بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مقدَّسات کی تقدیس اور حقیقی پیغامِ پاکستان کی ضرورت!


مقدَّسات کی تقدیس اور حقیقی پیغامِ پاکستان کی ضرورت!

 

 


صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین   ایمان اور ہدایت کا معیار ہیں

صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین    ہدایت و ایمان کا معیار ہیں، جیساکہ قرآن کریم و احادیثِ مبارکہ سے واضح ہے:
’’وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَہَائُ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَہَائُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ۔‘‘                                            (البقرۃ:۱۳)
ترجمہ: ’’اور جب کہا جاتا ہے ان کو ایمان لاؤ جس طرح ایمان لائے سب لوگ، تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے بیوقوف !جان لو وہی ہیں بیوقوف، لیکن نہیں جانتے۔‘‘                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 (ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ)
’’وَاَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ ۔‘‘       (البقرۃ:۴۳)
ترجمہ: ’’اور قائم رکھو نماز اور دیا کرو زکوٰۃ اور جھکو نماز میں جھکنے والوں کے ساتھ۔‘‘
’’فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔‘‘                              (البقرۃ:۱۳۷)
ترجمہ: ’’سو اگر وہ بھی ایمان لاویں جس طرح پر تم ایمان لائے ہدایت پائی انہوں نے بھی اور اگر پھر جاویں تو پھر وہی ہیں ضد پر، سو اَب کافی ہے تیری طرف سے ان کو اللہ اور وہی ہے سننے والا جاننے والا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  کا ارشاد مشکوٰۃ شریف میں منقول ہے:
’’مَن کانَ مُسْتَنًّا ، فَلْیَسْتَنََّ بمن قد ماتَ ، فإنَّ الحيّ لا تُؤمَنُ علیہ الفِتْنَۃُ ، أولٰئک أصحابُ محمد - صلی اللّٰہ علیہ وسلم - ، کانوا أفضلَ ہذہ الأمۃ : أبرََّہا قلوبًا ، وأعمقَہا علمًا ، وأقلََّہا تکلُّفًا ، اختارہم اللّٰہ لصحبۃ نبیِّہٖ ، ولإقامۃ دِینہٖ ، فاعرِفوا لہم فضلَہم ، واتبعُوہم علی أثرہم ، وتمسَّکوا بما استَطَعْتُم من أخلاقِہم وسیَرِہم ، فإنہم کانوا علی الہُدَی المستقیم۔‘‘ (کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،الفصل الثالث،ج:۱،ص:۶۷، رقم الحدیث:۱۹۳، المکتب الاسلامی)
ترجمہ: ’’جو آدمی کسی طریقہ کی پیروی کرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ ان لوگوں کی راہ اختیار کرے جو فوت ہو گئے ہیں، کیونکہ زندہ آدمی (دین میں) فتنہ سے محفوظ نہیں ہوتا اور وہ لوگ (جو فوت ہو گئے ہیں اور جن کی پیروی کرنی چاہیے) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب ہیں، جو اس اُمت کے بہترین لوگ تھے، دلوں کے اعتبار سے انتہا درجہ کے نیک، علم کے اعتبار سے انتہائی کامل اور بہت کم تکلّف کرنے والے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے منتخب کیا تھا، لہٰذا تم ان کی بزرگی کو پہچانو اور ان کے نقشِ قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہو سکے ان سے آداب و اخلاق کو اختیار کرتے رہو، (اس لیے کہ) وہی لوگ ہدایت کے سیدھے راستہ پر تھے۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی پیروی ہی نجات کا راستہ ہے

یہی جماعت‘ طائفہ منصورہ اور ناجی ہے، اور ان کی پیروی میں ہی نجات ہے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے:
’’لیأتین علی أمتی ما أتی علی بنی إسرائیل حذو النعل بالنعل، حتی إن کان منہم من أتی أمہ علانیۃ لکان فی أمتی من یصنع ذلک، وإن بنی إسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ، وتفترق أمتی علی ثلاث وسبعین ملۃ، کلہم فی النار إلا ملۃ واحدۃ، قالوا ومن ہی یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  قال ما أنا علیہ وأصحابي۔‘‘ (سنن الترمذی،ابواب الایمان، باب ما جاء فی افتراق ہذہ الأمۃ، ج:۵، ص:۲۶، رقم الحدیث:۲۶۴۱،ط:مصطفی البابی الحلبی)
ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :میری امت پر بھی وہی کچھ آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا اور دونوں میں اتنی مطابقت ہوگی جتنی جوتیوں کے جوڑے میں ایک دوسرے کے ساتھ، یہاں تک کہ اگر ان کی امت میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا کرنے والا آئے گا اور بنواسرائیل بہتَّر فرقوں پر تقسیم ہوئی تھی، لیکن میری امت تہتَّر فرقوں پر تقسیم ہوگی، ان میں ایک کے علاوہ باقی سب فرقے جہنمی ہوں گے۔ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا :یا رسول اللہ ! وہ نجات پانے والے کون ہیں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جو میرے اور میرے صحابہؓ کے راستے پر چلیں گے۔‘‘

صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین   اسلام کی بنیاد اور اخلاص کی اعلیٰ مثال ہیں

چنانچہ صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی شخصیات کو مجروح کرنا، ایمان و ہدایت کی بنیاد پر ایسی ضرب ہے جس سے بنائے اسلام ہی منہدم ہوجاتی ہے۔ اس مذموم مقصد تک پہنچنے کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کی شخصیت تھی، جنہیں مجوسی اہل کار نے نماز کے دوران نشانہ بنایا، مگر انہوں نے جامِ شہادت پورا کرنے سے پہلے پہلے ایک مسنون مشاورتی جماعت کے ذریعہ اُمتِ مسلمہ کو وحدت کی مضبوط دیوار بناکر تشریف لے گئے، جس کی بدولت اُمتِ مسلمہ کی اکائی میں کوئی دراڑ پیدا نہ ہوسکی، مگر دوسری طرف دبی ہوئی سازشی آگ زیرِ زمین سلگتی رہی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے خلاف سبائی بغاوت کی صورت میں نمودار ہوئی۔ اس سازش کو کامیاب بنانے کے لیے طرح طرح کے اَفسانے گھڑے گئے، بعض مفسدین نے صحابہ رضی اللہ عنہم  کے انتظامی اختلافِ رائے اور لفظی نقاش کو باہمی تصادم ثابت کیا، اس سے تسکین نہ ہوئی تو میدانِ جنگ گرمانے کے اسباب گھڑے گئے، صفین و جمل کے معرکے اس کارستانی کی تلخ مثالیں ہیں۔ مگر صحابہ رضی اللہ عنہم  کے اخلاصِ کامل اور ایمانِ راسخ کا عالم یہ تھا کہ جوں ہی فسادی کارستانی کاغبار چھٹا تو باہمی جنگ‘ امن و سکون اور اخوت و مودت میں بدل گئی۔ جمل میں امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا رویہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے ساتھ ماں اور بیٹے کے رویہ کی بحالی ثابت ہوا۔ صفین میں خوارج کی جتھہ بندی اور ان کی کارستانی واضح ہو جانے پر مومنین کے دونوں طائفوں کے درمیان امن معاہدہ ہوا، اُخوت بحال ہوئی اور اُمت کو دو مملکتی ریاست کا وہ تصور ملا، جس پر آج متعدد اسلامی ممالک کا جداگانہ سیاسی وجود قائم ہے۔

حضرت علی  رضی اللہ عنہ  صاحبِ فضل وبرحق ہیں

اہلِ سنت والجماعت میں ہم سے لے کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  تک کوئی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے خلیفہ برحق ہونے اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے صاحبِ فضل و برحق ہونے میں ذرا تأمل نہیں رکھتا، جب کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  کا مطالبہ قصاصِ عثمانؓ تھا، جس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو قطعاً انکا ر نہیں تھا، بلکہ وہ اپنی شرعی و انتظامی ذمہ داری سمجھتے تھے، مگر وقت اور ماحول کا عذرِ واقعی آپ کے سامنے تھا:
’’ومن کتاب لہٗ علیہ السلام کتبہ إلٰی أہل الأمصار یقتص فیہ ما جری بینہ وبین أہل صفین) وکان بدء أمرنا أنا التقینا والقوم من أہل الشام والظاہر أن ربنا واحد ونبینا واحد، ودعوتنا في الإسلام واحدۃ ، لا نستزیدہم فی الإیمان باللّٰہ والتصدیق برسولہٖ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ ولا یستزیدوننا، الأمر واحد إلا مااختلفنا فیہ من دم عثمانؓ ، ونحن منہ براء۔‘‘                                                                                                                                                                                                (نہج البلاغۃ عربی، ج:۳، ص:۳۲۵)
’’ (حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے جو مختلف علاقوں کے باشندوں کو صفین کی روئیداد مطلع کرنے کے لیے تحریر فرمایا، وہ یہ ہے کہ: ) ’’ ابتدائی صورت حال یہ تھی کہ ہم اور شام والے آمنے سامنے آئے، اس حالت میں کہ ہمارا اللہ ایک، نبی ایک اور دعوتِ اسلام ایک تھی، نہ ہم ایمان باللہ اور اس کے رسول کی تصدیق میں ان سے کچھ زیادتی چاہتے تھے اور نہ وہ ہم سے اضافہ کے طالب تھے، بالکل اتحاد تھا، سوا اس اختلاف کے جو ہم میں خونِ عثمانؓ کے بارے میں ہوگیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے بالکل بری الذمہ تھے۔‘‘                 (نہج البلاغۃ، مترجم اردو، ج:۳ ،ص: ۷۷۶، مکتوب نمبر ۵۸، از مفتی جعفر حسین ، مطبوعہ: لاہور)

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  نیک دل اور صلح جو تھے

مومنین پھر صحابہ  رضی اللہ عنہم  جیسی جماعت کے بارے میں بحیثیت مسلمان ہمارا حسنِ ظن ہے کہ ان کا کوئی فریق بھی دوسرے کے لیے دلی کھوٹ نہیں رکھتا تھا، کیونکہ دونوں طرف صحابہؓ تھے، جن کے بارے میں نبی  علیہ السلام  نے نیک دل ہونے کا واضح اعلان فرمارکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عالی مرتبت ہستیاں مشترکہ سازشی عناصر (سبائی و خارجی) کی کارستانیوں پر مطلع ہونے کے بعد پرامن بقائے باہمی کے لیے رضامند ہوگئیں اور اس کے بعد کسی نے کسی پر لشکر کشی کی ضرورت محسوس نہیں کی، نہ ہی کسی نے کسی کے خلاف لعن طعن کوروا رکھا، بلکہ ظاہری طور پر اگر کسی طائفہ کے ہاں کسی قلبی گوشے میں کسی قسم کا طبعی خلجان تھا بھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی بشارت کے مطابق آپ کے بیٹے (نواسے) حضرت حسن بن علی  رضی اللہ عنہما  کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے دونوں بڑے گروہوں کی دوریوں کو قربتوں میں بدل دیا اور حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  اُمتِ مسلمہ کی عزت و توقیر میں اضافہ کا وسیلہ وصلہ ثابت ہوئے اور ایک بار پھر اُمتِ مسلمہ وحدت کی مالا میں پروندھ گئی، سوائے ان چند سازشی سبائی عناصر کے جو حضراتِ آل بیتؓ کی محبت کے جھوٹے نقاب پوش تھے، جنہوں نے ’’مُعِزُّ الْأُمَّۃِ‘‘ کو ’ ’مُذِلُّ الْأُمَّۃِ‘‘ کی پھبتی کسی۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے وحدتِ اُمت کے علوی و حسنی کردار کو فراموش کیا اور حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے لیے اُمت کی شیرازہ بندی کا علوی وحسنی راستہ مسدود کردیا اور ان کے لیے خلعتِ شہادت کے سوا کوئی موقع نہ چھوڑا۔

بلاشبہ شہادتِ حسین (  رضی اللہ عنہ ) امت کا ناقابلِ تلافی نقصان ہے

چنانچہ اُمتِ مسلمہ حادثۂ عثمانؓ سے شروع ہونے والے خلفشار کو بڑی مشکل سے لپیٹ پائی تھی کہ ایک اور سنگین حادثہ سے دوچار ہوگئی اور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما  کی شہادتِ فاجعہ کی صورت میں اُمت ایسے کرب و بلا سے دوچار ہوگئی، جس سے تاقیامت خلاصی نہیں پا سکتی۔ ان مظالم کے ازالے اور تدارک کی کوشش یا حسنی کردار کا احیاء واِعادہ اب بظاہر نظر نہیں آتا، اس لیے اب ہمیں ماضی کے بعض تلخ واقعات کی ایسی دُہرائی جس سے اُمت کی وحدت کا باقی ماندہ شیرازہ بھی بکھرتا ہی چلاجائے، یا موجودہ اختلافات کسی نئے فساد اور خلفشار کا ذریعہ بنیں، اس سے احتراز کرنا چاہیے۔

وحدتِ امت کے لیے ماضی اور مستقبل کا شریعت پسندانہ جائزہ درکار ہے

لہٰذا اب ہم ماضی کے واقعات کی اُلجھنوں میں پیوست رہنے کی بجائے اگر ماضی کے احوال کا ایسا شریعت پسندانہ جائزہ لے لیں، جو ماضی کی تلخ نوائیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے حال اور مستقبل کا پراَمن لائحہ عمل بنے، یہ اس وقت تمام طبقوں کی ضرورت ہے۔
آئیے! قرآن وسنت کے شفاف آئینے میں ان شرعی بنیادوں کاتذکرہ کرتے ہیں، جو اس حوالے سے ہماری رہنمائی کرتی ہیں، وہ ہدایات یہ ہیں:

۱:۔۔۔۔۔ صحابہ کرام( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) اور عام اُمتیوں کے ایمان وتکفیر میں فرق

قرآن وسنت کی تصریحات کے مطابق حضرات صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین   پکے سچے مؤمن تھے اور عام اُمت کی طرح ہم بھی مؤمن ہیں، مگر دونوں کے ایمان میں فرق کیا ہے ؟ایک فرق تو یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم  ایمان کا معیار ہیں، اور بقیہ امت کا ایمان ان کے ایمان کا عکس اور پرتو ہے۔ اگر کوئی شخص عام مؤمن کو برا بھلا کہے یا کافر کہے تو اسے صریح نصوص کے مطابق حرام کہاجاتاہے اور قائل کے ایمان کا ضیاع کہاجاتاہے، اگر کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے بارے میں گستاخانہ یا کفریہ لفظ منسوب کرے تو اس کی گستاخی اور تکفیر کا جرم بھی ان کے رتبوں کے بقدر عام مؤمن کی تکفیر سے متفاوت اور سنگین ہی ہوگا، عام مؤمن کی تکفیر کے بارے میں ارشادِ نبوی ہے کہ :
’’أیما امرء قال لأخیہ یا کافر! فقد باء بہا أحدہما إن کان کما قال وإلا رجعت علیہ۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم: یاکافر، ج:۱، ص:۷۹، رقم الحدیث: ۶۰، ط: داراحیاء التراث ، بیروت)
ترجمہ: ’’ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: جو بھی شخص اپنے کسی بھائی کو کافر کہتا ہے، تو ان دونوں میں سے کوئی ایک کفر کے ساتھ لوٹتا ہے، اگر واقعۃً ایسا ہی ہو جیسا کہ کہنے والے کہا ہے، ورنہ وہ (تکفیر) اسی پر لوٹے گی۔‘‘
غور و فکر فرمائیے کہ جب کسی عام مؤمن کی تکفیر سے مؤمن شخص کا اپنا ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے تو اگر کوئی اُن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی طرف کفر کی نسبت کرے جن کے ایمان کی شہادتیں خود قرآن میں موجود ہیں، تو ایسے شخص کے ایمان کا کیا حال ہوگا؟ قرآن کریم کی رو سے صحابہ کرامؓ کی طرف گستاخانہ نسبت کرنے والا شخص خود اسی نسبت کا دوہرا اور تہرا مستحق ہے۔ قرآن کریم کے پہلے پارے میں ہے کہ منافقین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے بارے میں جب سفیہ (بیوقوف) کا لفظ ایک بار استعمال کیا تو قرآنِ کریم نے تین تاکیدات کے ساتھ انہیں بے وقوف قرار دیا: ’’ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَہَائُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ۔‘‘ (البقرۃ:۱۳) اور ساتھ یہ بھی کہ یہ ایسے بیوقوف ہیں کہ انہیں اپنی بیوقوفی کا شعور بھی نہیں رہتا۔ بالفاظِ دیگر ایسے لوگوں کی طبیعتیں مسخ ہوجاتی ہیں اور اپنی پکی ٹھکی خرابی کی نسبت دوسروں کی طرف کرتے ہوئے احساس وشعور بھی کھوبیٹھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں نبی  علیہ السلام  نے سخت زبان ، تلخ لہجے اور لعن طعن کا حکم بھی فرمایا ہے، حالانکہ عام طور پر کسی شخص کے بارے میں لعن طعن سے منع ہی کیا جاتا تھا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
’’إذا رأیتم الذین یسبون أصحابي فقولوا: لعنۃ اللّٰہ علی شرکم۔‘‘(سنن الترمذی، ج:۵، ص:۶۹۷)

۲:۔۔۔۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے بغض کا خطرناک انجام

صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی شان تو یہ ہے کہ ان کی گستاخی یاتکفیر تو درکنار اگر کوئی ان کے بارے میں دل میں بغض رکھے، تو اُسے بھی باعث کفر قرار دیاہے: ’’لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ‘‘ کے تحت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  نے یہی استدلال فرمایاہے۔                       (تفسیر ابن کثیر،ج:۷،ص:۳۳۸، دار الکتب العلمیۃ، بیروت) 
اس لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم  سے محبت نبی  علیہ السلام  سے محبت اور ایمان کی علامت ہے اور چونکہ ان سے بغض و نفرت نبی  علیہ السلام  سے بغض اور بے ایمانی کی علامت ہے، اور ایمان و کفر دونوں کا محل چونکہ دل ہی ہوتا ہے، اور ایک دل میں ایک ساتھ دونوں ضدیں جمع نہیں ہوسکتیں، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
’’اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِيْ أَصْحَابِيْ لَاتَتَّخِذُوْہُمْ غَرَضًا مِنْ بَعْدِيْ، فَمَنْ أَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّہُمْ وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَہُمْ ، وَمَنْ آذَاہُمْ فَقَدْ آذَانِيْ وَمَنْ آذَانِيْ فَقَدْ آذَی اللّٰہَ وَمَنْ آذَی اللّٰہَ فَیُوْشِکُ أَنْ یَّأْخُذَہٗ۔‘‘(سنن الترمذی، باب فیمن سب اصحاب النبی  صلی اللہ علیہ وسلم ، ج:۵،ص:۶۹۶، رقم الحدیث: ۳۸۶۲، ط: مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی)

۳:۔۔۔۔۔ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی تنقیص وتکفیر نبی  علیہ السلام  کی تنقیص ہے

صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی تنقیص و تکفیر درحقیقت نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی توہین و تنقیص کو   مستلزم ہے، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے بارے میں ایمان اور عمل کے اعتبار سے ناقص ہونے کا اعتقاد نبی  علیہ السلام  کے کارِ نبوت میں ناکام ہونے کا اعتقاد ہے، جو یہود و نصاریٰ کا اعتقاد تو ہوسکتا ہے، کسی مسلمان کا اعتقاد نہیں ہوسکتا، حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے ترجمان ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی:۱۰۱۴ھ) لکھتے ہیں:
’’وقد صرح بعض علمائنا بأنہ یقتل من سب الشیخینؓ، ففي کتاب السیر من کتاب الأشباہ والنظائر للزین بن نجیم کل کافر تاب فتوبتہ مقبول في الدنیا و الآخرۃ إلا جماعۃ الکافر بسبّ النبيؐ وسبّ الشیخینؓ أو أحدہما أو بالسحر أو بالزندقۃ إذا أخذ قبل توبتہ وقال سب الشیخینؓ ولعنہما کفر۔ ‘‘         (مرقاۃ، ج:۱۱، ص:۲۷۳)
ترجمہ:’’ ہمارے بعض علماء نے تو بہت کھل کر بات کہہ دی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ   کو برابھلا کہنے کی سزا سزائے موت ہے ۔ جو کافر توبہ کرے اس کی توبہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ لائقِ قبول ہے، مگر وہ فرقہ جو نبی پاک اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ   کو یا ان میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے سے کافر ہوا، یا جادو اور زندقہ کے باعث کافر ہوا تو اس کی توبہ بھی قبول نہیں ، اگر وہ توبہ سے پہلے ارتکابِ جرم میں پکڑا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ   کو برا بھلا کہنا کفر ہے ۔‘‘

۴:۔۔۔۔۔ اہل بیت رضی اللہ عنہم  بھی اہل سنت کے ایمان کی امتیازی بنیاد ہیں

اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم  قرآن کریم کی مانند اہلِ سنت کے ایمان کی بنیاد ہیں، وہ شرفِ صحابیت پر مستزاد شرفِ قرابت کے علمبردار بھی ہیں، اس حقیقت کااعتراف و اظہار سنیت ہے اور اس سے اختلاف و اعراض ٹھیٹھ سنی عقیدے کے مطابق ناصبیت ہے۔ اگر اہلِ سنت کی چھتری تلے کوئی بھی سنی اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  میں سے کسی کی توہین و تنقیص کا مرتکب ٹھہرتا ہے تواس پر اہلِ تشیُّع سے پہلے خود اہلِ سنت میدان میں اُترجاتے ہیں، اور ایسے لوگوں کی فہمائش و سرزنش کرتے ہیں، اورایسے لوگوں کی لفظی و تعبیری غلطیوں سے تسامح بھی روا نہیں رکھتے، اہلِ سنت کے ہاں اہل بیت رضی اللہ عنہم  کی فضیلت و منقبت‘ حدیث کے ’’أبواب المناقب‘‘ میں مستقل ابواب و عناوین کے ساتھ درج ہے:
’’عن جابر بن عبد اللّٰہؓ قال : رأیتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم في حجتہٖ یوم عرفۃ وہو علٰی ناقتہ القصواء یخطب ، فسمعتہٗ یقول: یا أیہا الناس! إني قد ترکتُ فیکم ما إن أخذتم بہٖ لن تضلوا: کتاب اللّٰہ وعترتي أہل بیتي۔‘‘   (سنن الترمذی، باب مناقب اہل بیت النبی  صلی اللہ علیہ وسلم ، ج:۵، ص:۶۶۲، رقم الحدیث: ۳۷۸۶، ط: مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی )
ترجمہ: ’’ حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو حج کے موقع پر عرفہ کے دن دیکھا جب کہ وہ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، میں نے سنا آپ فرمارہے تھے کہ: اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑکر جارہا ہوں کہ تم ان کو لے لوگے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے: اللہ تعالیٰ کی کتاب، اور میرے اہلِ بیت۔‘‘
اور اہلِ سنت میں سے بے شمار اہلِ علم نے اہلِ بیت( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کی فضیلت ومنقبت پر سینکڑوں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں، جن میں ناصبی نظریئے کی زبردست نفی کا فریضہ بھی نبھایاگیا ہے۔ ہمارے اکابر میں سے حضرت مولانا محمد عبدالرشید نعمانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی تالیف ’’ناصبیت تحقیق کے بھیس‘‘ میں اس کی ایک مثال ہے۔

۵:۔۔۔۔۔ موجودہ اُمت سابقہ قضایا کے فیصلوں کی مجاز نہیں

سابقہ قضایا کے نہ ہم فریق ہیں اور نہ وکیل ہیں، ان قضایا میں نہ اُلجھیں، یہ قضایا بڑی عدالت میں پہنچ چکے ہیں، ہم اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں نہ اہل!اگر ہم فیصلہ کربھی لیں تو متاثرہ فریق کو کیا فائدہ پہنچاسکتے ہیں؟! اور موردِ الزام پر کیسے فردِ جرم عائد کرسکتے ہیں؟! ایسے قضایا کے بارے میں قرآن کا فیصلہ یہ ہے:
’’تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔‘‘                                                              (البقرۃ:۱۴۱)
ترجمہ: ’’وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی، ان کے واسطے ہے جو انہوں نے کیا اور تمہارے واسطے ہے جو تم نے کیا اور تم سے کچھ پوچھ نہیں ان کے کاموں کی۔‘‘
حضرت عمر بن عبدالعزیز  رحمۃ اللہ علیہ  کے فرمان کے مطابق: جن قضایا میں ہمارے ہاتھ ملوث نہیں ہیں، ان سے ہماری زبان بھی محفوظ رہنی چاہیے:
’’سئل عمر بن عبدالعزیزؒ عن عليؓ وعثمانؓ والجمل وصفین وماکان بینہم ، فقال: تلک دماء کف اللّٰہ یدي عنہا وأنا أکرہ أغمس لساني منہا۔‘‘ (طبقات ابن سعد، ج:۵، ص:۳۹۴۔ تاریخ دمشق، ج:۵، ص:۱۳۳)

۶:۔۔۔۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے باہمی اختلافات سے باہمی اخوت اور مرحمت کا تعلق ختم نہیں ہوا

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کے درمیان انتظامی ولفظی اختلاف تو ہوسکتا ہے، یہ فطری امر ہے، لیکن اس کو ان کی باہمی دشمنی یا صحابہ ؓسے دشمنی کا جواز بنانا، بتانا اور کسی کی شان میں کمی کرناقطعاً حرام ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا باہمی احترام، رحمت اور عقیدت ’’رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ‘‘ جیسی نصِ صریح سے ثابت ہے اور ان کے ایمان وعمل پر رضاء و رضوان کی مہر بھی ثبت ہے:
۱:-’’مُحَمَّدٌ رََّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرٰہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یََّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِيْ التَّوْرٰۃِ وَمَثَلُہُمْ فِيْ الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئََہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا۔‘‘                       (المائدۃ:۱۱۹)
۲:-’’لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔‘‘                                       (الفتح:۲۹)
اِن تصریحات کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے انتظامی اختلافات کو کفروایمان کا مسئلہ قراردینا اِن نصوص سے انحراف کو   مستلزم ہے، حالانکہ شرعاً انتظامی اختلاف کرنے سے کفر لازم نہیں آتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا یہ ارشاد ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ:
 ’’ہم إخواننا بغوا علینا۔‘‘ (السنن الکبری للبیہقی، ابواب الرعاۃ، باب الدلیل علی ان الفئۃ الباغیۃ منہما لاتخرج بالبغی عن تسمیۃ الاسلام، ج:۸، ص:۳۰۰، رقم الحدیث: ۱۶۷۱۳، دارالکتب العلمیۃ)
حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے اپنے محاربین (اہلِ جمل وصفین ) سے متعلق فرمایا کہ:
’’إنا لم نقاتلہم علی التکفیر لہم ولم نقاتلہم علی التکفیر لنا ولکنا رأینا إنا علٰی حق ورأوا أنہم علٰی حق۔‘‘           (قرب الاسناد لابی العباس عبداللہ بن جعفر الحمیری، ص:۹۳۔ بحار الانوار للمجلسی، ج:۸، ص:۴۲۶)
’’ ہم نے ان کو کافر سمجھ کر ان سے لڑائی نہیں کی اور نہ وہ ہم کو کافر سمجھتے تھے، لیکن ہم اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے۔‘‘ 

 ۷:۔۔۔۔۔ مسلمات پر وحدتِ امت کا باہمی تعلق مسلم ضرورت ہے

دنیا کے تمام طبقات (مسلم وغیرمسلم) کے ساتھ مسلمات و مشترکا ت پر وحدت و امن کا تعلق ہوسکتا ہے تو اسلامی فرقوں کی نسبت رکھنے والے فرقوں کااسی اصول پرباہمی تعلق بھی استوار ہوسکتا ہے، اس راستے اور دروازے کو اپنے اوپر بند کرنے کے بجائے کھلا رکھنا ہماری ضرورت ہے:
’’قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَاء ٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔‘‘               (آل عمران:۶۴)
ترجمہ: ’’تو کہہ اے اہل کتاب! آؤ ایک بات کی طرف جو برابر ہے ہم میں اور تم میں کہ بندگی نہ کریں ہم مگر اللہ کی اور شریک نہ ٹھہراویں اس کا کسی کو اور نہ بناوے کوئی کسی کو رب سوا اللہ کے، پھر اگر وہ قبول نہ کریں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو حکم کے تابع ہیں۔‘‘

۸:۔۔۔۔۔ شدید اختلافِ رائے اور پرامن بقائے باہمی کی مثالیں 

قرآن وسنت کی رو سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  بہرحال معیارِ ایمان ہیں، ہدایت کی کسوٹی ہیں، ان سے عنادی اختلاف‘ دین سے انحراف ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا دعوائے ایمان بے بنیاد ہے، مگر اس کے باوجود ایسے عناصر کے وجود کی نفی یا صفایا نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ہمارے اعتقاد کے لحاظ سے ایسے لوگ غلط ہونے کے باوصف معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے فارمولے پر بات ہوناسماجی ضرورت ہے اور ہر دور میں معاشرے کے سنجیدہ طبقے اس ضرورت کا احساس کرتے چلے آئے ہیں۔ تحریکِ ختمِ نبوت، تحریکِ نظامِ مصطفی ( صلی اللہ علیہ وسلم )، متحدہ مجلسِ عمل اور اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ اور ملی یکجہتی کونسل وغیرہ اس کی خارجی مثالیں ہیں۔
چنانچہ اتحاد و اشتراکِ عمل کی یہ مثالیں اس بات کا بیّن ثبوت ہیں کہ تمام فرقے اپنے اپنے فکری وعملی امتیاز کو اپنی حدود تک محدود رکھتے ہوئے دوسروں کے ساتھ مشترکات و مسلمات کے لیے چلنا چاہیں تو چل سکتے ہیں، اس میں کسی کا مسلک ہرگز مانع نہیں ہے۔ اگر اس کارخیر میں کسی فرقے کے کچھ افراد مانع بنتے ہوں تو ایسے افراد کو متعلقہ مسلک کی ترجمانی کے مواقع سے سختی کے ساتھ دور رکھا جائے۔ یہ بھی ہر مسلک کی مسلکی ومعاشرتی ذمہ داری اور ضرورت ہے ۔

۹:۔۔۔۔۔ اکثریتی رائے اور جذبات کا احترام ہر لحاظ سے ضروری ہے

یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ پاکستان سنی اکثریتی ملک ہے۔ اکثریتی رائے کا احترام ہرجگہ ہر کسی کے ہاں شرعی، اخلاقی اور قانونی فرض سمجھا جاتا ہے۔ اس شرعی واخلاقی ضابطے کی رو سے یہ مطالبہ بالکل بجا ہے کہ اہلِ تشیُّع اپنی مسلکی انفرادیت کے بیان واظہار میں کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہیں جس سے اکثریتی طبقہ کے احساسات مجروح ہوں۔ یہ ذمہ داری ان پر زیادہ ہے، کیونکہ اہلِ سنت میں سے کوئی بھی اہلِ تشیُّع کے مقدسات کے بارے میں بالخصوص قرونِ اولیٰ کی ہستیوں کے بارے میں کفریہ یا توہین آمیز کلمہ کہنے کو اپنے بھی ایمان کا ضیاع سمجھتاہے۔ اہلِ تشیُّع بھی ایسا ہی رویہ اپنائیں، ورنہ سارے تنازعات اور ان کے منفی اثرات کے مورِد وہی لوگ ٹھہریں گے، جیسے موجودہ حالات میں بعض عاقبت نااندیش شیعہ حضرات نے اہلِ سنت کے ہاں مقدس ہستیوں کے بارے میں گستاخانہ کالک پورے شیعہ مسلک کے منہ پر ملتے ہوئے پورے مسلک کو شریکِ جرم بنانے کی کوشش کی۔

۱۰:۔۔۔۔۔ کسی بھی دین و دھرم کے مقدسات کی توہین اور ردِ عمل کا قرآنی حکم

شریعتِ اسلامیہ کی رو سے کسی بھی طور پر کسی انسان کو گالم گلوچ یا کسی کے مقدسات کو سب و شتم کرنا کسی طور پر بھی جائز نہیں، بلکہ یہ عمل تمام مذاہب میں ناجائز ہی ہے۔ اسلام میں کسی مومن یا اسلامی نسبت کے حاملین اشخاص کے بارے میں نازیبا گوئی کی حرمت ہمارے متنازع فیہ احوال سے پہلے وارد شدہ ہے، بلکہ سب و شتم سے احتیاط کے حکم کی بنیاد توانسانی شرافت پر قائم ہے۔ اسلام میں تو یہ بھی جائز نہیں ہے کہ کسی غیر مسلم کے اس مقدس کی توہین کریں جو آپ کے نزدیک قطعی باطل ہے۔ اگر کسی شیعہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  یا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے اعتقادی یا طبعی عناد یا پرخاش ہے تو وہ اپنے اس عقیدے کی عنداللہ جواب دہی سے قبل انسانی بنیادوں پر اس بات کا پابند ضرور ہونا چاہیے کہ وہ اہلِ سنت کے انسانی احترام کی خاطر ان کے ایمانی معیار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے بارے میں اپنی زبان بند رکھے۔ قرآن کریم نے خالص کفار کے مقدسات اور معبودانِ باطلہ کو بھی برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، اس اسلامی حکم کا پاس ہمیں آپس کے تنازعات میں کیوں فراموش ہوجاتا ہے؟ کیا ان فرامین کی صداقت میں شبہ ہے؟ یا ہمارا ایمان کوئی بنیاد نہیں رکھتا؟!قرآن کریم میں ارشاد ہے :
’’وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوْا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمْ مَّرْجِعُہُمْ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔‘‘(الانعام:۱۰۸)
ترجمہ: ’’اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا، پس وہ برا کہنے لگیں گے اللہ کو بے ادبی سے بدوں سمجھے، اسی طرح ہم نے مزین کر دیا ہر ایک فرقہ کی نظر میں ان کے اعمال کو، پھر ان کو اپنے رب کے پاس پہنچنا ہے، تب وہ جتلا دے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے تھے۔‘‘
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کے مقدسات کو برا بھلا کہنے پر ردِ عمل سامنے آئے تو اس کی ذمہ داری مقدسات کو برا بھلا کہنے والے پر عائد ہوگی ۔ 

۱۱:۔۔۔۔۔ اموات کے بارے میں زبان بندی کا نبوی حکم

صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین  اب دنیا میں نہیں رہے، اموات کی فہرست میں تو شامل ہو ہی چکے ہیں، عام اموات کے بارے میں جناب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشا دِ گرامی میں جس رعایت، تسامح، زبان بندی اور سب وشتم سے اجتناب کا حکم ہے کم از کم اسی حکم کو مان لیا جائے ، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے :
’’لا تسبوا الأمواتَ فإنہم قد أفضوا إلٰی ما قدموا۔‘‘  (صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب ما ینہی من سب الأموات،ج:۲، ص:۱۰۴،رقم الحدیث:۱۳۹۳،ط:دار طوق النجاۃ)
’’مردوں کو برا بھلا نہ کہو، اس لیے کہ وہ لوگ اس سے مل چکے ہیں جو انہوں نے پہلے بھیجا ہے۔‘‘

۱۲:۔۔۔۔۔ اہلِ بیت  رضی اللہ عنہم کے مخالفین کے بارے میں حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی تعلیمات

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کی محبت کا لبادہ اوڑھ کر بزعمِ خود اہلِ بیت  رضی اللہ عنہم  کے مخالفین پرلعن طعن کرنا خود ائمہ اہلِ بیت بالخصوص حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے صریح ممانعت منقول ہے، چنانچہ نہج البلاغہ جس کی اسناد و ارسال کے بارے میں اہلِ سنت کو اگرچہ تأمل ہے، مگر اہلِ تشیُّع کے ہاں یہ متداول ہے اور اس کے حوالے دیئے جاتے ہیں، وہاں پر حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کا ارشاد واضح منقول ہے جس میں آپؓ نے اپنے مخالفین کے سب و شتم سے روکا ہے۔ (نہج البلاغۃ مترجم اردو، ص:۵۷۱، خطبہ نمبر:۲۰۴، از مفتی جعفر حسین ، مطبوعہ: لاہور) 
اس بیانِ برحق کے مطابق کوئی شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  یا اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کے دفاع یا محبت کے لبادے میں کسی کو اُن کا مخالف ٹھہرائے یا سب و شتم کرے تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کا شیعہ نہیں ہوسکتا، اس کا مذہبی وایمانی مقام‘ خود اہلِ تشیُّع کے کبار اہلِ علم ہی متعین فرمائیں۔

۱۳:۔۔۔۔۔ مروجہ دعائے عاشورہ کی مسلکی واستنادی حیثیت

اہلِ تشیُّع کے ہاں مروجہ دعائے عاشوراء جس میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  پر لعن طعن کا آمیزہ ہے، اور اسی کی وجہ سے حالیہ انتشار بھی پیدا ہوا ہے۔ اہلِ تحقیق صاحبانِ علم کی تصریحات شاہد ہیں کہ یہ دعا اہلِ تشیُّع کے کسی معتبر امام و مقتدیٰ سے مروی نہیں ہے۔ جہاں جہاں یہ دعا منقول ہے، اکثر و معتبر کتب میں یہ دعاء محض مناجات اور مقدس ہستیوں کے توسل پر مبنی ہے، کسی کے لعن طعن کا تذکرہ نہیں، بعض جگہوں میں لعن کے الفاظ بھی ملتے ہیں، مگر کسی معین شخص یا اشخاص کے ناموں کے بغیر ہی ملتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لعن طعن، ناموں کی تعیین کے ساتھ یا دعاؤں میں تبراء بازی شیعوں کے مذہب کا ضروری حصہ ہرگز نہیں ہے۔
بلکہ اہلِ تشیُّع کے معتبر مراجع کے مطابق یہ دعا چھٹی صدی کے ایک فتنہ پَرور صفوی بے دین بادشاہ نے ایجاد کی ہے۔ ایک بے دین فتنہ پَرور بادشاہ کی من گھڑت دشنام طرازی کو شیعہ مذہب کے ساتھ جوڑنا‘ خود شیعہ مذہب کی غلط اور فتنہ انگیز ترجمانی ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اہلِ تشیُّع کے سنجیدہ اصحابِ علم اس حقیقت کو جانتے ہیں اور اپنی حد تک اس کی نکیر بھی کرتے ہیں۔اگر اس طرح کی خرافات اور فتنہ انگیز اُمور کے بارے میں اہلِ سنت کے کسی ردِ عمل سے قبل خود اہلِ تشیُّع ہی نوٹس لے لیں اور اس کے تدارک وانسداد کی کوشش کریں تو کوئی بھی فتنہ پرور اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ 

۱۴:۔۔۔۔۔ شیعہ سنی کے مشترک دشمن اور اشتعال انگیزی کے وارداتی حربوں کے ادارک کی ضرورت

اہلِ سنت اور اہلِ تشیُّع کے تمام سنجیدہ اور صاحبِ علم لوگوں کو سمجھنا چاہیے، بلکہ اکثر سمجھ بھی چکے ہیں، اسی وجہ سے سب کچھ سمجھ میں آچکنے کے بعد ہر طبقہ مسلکی بنیاد پر لڑائی بھڑائی سے بیزار بھی ہوچکا ہے، پھر بھی مشترکہ دشمن باہمی دست و گریبان کرانے کے لیے کیسے کامیاب ہوجاتا ہے؟ اس پر سوچنا چاہیے، ایسے سازشی عناصر کا طریقۂ واردات دیکھیں کہ موجودہ نازک دور میں اہلِ سنت کے بعض لوگوں کے ذریعہ باہمی تکفیر کے فتووں کو نفیاً یا اثباتاً دُہرانا یا اہلِ تشیُّع کی طرف سے اہلِ سنت کے ہاں مقدس ہستیوں کے خلاف توہین آمیزی کا ارتکاب کرانا بڑا ہی معنی خیز ہے، یہ تو اوس و خزرج کے درمیا ن خوابیدہ دشمنی کی چنگاریوں کو ہوا دینے والے کردار کی دُہرائی ہے۔ اس کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ وطنِ عزیز کو ایک بار پھر۱۹۸۰ء کی دہائی میں دھکیلا جارہا ہے۔ باخبرطبقے جانتے ہیں کہ ایرانی انقلاب کے بعد اسی طرز کے انقلاب کے لیے پاکستان میں تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کا عنوان سامنے آیا تھا، پھر اس کے ردِ عمل میں پاکستان کی۴ دہائیاں آگ و خون کی نذر ہوئیں۔ بلاشبہ پاکستان سنی اکثریتی ملک ہے، لیکن اہلِ تشیُّع بھی مذہب پرست شہری ہیں، مذہب و شہریت کے جملہ حقوق ان کو بھی حاصل ہیں، وہ ایران کے اہلِ سنت کے مقابلہ میں یہاں زیادہ آزاد ہیں، اس لیے یہاں ان کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، کہ وہ اپنی مذہبی و مسلکی آزای کا استعمال اپنی حدود اور مثبت نہج تک محدود رکھیں۔ اس مسلکی حق کو منفی نہج پر لے جانا خود اُن کے لیے نقصان دہ ہے ۔ جو عناصر مسلکی اختلافات کو منفی نہج پر لے جاکر خلفشار کا باعث بنتے ہیں، وہ اہلِ سنت سے زیادہ خود اہلِ تشیُّع کے دشمن ہیں۔ اہلِ تشیُّع کے کبار اہلِ علم کو ایسے لوگوں سے کھلم کھلا براء ت کا اظہار کرنا چاہیے، یہ اُن کی مسلکی ضرورت ہے۔ 

۱۵:۔۔۔۔۔ ملک کے انتظامی وعسکری اداروں کے لیے لمحۂ فکریہ

پاکستان کے دینی، انتظامی اور عسکری حلقوں کے لیے حساس لمحہ فکریہ یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان، پیامِ پاکستان جیسے قومی ضوابط کے ہوتے ہوئے مقدس ہستیوں کے بارے میں بدگوئی، یا تکفیر کی جسارت مذکورہ پلان وپیام کی نفی ہے، بلکہ ایک طرح سے فرقہ وارانہ فسادات کے ذمہ داروں کا تعیُّن بھی ہورہا ہے۔ یہ نازیبا حرکت اہلِ سنت سے زیادہ اہلِ تشیُّع کو تنہا کرنے، ہرقسم کے تکفیری وانتشاری الزام کا مورد اور مجرم ٹھہرانے کا اقدام ہے۔ اہلِ تشیُّع کی صفوں میں موجود ایسے شیعہ دشمن عناصر کے خلاف کارروائی، ان سے لاتعلقی اور ان کی شدید سرزنش اہلِ تشیُّع کے نہ صرف مفاد میں ہے، بلکہ ان کی شرعی و معاشرتی ذمہ داری بھی ہے۔ ہمارے علم کے مطابق کئی اہلِ تشیُّع اس ذمہ داری کا احساس رکھتے ہوئے کردار بھی ادا کررہے ہیں، جب کہ بعض اب تک عذرِ گناہ بد تر از گناہ اور ’’دفاعِ مجرم سنگین از جرم‘‘ کی مکروہ شکل بنے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور پیغامِ پاکستان کے متعلقہ ضابطوں کے اجراء بلکہ احیاء کی ضرورت ہے، ورنہ قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کی کمزوری‘ جرائم کی تقویت اور پشت پناہی کی فہرست میں شامل ہوجاتی ہے۔

۱۶:۔۔۔۔۔ شیعہ سنی خلفشار کے خاتمے کے لیے مناسب لائحہ عمل

پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک دفعہ پھر حقیقی پیغامِ پاکستان کا اعادہ کریں، شیعہ سنی خلفشار کے تناظر میں فی الوقت حقیقی پیغامِ پاکستان کی تین بنیادی اکائیاں ہیں، جن پر اہلِ سنت اور اہلِ تشیُّع کو کشادہ دلی اور دور اندیشی کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آجانا چاہیے، وہ اکائیاں یہ ہیں: 
(ا):-تمام سنی اور شیعہ اس پر متفق ہیں اور اس کا اظہار بھی کریں کہ اہلِ بیت  رضوان اللہ علیہم اجمعین   ہمارے ایمان کا بنیادی امتیازی حصہ ہیں، ان کے بغیر کسی بھی مدعیِ ایمان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔
ب:- جانبین سے اس بات کو بصدق ویقین مانا جائے اور اظہار بھی کیا جائے کہ نبی  علیہ السلام  کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  بنیادِ اسلام، معیارِ ایمان اور عادل ہیں، اس جماعت کو ایک طرف کرکے جو اسلام پیش کیاجائے وہ کچھ اور تو ہوسکتا ہے ، مگر اسلام نہیں ہوسکتا۔
ج:-اصل بات یہ ہے جو تمام مذہب پسندوں کو سمجھنی چاہیے کہ ہمارے ملک کے بعض حلقوں کے کچھ عناصر ہمیں پرامن دیکھنا نہیں چاہتے، وہ اپنے مقاصد کی برآری کے لیے مختلف حربوں کے ذریعہ صدیوں پرانے اختلافات کو موقع بموقع ہوا دینے کی کوشش میں رہتے ہیں، ان کی یہ کارستانیاں اب سب کو سمجھ آجانی چاہئیں۔ ہم کسی کے لڑانے اور ملانے کے بجائے خود ہی لڑنا بھڑنا چھوڑدیں اور مسلمات ومشترکات کے اصولوں پر آپس میں قربتیں رکھیں، ایسی سازشوں کے لیے اپنے مسلکی اختلافات کو استعمال کرنے کی کسی کو اجازت نہ دیں، اسی میں عافیت ہے۔

اللّٰہم عافنا فیمن عافیت و أعذنا من کید الکائدین ومکر الماکرین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین