بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

موجودہ معاشی بحران اور اُس کے رفع کرنے کی تدابیر،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں


موجودہ معاشی بحران 
اور اُس کے رفع کرنے کی تدابیر،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

 

’’ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ‘‘۔                                                       (الروم:۴۱)
ترجمہ:…’’انسان کی بداعمالیوں کی وجہ سے بر وبحر میں فساد برپا ہے، تاکہ خدا اُن کی کچھ بداعمالیوں کا مزا اُن کو چکھاوے، شاید وہ باز آجائیں‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ انسانی معاشرہ کو تباہ وبرباد اور نظامِ معیشت کو درہم وبرہم کردینے والی تمامتر خرابیوں اور بدکاریوں کی جڑ قومی معیشت میں ہوسِ زر اور اس کے نتیجہ میں پروان چڑھنے والی ’’زراندوزی‘‘ ہے، جس کو معاشیات کی اصلاح میں اکتنازِ زر اور انجمادِ دولت کہتے ہیں۔
اسلام نے اس اکتنازِ زر اور انجمادِ دولت کی بیخ کنی کرنے اور دولت کو چند ہاتھوں میں سمٹنے سے بچانے کی، یعنی سرمایہ کو متحرک رکھنے کی اور سمٹی ہوئی دولت اور منجمد سرمایہ کو گردش میں لانے کی تین تدبیریں تجویز کی ہیں:
۱:…انفاق۔ ۲:…زکوٰۃ وصدقات واوقاف۔ ۳:…توریث ووصیت۔
اور زر اندوزی کو جنم دینے اور پروان چڑھانے والے تین حرام ذرائع:۱:…سود اور سودی کاروبار، یعنی بینکاری۔۲:…جوا، سٹہ اور بیمہ کاری۔۳:…بیوع فاسدہ۔ یعنی ناجائز معاملات کو قطعاً حرام اور ممنوع قرار دیا ہے۔
ہم اول مذکورہ بالا تدابیر پر قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کی روشنی میں تفصیلی بحث کریں گے، اس کے بعد زراندوزی کو جنم دینے والے حرام ذرائع پر مفصل بحث کریںگے اور قومی معیشت میں ان کے متبادل صحیح طریق کار بتلائیںگے، ان شاء اللہ العزیز! تاکہ مکمل طور پر اسلام کا اقتصادی نظام سامنے آجائے۔
۱:…انفاق
منجمد سرمایہ اور زراندوز طبقہ
قرآن حکیم کا ارشاد ہے:
’’وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَایُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کَنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ‘‘۔ (التوبہ:۳۴،۳۵)
ترجمہ:…’’اور جو لوگ سونے ، چاندی کو دبا کررکھتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (اے نبی!)تم ان کو بشارت دے دو درد ناک عذاب کی، جس دن اس سونے چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایاجائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں کو، پہلوؤں کو اور پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ وہی سونا چاندی تو ہے جو تم نے اپنے لیے دباکر رکھا تھا، پس اب چکھو اس کو دباکر رکھنے کا مزا‘‘۔
یہ آیت کریمہ اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ جو بھی سونا چاندی یعنی سرمایہ اللہ کے حکم کے مطابق خرچ نہ کیا جائے، یعنی ایک یا چند ہاتھوں میں جمع ہوکر جام ہوجائے، وہ کنز ہے اور اس کا اکتناز‘ حرام اور موجبِ عذابِ شدید ہے، لیکن جو سرمایہ اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کیا جاتا رہے، یعنی مختلف ہاتھوں میں گردش کرتا رہے، آتا رہے، جاتا رہے، وہ خواہ کتنا ہی وافر کیوں نہ ہو، اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے، جس کا شکر اللہ کے حکم کے مطابق اس کا اظہار یعنی خرچ کرنا ہی ہے، ارشاد ہے: ’’وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ‘‘ اور ارشاد نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مطابق وہ اکتسابِ خیرات وحسنات کے لیے بہترین معاون ہے، ارشاد ہے:’’ نعم العون المال الحلال‘‘۔(الحدیث)
اسلام‘ حکومت کو بھی اکتنازِ زر کی اجازت نہیں دیتا، چنانچہ محاربات میں حاصل شدہ دشمنوں کے اموال ۔۔۔مال غنیمت۔۔۔ کو بھی ۔۔۔جو بظاہر خالص حکومت کی آمدنیاں ہیں۔۔۔ دوسرے عام انفاقات کی طرح غانمین اور فقراء ومساکین وغیرہ پر تقسیم کردینے کا حکم دیتا ہے، قرآن عزیز کا حکم ہے:
’’وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ‘‘۔                          (الانفال:۴۱)
ترجمہ:…’’اور یاد رکھو! جو کچھ بھی تم کو مال غنیمت ملے تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے واسطے ، رسول کے واسطے اور رسول کے قرابت داروں کے واسطے اور یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کے واسطے ہے‘‘۔
چنانچہ کل مال غنیمت کے چار حصے غانمین ۔۔۔شریک جنگ مجاہدین۔۔۔ کے ہوتے ہیں اور پانچواں حصہ مذکورہ بالا مدات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اور نہ ہی چند دولت مندوں کو مزید دولت مند بنانے کا اختیار دیتا ہے، چنانچہ مال فئے۔۔۔ بغیر جنگ کیے دشمنوں کے حاصل شدہ اموال۔۔۔ کو مستحقین پر تقسیم کرنے کے حکم کے ذیل میں انجمادِ دولت کے خطرہ سے قرآن عظیم نے ذیل کے الفاظ میں متنبہ فرمایا ہے:
’’وَمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ أَہْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وِلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وِالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَایَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْأَغْنِیَائِ مِنْکُمْ‘‘۔                                                           (الحشر:۷)
ترجمہ:…’’اور جو مال اللہ نے بستی والوں سے بغیر جنگ کیے اپنے رسول کو پہنچایا، پس وہ اللہ کے واسطے ، رسول کے واسطے اور اس کے قرابت داروں کے واسطے ہے اور یتیموں کے، محتاجوں کے، مسافروں کے واسطے ہے، تاکہ مال تم میں سے (صرف) وہ دولت مندوں کے درمیان ہی آنے جانے والا نہ ہوجائے‘‘۔
انفاق کے دو مرتبے
اس انفاق فی سبیل اللہ ۔۔۔اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتے رہنے۔۔۔ کے دو درجے ہیں: ایک ادنیٰ، جس کے بعد جمع شدہ مال شرعاً کنز نہیں رہتا۔ دوسرا اعلیٰ جو عند اللہ مطلوب ہے۔ ادنیٰ درجہ کو حدیث شریف میں بیان فرمایا ہے، ارشاد ہے:
’’کل مال أدی زکاتہ فہو لیس بکنز‘‘ ۔     (ترمذی،جلد اول)
ترجمہ:…’’ہر وہ مال جس کی زکوٰۃ ادا کردی گئی، وہ کنز نہیں ہے‘‘۔
اس کی تفصیل ہم زکوٰۃ کے ذیل میں بیان کریںگے۔ 
اعلیٰ مرتبہ کو قرآن حکیم میں بیان فرمایا ہے، ارشاد ہے:
’’یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ‘‘۔                          ( البقرۃ:۲۱۹)
ترجمہ:…’’(اے نبی!) وہ تم سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا (یعنی کتنا) مال خرچ کریں؟ تم کہہ دو زائد مال (خرچ کرو)‘‘۔
باتفاقِ مفسرین صاحب مال کی حاجاتِ اصلیہ سے فاضل مال ’’عفو‘‘ کا مصداق ہے۔ انسان کی حاجاتِ اصلیہ کی تشخیص بھی قرآن عزیز میں بیان فرمائی ہے:
۱:…حد اعتدال میں رہ کر حسب ِ حال جائز زینت وآرائش کا سامان اور حلال ولذیذ غذائیں اور مشروبات
 ارشاد ہے:
۱:… قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ أُخْرِجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ‘‘۔ (الاعراف:۳۲)
ترجمہ:…’’(اے نبی!) تم کہہ دو ،کس نے حرام کیا ہے اللہ کی (دی ہوئی) زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہے اور حلال وعمدہ کھانے (پینے) کی چیزوں کو ‘‘۔
۲:…یَا بَنِیْ آدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْا إِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ‘‘۔                          (الاعراف:۳۱)
ترجمہ:…’’اے اولادِ آدم! لے لو اپنی آرائش (کے لباس) کو ہر نماز کے وقت اور کھاؤ پیو اور (اس میں) بے جا خرچ مت کرو، بیشک اللہ پسند نہیں کرتا بے جا خرچ کرنے والوں کو‘‘۔
۳:…فَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلَالًا طَیِّباً وَّاشْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ‘‘۔   (النحل:۱۱۴)
ترجمہ:…’’پس جو حلال وطیب روزی اللہ نے تمہیں دی ہے، اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو‘‘۔
۲:…سترپوش اور باوقار، سردی گرمی سے بچانے والا حسب ِ ضرورت لباس
 ارشاد ہے:
۱:…یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِیْ سَوْآتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ‘‘۔                                         (الاعراف:۲۶) 
ترجمہ:…’’اے آدم کی اولاد! ہم نے اتاری تم پر پوشاک جو چھپائے تمہاری شرمگاہوں کو اور زینت کا لباس اور پرہیزگاری کا لباس تو سب سے بہتر ہے ‘‘۔
۲:…وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَأْسَکُمْ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ‘‘۔                              (النحل:۸۱)
ترجمہ:…’’ اور (اللہ نے) بنادیئے تمہارے کرتے جو بچاتے ہیں تم کو گرمی (سردی) سے اور ایسے کرتے (زرہیں) جو بچاتے ہیں تم کو لڑائی میں، اسی طرح اللہ پورا کرتا ہے تم پر اپنا انعام، تاکہ تم فرمانبرداری کرو‘‘۔
۳:…حسب ِ ضرورت رہنے کے لیے مکان اور اثاث البیت
۱:…وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ بُیُوْتِکُمْ سَکَناً وَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْأَنْعَامِ بُیُوْتاً تَسْتَخِفُّوْنَہَا یَوْمَ ظَعْنِکُمْ وَیَوْمَ إِقَامَتِکُمْ وَمِنْ أَصْوَافِہَا وَأَوْبَارِہَا وَأَشْعَارِہَا أَثَاثاً وَّمَتَاعاً إلٰی حِیْنٍ‘‘۔                                         (النحل:۸۰)
ترجمہ:…’’اور اللہ نے بنادیئے تمہارے گھر تمہارے مسکن اور بنادیئے چوپایوں کی کھالوں کے گھر (چرمی خیمے) جو تم آسانی سے اٹھا لیتے ہو جب سفر میں ہوتے ہو اور جب قیام کی حالت میں ہو اور بھیڑوں کی اون سے اور اونٹوں کی پشم سے اور بکریوں کے بالوں سے گھروں کا سامان اور استعمال کی چیزیں تاحین حیات‘‘۔
قرآن حکیم کی یہ چند آیات بطور ’’گلے از گلزارے‘‘ ہم نے انتخاب کی ہیں، ان آیات میں انسان کی تین مسلمہ بنیادی ضرورتوں: ۱:… غذا، ۲:…لباس، ۳:…مسکن۔۔۔مکان۔۔۔ اور ان کے لوازمات سے حسب ِاستطاعت انتفاع کا حکم فرمایا ہے، بشرطیکہ اس میں اسراف ۔۔۔فضول خرچی ۔۔۔ نہ ہو۔
عفو وفاضل مال کی تعریف
قرآن وحدیث کی تفصیلی تعلیمات کی روشنی میں علماء نے فرمایا ہے کہ ہر شخص کے حرفہ، معاشی مشغلہ اور منصب کے اعتبار سے حد ِاعتدال میں رہ کر مذکورہ بالا ہر سہ ضروریات اور ان کے لوازمات ہرشخص کی حوائج اصلیہ ہیں۔ حال ومآل کے اعتبار سے جس قدر مال ان کے لیے ضروری ہو، اس سے جو مال ودولت فاضل ہو وہ عفو کا مصداق ہے۔ اس کو اللہ جل مجدہٗ کے تجویز کردہ مصارف ومدات میں خرچ کرتے رہنا انفاق فی سبیل اللہ کا اعلیٰ مرتبہ اور عند اللہ مطلوب ہے، اسی کے ذریعہ نظامِ معیشت اکتنازِ زر کے خطرہ سے قطعی طور پر محفوظ ومامون رہتا ہے، صحیح مسلم میں حدیث قدسی میں آیا ہے:
’’قال االلّٰہ تعالٰی: ابن آدم أَنفق أُنفق علیک وقال یمین اللّٰہ ملأیٰ سحاء لایغیضہا شئ اللیل والنہار‘‘۔                            (مسلم،ج:۱،ص:۳۲۶)
ترجمہ:…’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم کی اولاد! تو (جو میں نے دیا ہے) خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروںگا۔ رسول اللہ ا نے فرمایا: اللہ کا ہاتھ بھرا ہے، رات دن برس رہا ہے‘‘۔
نبی رحمت ا حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو وصیت فرماتے ہیں:
’’أنفقی ولاتحصی فیحصی اللّٰہ علیک ولاتوعی فیوعی اللّٰہ علیک‘‘۔                                                (مسلم،ج:۱،ص:۳۳۱)
ترجمہ:…’’تم خرچ کیے جاؤ اور شمار نہ کرو کہ اللہ تم پر شمار کرنے لگے اور تھیلیوں میں جمع کرکے مت رکھو کہ اللہ بھی اپنی تھیلی کا منہ بند کرلے‘‘۔
مصارف ومداتِ انفاق
قرآن حکیم نے اس انفاق کے مصارف ومدات بھی تجویز فرمادی ہیں، مگر یہ مصارفِ انفاق یقینا مصارفِ زکوٰۃ کے علاوہ ہیں، اس لیے کہ مصارفِ زکوٰۃ وصدقات تو ’’إنما الصدقات‘‘ کے عنوان سے قرآن حکیم نے مستقل طور پر بیان فرمائے ہیں۔ وجوہِ فرق زکوٰۃ کی بحث میں آتے ہیں۔
۱-ماں باپ،۲- قرابت دار، ۳-یتیم، ۴-مسکین، ۵-مسافر، ۶-عام مصارف خیر
مقدارِ انفاق اور مصارفِ انفاق کے ذیل میں ارشاد ہے:
’’یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ‘‘۔                                                        (البقرۃ:۲۱۵)
ترجمہ:…’’وہ تم سے دریافت کرتے ہیں: ہم کیا خرچ کریں؟ تم ان سے کہہ دو: جو مال بھی تم خرچ کرو تو وہ ماں باپ کے لیے اور قریب تر رشتہ داروں کے لیے، یتیموں، محتاجوں، مسافروں کے لیے (خرچ کرو) اور جو بھی نیک کام تم کرتے ہو، اللہ اس کو خوب جانتا ہے‘‘۔
۷-سائل، ۸-غیر مستطیع مدیون
انواعِ بر کے ذیل میں ارشاد ہے:
’’وَآتٰی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَالسَّائِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ‘‘۔                                     (البقرہ:۱۷۷)
ترجمہ:…’’اور مال دے اس کی محبت کے باوجود، رشتہ داروں کو، یتیموںکو، محتاجوں کو، مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں‘‘۔
واضح ہو کہ اس آیت کریمہ میں یہ انفاق زکوٰۃ کے علاوہ ہے، اس لیے کہ اداء زکوٰۃ کا ذکر تو اسی آیت میں مستقل عنوان ’’وآتی الزکوٰۃ ‘‘کے تحت فرمایا ہے۔
۹-ہمسایہ قریب، ۱۰-ہمسایہ بعید، ۱۱-شریکِ حرفہ، ۱۲-مملوک غلام کنیز
اس انفاق کا درجہ اللہ کی عبادت کے بعد ہے، ارشاد ہے:
’’وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْْئاً وَّبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً وَّبِذِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْجَارِ ذِیْ الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُوْراً‘‘۔                                                                               (النساء:۳۶)
ترجمہ:…’’اور عبادت کرو اللہ کی اور شریک مت کرو اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں، محتاجوں کے ساتھ اور پاس کے پڑوسی کے اور دور کے پڑوسی کے ساتھ اور پاس بیٹھنے والے (شریک حرفہ) کے ساتھ اور مسافروں اور جن کے تم مالک ہو (غلام کنیز یا نوکر خادم) ان کے ساتھ، بیشک اللہ پسند نہیں کرتا اترانے والے، شیخی مارنے والے لوگوں کو‘‘۔
۱۳-بیوی، ۱۴-اولاد
شوہروں کو بیویوں پر فوقیت حاصل ہونے کی ایک وجہ معاشی کفالت ہے، ارشاد ہے:
۱:…’’اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَائِ بِمَا فَضَّل اللّٰہ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ ‘‘۔                                            (النساء:۳۴)
ترجمہ:…’’مرد حاکم ہیں عورتوں پر، اس لیے کہ بڑائی دی اللہ نے بعض کو (مردوں کو) بعض پر (عورتوں پر) اور اس لیے کہ وہ (مرد) خرچ کرتے ہیں ان پر اپنے مال‘‘۔
۲:…’’وَعَلٰی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْف‘‘۔     (البقرۃ:۲۳۳)
ترجمہ:…’’اور جس کا بچہ ہے، اس کے ذمہ ہے ان (دودھ پلانے والیوں) کی خوراک اور لباس (کا خرچ)‘‘۔
۱۵-حرب ودفاع ورفاہِ عامہ
قرآن حکیم سامانِ حرب ودفاع وغیرہ پر اموال خرچ نہ کرنے کو اپنے ہاتھوں اپنی موت بلانے کے مرادف قرار دیتا ہے، ارشاد ہے:
’’وَأَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَاتُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ إِلٰی التَّہْلُکَۃِ‘‘۔      (البقرۃ:۱۹۵)
ترجمہ:…’’اور اللہ کی راہ میں (لڑائی میں) خرچ کرو اور اپنی جانوں کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو‘‘۔
۱۶-سائل،۱۷-غیر سائل
قرآن کریم انسان کے مال میں سائل وغیر سائل ہر دو کا حق تجویز کرتا ہے:
’’وَفِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ‘‘ ۔                    (الذاریات:۱۹)
ترجمہ:…’’اور ان (اللہ سے ڈرنے والوں) کے اموال میں حصہ ہے: مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (ضرورت مندوں) کا‘‘۔
نیز مانگنے والے باحمیت ضرورت مند کو مانگنے والے پر ترجیح دیتا ہے اور اربابِ اموال کو ایسے غیور ضرورت مندوں کی ضروریات پورا کرنے کی ترغیب دیتا ہے، ارشاد ہے:
’’لِلْفُقَرَائِ  الَّذِیْنَ أُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْباً فِیْ الْأَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ أَغْنِیَائَ  مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمَاہُمْ لاَ یَسْأَلُوْنَ النَّاسَ إِلْحَافاً ‘‘۔(البقرۃ:۲۷۳)
ترجمہ:…’’(وہ صدقات وخیرات) ان ضرورت مندوں کے لیے ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دیئے گئے ہیں (اپنی زندگی اللہ کے لیے وقف کردی ہے، اس لیے) وہ زمین میں (کاروبار کے لیے) سفر نہیں کر سکتے، نادان آدمی ان کو غنی سمجھتا ہے، تم ان کے چہروں سے ان کو پہچان لوگے (کہ یہ ضرورت مند ہیں) وہ نہ سوال کرتے ہیں، نہ اصرار‘‘۔
بہرصورت سائل کو جھڑکنے سے سختی کے ساتھ منع فرماتا ہے، بلکہ حکم دیتا ہے کہ اگر اللہ نے تم کو وسعت دی ہے تو اس کی ضرورت پوری کرکے شکر نعمت ادا کرو، ورنہ نرمی سے معذرت کردو، ارشاد ہے:
۱:…’’وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَرْ وَأَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ‘‘۔    (الضحیٰ:۱۰،۱۱)
ترجمہ:…’’مانگنے والے کو مت جھڑکو اور اپنے پروردگار کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔
۲:…’’قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَیْْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُہَا أَذًی وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ‘‘۔                                                                                            (البقرۃ:۲۶۳)
ترجمہ:…’’بھلی بات کہہ دینا اور (سائل کی ترش کلامی کو) معاف کردینا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ایذارسانی ہو‘‘۔
یہ انفاق کچھ مالداروں اور دولت مندوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ ہر مسلمان خواہ خوشحال ہو، خواہ تنگدست‘ اپنی استطاعت کے مطابق اس کا مخاطب ہے، ارشاد ہے:
’’ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِیْ السَّرَّائِ  وَالضَّرَّائِ  وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘۔                   (آل عمران:۱۳۳،۱۳۴)
ترجمہ:…’’وہ جنت تیار کی گئی ہے پرہیزگاروں کے لیے، جو خرچ کرتے ہیں خوشحالی میں بھی اور تنگدستی میں بھی اور ضبط کرتے ہیں غصہ کو اور معاف کرتے ہیں لوگوں (کی خطاؤں) کو اور اللہ پسند کرتا ہے نیکوکاروں کو‘‘۔
جو لوگ ان رضاکارانہ طور پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں پر طعن وتشنیع کرتے ہیں، ان کے متعلق ارشاد ہے:
’’الَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ الصَّدَقَاتِ وَالَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ إِلاَّ جُہْدَہُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْ سَخِرَ اللّٰہُ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ‘‘۔                                                          (التوبۃ:۷۹)
ترجمہ:…’’وہ لوگ جو طعنے دیتے ہیں ان ایمان والوں پر بھی جو دل کھول کر خیرات دیتے ہیں اور ان پر بھی جو نہیں رکھتے مگر اپنی محنت ومشقت (کی کمائی) پس مذاق اُڑاتے ہیں ان کا، اللہ اُن کا مذاق اڑائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘۔
اس انفاق سے صرف وہ تہی دست لوگ مستثنیٰ ہیں، جن کے پاس دینے کے لیے بجز دعاء خیر کے اور کچھ نہ ہو۔
’’لَیْْسَ عَلٰی الضُّعَفَائِ  وَلاَ عَلٰی الْمَرْضٰی وَلاَ عَلٰی الَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ مَا عَلٰی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ وَّاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ وَلاَ عَلٰی الَّذِیْنَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُکُمْ عَلَیْْہِ تَوَلَّوْا وَّأَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً أَلاَّ یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ‘‘۔                 (التوبۃ:۹۱،۹۲)
ترجمہ:…’’نہیں ہے کمزوروں پر اور نہ بیماروں پر اور نہ ان لوگوں پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے کچھ گناہ، جبکہ وہ خیر خواہی کریں اللہ اور اس کے رسول کی، نہیں ہے (ایسے) نیکوکاروں پر کوئی (الزام کی) راہ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور نہ ان لوگوں پر (کچھ گناہ) ہے جو تمہارے پاس جب آئے، تاکہ تم ان کو (جہاد کے لیے) سواری دو تو تم نے کہا: میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کوئی سواری نہیں تو وہ آنکھوں سے آنسو بہاتے (اور اپنی محرومی پر روتے) ہوئے واپس چلے گئے اس غم میں کہ ان کے پاس (جہاد میں) خرچ کرنے کو کچھ نہ تھا‘‘۔
واضح ہو کہ مذکورہ بالا ہر دو آیتیں غزوۂ تبوک کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں، لہٰذا انفاق حرب ودفاع کی مد سے متعلق ہے۔
اسلام کے معاشی نظام کو اکتنازِ دولت سے محفوظ رکھنے کی اہم ترین انفاق سے متعلق ان چند آیات پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔ ان آیات کی روشنی میں اس انفاق کے مصارف ومدات کی تشخیص وتحدید حسب ذیل ہے:
مستقل انفاقات:
 اہل خانہ: خود، بیوی، نابالغ یا ضرورت مند اولاد، ضرورت مند ماں باپ، عبید واماء، موجودہ زمانے میں ان کی جگہ نوکر وخادم ۔
اہل کنبہ: ضرورت مند قرابت دار الاقرب فالاقرب کی ترتیب سے، مجبور ومعذور قرابت دار۔
اہل محلہ:ضرورت مند ہمسایۂ قریب، ہمسایۂ بعید، شریک حرفہ وکسب معاش۔
اہل ملک: یتیم قرابت دار وغیر قرابت دار، مساکین ومحتاجین خواہ سائل ہوں خواہ غیر سائل، ضرورت مند اہل حرفہ وشرکاء کار۔
قومی وملکی: مصارفِ حرب ودفاع ورفاہِ عام۔
عارضی انفاقات
غیر مستطیع مسافر، غیر مستطیع مدیون، خسارہ زدہ (دیوالیہ) تاجر وکاروباری۔
نتیجۂ بحث
مذکورہ بالاتفصیل سے ظاہر ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کا دائرہ پوری قومی زندگی کے ۔۔۔شخصی، عائلی، انفرادی، اجتماعی، قومی وملکی۔۔۔ مصارف ومدات پر محیط ہے۔ اگر ملک کے اعلیٰ ، متوسط اور ادنیٰ طبقات خصوصاً دولت مندوں کا فاضل سرمایہ۔۔۔ جو عفو کا مصداق ہے۔۔۔ اللہ کے حکم کے مطابق مذکورہ بالا مدات میں برابر خرچ ہوتا ہے تو ملک میں سرمایہ کبھی منجمد ہو ہی نہیں سکتا، خواہ ان دولت مندوں کے پاس سرمایہ کتنی ہی فراوانی کے ساتھ کیوں نہ آتا رہے۔ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے قرآن حکیم دولت مندوں اور سرمایہ داروں کو اس انفاق پر مجبور کرنے یعنی سرمایہ کو متحرک اور دولت کو دائر وسائر رکھنے میں جبر سے کام لینے کے بجائے اخلاقی قوت سے کام لیتا ہے، یعنی حب مال اور ہوسِ زر اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بخل وامساک (کنجوسی) کو کافرانہ خصلت اور بدترین رذالت قرار دیتا ہے، ارشاد ہے:
۱:…’’کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ وَلَا تَحَاضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ وَتَأْکُلُوْنَ التُّرَاثَ أَکْلاً لَّمّاً وَتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبّاً جَمّاً ‘‘۔    (الفجر:۱۷،۱۸،۱۹،۲۰)
ترجمہ:…’’کوئی نہیں، بلکہ تم عزت سے نہیں رکھتے یتیم کو اور (ایک دوسرے کو) محتاج کو کھانا کھلانے پر برانگیختہ نہیں کرتے اور کھا جاتے ہو میت کا مال سمیٹ سمیٹ کر اور محبت کرتے ہو مال سے جی بھر کر‘‘۔
۲:…’’وَیْْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ الَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَعَدَّدَہٗ یَحْسَبُ أَنَّ مَالَہٗ أَخْلَدَہٗ کَلَّا لَیُنْبَذَنَّ فِیْ الْحُطَمَۃِ ‘‘۔                                             (الہمزۃ:۱،۲،۳،۴)
ترجمہ:…’’ہلاکت ہے ہر طعنے دینے والے عیب چینی کرنے والے کے لیے، جس نے مال خوب سمیٹا اور گن گن کر رکھا، وہ سمجھتا ہوگا اس کا مال سدا اس کے ساتھ رہے گا، ہر گز نہیں! وہ ضرور جھونکا جائے گا روند ڈالنے والی آگ میں‘‘۔
۳:…’’إِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ وَّإِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیْدٌ وَّإِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْْرِ لَشَدِیْدٌ ‘‘۔                                                                               (العادیات:۶،۷،۸)
ترجمہ:…’’بیشک انسان اپنے پروردگار کے بارے میں بڑا ہی بخیل ہے اور وہ خود ہی اپنے اس فعل پر گواہ ہے اور وہ مال کی محبت میں بہت ہی سخت ہے‘‘۔
۴:…’’وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیْْراً لَّہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘‘۔               (آل عمران:۱۸۰)
ترجمہ:…’’نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس چیز (کے خرچ کرنے) میں جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دی ہے کہ یہ بخل ان کے لیے بہتر ہے، بلکہ یہ بخل تو ان کے حق میں بہت ہی برا ہے، طوق بناکر ان کے گلے میں ڈالا جائے گا وہ مال جس (کے خرچ کرنے) میں انہوں نے بخل کیا ہے‘‘۔
بلکہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کے عقیدہ کے تحت دنیوی واخروی ترغیبات وترہیبات اور وعدووعید کے ذریعہ اس انفاق پر آمادہ کرتا ہے۔ قرآن کریم کا شاید ہی کوئی صفحہ آیاتِ انفاق اور دنیا وآخرت میں اس انفاق کے فوائد ومنافع اور بخل وامساک کے دنیوی واخروی نقصان اور مضرتوں کے ذکر سے خالی ہوگا۔
اس لیے قرآن حکیم زراندوز سرمایہ داروں اور مالداروں سے عام حالات میں زبردستی ان کے اموال چھین لینے اور ملکیت سے محروم کردینے کا حکم نہیں دیتا کہ یہ استحصال بالجبر اور ظلم صریح ہونے کے علاوہ معاشی حیثیت سے ملکی پیداوار میں ترقی کو مسدود کردینے اور قوم کے حوصلے اور نشاط کار کو تباہ کر دینے کے مرادف ہے اور یہ سب سے بڑا معاشی نقصان اور قومی جرم ہے۔
اسلام کے زریں عہد یعنی قرون اولیٰ ۔۔۔عہد صحابہؓ وتابعینؒ۔۔۔ کی تاریخ شاہد ہے کہ اغنیاء صحابہؓ وتابعینؒ نے اسی قرآنی حکمت عملی کے تحت برضا ورغبت اور بطیب خاطر مذکورہ بالاتمام انفرادی واجتماعی، عارضی ودائمی، قومی مدات ومصارف میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بے حساب اموال خرچ کیے ہیں اور  وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَائُ بِغَیْرِ حِسَابٍ کے تحت جیسے بے حساب اللہ نے ان کو دیا ہے، ویسے ہی بے حساب انہوں نے خرچ کیا ہے، اپنے اوپر بھی اور قوم کے اوپر بھی۔ تاہم چونکہ شحّ ۔۔۔مال کے خرچ کرنے میں بخل۔۔۔ انسانی فطرت کی ایک ناگزیر کمزوری ہے، ارشاد ہے:
’’وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ‘‘۔                   (النساء:۱۲۸)
ترجمہ:…’’اور نفوس انسانی میں بخل اور حرص پیوست ہے‘‘۔
بجز ان خدا سے ڈرنے والے لوگوں کے جن کو رب العالمین اپنے فضل سے اس کمزوری سے بچالے، ارشاد ہے:
’’وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَأُولٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘۔              (التغابن:۱۶)
ترجمہ:…’’اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل وحرص سے بچا دیئے گئے ،وہی ہیں فلاح پانے والے‘‘۔
وہ اغنیاء آج بھی اپنے اسلاف کی طرح کشادہ دل اور کشادہ دست موجود ہیں اور اُنہی کی فراخ دستی کے نتیجہ میں پاکستان واحد ملک ہے، جس میں حکومت کے اثر سے آزاد بیشمار تعلیمی اور رفاہی ادارے چل رہے ہیں، مگر عام طور پر ملک کا سرمایہ دار اور مالدار طبقہ قرآن وحدیث کی تعلیمات سے بے بہرہ اور ناواقف ہونے کی وجہ سے رب العالمین کے اس فضل سے محروم ہے۔یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔
بہرحال شح انسان کی ایک فطری کمزوری ہے، جو انفاق فی سبیل اللہ کی راہ میں حائل ہوکر سد راہ بن جاتی ہے، اس لیے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں ائمہ مجتہدین اور فقہاء کرام نے انفاق کی حسب ذیل مدات میں اسلامی حکومت کو اختیار دیا ہے کہ وہ اغنیاء اور مالی استطاعت رکھنے والے لوگوں کو خرچ پر مجبور کرسکتی ہے۔
۱:…بیوی کا نفقہ شوہر کی مالی استطاعت کے معیار پر۔
۲:…نابالغ اولاد کا نفقہ۔
۳:…ضرورت مند والدین کا نفقہ۔
۴:…معذور قرابت داروں کا نفقہ۔
۵:…مصارفِ حرب ودفاع وامورِ رفاہِ عام،اگر حکومت کے خزانے ۔۔۔بیت المال۔۔۔ میں ان اخراجات کے لیے بقدرِ ضرورت مال نہ ہو۔
۶:…وہ ہنگامی حالات جن میں اسبابِ سماوی کی وجہ سے یا سرمایہ داروں کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے ملک معاشی بحران میں گرفتار ہوگیا ہو، یعنی ملک کا تمام تر سرمایہ اور وسائل دولت چند افراد یا خاندانوں کے ہاتھوں میں سمٹ آئے ہوں اور اکتنازِ زر اور انجمادِ دولت کی صورت پیدا ہوگئی ہو۔
           

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین