بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ملفوظاتِ حضرت شیخ بنوری قدس سرہٗ

ملفوظاتِ حضرت شیخ بنوری قدس سرہٗ

    محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریv اپنے زمانے کے عظیم محدث، فقیہ، داعی، مبلغ، مصنف اور صاحب ارشاد ہونے کی حیثیت سے دُرِّ یکتا تھے۔ حضرتؒ کے چند قیمتی ملفوظات نذرِ قارئین ہیں: آبِ زر سے لکھنے کے قابل نصیحت     شہیدِ اسلام مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختارv فرماتے ہیں کہ: ’’ زمانہ طالب علمی میں‘میں ایک مرتبہ سفر میں تھا، عریضہ ارسالِ خدمت کیا، جس میں کچھ نصیحت کی درخواست کی تھی، جواب آیا اور ایسی قیمتی اور بہترین نصائح پر مشتمل جواب جو آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے، تحریر فرمایا: ’’دنیا میں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے سوا کسی سے خیر کی توقع نہ کریں، اور نہ کسی پر اعتماد و توکل کریں، ورنہ سوائے خسران وناکامی کوئی اور نتیجہ نہ ہوگا۔‘‘ مدرسہ کی خدمت بڑا اِعزاز     حضرت شیخ قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’میں نے مدرسہ اس لیے نہیں بنایا کہ مہتمم یا شیخ الحدیث کہلاؤں، جلال میں آکر فرماتے، اس تصور پر لعنت۔‘‘ پھر فرماتے: ’’اگر کوئی مدرسہ کا اہتمام اور بخاری شریف پڑھانے کا کام اپنے ذمہ لے لے، تو مجھے خوشی ہوگی، اور میں ایک عام خادم کی طرح سے مدرسہ کا ادنیٰ سے ادنیٰ کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کروں گا۔‘‘ حصولِ معاش کا تصور ختم کردیا جائے     فرمایا: ’’ہم تو چاہتے ہیں کہ حصولِ معاش کے تصور کو ختم کردیا جائے اور طالب علم صرف اللہ تعالیٰ کے دین کا سپاہی بنے، اس کے سوا زندگی کا کوئی مقصد اس کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ پر اس کا یقین اور اعتماد ہو کہ معاش کی فکر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرے۔‘‘ ایک خاص دعا کا اہتمام     فرماتے تھے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ دعا سکھا دی ہے، یہی دعا کرتا ہوں: ’’اے اللہ! تو خزانوں کا مالک اور بندوں کے دل بھی تیرے قبضۂ قدرت میں ہیں، آپ ان کے دل پھیر دیں، وہ خود آکر اس مدرسہ کی خدمت کریں، ہمیں ان کے درپہ نہ لے جا۔‘‘ فرماتے تھے: ’’مال داروں کو ہمارا ممنون ہونا چاہیے کہ ہم ان کا مال صحیح جگہ خرچ کرکے ان کے لیے جنت کا سامان بناتے ہیں۔‘‘ جب خدمتِ دین کے سارے دروازے بند ہوجائیں     فرماتے تھے: ’’خدانخواستہ اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ مجھ پر خدمتِ دین کے سارے دروازے بند ہوجائیں تو میں ایسا گاؤں تلاش کروں گا جہاں کی مسجد غیر آبادہو اور لوگ نماز نہ پڑھتے ہوں، وہاں جاکر اپنے پیسوں سے ایک جھاڑو خریدوں گا اور مسجد کو اپنے ہاتھ سے صاف کروں گا، پھر خود ہی اذان دوں گا اور لوگوں کو نماز کی دعوت دوں گا، جب وہ مسجد آباد ہو جائے تو پھر دوسری مسجد تلاش کروں گا اور وہاں بھی ایسا ہی کروں گا۔‘‘ دینی مدارس دنیا یا آخرت کا عذاب     ارشاد فرمایا کہ:’’ اگر دینی مدرسہ دنیاکے لیے بنایاہے تو آخرت کا سب سے بڑا عذاب ہے اور اگر آخرت کے لیے بنایاہے تو دنیا کا سب سے بڑا عذاب ہے۔‘‘ تصحیحِ نیت کی ترغیب     حضرت شیخ قدس سرہٗ کا معمول تھا کہ تعلیمی سال کے آغاز میں قدیم وجدید طلباء کی تصحیح نیت کے لیے تقریر فرماتے، جس میں طلبہ سے اس بات کا عہد لیتے کہ وہ اس مدرسہ میں علم دین کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی، اسلام کی بقا اور حفاظت کے لیے حاصل کریں گے، اغراضِ دنیا اور ظاہری عیش وراحت کے حصول کی نیت سے نہیں، علم دین کو نفسانی خواہشات کی تکمیل کاذریعہ بنانے والے کو اس بچے سے تشبیہ دیا کرتے، جس کے ہاتھ میں اس کے باپ نے گوہر نایاب تھما دیا ہو، مگر وہ ناسمجھ بچہ اس بے مثل گوہرِ نایاب کے عوض دکاندار سے پھل لے کر خوش ہوجائے، بڑے غصہ میں فرمایا کرتے تھے: ’’شقی اور ملعون ہے وہ شخص جو علم دین کو حصولِ دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے، ایسے بدبخت سے سر پر ٹوکری اُٹھا کر مزدوری کرنے والا بدرجہا بہتر ہے۔‘‘ طلبہ کی شکل و صورت     حضرتؒ فرمایا کرتے تھے: ’’جو طالب علم اس مدرسہ میں اسلامی شکل وشباہت اختیار کیے بغیر رہنا چاہتا ہے اور جس کے دل میں علم دین کے ذریعے دنیا حاصل کرنے کی تمنا ہے، وہ ہمارے مدرسہ میں نہ رہے، ورنہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول a کے ساتھ بدترین خیانت ہوگی۔‘‘ اخلاص کی برکت     فرمایا:’’ایک شخص اپنے اخلاص کی بدولت الف، با پڑھا کر جنت میں جاسکتا ہے اور دوسرا اخلاص کے بغیر بخاری شریف پڑھا کر اس سے محروم رہ سکتا ہے۔‘‘             (بحوالہ:جمالِ یوسف ؒ)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین