، حافظ احمد خیار قاسمی، حافظ محمد احمد نے حاصل کی۔ 

جنازہ کی امامت وتدفین

خاندانی مشاورت کے تحت ان کے فرزند مولانا عبدالحق ثانی ؒ نے جنازہ پڑھایا۔ مسجد سے جائے تدفین تک چند سو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے پون گھنٹہ لگا۔ خانوادۂ شیخ الحدیث مولانا عبدالحق  ؒ کے اتفاقِ رائے سے مولانا راشدالحق کو ان کی جگہ نائب مہتمم مقرر کیا گیا۔ اس کی تائیدجنازہ کے موقع پر لاکھوں علماء وطلباء اور عوام الناس سے بھی لی گئی۔ 
شہید کے مختصر حالات جو کہ ان کی نظر سے بھی ان کی زندگی میں گزرے ہیں، یوں ہیں:

تاریخ پیدائش

مولانا حامد الحق حقانی بن حضرت مولانا سمیع الحق کی پیدائش ۲۶؍مئی ۱۹۶۷ء جمعۃ المبارک کے دن بوقت طلوع شمس بمکان حضرت شیخ الحدیث واقع نزد مسجد (و قدیم مدرسہ حقانیہ) محلہ ککے زئی میں ہوئی۔ 

خاندانی شرافت

جد اعلیٰ مولانا عبدالحمید کے نام کے ساتھ لاحقہ اخند کاغذات مال میں مرقوم ہے اور یہ لقب صاحبِ سوانح کی تحقیق کے مطابق وسط ایشیا، ایران اور مغربی ترکستان میں دینی پیشوا‘ مفتیوں اور بلند پایہ علماء کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے۔ والدہ محترمہ دخترِ الحاج میاں کرم الٰہی صاحب ؒ (جو کہ پشاور کے معروف تاجر اور معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے، کی جانب سے شجرۂ نسب رہبر طریقت حضرت میاں محمد عمر صاحب چشتی المعروف سوکنوبابا جی ؒ آف چمکنی پشاور تک پہنچتا ہے۔ 

تعلیم 

داداجان حضرت شیخ الحدیث ؒ نے خوداپنی مسجد میں رسم بسم اللہ کروا کر کابل استاذ کے ساتھ ناظرۂ قرآن کے لیے بٹھایا۔ پھر خود حضرت ؒنے نماز سکھائی، اور عملاً پڑھوائی۔ باضابطہ رسم بسم اللہ حضرت شیخ الحدیث ؒ کی موجودگی میںمولانا سمیع الحق صاحب نے دارلعلوم دیو بند ہندوستان کے مہتمم شیخ الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کے ذریعے ۲۱؍ محرم الحرام ۱۳۹۵ھ مطابق ۳ ؍فروری ۹۷۵اء کو (سات برس کی عمر میں ) بروز پیر صبح نو بجے دارالعلوم حقانیہ کے دفترِ اہتمام میں کروائی۔ 
عصری تعلیم کے لیے اسلامیہ تعلیم القرآن حقانیہ ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ آٹھویں کلاس (مڈل) تک اسی سکول میں پڑھنے کے بعد شوال۴۰۴ ۱ھ مطابق جون ۱۹۸۳ء کے وسط میں مستقل درجہ اولیٰ کی کتابیں شروع کیں۔ درسِ نظامی کے دوران علومِ عصریہ کی تعلیم پرائیویٹ طور پر جاری رکھتے ہوئے میٹرک ۱۹۸۹ ء ‘ ایف اے ۱۹۹۰ء میں انٹرمیڈیٹ بورڈ پشاور سے پاس کیے۔ بی  اے پولیٹیکل سائنس پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ۱۹۹۲ء میں کیا، علوم عربی کا کورس جامعۃ الامام السعود الریاض سعودی عرب سے ۱۹۹۳ء میں کیا۔ 

فراغت

۱۴۱۲ھ مطابق ۱۹۹۲ء کو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فراغت حاصل کی۔ دستار بندی ایک عظیم تقریب جامع مسجد حقانیہ میں بعد از نمازِ جمعہ۱۴ فروری ۱۹۹۲ء اکابرین پاکستان اور افغانستان کی مذہبی اور سیاسی قیادت کے ہاتھوں انجام پائی۔ 

سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ سے وابستگی

حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق  ؒ، حضرت علامہ مولانا قاضی زاہدالحسینی  ؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد فرید صدیقی نقشبندیؒ سے تصوف وسلوک میں استفادہ کیا۔ 

تدریسی خدمات 

۲۹؍ شوال ۱۴۱۲ھ مطابق ۲؍مئی ۱۹۹۲ء بروز ہفتہ حقانیہ میں تدریس کا آغاز کیا، ابتداء ً حسبتہ للہ یہ خدمات انجام دیں، بعد میں ۱۲۰۰ ؍روپیہ مشاہرہ مقرر ہوا۔ ممبر اسمبلی منتخب ہوکر مشاہرہ لینا ترک کردیا۔

تالیفی سرگرمیاں

مختلف رسائل بالخصوص مجلہ الحق اور ملک بھر کے اخبارات میںمضامین وقتاً فوقتاً لکھتے تھے، مختصر سوانح شیخ الحدیث مولانا عبدالحق  ؒ پشتو/ اردو زیرِ طبع۔ کتاب شجرہ نسب خاندانِ مولانا عبدالحق  ؒ زیر طبع۔ 

جہاد میں کردار

جہادِ افغانستان میں اپنے خاندان کے بزرگوں کی طرح خدمات انجام دیتے چلے آئے۔ پاکستان اور افغانستان میں مجاہدین اور تحریک طالبان، کشمیر ، چیچنیا، بوسنیا، فلسطین کے لیے سیاسی محاذوں پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سعی کرتے آئے۔ 

اکابر اساتذہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق  ؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق  ؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد فریدؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ ؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا مغفور اللہ، حضرت مولانا انوار الحق، حضرت مولانا مفتی سیف اللہ مروت، حضرت مولانا فضل الٰہی شاہ منصور، حضرت مولاناعبدالحلیم دیر بابا، حضرت مولانا اسید اللہ ہزارویؒ، حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی، مولانا حافظ مفتی غلام الرحمٰن، حضرت مولانا محمد ابراہیم فانیؒ۔ 

آپ کے مشاہیر تلامذہ

آپ کے تلامذہ میں سے سینکڑوں فارغ التحصیل، مجاہد، پروفیسرز، لیکچرارز، فوج میں خطباء، مدارس میں مدرسین اور سکولوں میں معلمی کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 

سیاسی ورفاہی امور 
 

ضلع نوشہرہ اور خصوصاً اکوڑہ خٹک میںرفاہی عوامی خدمات کے علاوہ ملکی سیاست میں جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے اس تحریک کا حصہ ہیں۔ این اے ۶ سے ۲۰۰۲ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 

اسفار وزیاراتِ اکابر

کئی مرتبہ حج و عمرہ اور تعلیمی سلسلہ میں سعود ی عرب جانے کی سعادت حاصل کی، متحدہ عرب امارات، اردن، سنٹرل ایشیا، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، افغانستان، یورپ اور برطانیہ کے مختلف ممالک کے دورے کیے، جشن صد سالہ دیوبند میں ہندوستان جاکر شرکت کی، حضرت مولانا قاری محمدطیبؒ، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ، حضرت مولانا اسعد مدنیؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ، شیخ بن باز ؒمفتی اعظم سعودی عرب، شیخ عبداللہ ابن سُبیّل، اسیر مالٹا حضرت مولانا عزیر گلؒ، حضرت مولانا سعید احمد خانؒ امیر تبلیغی جماعت (مدینہ منورہ) حافظ القرآن و الحدیث مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمود ؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، علامہ شمس الحق افغانیؒ اور دیگر کئی بزرگوں سے شرفِ ملاقات حاصل رہی۔ 

اولاد

اولاد میں چار بیٹیاں طوبیٰ، طیبہ، آمنہ، مریم اور دو بیٹے مولانا عبدالحق ثانی فاضل ومدرسِ حقانیہ، جبکہ حافظ محمداحمد زیرِ تعلیم ہیں، جبکہ احفاد میں محمد مصطفیٰ، شافع الحق، محمد حسن شامل ہیں۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین