بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ممتاز قادری شہیدؒ کی سزا میں دُہرا معیار کیوں؟

ممتاز قادری شہیدؒ کی سزا میں دُہرا معیار کیوں؟

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

۲۰۱۱ء کا سال مسلمانوں پر ایسا کڑا گزرا ہے کہ اس وقت کے حالات اور واقعات سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ دین دشمنوں، کفار اور شاتم رسول گروہوں نے بیک وقت اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یلغار کردی ہے۔ ایک طرف آنحضرت a کے گستاخانہ خاکے بناکر مسلمانوں کے قلوب و اذہان کو چھلنی اور زخمی کیا جارہا تھا، دوسری طرف آئینِ پاکستان میں ناموس رسالتؐ کے تحفظ پر مشتمل شقوں کو تبدیل کرانے پر زور دیا جارہا تھا، جس کی بنا پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام قابل ذکر بڑے شہروں میں جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے ہورہے تھے۔ اس دوران آسیہ نامی ایک عیسائی خاتون نے آنحضرتa کی گستاخی کا ارتکاب کیا،موقع پر موجود لوگوں نے اس قضیہ کو تھانے تک پہنچایا، اس ملعونہ کی گرفتاری ہوئی، معاملہ عدالت تک پہنچا، انکوائریاں ہوئیں، بیانات ہوئے، بیانات پر جرح ہوئی، آسیہ مسیح پر جرم ثابت ہوا، عدالت نے اس کو قانون کے مطابق سزائے موت سنائی۔ ادھر اس وقت صوبہ پنجاب پر مسلط کیا گیا گورنر جس کا نام سلمان تاثیر تھا جو تنخواہ اور مراعات تو پاکستان سے لیتا تھا، لیکن اخبارات کے بقول وہ نوکری مغرب کے ایک خفیہ ادارے کی کرتا تھا، جس نے گورنر پنجاب ہوتے ہوئے اس آسیہ مسیح سے جیل میں جاکر ملاقات کی اور اس کو رہا کرانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ پر مشتمل قانون کو ’’کالا قانون‘‘ کہا اور اس قانون کے ختم کرانے کی اپنی مذموم کوششوں کو اس نے ’’مقدس مشن‘‘ کا نام دے رکھا تھا، اور علی الاعلان گستاخانہ جملے اپنے غلیظ منہ سے نکالے تھے، جن غلیظ جملوں کے سننے کی تاب نہ لاتے ہوئے اور مغلوب الحال ہوکر ڈیوٹی پر مامور اس کے ایک محافظ جناب ملک ممتاز حسین قادریؒ نے اس کو قتل کردیا۔ اس لیے کہ کوئی بھی مسلمان چاہے وہ اعمال میں کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، وہ اپنے کانوں سے اور اپنے سامنے حضور اقدس a کی توہین و تنقیص اور گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ تو ملک ممتاز حسین قادریؒ تھے، ان کی جگہ کوئی اور مسلمان ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا جو جناب ملک ممتاز حسین قادریؒ نے کیا۔ بہرحال جناب ملک ممتاز حسین قادریؒ کو گرفتار کیا گیا، ان پر مقدمہ چلا اور ان کو سزائے موت سنادی گئی۔ یہ مقدمہ سیشن کورٹ، ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک پہنچا، حتیٰ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر صاحب نے بھی اس ناموس رسالتؐ کے محافظ کے والدین اور وکلاء کی طرف سے کی گئی اپیل کو مسترد کردیا اور جناب ملک ممتاز حسین قادریؒ کو سزا ئے موت دے دی گئی۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی شخص وزیر، مشیر، گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم یا صدارت کے منصب پر ہو اور وہ آئین پاکستان کو یا آئین پاکستان کی کسی دفعہ کے بارہ میں کہے کہ میں اس کو نہیں مانتا؟ یا وہ آئینِ پاکستان کی فلاں دفعہ کو ’’کالا قانون‘‘ کہے؟ آئینِ پاکستان کا حلف اٹھانے والا اِس کہنے کے باوجود کیا اس منصب پر قائم رہ سکتا ہے؟ نہیں اور یقینا نہیں۔ اب جب سلمان تاثیر نے اپنے حلف اور عہدے کی پاسداری نہ کرتے ہوئے یہ سب باتیں آئین اور ناموس رسالتؐ کے قانون کے بارہ میں کہیں تو اس کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟ جب حکومت نے اپنی یہ ذمہ داری ادا نہیں کی اور اس نے مسلسل اس قانون کے ختم کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور ان کوششوں کو ’’مقدس مشن‘‘ کا نام دے کر اس پر عمل شروع کردیا تو قانون کو ہاتھ میں لینے کا مرتکب وہ ہوا نہ کہ ملک ممتاز حسین قادری شہیدv۔ ۲:۔۔۔ ٹھیک ہے ملک ممتاز قادری شہیدؒ سے غلبۂ حال کی بنا پر یہ فعل سرزد ہوگیا تو اس کے وکلاء کی یہ بات کیوں نہیں سنی گئی کہ ملک ممتاز قادریؒ کے معاملہ کو صرف ایک آدمی کے قتل کے تناظر میں نہ دیکھا جائے، بلکہ یہ معاملہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا ہے اور ایسے معاملات میں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ ایمان والا بھی کچھ سے کچھ کرسکتا ہے، جیسا کہ سابق وفاقی وزیر داخلہ جناب عبدالرحمن ملک کا بیان ریکارڈ پر ہے، اس نے کہا تھا کہ:’’ اگر ممتاز قادری کی جگہ میں ہوتا اور میرے سامنے میرے نبی a کے بارہ میں کوئی گستاخانہ کلمہ کہتا تو میں بھی وہی کرتا جو ملک ممتاز قادری نے کیا۔ ‘‘ ۳:۔۔۔ اگر یہ معاملہ غلبۂ حال اور نبی کریم a کے عشق و محبت میں ان سے سرزد ہو بھی گیا تھا تو حکومت کو چاہیے تھا کہ ملک ممتاز حسین قادری شہیدؒ اور مقتول سلمان تاثیر کے ورثا کے درمیان ثالث اور دونوں کے سرپرست ہونے کا کردار ادا کرتی کہ یہ معاملہ چونکہ اُن سے ہوگیا ہے اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا مسئلہ بھی ہے اور غلطی سلمان تاثیر سے بھی ہوئی تھی، لہٰذا آپ لوگ ملک ممتاز حسین قادریؒ کو معاف کردیں، یا ان سے دیت کا مطالبہ کرلیں۔ اس طرح کردار ادا کرنے سے ملک ممتاز حسین قادریؒ کی جان بھی بچ جاتی، سلمان تاثیر کے ورثا بھی خوش ہوجاتے اور اہل پاکستان کے دلوں میں بھی حکومت کا وقار اور مرتبہ بلند ہوجاتا۔ ۴:۔۔۔ اگر یہ بھی نہیں کیا گیا تو جب صدرِ مملکت کے پاس ملک ممتاز قادریؒ کے ورثا اور وکلا کی طرف سے اپیل گئی تھی تو انہیں چاہیے تھا کہ پاکستان کے مسلمانوں کے جذبات کی رعایت کرتے ہوئے ان کی اپیل کو قبول کرلیتے اور انہیں باعزت طور پر رہا کردیتے۔ کیونکہ یہ اختیار اُن کے پاس ہے اور وہ اپنے اس اختیار کو استعمال کرسکتے تھے یا اگر ایسا نہیں کرسکتے تھے تو کم از کم ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیتے۔ اس سے صدرِ مملکت کی عزت و وقار میں بھی اضافہ ہوتا ، مسلمانوں کی دعائیں بھی ملتیں اور ان کی دنیا و آخرت بھی سنور جاتی۔ ۵:۔۔۔قانون دان، علماء کرام،وکلا حضرات اور پاکستانی عوام اس سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر اعلیٰ عدالتوں میں کتنے لوگوں کے بارہ میں سزائے موت کے فیصلے ہوچکے ہیں، لیکن سالہاسال سے ان کو پھانسی کے پھندے پر نہیں لٹکایا گیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ برسوں سے کتنے موہن رسول جیلوں میں ایسے ہیں، جن کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ آچکا ہے، لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی ابھی تک پھانسی نہیں دی گئی، اس سے بڑھ کر یہ کہ سلمان تاثیر اور ملک ممتاز حسین قادری شہیدؒکے اس قضیہ کا سبب بننے والی آسیہ مسیح آج تک زندہ ہے، اپیلوں کے نام پر اس کی سزائے موت کو ابھی تک روکا ہوا ہے، آخر ایسا کیوں؟ اب سننے میں آرہا ہے کہ اس آسیہ مسیح کے آقاؤں نے اس کے لیے اپنے ہاں فلیٹ بھی تیار کرلیا ہے، اس کو شہریت بھی دے دی گئی ہے اور کسی وقت اس کو ملک سے مخفی طور پر رخصت کردیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملک، حکومت اور صاحبانِ اقتدار کے لیے ایک اور کالک ہوگی اور اس سے حکومت، عدلیہ اور برسراقتدار طبقہ کی جو رُسوائی ہوگی، اس کو سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ۶:۔۔۔ ملک ممتاز حسین قادری شہیدؒ نے تو آخری وقت تک کسی قسم کی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ اپنے گھر والوں سے آخری ملاقات کرتے ہوئے بھی انہوں نے کہا کہ: ’’میں جیت گیاتم ہار گئے، میں نہیں کہتا تھا کہ تم صدر مملکت کے پاس اپیل لے کر نہ جاؤ۔‘‘ پھر اپنے بیٹے سے قرآن کریم کی تلاوت سنی، بہادروں کی طرح اخیر وقت میں اذان دی، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولa کے نام کو بلند کرتے ہوئے مسلمانوں کو کامیابی کی طرف دعوت دی اور درود وسلام پڑھتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو گلے لگالیا، اور کہتا ہوا گیا کہ :’’حضور اکرم a میرا انتظار فرمارہے ہیں، تھوڑی دیر بعد امام الانبیائ، خاتم الانبیائ، سردار دو عالم a سے ملاقات ہوگی۔‘‘ ملک ممتاز حسین قادری شہیدؒ تو پہلے دن سے ہی اپنا سب کچھ حضور اکرم a کی عزت وعظمت اور آپ a کی ناموس کے تحفظ کے لیے قربان کرنے کا تہیہ کیے ہوئے تھے، کیونکہ ان کے سامنے یہ شعر تھاکہ: کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں حکمرانو! تم کس کس کو پھانسی پر لٹکاؤگے اور کس کس چیز پر پا بندیاں لگاؤگے؟ اور کیا ان پھانسیوں اور پابندیوں سے مسلمانوں کے دلوں سے جذبۂ عشق و وفا کے سپوتوں کی محبت کم کرسکوگے؟ حاشا و کلا، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، اگر ایسا ہوتا تو ملک ممتاز قادری شہید v کے نمازِ جنازہ میں چار کلومیٹر پر پھیلا ہوا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نہ ہوتا۔ ملک ممتاز قادری شہیدؒ کی نمازِ جنازہ سے ان کے بارہ میں غلط فہمی میں مبتلا افراد اور اداروں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین