بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مناجاتِ انبیاء ؑ قرآن کریم میں مذکور انبیاء علیہم السلام کی مقبول دعائیں (پہلی قسط)

مناجاتِ انبیاء ؑ

قرآن کریم میں مذکور انبیاء علیہم السلام کی مقبول دعائیں                                          (پہلی قسط)

    حضرات انبیاء کرام o اللہ تعالیٰ کے مقرب، برگزیدہ اور مستجاب الدعوات بندے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں سنتے اور قبول کرتے ہیں۔ لوگوں میںسب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء کرامo پر آتی ہیں۔ آزمائش کی گھڑیوں میںان کا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟ وہ اللہ کی طرف کیسی عاجزی کے ساتھ رجوع کرتے ہیں؟ ان کے دل سے کیا دعا نکلتی ہے؟ ان کا عزم اوریقین کس قدر مضبوط ہوتا ہے؟ سخت سے سخت امتحانات میں بھی ان کی تمام تر امیدیں اللہ تبارک وتعالیٰ سے کس طرح وابستہ رہتی ہیں؟ وہ اپنی نگاہ اور توجہ ظاہری اسباب کے بجائے خالق اسباب کی طرف ہمیشہ کیسے مرکوز رکھتے ہیں؟ یہ سب کچھ ہمیں قرآن کریم بتاتا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’إِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَھَبًا وَکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ۔‘‘ (الانبیائ:۹۰) ترجمہ:’’یقینا یہ لوگ(انبیائ) بھلائی کے کاموں میں تیزی دکھاتے تھے، اور ہمیں شوق اور رغبت کے عالم میں پکارا کرتے تھے، اور ان کے دل ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔‘‘     عموماً لوگوں کے ذہنوں میںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو انبیاء کرامo تھے، اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ بندے تھے، ان کی دعا تو لازمی سنی جائے گی اور قبول بھی ہوگی، جبکہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے عام بندے ہیں اور گناہ گار بھی ہیں، ہماری دعائیں کہاں اور کیسے قبول ہوں گی؟ اس طرح کی سوچ رکھنا درحقیقت یہ وسوسہ اور مایوسی ہے جو شیطان کی طرف سے ہے، اللہ تعالیٰ نے واضح اور صاف الفاظ میں اس وسوسہ اور مایوسی کو ختم کیا اور ارشاد فرمایا: ’’وَ إِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ۔‘‘                                    (البقرۃ:۱۸۶) ترجمہ :’’اور (اے پیغمبر!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو (آپ ان سے کہہ دیجیے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں، لہٰذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں، اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہِ راست پر آجائیں۔‘‘     انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس سے مانگا جائے تو اس پر گراں گزرتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ سے اگر نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہے، گویا عطائے خداوندی خود سائلوں کی تلاش میں رہتی ہے، اور گویا اس شعر کا مصداق ہوتی ہے کہ :  ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں     اللہ تعالیٰ تو بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، البتہ دعا مانگنے کا طریقہ آنا چاہیے اورمذکورہ آیت کریمہ میں اس کی دو شرطیں بیان کی گئی ہیں:     ۱- مانگنے والا میرا حکم ماننے والا ہو۔         ۲-اس کا ایمان اور یقین کامل ہو۔     ظاہر ہے کہ جب ہم کسی سے سوال کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر اس کی بڑائی، طاقت اور قدرت ضرور ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعا کو سن رہا ہے اور وہ اس کو قبول بھی ضرور کرے گا۔ ایک حدیث میں آتا ہے : ’’اللہ تعالیٰ اس درجہ باحیا اور کریم ہے کہ وہ کسی دعا کرنے والے کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتا۔‘‘ اس لیے ہمیشہ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ اگر ہماری مانگی گئی دعا فوراً قبول نہیں ہوئی تو یقیناً اس میں انسان کی بہتری ہوگی، کیونکہ انسان خود اپنی بھلائی کو جانچ نہیں سکتا۔ قرآن‘ خالق کا بندے سے ہم کلام ہونے کا نام ہے تو دعا بندے کا اپنے خالق سے ہم کلام ہونے کا نام ہے ۔     اور یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ یہ بھی کوئی ضروری نہیںکہ ہم جو دعا مانگیںوہ ہر حال میںقبول ہو، بلکہ احادیث طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کی شرائط وآداب کو بجالاتے ہوئے مانگی ہوئی کوئی دعا کبھی رائیگاں نہیںجاسکتی، بلکہ اللہ تعالیٰ وہ دعا کسی اور شکل میں ضرور قبول فرمالیتے ہیں، کیونکہ دعا کی قبولیت کی مختلف صورتیں ہیں:     ۱-دعا کا فوراً قبول ہوجانا۔     ۲-مطلوبہ دعا کا عرصہ بعد قبول ہونا۔     ۳- مطلوبہ دعا کے بجائے اس سے بہتر صورت میں قبول ہوجانا۔     ۴-آنے والی مصیبت کو دور کردیا جانا۔     ۵-دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ کردیا جانا۔     ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہq بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم a نے فرمایا: ’’بندے کی دعا ہمیشہ شرفِ قبولیت سے نوازی جاتی ہے، بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلدی نہ کرے ۔ عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول ! جلدی کرنے سے کیا مراد ہے؟ آپ a نے فرمایا:’’یہ کہ وہ کہے میں نے تو بہت دعا کی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوگی، پھر وہ مایوس ہو کر دعا ترک ہی کر دے۔‘‘               (صحیح مسلم)     ذرا سوچیے! اللہ تعالیٰ کا کلام ہو اور انبیاء کرام o کی دعا ہو تو بھلا وہ کیونکر قبول نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میںاپنے محبوب بندوں - انبیاء کرامB- کی مقبول دعائیں ذکر کرکے گویا ہمیںخود مانگنے کے گُر سکھائے ہیں، یقینا یہ تو عطا کرنے کے بہانے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اللہ کی رحمت کیا ہوگی کہ ہمیں یہ بھی سکھادیا کہ کس طرح محبت بھرے عاجزانہ الفاظ و کیفیات میں اپنے رب کے سامنے دستِ سوال دراز کرو، یہ سب یقینا اس لیے ہے کہ وہ اپنے بندوں کو نوازنا چاہتا ہے۔ جس وقت ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ایک ایسی لامتناہی قوت اور طاقت ور ذات سے جوڑلیتے ہیں، جس نے اپنی قدرت سے فطرتاًساری کائنات کی اشیا کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے۔     حضراتِ انبیاء کرامB کی دعاؤںکے الفاظ کی نقل میں در اصل وہ گوہرحاصل کرنا ہوتا ہے جو اِن برگزیدہ ہستیوں کے الفاظ میں پنہاں ہوتا ہے۔ اسی گوہر کے باعث وہی الفاظ دہرانے والے کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کر لیتی ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء B نے کس طرح مشکلات میں اللہ تعالیٰ کو پکارا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی فریاد اور پکار کو سن کر کس طرح انہیں مشکلات سے نجات دی۔ انبیاء کرام B کی دعائیں درحقیقت انسانوں کو سیدھا راستہ دکھانے اور مالک حقیقی کے ساتھ صحیح ربط قائم کرنے کے طریقہ کی تعلیم ہے۔ انبیاء کرامB کی سیرت کو اپناتے ہوئے ہمیں بھی ان دعاؤں کو حفظ کرکے روزمرہ کی زندگی میں تلاوت اور پڑھتے رہنا چاہیے۔ اس مضمون میںکوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء کرامB سے منقول دعاؤں پر ایک نظر ڈالی جائے اوران کی مختصر تشریح پیش کی جائے۔ حضرت آدم وحوا n کی طلب مغفرت ورحمت کی دعا ’’رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَـنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔‘‘ (الاعراف:۲۳) ’’اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔‘‘     تشریح: حضرت آدم اور حوّا n نے - جب ان سے ایک لغزش ہوگئی تھی تو- معافی چاہنے کے لیے یہ دعا مانگی تھی، جو درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ہی سکھائی تھی، اور ان کلمات کی وجہ سے وہ دعا جلدی سے قبول بھی ہوگئی۔ اعترافِ قصور     حضرت آدم وحوا n کوجیسے ہی تنبہ ہوا تو بے ساختہ ان پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو غلطی کے شدید احساس کے بعد طاری ہوتی ہے اورفوراً اپنے رب کو پکارتے ہوئے کہا کہ: اے ہمارے رب! ہم کوئی عذر پیش نہیں کرتے کہ ہم سے یہ غلطی کیوں سرزد ہوئی، ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے یہ حرکت کرکے آپ کی شان میں کوئی کمی نہیں کی، بلکہ اپنے نفس کا نقصان کیا۔ ہم نے غلطی کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا، اب ہم اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ ہی سے دست بستہ پوری عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آپ ہماری اس غلطی کو معاف فرما دیں۔ ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں، آپ ہم پر رحم فرمائیں اور ہمارے گناہ کو معاف فرمادیں، اس لیے کہ آپ نے اگر ہمیں معاف نہ فرمایا تو پھر ہماری نامرادی اور خسارے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جائے گی۔ حضرت آدم m اور ابلیس کے رویے میںامتیازی فرق     اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ گناہ شیطان سے بھی ہوا، جب اس نے سجدہ کرنے سے انکارکیا، لیکن اس نے بجائے عجز و اعتراف کے انکار و بغاوت کا راستہ اختیار کیا اور ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ ہوگیا۔ اور لغزش حضرت آدم و حواn سے بھی ہوئی، لیکن وہ فوراً اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ جھک گئے۔ حضرت آدم و حوا n کا طرزوانداز ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم اپنے اندر کبھی بغاوت وسرکشی کی جرأت پیدا نہ ہونے دیں، یہ ابلیس کا رویہ ہے۔ خدانخواستہ اگر کبھی کوئی غلطی ہوجائے یا معصیت کے راستے پر چل پڑیں تو تنبہ ہوجانے کے بعد فوراً توبہ کا راستہ اختیار کریں۔     اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کرنے کے لیے یہ الفاظ نہایت مناسب ہیں اور ان کے ذریعے توبہ قبول ہونے کی زیادہ امید ہے، کیونکہ یہ الفاظ خود اللہ تعالیٰ ہی کے سکھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اگر ایک طرف شیطان کو مہلت دے کر اسے انسان کو بہکانے کی صلاحیت دی ہے جو اپنے اثر کے اعتبار سے انسان کے لیے زہر جیسی تھی تو دوسری طرف علاج کے طور پر انسان کو توبہ اور استغفار کا تریاق بھی عطا فرمادیا کہ اگر شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ کبھی کوئی گناہ کر گزرے تو اُسے فوراً توبہ کرنی چاہیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہو، اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، اس طرح شیطان کا چڑھایا ہوا زہر اترجائے گا۔                 (آسان ترجمہ قرآن)     جو شخص بھی اس آیت کو ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھ کر مغفرت کی دعا مانگے تو ان شاء اللہ تعالیٰ! اس کے گناہ معاف کردیے جائیںگے، کیونکہ یہ دعا حضرت آدم m کی ہے اور مقبول بھی ہوچکی ہے۔ (حضرت تھانویؒ)                                                           (جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین