بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ملک پاکستان کی قدر کریں! کفار کے ممالک میں نہ جائیں !

ملک پاکستان کی قدر کریں!

کفار کے ممالک میں نہ جائیں !


اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا کہ: ’’فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘ قتل بدن پر ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟! انسان کو موت آجائے گی! مٹی کے نیچے چلا جائے گا! اور اگر شہید ہوا ہے تواس کا رتبہ بہت بڑا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہے، لیکن جو بندہ خدا نخو استہ مفتون ہو گیا، فتنہ میں مبتلا ہو گیا اور جو وقت وہ گزار رہا ہے، نیکیاں ملنے کے بجائے گناہ اور برائیوں کی طرف جا رہا ہے۔
یہودیوں اور عیسائیوں کا ایک طریقہ ہے کہ قتل و غارت کے بجائے (پہلے زیادہ قتل و غارت کرتے تھے، اب بھی کرتے ہیں، لیکن) اب ان کا زیادہ رجحان مسلمانوں کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ہے،کوشش کر کے فتنہ میں ڈال کر اس کی دنیا و آخرت کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔

کفار کے ممالک میں جاکر اپنے اور اپنی اولاد کے ایمان کو خطرے میں نہ ڈالیں

آج کل جو ایک فتنہ مسلمانوں میں بہت پھیلا ہوا ہے،حد سے زیادہ اور ہماری سوچ سے بھی زیادہ، وہ یہ ہے کے کفار کے ممالک کی طرف ہجرت کرنا،سفر کرنا اور ادھر ہی اقامت کرنا۔
قرآن کریم میں ہے: 
’’وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْيَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ‘‘ (البقرۃ:۱۲۰)
یعنی: ’’ـ(اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی، یہاں تک کہ آپ ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلیں‘‘۔ ’’ان کا دین‘‘ یعنی ان کا محرف شدہ دین جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے الگ ہے، ان کے دین کی جب تک آپ اتباع نہیں کر لیں گے، اس وقت تک یہ آپ سے راضی نہیں ہوں گے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شخصیتِ مبارکہ جن کے اخلاقِ مبارکہ کی گواہی خود اللہ پاک دے رہے ہیں کہ: ’’وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ میری اور آپ کی شخصیت کچھ بھی نہیں ہے ان کے مقابلے میں، جب ان سے راضی نہیں ہوتے تو مجھ سے اور آپ سے کیسے راضی ہوسکتے ہیں؟ یہ ہو نہیں سکتا، جتنا مرضی ان کو خوش کرنے کی کوشش کی جائے، یہ اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے، جب تک اپنا دین چھوڑ کر ہم اُن کا مذہب نہ اختیارکرلیں ۔ اور یہ ہو رہا ہے، وہاں اتنی مساجد، تحفیظ اور دعوت کے باوجود مسلمان کا بچہ عیسائیت کی طرف جا رہا ہے اور اگر بچہ بچ بھی جائے، یعنی ا گر بالفرض پہلی نسل بچ بھی جاتی ہے، اگرچہ ایسا بھی بہت کم ہوتا ہے،بیس تیس فیصد یا زیادہ سے زیادہ ستر فیصد اسلام پر قائم رہتی ہے، لیکن پھر آگے ان کی نسل بمشکل بیس فیصد بھی اسلام پر قائم نہیں رہتی،آپ غیر مسلم ممالک میں جائیں، آپ جتنا بھی تلاش کرلیں، آپ کو ایسا شخص نہیں ملے گا جو خود بھی مسلمان ہو، اس کا باپ بھی مسلمان ہو،دادا بھی مسلمان ہو، ہوسکتا ہے میرے علم میں نہ ہو اور ایسی مثال ہو کہ تیسری نسل بھی مسلمان ہو، مگر میں آج تک ایسے کسی شخص سے نہیں ملا۔اور پھر مسلمان ممالک کو چھوڑ کر غیر مسلم ممالک کی طرف جانا کوئی آج کل کی بات نہیں، بہت پرانی بات ہے،سو سو سال، ڈیڑھ سو سال پہلے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان باہر گئے، اب اُن کی نسلوں میں کوئی مسلمان نہیں ملتا، سو سال تو دور کی بات ہے، جو ستر سال پہلے گئے، ان کی نسلوں میں بھی کوئی مسلمان نہیں ملتا۔ 
اب آپ یہ بھی دیکھیں کہ قیامت تک جتنی نسل ہوگی، یہ اپنے ملک چھوڑ کر باہر جانے والے ان سب کے کفر میں مبتلا ہونے کا سبب بن گیا، کیونکہ مسلم ملک میں ہی رہنے کی صورت میں ہوسکتا ہے نسلیں گمراہ ہوجائیں، لیکن پھر بھی مسلمان تو رہیں گے اور اگر ہم نیک بن جائیں اور اسلامی ملک میں ہی قرا ر پکڑیں تو ان شاء اللہ! اس کی برکت ہماری نسلوں تک جائے گی۔ سورۂ کہف میں جن یتیم بچوں کا ذکر ہے:’’ أَبُوْھُمَا صَالِحًا‘‘ ان کا ساتواں دادا صالح تھا تو اگر ہم نیکی اختیار کریں تو نیکی اور ایمان کی خو شبو اور برکت نسلوں تک جائے گی۔ اور یہ دیکھو! بجائے اس کے کفار اسلام قبول کرتے اور مسلمانوں کی طرف ہجرت کرتے، اُلٹا مسلمان ان کی طرف جا رہے ہیں اور یہ بات کبھی مت کہنا کہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میںتکا لیف ہیں۔ مدینہ شریف میں بھی تکلیف تھی، جب مسلمان مکّہ سے ہجرت کر کے آئے، اس وقت مدینہ شریف کا نام بھی یثرب تھا اور بہت خطرناک بخار پھیلا ہوا تھا، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سب کچھ برداشت کرتے چلے آئے، اپنے اہل و عیال، گھر بار چھوڑ چھا ڑ کر چلے، سوچا تک نہیں کسی نے کہ روم کی طرف چلے جائیں، اس وقت تو یورپ وغیرہ نہیں تھا ۔ 
حضرت کعب بن مالک  رضی اللہ عنہ  یہ ایک صحابی ہیں،جہاد پر نہ جانے کی وجہ سے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کا مقاطعہ فرمایا تو روم کے بادشاہ کی طرف سے ان کے لیے ایک خط آیا تھا کہ اگر آپ کے بڑے آپ سے ناراض ہیں تو ہم آپ سے یہ کہتے ہیں کہ آپ ہمارے پاس آ جائیں، جو بھی آپ چاہتے ہیں وہ آپ کو مل جائے گا، اتنا ناراض اور غصّہ ہوئے کہ اس خط کوتندور میں جھونک دیا، خوش نہیں ہوئے ۔ 
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج کل جب کوئی کہے کہ ہم غیرمسلم ملک یورپ یا جو بھی ملک ہو اس کی طرف ہجرت کر رہے ہیں تو ہم کہتے ہیں: مبارک باد، میں سمجھتا ہوں یہ بات ایمان کے خلاف ہے، یہ بات خطرناک ہے، بہت ہی خطرناک، اگر وہ ملک ایسا ہے جس نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہے، ان کو مارا ہے، ان پر قیامت ڈھائی تو آپ ان کو اس ملک میں جانے پر مبارکباد پیش کر رہے ہیں؟ آپ کو کہنا چاہیے کہ لعنت ہو اس ملک پر،کتنا مسلمانوں پر ظلم کیا ہے، کتنا ظالم ملک ہے، کس طرح کا سلوک کیا ہے اس نے مسلمانوں کے ساتھ اور آپ ایسے ملک میں جا رہے ہیں؟ بجائے اس کے ہم یہ کہتے ہیںکہ: مبارک ہو۔ کس بات کی مبارک باد؟ اس بات کی کہ ان کی اولاد،اولاد کی اولاداور یہ خود، ان کا ایمان کمزور ہو رہا ہے؟ ان کا ایمان خطرہ میں پڑرہا ہے؟ ان کے بچے جو تیسری چوتھی نسل ہے، وہ مرتد ہو رہے ہیں؟ اور یہ ہو رہا ہے،مسلمان بہت بڑی تعداد میں مرتد ہو رہے ہیں۔ صرف ارجنٹائن میں ۳۰؍ لاکھ مسلمان عیسائی بن چکے ہیں، یہ صرف ارجنٹائن کی بات بتا رہا ہوں، اور ایسے لاکھوں مسلمان ہیں جو اپنا دین چھوڑ رہے ہیں، وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہم نے حدیث پاک پر عمل نہیں کیا۔
حضرت جریر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبیلہ خثعم کی طرف ایک سریہ روانہ کیا، کچھ لوگوں نے (کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں میں سے) سجدہ کے ذریعہ پناہ چاہی، پھر بھی انہیں قتل کرنے میں جلدی کی گئی۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کی خبر ملی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا اور فرمایا: ’’میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔‘‘ لوگوں نے پوچھا: ’’اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ! آخر کیوں؟‘‘ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’(مسلمان کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہونا چاہیے) کہ وہ دونوں ایک دوسرے (کے کھانا پکانے) کی آگ نہ دیکھ سکیں۔‘‘
کیسی خطرناک بات ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  فر ما رہے ہیں کہ: میں بری ہوں اس مسلمان سے جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے، ڈرنا چاہیے ہمیں بہت زیادہ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جریر  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ پر شرط لگائیں، میں اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہوں، دین قبول کرنا چاہتا ہوں، تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان شرائط پر بیعت فرمایا کہ: ’’آپ نے ایک اکیلے اللہ تعالیٰ کی ذات کی عبادت کرنی ہے، شرک نہیں کرنا،نماز قائم کرنی ہے،زکاۃ دینی ہے، نماز قائم کرنی ہے، مسلمان کی نصرت کرنی ہے اور کافروں کا ملک چھوڑ کر مسلمانوں کی طرف آنا ہے۔‘‘ یعنی کہ آپ سوچیں کہ اسلام قبول کرنے کی ایک شرط تھی کافروں کے ملک کو چھوڑنا اور مسلمانوں کے ملک کی طرف آنا ۔
بہت دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ آج کل جو لوگ دھڑادھڑ اُن ممالک کی طرف جا رہے ہیں، وہ کفر کی خدمت کر رہے ہیں،کفر کو مضبوط کررہے ہیں،آپ ذرا گن لیں کہ کتنے ڈاکٹر و انجینئر وغیرہ اِدھر سے نکل چکے ہیں،ہزارو ں کی تعداد میں یا لاکھوں کی تعداد میں؟ یہ اگر ادھر واپس آجائیں تو اس ملک کو کتنی ترقی ہوگی؟ مسلمانوں کو کتنا فائدہ ہوگا! اور اگر کفرستان کی طرف جائیں گے تو ظاہر سی بات ہے ان کو ترقی ہو گی، اس طرح کفر مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے ممالک کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔
علماء کرام نے سخت ضرورت کی بنا پر ان ممالک کی طرف سفر کرنے کی گنجائش دی ہے،اس کی کچھ شرائط بھی لگائی ہیں کہ اگر آپ علاج کے لیے جا رہے ہیں اور علاج بھی ایسا ہو جو آپ کے ملک میں نہیں ہے، اور اگر ایسا علاج آپ کے ملک میں موجود ہے تو اجازت نہیں یا تعلیم حاصل کرنے کے لیے کہ وہ تعلیم حاصل کر کے واپس آکر آپ اپنے ملک کی خدمت کریں گے، یا دعوت و تبلیغ کے لیے جاتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں، لیکن یہ شریعت میں ہے ہی نہیں کہ ادھر ہی ہجرت کر کے وہیں اقامت اختیار کر لی جائے۔
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں پیداہوا،ماں پاکستانی، باپ پاکستانی، ادھر ہی تعلیم و تربیت حاصل کی، پرورش پائی، ادھرہی کی آب و ہوا میں پلا بڑھا اور جب پھل دینے کا وقت آیا ہے تو کفرستان کی طرف چلا جاتا ہے، وہاں جا کر پھل دیتا ہے، ان کی خدمت کر کے ان کو فائدہ پہنچاتا ہے اور مسلمانوں کو محروم کردیتا ہے، آپ دیکھ لیں: مسلمانوں کی اس سوچ کی وجہ سےاچھا ڈاکٹر اب ادھر اتنی آسانی سے نہیں ملتا ۔ 
ایک اور بہت رنج کی بات کہ ہمارے ہاں پاکستان میں کچھ اسکول اور تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو اس بات کو فخریہ طور پر پیش کرتے ہیں کہ ہم آپ کے بچے کو ایسی تربیت دیں گے کہ یہ باہر ملک یورپ وغیرہ چلا جائے گا، وہاں سیٹل ہوجائے گا، اور ہم بہت فخر اور خوشی سے اپنے بچے کو اس اسکول میں داخل کراتے ہیں، بچپن ہی سے اس کا یہ ذہن بن جائے گا کہ میں نے باہر جانا ہے، ادھر ہی رہنا ہے، اب یہ بھی ایک خیانت ہے اس ملک سے،اور اس خیانت پر ہم فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاباش! بہت اچھا! حالانکہ آپ ایمانداری سے سوچیں ذرا، اگر کسی اور ملک کا اسکول بچے کو اس بات کی تربیت دے کہ پاکستان کی طرف چلا جائے تو ہم کیا اس بات سے خوش ہوں گے؟
ہم مسلمان اپنے ممالک کو اپنے ہاتھ سے تباہ کر رہے ہیں اور صرف یہ پاکستان میں نہیں ہے، یہ بات ہر جگہ ہی بہت پھیل چکی ہے ، ترکی میں غیر قانونی طور پر سمندر پار کرتے ہوئےکتنے لوگ ڈوب گئے، غرق ہوگئے، صرف اس لیے کہ ادھر کی قومیت کا کارڈ مل جائے۔ اگر ہم اس کارڈ کو حرام سمجھیں،لعنت سمجھیں، یہ کہہ دیں کہ بھائی! آپ کہاں جا رہے ہیں؟آپ کو احساس نہیں ہوتا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے؟ آپ کیا اللہ تعالیٰ کو جواب دیں گے اپنی اولاد کے بارے میں؟ بجا ئے یہ کہ آپ ان لوگوں کو جو کفّار کے ممالک میں جارہے ہیں، ان کو دعوت دے کر ادھر بلاتے، آپ خود ادھر جارہے ہیں، یہ تو بہت ہی تعجب کی بات ہے۔ اگر ہم اسی طرح بولتے رہیں گے تو کفار کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا تناسب کم ہوتا جائے گا۔ اور ایک بہت شرم کی بات ان مسلمانوں کے لیے جو ہر وقت اسی تگ ودو میں رہتے ہیں کہ کسی طرح وہاں کا کارڈ مل جائے، کسی طرح ہم ادھر جا کر مقیم ہو جائیں، فرانس یا کوئی اور کفّار کے ملک کا باشندہ اپنے ہم وطن سے یہ کہے کہ میں برطانیہ یا آ سٹریلیا کی طرف جا رہا ہوں،مجھے ادھر کا ویزا مل گیا ہے، ادھر ہی رہوں گا تو ا س کاہم وطن اس سے ناراض اور خفا ہو جاتا ہے، غصّہ سے کہتا ہے کہ کیا آپ اپنے ملک سے محبت نہیں رکھتے؟ اپنے ملک کو آپ چھوڑ کر کیسے جا رہے ہیں؟ کفار کی سوچ دیکھو اور مسلمانوں کی سوچ دیکھو، بہت ہی شرم کا مقام ہے۔ اوربعض ممالک میں میرے علم میں ہے کہ اس ملک کی شہریت یا کارڈ دینے سے پہلے باقاعدہ طور پر ان سے حلف لیا جاتا ہے کہ میں اس ملک کے ساتھ مکمل طور پر وفاداری کروں گا،میری تمام تر اطاعت اور اخلاص اس ملک کے ساتھ ہے، یہ حلف لیا جاتا ہے،اب اس کا کیا مطلب؟ مسلمان کا دشمن جب اس کا دوست بن گیا تو مسلمان کا کیاحال ہو گا؟یہ ایک قاعدہ ہے کہ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے، اب جس نے اس طرح حلف لیا وہ گویا دشمن کا دوست بن گیا اور مسلمانوں کا دشمن بن گیا اور آپ اس دشمن بن جانے پر اس کو مبارکباد پیش کررے ہیں؟ ہمارے ایمان کا کیا حال ہو گیا ہے؟ جو اس کارڈ میں عزت کو تلاش کر رہا ہے تو وہ ذرا خود اپنا محاسبہ کرے کہ وہ ایمان کے کس درجہ پر ہے؟ یہ تو منافقین کی صفت ہے کہ منافقین کافروں سےعزت لینا چاہتے تھے ، ہمارے ا یمان کا حصّہ کہاں چلا گیا؟
مسلمان کی لڑائی اللہ کے لیے ہے اور کفار کی لڑائی شیطان کے لیے اور طاغوت کے لیے ہے، مسلمانوں کی اور کفار کی لڑائی یہ دونوں کبھی بھی مل نہیں سکتیں، دونوں کے مقاصد بالکل الگ الگ ہیں، اب جب یہ دونوں ایک ہی ملک میں رہ رہے ہیں اور وہ ملک کفار کا ہے،اکثریت وہاں کفار کی ہے تو جب اگر لڑائی ہوتی ہے تو کس کا جھنڈا اُٹھایا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ کا یا طاغوت و شیطان کا؟ظاہر سی بات ہے شیطان کا ہی جھنڈا اُٹھایا جائے گا ۔ 
آج کل چونکہ لوگوں کی اصلاح کی طرف توجہ کم ہے، ملک کی قدر دانی دل سے نکل گئی ہے، اس لیے ملک کی ناقدری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک تباہ ہو جاتا ہے تو ہو جائے، ہم نے تو ادھر ہی جانا ہے، یہ بات بالکل ہی غلط ہے، پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے، اس کو محفوظ کرنا، اس کی حفاظت کرنا یہ ایمان کا حصّہ ہے۔ مدینہ شریف میں جب صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے ہجرت کی تو یہ سب قریش تھے، لیکن مدینہ شریف کو محفوظ کرنے کے لیےقریشیوں سے لڑے ، اس کی کیا وجہ ہے؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کے مدینہ شریف اب مسلمانوں کاایک قلعہ ہے ،ایک مرکزہے، اس کو محفوظ کرنا ضروری ہے۔ پاکستان بھی آج کل مسلمانوں کا مرکز ہے، مسلمانوں کے لیے اس کو محفوظ کرنا بھی ضروری ہے، مگر اللہ کی عظیم نعمت کی ناشکری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر جگہ کچرا ہے،روڈ یں بالکل خراب ہیں، عوام ٹھیک نہیں ہے، بجلی جاتی ہے تو کئی دن بعد آتی ہے، مہنگائی اتنی ہے کہ کھانے پینے کے اخراجات تک پورا کرنا مشکل ہے۔ لیکن جب ہم یورپ وغیرہ کے حالات دیکھیں گے تو ہم کہیں گے کہ: الحمد للہ! ہمارا ایمان محفوظ ہے،ہماری اولادوں کا ایمان محفوظ ہے،ہر چیز برداشت ہو سکتی ہے، مگر ایمان کی کمزوری،ایمان کے ضائع ہونے کو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ 
یہ ٹھیک ہے کہ پکے نمازی وہ اُدھر جا کربھی نماز پڑھتے ہیں، مگر آپ دیکھیں گے کہ والدین جو یہاں سے نکلتے ہیں، جو نمازی ہوتے ہیں پچاس فیصد وہاں جا کر مسجد جانا چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے بچے نماز ہی چھوڑ دیتے ہیں، مسلمان ہیں تو بس برا ئے نام کے،پھر کسی عیسائی کے ساتھ شادی کر لیتے ہیں ۔ مسلمان کو تو تمنا کرنی چاہیے کہ میں نے نیک لوگوں اور دین داروں کے ساتھ رہنا ہے،موت کے بعد بھی مسلمانوں کے ساتھ دفن ہونا ہے، بعض واقعات دیارِ غیر میں ایسے بھی ہو ئے ہیں کہ مخصوص جگہ جہاں پر مسلمانوں کو دفناتے ہیں وہ نہیں ملی، مجبوراً کافروں کے قبرستان میں دفنایا، العیاذ باللہ۔ 
بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ: تین چیزیں جس میں ہیں وہ ایمان کی مٹھاس پا لے گا: ایک یہ کہ اس کے نزدیک سب سے محبوب اللہ تعالیٰ اوراس کا رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ہو، اس کا کیا مطلب ہے؟ انسان نے اگر دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت رکھنی ہے تو اسی وقت رکھ سکتا ہے جب دل سے دنیا کو نکال دے، جب تک دل میں دنیا کی محبت ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں آ سکتی، انسان اگر دل سے اس دنیا کی محبت کو نکال دے تو یوں سمجھ لیں کہ آدھی پریشانیاں ختم ہو گئیں۔ آپ گن لیں ہماری اکثر پریشانیاں دنیا کی محبت کی وجہ سے ہیں، اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت سنتوں پر اتباع کی برکت سے ملے گی، دوسرا ہمارے جو تعلقات ہوں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہوں، اگر ہم اس بات پر عمل کرتے ہوں، جو بھی تعلقات رکھیں صرف اللہ ہی کے لیے رکھیں تو کوئی پریشانی نہیں ہو گی، لیکن جب ہم دنیا کے لیے اور دنیا کو خوش کرنے کے لیے تعلقات رکھتے ہیں تو پھر پریشان ہو جاتے ہیں کہ میں نے اس کو اتنا دیا تھا،اس نے بدلہ میں میرے ساتھ کیا کیا؟ کیسا رویہ اختیار کیا؟ اور اگر تعلق اللہ کے لیے تھا تو کہے گا کہ جو آتا ہے ٹھیک ہے، جو چلا جائے وہ بھی کوئی حرج کی بات نہیں، تیسری چیز وہ کفر کی طرف واپس لوٹنے کو اتنا برا سمجھے،جتنا برا آگ میں ڈالے جانے کو سمجھتا ہے، انسان کتنا ڈرتا ہے آگ میں ڈالے جانے سے، اسی طرح کفر کی زندگی سے،اس کی عادات و صفا ت سے ڈرنا چاہیے، اگر ہمارے دل میںکفر کی زندگی سے بغض اور نفرت ہے تو کفار کے ممالک کی طرف جانے کا اتنا اشتیاق کیوں؟ اور پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا اس کی قدر کیوں نہیں؟ جتنا ہمارے دل میں کفر سے نفرت و بغض ہوگا اتنا ہی ہم کفرستان کی طرف جانے سے نفرت کریں گے اور پاکستان میں رہنے کو اپنی سعادت سمجھیں گے۔
آج کل لوگ کہتے ہیں کہ یار! ہم یورپ، یو کے وغیرہ کی طرف گئے، کیا صفائی کیا انتظامات ہیں! ایسے درخت اور ہریالی ہے، دنیا جہاں کی سہولیات ادھر موجود ہیں، ادھر پاکستان میں اگر آپ ائیرپورٹ پر پہنچتے ہیں تو اتنا پوچھتے تنگ کرتے ہیں کہ کہاں جانا ہے؟ کہاںسے آئے ؟ادھر اتنا احترام ہے،اتنی عزت دیتے ہیں، کوئی نہیں پوچھتا کہ کہا ں جانا ہے؟ ہر طرح کی آزادی ہے، اب یہ بہت بڑی کوتاہی اور غلطی ہے دین اور شریعت کی نظر میں بھی اور دنیا کی نظر میں بھی کہ وہ یہ نہیں بتاتے کہ مسلمانوں کے بچوں کی کیا حالت ہے؟ اس کا دین و ایمان محفوظ ہے یا نہیں؟ ادھر جو لوگ دنیا کی طرف جا رہے ہیں ان کی کیا کیفیت ہے؟ یہ نہیں بتاتے کہ وہاں کی خواتین کی مجموعی حالت کیا ہے؟کس حال میں وہ پھرتی ہیں؟ وہاں پر والدین کو کیا درجہ دیا جاتا ہے؟ انسان جب بوڑھا ہو جائے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے؟
ہمارے یہاں کراچی میں، کسی مالدار نے اپنے بچے کوباہر بھیج دیا کہ اچھی زندگی گزار لے، تف ہے ایسی سوچ پر، کفار کے ملک کی رنگینیاں دیکھ کر وہ ادھر کا ہی ہوکر رہ گیا، ماں باپ پھر کس کو یاد رہتے ہیں؟ ان کا بیٹا وہاں پر ڈاکٹر بن گیا،خود پر فالج گر گیا، بہت بیمار ہوگیا، اب دل میں حسرت پیدا ہوئی کہ موت سے پہلے اپنے بیٹے کو دیکھ لوں،اس کو فون کیا کہ ادھر آجائیں، آپ کو مرنے سے پہلے صرف ایک نظر دیکھنا چاہتا ہوں، اس نے جواب میں کہا: ہمارے پاس آنے کاٹائم نہیں ہے ،فون کرتے رہے، مگر اس نے فون نہیں اُٹھایا، یہی حسرت دل میں لیے مر گیا: ’’فَاعْتَبِرُوْا یَا اُو لِیْ الْاَبْصَارِ‘‘ ... ’’تو اے (بصیرت کی)آنکھیں رکھنے والو! عبرت پکڑو۔‘‘ (الحشر)
 لوگ ایک غلط مفروضہ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، پہلی بات تو یہ کہ اس وقت جب یہ مسلمان مکّہ میں تھے کوئی بھی مسلمانوں کا ملک نہیں تھا، جس کی طرف یہ ہجرت کرتے، دوسر ا مکہ میں اُن پر بہت ظلم ڈھائے جا رہے تھے، مشرکین کی طرف سے بہت مشکل اور تکلیف میں تھے، اپنے دین پر نہیں قائم رہ پا رہے تھے، پاکستان میں آپ کو کون منع کرتا ہے دین پر عمل کرنے سے؟اور یہ بھی اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک حکم تھا، حبشہ کا نجاشی بھی ایک بہت اچھا انسان تھا اور بعد میں انہوںنے اسلام بھی قبول کر لیا تھا اور پھر جب مسلمان مدینہ شریف میں آگئے تو پھر کبھی کسی نے نام تک نہیں لیا اور نہ کبھی سوچا کہیں اور جانے کا اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنا کہ اس وقت کے اور آج کے فتنوں میں بہت زیادہ فرق ہے، جیسے جیسے ہم زمانۂ نبوت سے دور ہوتے جا رہے ہیں، فتنے چاروں طرف سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔یورپ اور دیگر کفّار کے ممالک میں جس فتنے نے ایک کثیر تعداد میں مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے،جس نے نہ عالم کو چھوڑا ہے،نہ داعی کو،نہ تصوف والے کو، سب کو لگا دیا ہے، وہ عورتوں کا فتنہ ہے، جس کے بارے میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: ’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔‘‘ 
خواتین کا فتنہ کس قدر خطرناک ہے؟! ایک واقعہ سناتا ہوں عبرت کے لیے، ایک بہت ہی نیک شخص حافظِ قرآن جہاد کے لیے سفر پر چل دئیے،عیسائیوں سے مقابلہ ہوا، عیسائیوں کو گھیرے میں لیا ہوا ہے کہ ان کی نظر ایک خاتون پر پڑی،عورت پر نظر پڑتے ہی اس کے حسن کے فتنے میں گرفتار ہوگیا، اس کو خط بھیجا کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اس نے کہا کہ میری آپ کی شادی کیسے ہوسکتی ہے؟ آپ مسلمان ہیں، میرے والد کہہ رہے ہیں کہ آپ عیسائی بن جاؤ، پھر ہی آپ مجھ سے شادی کر سکتے ہیں،اس نے مسلمانوں کی فوج چھوڑ دی اور دینِ اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی،اس لڑکی سے شادی کی اور پھر اس کی اولاد بھی ہو گئی،کچھ عرصہ کے بعد مسلمان ان سے ملنے اور ان کو دیکھنے کے لیے آئے کہ دیکھیں کس حال میں ہیں؟ پوچھا کہ آپ کے قرآن پاک کا کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ صرف ایک آیت یاد ہے: ’’رُبَمَا  یَوَدُّ  الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ‘‘ ، ’’ کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش! وہ مسلمان ہوتے۔‘‘ (الحجر) 
ایک اور حدیث شریف سناتا ہوں کہ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ: ’’ ایک دیہاتی نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اسلام پر بیعت کی، پھر اسے بخار ہو گیا تو اس نے کہا کہ میری بیعت فسخ کر دیجیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے انکار کیا، پھر وہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور کہنے لگا : میری بیعت فسخ کر دیجیے، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انکار کیا، آخر وہ (خود ہی مدینہ سے) چلا گیا تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’مدینہ بھٹی کی طرح ہے، اپنی میل کچیل دور کردیتا ہے اور صاف مال کو رکھ لیتا ہے۔‘‘ جو صحیح طور پر مسلمان ہیں،وہی مسلمانوں کے ملک میں قرار پکڑتے ہیں، باقی یہاں سے بھاگنے اور نکلنے کی فکر کرتے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کواس خطرناک فتنے اور تمام فتنوں سے بچائے،ہمارے اور ہماری اولادوں کے اسلام کی حفاظت فرمائے،دین پر ثابت قدمی اور استقامت نصیب فرمائے۔ (آمین)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین