بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

منصب ِنبوت کی اجمالی تشریح

منصب ِنبوت کی اجمالی تشریح



نبوت کی حقیقت
نبوت کی اصلی حقیقت تو اسی رب العزت قدوس وسبوح جل ذکرہ کو معلوم ہے جس نے نظام عالم کی ظاہری وباطنی اصلاح کے لئے اس ربانی عطیہ کی سنت عالم میں جاری کردی تھی‘یا پھر اس کو جو اس عطیہٴ الٰہی سے سرفراز کیا گیا ہو‘ کسی اور پر اس کی پوری حقیقت کا روشن ہونا حقیقت سے بعید ہے‘ اس لئے کہ انسان کے پاس حقائقِ اشیاء کے معلوم کرنے کے لئے عقل ہے اور نبوت ایک ایسی حقیقت ہے جو عقل سے وراء الوراء ہے‘ عقل وعقلیات کی سرحد جہاں ختم ہوتی ہے‘ وہاں سے نبوت کی سرحد شروع ہوتی ہے‘ لیکن محققین اسلام اور اکابر امت نے قرآن کریم کی روشنی میں اور امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ا کی مقدس زندگی کے آثار واحوال کے مشاہدہ وعلم کے بعد جو تحقیقات پیش کی ہیں وہ یقینا ایک حد تک اس حقیقتِ کبریٰ کی جلوہ نمائی کے لئے کافی ہیں اور ان کی عقولِ سلیمہ نے اس حقیقت کی تفہیم میں جو عقلی پیرائے اختیار کئے ہیں اور نظائر وشواہد سے اس کو سمجھایا ہے‘ وہ ہمارے ”علم کلام“ کا اہم ترین جزء ہیں‘ امام ابو الحسن اشعری‘ ابن حزم ظاہری‘ قاضی ابوبکر باقلانی‘ ابو اسحاق اسفرائینی ‘ ابو یعلی‘ ابو المعالی‘ امام الحرمین عبد الکریم شہر ستانی‘ امام غزالی‘ فخر الدین رازی ‘ سیف الدین آمدی‘ ابن خلدون عز الدین عبد السلام‘ ابن تیمیہ‘ وغیرہ وغیرہ محققینِ اسلام نے تیسری صدی ہجری کے وسط سے لے کر آٹھویں صدی کے وسط تک اس موضوع پر گرانمایہ علمی جواہرات کا ایک نادر ترین ذخیرہ چھوڑا ہے۔ محققینِ ہند اور متاخرین علماءِ اسلام میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویاور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی دیوبندی کے اسمائے گرامی اس سلسلہ کی صف اول میں درج ہونے چاہئیں‘ اور سچ تو یہ ہے کہ اس موضوع پر جو جواہر پارے شاہ دہلی نے پیش کئے ہیں اس کی ہمسری کرنے کے لئے قدماء میں سوائے حجة الاسلام غزالی کوئی دوسری ہستی زیادہ نمایاں نظر نہیں آتی یا تو یہ واقعہ ہے یا ہماری نظر کا قصور ہوگا‘ یہ دوسری بات ہے کہ ایک ہزار برس کی تحقیقات کا عطران کے سامنے موجود تھا اور ان کی تحقیقات کی تیز شعاعوں میں منزل مقصود کی رہنمائی آسان ہوگئی‘ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے حقائق کی تفہیم وافہام کے لئے جس سرچشمہ کی ضرورت تھی‘ شاہ دہلی خود اس سے سرشار تھے۔امام غزالی کی کتابوں میں یہ بحث ”المنقذ من الضلال“ و”معارج القدس“ میں سب سے عمدہ شکل میں موجود ہے‘ امام رازی کی ”تفسیر کبیر“ و”مطالب عالیہ“ میں کافی سامان ہے‘ شاہ دہلی نے چند کتابوں میں اس کی پوری تحلیل اور کامل تجزیہ کیا ہے۔ بالخصوص اپنی کتاب حجة اللہ البالغة کی پہلی جلد کے مختلف ابواب میں نبوت کی حقیقت‘ منصب نبوت کی تشریح‘ نبوت کے خواص ولوازم ‘ انبیاء ومصلحین کے فروق وغیرہ کو خوب واضح کیا ہے۔ امیر یمانی کی ”ایثار الحق علی الخلق“ میں اس موضوع میں کافی لمبی بحث موجود ہے‘ ابن تیمیہ کی اس موضوع پر ”کتاب النبوات“ تقریباً تین سو صفحات میں موجود ہے‘ لیکن حق یہ ہے کہ ابن تیمیہ نے باوجود علمی تبحر وتدقیق اور باوجود جلیل القدر محقق ہونے کے اس موضوع کا حق نہیں ادا کیا۔امام غزالی کے چند صفحے اور شاہ دہلی کے چند ورق کو میں اس ساری کتاب پر ترجیح دیتا ہوں‘ چند ضمنی فوائد ونکات کے سوا اس میں کوئی اہم بات یا علمی تحقیق اس موضوع پر نہیں‘ جس کی ان سے توقع تھی۔ مجھے اس وقت نبوت کی عقلی تشریح کرنی منظور نہیں‘ کیونکہ اس کی تشریح سے پہلے ”روح“ کی حقیقت سمجھانی ہوگی جو بجائے خود ایک مستقل دقیق وغامض علمی مضمون ہے‘ جس میں ارسطونے ”کتاب النفس“ لکھی ہے اور اس کی تلخیص وتراجم وشروح ثامسطیوس‘ لامقیدوروس‘ استیلقوس‘ اسکندر افرودوسی‘ ابن بطریق وغیرہ وغیرہ نے کی ہیں۔ اسلامی دور میں ابو العباس احمد سرخسی (المتوفی ۳۸۶ھ صدقة بن منجا الدمشقی ۲۶۰ھ مؤرخ مشہور مسعودی ۳۴۶ھ امام غزلی ۵۰۵ھ امام رازی ۶۰۶ھ ابن القیم ۷۵۲ برہان الدین بقاعی ۸۸۵ھ وغیرہ وغیرہ متکلمین اسلام اور علماء امت نے ”روح“ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں‘ ان میں سے ”معارج القدس“ غزالی کی اور کتاب ”الروح“ ابن القیم کی اور ”سر الروح“ بقاعی کی اور ”کتاب الفتوح“ لمعرفة احوال الروح“ بعض علماء عصر کی اور الطاف القدس “شاہ ولی اللہ کی ہمارے سامنے مطبوعہ موجود ہیں‘ کہنا یہ ہے کہ حقیقت نبوت کی تشریح کے لئے ”حقیقت روح“ بیان کرنا ضروری ہوگی۔ اس وقت ان غامض ودقیق علمی موضوعات کی طرف جانا نہیں اور نہ فیصلہ کرنا ہے۔ صرف اپنے سلف صالحین کے چند علمی کارناموں سے طلبہ کو واقف کرانا تھا‘ کوئی مشکل سے مشکل دقیق سے دقیق علمی موضوع اور خصوصاً جس کا تعلق دین اسلام سے ہوا ایسا نہیں ہوگا جس پر کہ ہمارے اکابر نے اپنی بیش بہا تحقیقات کا ذخیرہ جمع نہ کیا ہو۔ اس وقت مقصود صرف اتنا ہے کہ یہ بتلایاجائے کہ ”نبی“ (پیغمبر) کسے کہتے ہیں؟ اور قرآن کریم میں ”انبیاء“ اور “نبوت“ کے کیا کیا خواص بتلائے گئے ہیں؟ تاکہ آیات بینات کی روشنی میں ایک مسلمان صحیح عقیدہ کو سمجھ سکے‘ اور جب کسی کی نبوت ثابت ہوجائے مسلمان کے لئے اس نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوگا اور جی ایمان لایاگیا اس وقت ”نبی“ ایک امتی کے لئے ایک برگزیدہ مقدس واجب الاطاعت ہستی ہوگی۔ اس کے احکام‘ اس کی مرضیات‘ اس کے اوضاع واطوار‘ اس کے اخلاق وعادات ‘ غرض کل نظام حیات میں اس کی سنت افرادامت میں سے ہر فرد کے لئے دلیل راہ ہوگی۔ پھر وہاں کیوں؟ اور کیوں کر؟ کا سلسلہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ سوائے تسلیم وانقیاد واطاعت وفرمانبرداری کے کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے‘ اس کی رضامندی خدائے تعالیٰ کی رضامندی ہوتی ہے‘ اس لئے کہ خود حق تعالیٰ یوں ہی فرما چکے ہیں‘ جیساکہ آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ واضح ہوجائے گا۔ ہاں عبادت بہرحال اللہ تعالیٰ کی ہوگی‘ رسول کی اطاعت سے اس کی عبادت لازم نہیں آتی‘ عبادت وبندگی اور چیز ہے‘ اطاعت وتسلیم اور چیز ہے‘ دونوں میں خلط نہ کرنا چاہئے۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ رسول کی رہنمائی میں اللہ تعالیٰ شانہ کی عبادت وبندگی کی جائے‘ اب وہ رہنمائی مختلف صورتوں میں ہوگی۔ کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف صاف طور پر نسبت کرکے ارشاد فرمایا جائے گا‘ کبھی اپنی طرف سے کچھ ارشاد فرمائیں گے‘ گو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوگا‘ لیکن لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی نسبت نہیں ہوگی‘ کبھی ان کے اتباع‘ ان کے طرز وطریقہ کو دیکھ کر رہنمائی حاصل کریں گے۔ غرض کہ رہنمائی حاصل کرنے کے طریقے مختلف ہوں گے۔
نبی ورسول یا پیغمبر
لغت عرب میں ”نبأ“ اس خبر کو کہتے ہیں جس میں فائدہ ہو اور فائدہ بھی عظیم اور اس خبر سے سننے والے کو علم واطمینان بھی حاصل ہو۔غرض کہ تین چیزیں اس میں ضروری ہوں:
۱- خبر فائدے کی ہو۔
۲-فائدہ بھی عظیم الشان ہو۔
۳- سننے والے کو یقین کامل یا اطمینانِ قلب حاصل ہوجائے۔
قرآن کریم نے اسی لغت سے ”نبی“ کا لفظ ایک ایسے انسان کے لئے استعمال کیا جس نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے فائدے اور نفع کی ایسی عظیم الشان خبریں سنائیں‘ جن سے ان کی عقول قاصر ہیں‘ صرف اپنی عقل نارسا سے وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی باتیں وہی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے ہوں گی اور پھر ان خبروں پر اطمینان یا علم جب حاصل ہوسکتا ہے کہ خبر دینے والا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل بھی پیش کرے یا صرف اس کی زندگی ہی اتنی پاکیزہ‘ اتنی اعلیٰ ومقدس ہو کہ اس پر جھوٹ کا وہم وگمان بھی نہ ہو سکے‘ اس کی بات سنتے ہی لوگوں کو یقین آجائے۔ اب صرف ”نبی“ کا لفظ ہی لغت عرب کے مطابق ان سب حقائق پر روشنی ڈالتا ہے جس کی تفصیل وتحقیق کے لئے صفحات بھی ناکافی ہیں‘ شیطانی وساوس یا طبعی حجود وعناد اگر قبول سے مانع آجائے یہ دوسری بات ہے۔
رسالت
لغت عرب میں ”رسالت“ کے معنی: ایک پیغام کے ہیں اور ”رسول“ کہتے ہیں: پیغام پہنچانے والے کو۔ قرآن کریم نے اس لفظ کو اس پیغام پہنچانے والے کے لئے استعمال کیا جو اللہ تعالیٰ شانہ کی جانب سے دین ودنیا کے مصالح کے بارے میں پیغامات اس کے بندوں تک پہنچائے۔ اب خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام کی زبان میں ”نبی ورسول“ وہ سفیر ہے جس کا خود اللہ تعالیٰ نے انتخاب فرمایاہو‘ خدائے تعالیٰ کے پیغامات اس کے بندوں تک پہنچاتا ہو‘ دین ودنیا کے مصالح ومنافع کے لئے ایک ”قانون حیات“ ایک ”نظام العمل“ ایک دستور اساسی“ پیش کرتا ہو‘ ایسے احکام‘ ایسے حقائق‘ ایسے امور ان کو ارشاد کرتا ہو جن سے ان کی عقول قاصر ہوں‘ ایسی دقیق وغامض باتوں کی اطلاع دیتا ہو جہاں ان کا طائرِ عقل پرواز نہ سکتا ہو‘ ان کے شکوک وشبہات کا ازالہ کرتا ہو‘ نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی وعذاب سے ڈراتا ہو جو حکم دیتا ہو وہ خود کرتا ہو‘ خود ان کے لئے مجسم پیکر عمل ہو‘ اس قانونِ حیات ونظام العمل کے لئے اس کا وجود آئینہ ہو۔ یہ ہیں اسلام کی زبان میں‘ شریعت کی لغت میں ”رسول ونبی“ کے معنی۔ اسی کو ہم اپنی زبان میں پیغمبر کہتے ہیں۔
”رسول ونبی“ میں کیا فرق ہے یہ ایک محض علمی چیز ہے‘ ہمارے موضوع سے خارج ہے‘ لیکن اجمالاً اتنا واضح رہے کہ حافظ ابن تیمیہ نے ”کتاب النبوات“ میں جو فرق بیان کیا وہ ہمیں سب سے بہتر معلوم ہوتا ہے‘ جس کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ: ”جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے صرف غیب کی خبروں سے قوم کو اطلاع دیتا ہو‘ ان کو نصیحت کرتا ہو‘ ان کی اصلاح کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کو ”وحی“ ہوتی ہو‘ وہ ”نبی“ کہلا تا ہے‘ اگر ان اوصاف کے ساتھ وہ کفار کی طرف اور نافرمان قوم کو تبلیغ پر مامور بھی کیا جائے تو وہ ”رسول“ بھی ہوگا۔ اب ہم قرآن کریم کی روشنی میں ”انبیاء ورسل“ کے خواص ولوازم پیش کرتے ہیں‘ لیکن معلوم رہے کہ ”انبیاء ورسل“ کے عام خصائص بحیثیت نبوت ورسالت سب مشترک ہیں‘ قرآن کریم نے جتنے کمالات اور اوصاف انبیاء ورسل کے بیان کردیئے ہیں‘ وہ سب حضرت خاتم الانبیاء رسول اللہ ا میں بوجہ کمال موجود ہیں‘ کیونکہ آپ سب انبیاء ورسل سے افضل ہیں‘ آپ سید الانبیاء ہیں‘ خاتم الانبیاء ہیں‘ یہ نصوصِ قطعیہ کا مفاد ہے اور امتِ مرحومہ کا ”اجماعی عقیدہ“ ہے اور تاریح عالم کی ”حقیقتِ ثابتہ“ ہے اور اسلامی دور کے حیرت انگیز کارنامے اس کے شاہد عدل ہیں‘ قرآن کریم نے بہت سے انبیاء ورسل کے خصائص وکمالات بیان کرنے کے بعد آپ کو حکم دیا اور فرمایا:
”اولئک الذین ہداہم اللہ فبہداہم اقتدہ“۔ (سورہٴ انعام)
ترجمہ:․․․”یہ حضرات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے آپ بھی انہیں کے طریقہ پر چلئے“۔
اس سے یہ صاف معلوم ہوا کہ انبیاء کے جتنے عملی وعلمی کمالات تھے‘ آپ ان سے مالا مال تھے‘ اس لئے ہم جتنی آیات کریمہ مختلف انبیاء ورسل کے خصائص واوصاف میں پیش کریں گے‘ مقصود ان سے صرف نبوت کے کمالات وخصائص ہوں گے‘ جو اصل نبوت کی وجہ سے قدر مشترک سب میں موجود ہیں۔
منصبِ نبوت ورسالت
نبوت ایک عطیہٴ ربانی ہے‘ جس کی حقیقت تک رسائی غیر نبی کو نہیں ہوسکتی‘ اس کی حقیقت کو یا تو حق تعالیٰ جانتا ہے جو نبوت عطا کرنے والا ہے یا پھر وہ ہستی جو اس عطیہ سے سرفراز ہوئی‘ مخلوق بس اتنا جانتی ہے کہ اس اعلیٰ وارفع منصب کے لئے جس شخص کا انتخاب کیا گیا ہے وہ:
۱- معصوم ہے‘ یعنی نفس کی ناپسندیدہ خواہشات سے پاک صاف پیدا کیا گیا ہے اور شیطان کی دسترس سے بالا تر‘ عصمت کے یہی معنی ہیں کہ ان سے حق تعالیٰ کی نافرمانی کا صدور ناممکن ہے۔
۲- آسمانی وحی سے ان کا رابطہ قائم رہتا ہے اور وحی الٰہی کے ذریعہ ان کو غیب کی خبریں پہنچتی ہیں‘ کبھی جبریل امین کے واسطہ سے اور کبھی بلا واسطہ جس کے مختلف طریقے ہیں۔
۳- غیب کی وہ خبریں عظیم فائدہ والی ہوتی ہیں اور عقل کے دائرے سے بالاتر ہوتی ہیں‘ یعنی انبیاء علیہم السلام بذریعہ وحی جو خبریں دیتے ہیں‘ ان کو انسان نہ عقل وفہم کے ذریعہ معلوم کرسکتا ہے نہ مادی آلات وحواس کے ذریعہ ان کا علم ہوسکتا ہے۔
ان تین صفات کی حامل ہستی کو مخلوق کی ہدایت کے لئے مبعوث ومامور کیا جاتاہے‘ گویا حق تعالیٰ اس منصب کے لئے ایسی شخصیت کا انتخاب فرماتا ہے جو افرادِ بشر میں اعلیٰ ترین صفات کی حامل ہوتی ہے‘ اس انتخاب کو قرآن کریم کہیں ”اجتباء“ سے‘ کہیں ”اصطفاء“ سے اور کبھی لفظ ”اختیار“ سے تعبیر فرماتاہے‘ یہ عام صفات وخصویات تو ہر نبی ورسول میں ہوتی ہیں‘ پھر حق تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرماکر وہ درجات عطا کرتا ہے جن کے تصور سے بھی بشر قاصر ہے‘ گویا نبوت‘ انسانیت کی وہ معراجِ کمال ہے جس سے کوئی بالا تر منصب اور کمال عالم امکان میں نہیں‘ ان صفات ِ عالیہ سے متصف ہستی کو ہدایت واصلاح کے لئے مبعوث کرکے انہیں تمام انسانیت کا مطاع مطلق ٹھہرایا جاتا ہے ‘ ارشاد ہے: ”وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ“ یعنی ہم نے ہر رسول کو اسی لئے بھیجا کہ ا س کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے۔ پس حکم خداوندی یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے‘ وہ مطاع اور واجب الاطاعت متبوع ہے‘ اور امت اس کی ہدایت کے تابع اور مطیع فرمان۔
نبی ہر نقص وکوتاہی سے بالاتر ہوتا ہے
جب نبوت ورسالت کے بارے میں یہ صحیح تصور قائم ہوگیا کہ وہ ایک عطیہٴ ربانی ہے‘ کسب ومحنت اور مجاہدہ وریاضت سے حاصل نہیں ہوتا‘ بلکہ حق تعالیٰ اپنے علم محیط‘ قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے پاک اور معصوم ومقدس ہستی کو پیدا فرماکر اس کو وحی آسمانی سے سرفرازفرماتا اور مخلوق کی ہدایت وارشاد کے منصب پر اسے کھڑا کرتا ہے تو اس سے عقلی طور پر خود بخود یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی ورسول کی شخصیت ہرنقص سے‘ ہر کوتاہی سے اور ہر انسانی کمزوری سے بالاتر ہوتی ہے‘کیونکہ اگر خود اس کی شخصیت انسانی کمزوریوں میں ملوث ہو تو وہ ہدایت واصلاح کی خدمت کیسے انجام دے سکے گا۔ ”آنکہ خود گم است کرا رہبری کند“ چنانچہ سنت اللہ یہی ہے کہ نبی کا حسب ونسب‘ اخلاق وکردار‘ صورت وسیرت خلوت وجلوت اور ظاہر وباطن ایسا پاک اور مقدس ومطہر ہوتا ہے جس سے ہرشخص کا دل ودماغ مطمئن ہو اور کسی کو انگشت نمائی کا بال برابر بھی موقعہ نہ مل سکے‘ یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص شقاوتِ ازلی کی وجہ سے اس کی دعوت پر لبیک نہ کہے اور جحود وانکارمیں مبتلا ہوکر ہدایت سے محروم رہ جائے‘ لیکن یہ ممکن نہیں کہ بدتر سے بدتر دشمن بھی نبی میں کسی انسانی کزوری کی نشاندہی کر سکے۔
نبی کریم ا کے خصائص واوصاف
قرآن کریم میں انبیاء کرام اور رسولانِ عظام علیہم الف الف صلاة وسلام کے بارے میں جو کچھ فرمایاہے اور ان کے جن جن خصائص وکمالات اور اخلاق واوصاف کی نشاندہی فرمائی ہے یہ جگہ ان کی تفصیل کے لئے کافی نہیں‘ یہاں اس سمندرکے چند قطرے پیش کئے جاتے ہیں جو حق تعالیٰ شانہ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ ا کے بارے میں ارشاد فرمائے ہیں:
۱:-”یا ایہا النبی انا ارسلناک شاہداً ومبشراً ونذیراً وداعیاً الی اللہ باذنہ وسراجاً منیراً“۔ (الاحزاب:۴۵)
ترجمہ:․․․”اے نبی ! بے شک ہم نے آپ کو اس شان کا رسول بناکر بھیجا ہے کہ آپ گواہ ہوں گے اور آپ بشارت دینے والے ہیں اور ڈرانے والے ہیں اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں اور آپ ایک روشن چراغ ہیں“۔
۲:-”انا ارسلناک شاہداً ومبشراً ونذیراً لتؤمنوا باللہ ورسولہ وتعزروہ وتوقروہ“۔ (الفتح:۸‘۹)
ترجمہ:․․․․”ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اوربشارت دینے والا اور ڈرانے والا کرکے بھیجا ہے‘ تاکہ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو“۔
۳:-”یٰس والقرآن الحکیم انک لمن المرسلین علی صراط مستقیم“۔ (یٰس:۱تا۴)
ترجمہ:․․․”یٰس‘ قسم ہے قرآن یا حکمت کی کہ بے شک آپ ا منجملہ پیغمبروں کے ہیں‘ سیدھے رستہ پر ہیں“۔
۴:-”ن والقلم وما یسطرون ما انت بنعمة ربک بمجنون وان لک لاجراً غیر ممنون وانک لعلیٰ خلق عظیم“۔ (ن:۱تا۴)
ترجمہ:․․․”ن‘ قسم ہے قلم کی اور ان (فرشتوں) کے لکھنے کی کہ آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں‘ اور بے شک آپ کے لئے ایسا اجر ہے جو ختم ہونے والا نہیں اور بے شک آپ اخلاق (حسنہ) کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں“۔
۵:-”قدجاء کم من اللہ نور وکتاب مبین“۔ (المائدة:۱۵)
ترجمہ:․․․”تحقیق تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور کتاب واضح (یعنی قرآن مجید)“۔
۶:-”فالذین آمنوا بہ وعزروہ ونصروہ واتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ہم المفلحون“۔ (الاعراف:۱۵۷)
ترجمہ:․․․”سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں“۔
۷:-”ورفعنا لک ذکرک“۔ (الم نشرح)
ترجمہ:․․․”اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا“۔
۸:-”قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ“۔ (آل عمران:۳۱)
ترجمہ:․․․”آپ فرمادیجئے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے“۔
۹:-”وان تطیعوہ تہتدوا“۔ (النور:۵۴)
ترجمہ:․․․”اور اگر تم نے ان کی اطاعت کرلی تو راہ پر جالگو گے“۔
۱۰:-”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة لمن کان یرجوا اللہ والیوم الآخر “۔ (احزاب:۲۱)
ترجمہ:․․․”تم لوگوں کے لئے یعنی ایسے شخص کے لئے جو اللہ سے اور روز آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکر الٰہی کرتا ہو رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا“۔
۱۱:-”فلاوربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لایجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیماً“۔ (النساء:۶۵)
ترجمہ:․․․”پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایماندارنہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو‘ اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کرادیں پھر آپ کے تصفیہ سے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورا تسلیم کریں“۔
۱۲:-”لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم یتلوا علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین“۔ (آل عمران:۱۶۴)
ترجمہ:․․․”حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جب کہ ان میں انہی کی جنس سے ایک ایسے پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان لوگوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں اور ان کو کتاب اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں اور بالیقین یہ لوگ اس سے قبل صریح غلطی میں تھے“۔
۱۳:-”وانزل اللہ علیک الکتاب والحکمة وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیماً“۔ (النساء:۱۱۳)
ترجمہ:․․․”اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور فہم کی باتیں نازل فرمائیں اور آپ کو وہ وہ باتیں بتلائی ہیں جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے“۔
ترجمہ آیات سے آنحضرت ا کے صفات وکمالات کا نقشہ سامنے آگیا ہوگا‘ جس کا حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہا کو دعوت الی اللہ کا آفتاب عالم تاب بنایا ہے‘ تاکہ امت ان پر ایمان لائے ان کی توقیر کرے اور ان کی امداد کرے‘ بلا شبہ آپ سراسر صراط مستقیم پر ہیں۔ تاریخ عالم اس کی شہادت دیتی ہے کہ آپ خلق عظیم سے آراستہ ہیں‘ جو ان پر ایمان لائیں اور ان کی توقیر ونصرت کریں اور جو آسمانی وحی کا نور الٰہی ان کے ساتھ ہے اس کا بھی اتباع کریں آخرت کی فلاح انہی کے لئے ہے‘ ان کی اتباع سے حق تعالیٰ کے اور آخرت کے امید وار ہیں وہ انہی کو اپنا مقتدا وپیشوا بنائیں گے جو لوگ اپنے نزاعات ومخاصمات میں بھی ان کے فیصلوں کو بدل وجان تسلیم نہ کریں خدا کی قسم کبھی مومن نہیں ہوسکتے‘ حق تعالیٰ کا امت محمدیہ پر بڑا احسان ہے جن میں ایسی ہستی مبعوث فرمائی کہ حق تعالیٰ کی آسمانی وحی ان کو پڑھ کر سنائیں‘ ہرقسم کے شرک وکفر‘ معصیتوں اور جاہلیت کی رسموں سے ان کا تزکیہ کریں‘ ان کو کتاب وسنت کی تعلیم دیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑا فضل فرمایا کہ کتاب وحکمت کے وہ تمام علوم ان کو سکھائے جو نہ جانتے تھے۔ چند آیات بینات کا یہ سرسری خاکہ ہے‘ حق تعالیٰ کی اس آسمانی شہادت کے بعد کیا کوئی کمال اب ایسا باقی ہے جو جناب رسول اللہ ا کو نہ دیا گیا ہو؟ اسی آسمانی وحی ربانی میں تمام امت کو یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے جناب رسول اللہ ا پر رحمت ودرود بھیجتے ہیں‘ اس لئے تمہیں حکم ہے کہ تم بھی ان پر درود بھیجو۔ پانچوں وقت اذان میں ان کی رفعت وبلندئ مقام کا اعلان ہوتا ہے‘ ہر نماز میں ان پر درود وسلام کا مخصوص انداز میں حکم ہے گویا کوئی نماز جو حق تعالیٰ شانہ کی مخصوص عبادت ہے اور حق تعالیٰ کے ساتھ خصوصی مناجات ہے آپ کے ذکر خیر اور درود وسلام سے خالی نہیں‘ بلکہ اسی پر نماز کا اختتام ہوتا ہے‘ اس لئے تمام امت اور آسمانی کتابوں کا بھی فیصلہ ہے: ”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین