بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ملکی/ سرحدی صورتِ حال اور ہماری ذمہ داری!!!

ملکی/ سرحدی صورتِ حال اور ہماری ذمہ داری!!!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

گزشتہ دو ماہ سے ایک بار پھر بھارت‘ مقبوضہ کشمیرکے مجبور ومقہور مسلمانوں پر ظلم وستم، جبرو تشدد اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ حال ہی میں سو سے زائد حریت پسند کشمیریوں کو شہید، کم سن بچوںسمیت سینکڑوں افراد کو بیلٹ گنوں کے ذریعے نشانہ بناکر انہیں بینائی سے محروم اور ۶؍ ہزار سے زائد غیر مسلح شہریوں کو زخمی کرچکا ہے۔ اس کے باوجود اس کے جنگی جنون اور باؤلے پن میں فی الحال کمی آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا، بلکہ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے جب ۲۲؍ ستمبر۲۰۱۶ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دوسری اہم اور ضروری باتوںکے علاوہ کشمیریوں پر ڈھائے گئے ان مظالم کو پیش کیا اور کہا کہ :مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دنیا اپنے وعدے پورے کرے۔ یہ تنازع طے کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی تحقیقات کرائی جائے۔ کشمیریوں کی نئی نسل ناجائز تسلط کے خلاف خود اُٹھ کھڑی ہوئی۔ برہان وانی کشمیر کی تحریک آزادی میں نئی علامت بن کر سامنے آیا۔ مرد، عورتیں اور بچے سڑکوں پر نکل کر آزادی مانگ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم کا انعقاد کرایا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد اقوام متحدہ کو دیں گے۔ بھارتی فوج ظالمانہ اور بہیمانہ ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ مقبوضہ وادی کو غیر فوجی علاقہ بنایا جائے۔ بیرونی سرپرستی میں پاکستان میں عدم استحکام کی اجازت نہیں دیں گے۔تو بھارتی حکومت ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مصداق ان مظالم کا کوئی جواب یا جواز تو نہ دے سکی، لیکن پاکستانی سرحد پر اس نے بلاجواز چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا بھارت یہ سب کچھ اپنے بل بوتے پر کررہا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ بھارت اور مودی کے پس پشت وہ ملک اور قوت ہے جس کو پاکستان آج تک اپنا دوست کہتا آیا ہے اور جس کے لیے اس نے اربوں کھربوں ڈالروں کے علاوہ لاکھوں انسانوں کی قربانی بھی دی ہے ، جس کا خمیازہ آج تک پاکستان کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ آج امریکہ‘ بھارت کو تھپکی دے رہا ہے اور پاکستان کو چین دوستی کی سزا دینا چاہ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ تیس سال سے ۱۵؍ لاکھ افغانیوں کو پاکستان نے ٹھکانہ دیا وہ افغانستان بھی بھارتی بولی بول رہا ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کو متحد کیا جائے، حکمران ہوں یا سیاستدان، قومی اداروں کے سربراہان ہوں یا ان کے مشیران، سرکاری اہل کار ہوں یا پاکستانی عوام‘ سب کندھے سے کندھا ملاکر اپنی افواج کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوں تو ان شاء اللہ! دشمن کو ہمارے ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کا کبھی حوصلہ نہیں ہوگا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کے طرزِ عمل سے لگ یہ رہا ہے کہ ان کو شاید سرحدی صورت حال کی کوئی پرواہ نہیں، اور نہ ہی انہیں قومی اتحاد کی ضرورت ہے، بس وہ تو صرف اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کی بنا پریہ چاہ رہے ہیں کہ عوام خصوصاً دین دار طبقے کو نشانہ پر رکھا جائے، اور ان کو خود ساختہ قوانین کی جکڑ بندیوں میں الجھاکر دینی خدمت سے تدریجاً دور کیا جائے، جس کی تازہ مثال اخبارات کے ذریعہ ملنے والی یہ خبر ہے کہ سندھ حکومت قانون سازی کررہی ہے کہ پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کی از سرنو رجسٹریشن کی جائے گی۔ رجسٹر شدہ مدارس کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے این۔ او۔ سی لیں۔ اسی طرح مجوزہ قانون کے تحت پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کے بارہ میں کہا جارہا ہے کہ وہ سیکرٹری داخلہ، متعلقہ ایس ایس پی، وزارتِ مذہبی امور جیسے اداروں سے این۔ او۔ سی لیں۔ اس مجوزہ قانون کی خبر سے ملک بھر میں پھیلے ہزاروں مدارس کی انتظامیہ، اساتذہ، طلبہ ، دینی طبقہ اور مذہبی جماعتوں میں اضطراب کا پیدا ہونا فطری امر تھا، جس کا اظہار کراچی میںجمعیت علمائے اسلام کی لاکھوں پر مشتمل ریلی سے ہوا اور جمعیت علمائے اسلام صوبہ سندھ کے ناظم اعلیٰ مولانا راشد محمود، صوبہ سندھ کے نائب امیر حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب اور دیگر ذمہ داران نے جہاں یہ مطالبہ دُھرایا کہ حکومت کے ہم سے کیے گئے وعدوں کے مطابق شہیدِ راہِ حق حضرت ڈاکٹر مولانا خالد محمود سومرو نور اللہ مرقدہٗ کا کیس فوجی عدالت میں بھیجا جائے، وہاں انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مدارس کے بارہ میں کوئی بھی قانون سازی اہل مدارس اور مذہبی جماعتوں کی مشاورت کے بغیر نہیں کی جائے گی، جس کو حکومتی نمائندوں نے بھی تسلیم کیا۔ لیکن اس کے باوجود حکومتی پرنالہ وہیں رہا، جس کی بنا پر اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کی قیادت نے کراچی میں ایک اجلاس منعقد کیا اور اس کے بعد ایک بھرپور پریس کانفرنس کی جو وقت کی اہم ضرورت اور تمام مدارس کی مشترکہ آواز تھی۔ ان قائدین نے کہا: رجسٹرڈ مدارس کے لیے دوبارہ رجسٹریشن کی پابندی کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے ۔یہ ملکی قانون کی نفی کے مترادف ہے ۔سو فیصد یک طرفہ ،جانبدارانہ اِقدام ہے،اس سے مدارس کے بارے میں تعصب کی بُو آتی ہے۔ ہمیں اعتماد میں لیے بغیر دینی مدارس کے بارہ میں جو بھی قانون سازی کی جائے گی، وہ قبول نہیں ہوگی۔افادۂ قارئین اور ریکارڈ کے طور پر اس پریس کانفرنس کو اداریہ کا حصہ بنایا جارہا ہے، ملاحظہ فرمائیں: ’’کراچی()اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے قائدین حضرت مولانا سلیم اللہ خان ، پروفیسر مفتی منیب الرحمن،مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مفتی محمد رفیق حسنی، مولانا امداد اللہ، مولانا عبید اللہ خالد ،مولانا قاری عبدالرشید ، مولانا ضیاء الرحمن ، مولانا یاسین ظفر، مولانا افضل حیدری، مولانا عبدالوحید اور مولانا ریحان امجد علی نعمانی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ایک سال پہلے وفاق، وزارتِ داخلہ ،نیکٹا اور دیگر اداروں کی شمولیت کے ساتھ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے ،جس میں مدارس کی رجسٹریشن اور اس کے لیے مطلوبہ اموراور ڈیٹا کلیکشن کے لیے باقاعدہ پرفارما اور ضمیمہ جات کی منظوری دی گئی اور وفاقی وزارتِ داخلہ نے صوبوں سے بھی اس کے بارے میں رضامندی حاصل کی اور اس کی خاطر کافی کاوشیں کی گئیں ، اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی رُکن پانچوں تنظیمات نے اُسے قبول کیا ۔ہم نے قومی بیانیہ بھی باہمی اتفاقِ رائے سے مرتّب کیا اور اُس میں ہمارا حصہ سب سے زیادہ تھا ۔اس کے جاری کرنے کے لیے وزیر اعظم پاکستان ،چیف آف آرمی اسٹاف ، تمام متعلقہ وفاقی وزارتوں اور حسّاس اداروں کی موجودگی میں فیصلہ کُن اجلاس ہونا تھا ،جو ملک میں وقتاً فوقتاً پیش آمدہ حالات کی وجہ سے تاریخ مقرر کرنے کے باوجود مؤخر ہوتا رہا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس پر عمل درآمد کیا جاتا، تاکہ حکومت اور دینی مدارس کی تنظیمات کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ قائم رہے۔ صوبہ سندھ کی حکومت نے جو مسوّدۂ قانون ترتیب دیا ہے، اس کی ہمیں ہوا تک نہیں لگنے دی گئی ، صرف میڈیا سے رِس رِس کر یعنی Leakہو کر جو خبریں آتی رہیں ، اُن کی رُو سے پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کی از سر نو رجسٹریشن کی جائے گی ،حالانکہ حکومت کے ساتھ گزشتہ تین عشروں کے تمام معاہدات میں یہ طے ہے کہ جو مدارس سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ ایکٹ کے تحت پہلے سے رجسٹرڈ ہیں ، اُسے درست اور قانونی تسلیم کیا جائے گا ۔ البتہ تمام مدارس اپنا ڈیٹا سال بہ سال فراہم کریں گے اور اُس کا طریقہ کار بھی طے ہوچکا ہے۔ لہٰذا پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کے لیے دوبارہ رجسٹریشن کی پابندی کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے ،یہ ملکی قانون کی نفی کے مترادف ہے اور سو فیصد یک طرفہ اور جانب دارانہ اِقدام ہے،بلکہ اس سے مدارس کے بارے میں تعصُّب کی بُو آتی ہے۔ رجسٹرڈمدارس کو اس بات کا پابند بنانا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے این۔ او۔سی لیں‘ مضحکہ خیز بات ہے۔ہمارا حکومت سے سوال ہے کہ وہ مدارس کوتعلیمی ادارے سمجھتی ہے یا نہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے، تو کیاصوبہ سندھ اور ملک بھر میں نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک ہزاروں کی تعداد میںپرائیویٹ سیکٹر میں جو تعلیمی ادارے جا بہ جا قائم ہیں اوررفاہی وتجارتی عمارات میں نہیں ہیں ،بلکہ آبادیوں کے درمیان رہائشی عمارات اور فلیٹس میں ہیں ،کیا اُن سب سے بھی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے این۔ او۔ سی لینے کا قانون بنایا گیا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا ایسا ہی ہے ،توپھرکیا دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ اس شرط کے تحت تو تقریباً اسّی فیصدیا اِس سے بھی زیادہ تعلیمی اداروں کوقانون بنانے کے اگلے دن تالے لگ جائیں گے اور حکومت کے لیے ایک ناقابلِ حل بحران پیدا ہوجائے گا۔یہاں تو حال یہ ہے کہ رفاہی اداروں میں سینکڑوں کی تعداد میں شادی ہال بنے ہوئے ہیں ،فٹ پاتھوں سے متصل راہداریوں پر بلند و بالا فلیٹ بنے ہوئے ہیں، ان کے پیچھے با اثر سیاسی قوتیں اور بلڈرز مافیا ہے ، کیا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے کسی نے اس کی جواب طلبی کی ہے ؟ اسی طرح مجوّزہ قانون کے تحت پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ متعدد محکموں یعنی سیکرٹری داخلہ ،متعلقہ ایس ایس پی اور وزارتِ مذہبی امور سے این۔ او۔ سی لیں، اس طرح کی امتیازی پابندیاں لگانا دینی تعلیم کو کچلنے کے مترادف ہے ، جب کہ دستورِ پاکستان کا آرٹیکل:۳۱ سیکشن:۱حکومت کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اَساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ ہم یہ بات ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس سے قبل گورنرہاؤس میں گورنر سندھ جناب ڈاکٹر عشرت العباد خان کی صدارت میں اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی قیادت کا اِسی مجوَّزہ قانون کے حوالے سے اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں اُس وقت کے مشیرِ مذہبی امور ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو نے یقین دلایا کہ مدارس کو اعتماد میں لیے بغیر اُن کے بارے میں کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی ۔ سوال یہ ہے کہ بار بار اس یقین دہانی کی خلاف ورزی کیوں کی جارہی ہے ؟ ہم یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے سیکرٹری جنرل مفتی منیب الرحمن نے ٹی۔ سی۔ ایس کے ذریعے۲۱؍ اگست۲۰۱۶ء کو سید مراد علی شاہ وزیرِ اعلیٰ سندھ کوخط بھیجا کہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی قیادت کو ملاقات کا موقع عنایت فرمائیں ،مگر پورا ایک مہینہ گزرنے کے باوجود اُن کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ مفتی منیب الرحمن نے مشیرِ اطلاعات مولا بخش چانڈیو کو میسج کیا کہ ضروری بات کرنی ہے،انہوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ لہٰذا ہم برملا یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر دینی مدارس کے بارے میں جو بھی قانون سازی کی جائے گی ،وہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ دنیا بھر میں قانون سازی چوری چھپے نہیں ہوتی، بلکہ اس قانون سے متأثر ہونے والے طبقات اور اداروں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ اسمبلیوں میں قانون سازی کے لیے مجالسِ قائمہ کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے؟ اس وقت ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے ،ہندوستان پاکستان دشمنی میں تمام حدود کو عبور کر رہا ہے اور قومی اتحاد کی بے حد ضرورت ہے ۔ہم یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان میں مذہب ومسلک کو جو بطورِ خاص ہدف بنایا گیا ہے ،اس پر تمام تر تحفظات کے باوجود ملک وقوم کے بہترین مفاد میں ہم نے نیشنل ایکشن پلان اور اکیسویں آئینی ترمیم کی عَلانیہ طور پر مکمل حمایت کی اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے دینی مدارس وجامعات نے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی ،کیونکہ یہ ملکی سا لمیت کے مفاد میں ہے ۔ہم نے ضربِ عضب کی مکمل حمایت کی اور ملک کی داخلی وخارجی سلامتی کے لیے مسلح افواج کی بے پناہ قربانیوں کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیااور آج بھی ہم مسلّح افواج کی پشت پر کھڑے ہیں ،تو ہمیں بتایا جائے کہ آخر مسئلہ کیا ہے ؟ ہم نہایت ذمے داری کے ساتھ سندھ حکومت کو کہنا چاہتے ہیں کہ دینی مدارس کے بارے میں کسی بھی قانون سازی سے پہلے ہمیں اعتماد میں لیا جائے ،یہ ہمارا جائز آئینی ،قانونی ،دینی اوربنیادی حق ہے۔ ہم ہر مثبت ، تعمیری اور غیر جانبدارانہ اِقدام میں تعاون کریں گے اور جو بات ناقابلِ قبول ہے، اس کی اصلاح کے لیے مثبت تجاویز دیں گے۔ہم ہندوستانی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے بے پناہ مظالم کی شدید مذمت کرتے ہیں اور کشمیر کے مظلومین کو اپنی پوری اخلاقی حمایت کا یقین دلاتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے ہر ممکن حکمتِ عملی اختیار کی جائے اور اقوامِ متحدہ ،او آئی سی اور حقوقِ انسانی کے عالمی اداروں کو اس کی بابت جھنجھوڑا جائے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیرِ اعظم پاکستان نے جو او آئی سی ،سیکرٹری جنرل یو این او،وزیرِ اعظم چین اور دیگر اہم ممالک اور اداروں کے ذمے داران سے جو مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کے حق میں پیش رفت کی ہے ،اُس کی تحسین کرتے ہیں۔ ہندوستان امریکہ کی سرپرستی میں اپنے آپ کو اس پورے خطے کا پولیس مین اور سپر طاقت سمجھنے لگا ہے اور آئے دن پاکستان کو دھمکیاں دیتا ہے اور پاکستان کا سفارتی مقاطعہ اور تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ کسی بھی مشکل صورتِ حال میں پوری پاکستانی قوم اورسیاسی ودینی قوتیں اپنے دین ووطن کے تحفظ کے لیے یکجا ہیں اور کسی بھی انتہائی اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔ہم نے طے کیا ہے کہ کل جمعۃ المبارک کے خطبات میں اس مجوَّزہ بل پر احتجاج کیا جائے گا اور عوام کو سندھ حکومت کے مدارس دشمن عزائم کے بارے میں آگہی دی جائے گی۔‘‘ جیسا کہ آپ نے بھی پڑھا کہ یہ تمام امور وفاقی حکومت سے مشاورت کے بعد طے ہوچکے ہیں، کئی ایک پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے، کئی ایک امور حل طلب ہیں، وہ بھی مناسب موقع پر اجلاس کے بعد حل ہوجائیں گے، اس کے باوجود حکومت سندھ کا ایک نیا شوشہ چھوڑنا اور ان نامناسب حالات میں اپنی قوم کو ذہنی وفکری اضطراب میں مبتلا کرنا اور ان کو تقسیم کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ ان طے شدہ امور کو چھیڑ کر قوم کو اضطراب میں مبتلا نہ کیجیے، بلکہ قومی اتحاد کو پروان چڑھائیے، ان شاء اللہ! وقت آنے پر یہ مذہبی طبقہ اپنے دین، اپنے ملک اور اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی مدد وقوت سے لیس ہوکر اپنے ملک کے ایک ایک انچ کا تحفظ اپنے خونِ جگر سے کرکے دکھائے گا، وما ذلٰک علٰی اللّٰہ بعزیز۔ ’’یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا إِنْ تَنْصُرُ اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ۔‘‘ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔ 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین