بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مقامِ شہداء کرام 

مقامِ شہداء کرام 


انعام یافتہ جماعتوں میں سے تیسری جماعت حضرات شہداء کرام کی ہے، جن پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہوتا ہے، جن کی پیروی کا حکمِ ربانی ہے، جن کی رفاقت بحکمِ قرآن بہترین رفاقت ہے، جن کے ناموں کی طویل فہرست ہے، جن کو اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے اور کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہ جماعت قیامت تک باقی رہے گی۔ جب سے اسلام اور کفر کا مقابلہ شروع ہوا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک شہداء کی جماعت ہی ہے جو اپنی جان، مال سے اسلام کو بچاتی رہی ہے، جن کے خون کی بدولت اسلام پھلتا پھولتا رہا ہے۔ ہمیشہ اُن کے خون سے اسلام ترقی کرتا رہا ہے، ان کا خون ہی ہمیشہ آبیاری کا کام دیتا ہے۔
مسلمانوں کی عزت وعظمت، شان وشوکت کی حفاظت میں شہداء کرام نے بنیادی کردار ادا کیا ہے، نیز ملک وملت کی آبروکی محافظ یہ ہی جماعت رہی ہے۔ شہادت کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے جو صرف مسلمانوں کو ہی عطاء ہوا ہے، باقی اقوام اس نعمت سے محروم ہیں۔ اس جذبے کے آگے ملتِ کفر ہمیشہ پاش پاش ہوتی رہی ہے۔ دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے جو لوگ جاںنثاری کرتے ہیں، ان کا اللہ تعالیٰ اور امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں بہت ہی بلند مقام ہے۔ ان کے اس مقامِ عالی کو سمجھنے کے لیے درج ذیل آیات واحادیث اوراکابر کے اقوال سے کافی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم :
۱: ’’وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَاءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ‘‘
 (البقرۃ:۱۵۴)
ترجمہ:’’اور جو لوگ الله کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں ان کی نسبت یوں بھی مت کہو کہ وہ (معمولی مردوں کی طرح) مردے ہیں ، بلکہ وہ تو (ایک ممتاز حیات کے ساتھ) زندہ ہیں، لیکن تم (ان) حواس سے (اس حیات کا) ادر اک نہیں کرسکتے ۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔ علامہ واحدیؒ ’’أسباب النزول‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’یہ آیت بدر میں شہید ہونے والے چودہ (۱۴) مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی، جن میں سے آٹھ حضرات انصار میں سے تھے اور چھ حضرات مہاجرین میں سے تھے، شہید ہونے والوں کے بارے میں بعض لوگوں نے یوں کہا کہ فلاں مرگیا، اور دنیا کی لذت ونعمت اس سے فوت ہوگئی تو آیتِ بالا نازل ہوئی۔‘‘ (بغوی:ج ۱، ص:۱۳۹) 
اس آیت میں شہداء کرام کے لیے لفظ مردہ استعمال کرنے سے روکا گیا ہے۔
۲:’’وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِہٖ ۙ وَيَسْـتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِيْنَ لَمْ يَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ ۙ اَ لَّا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۔‘‘ (آل عمران:۱۶۹)
ترجمہ:’’اور (اے مخاطب) جو لوگ الله کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ مت خیال کر، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرب ہیں، ان کو رزق بھی ملتا ہے ۔وہ خوش ہیں اس چیز سے جو اُن کو الله تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں، ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوںگے۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔ مندجہ بالا آیات میں شہداء کرام کے درج ذیل فضائل بیان کیے گئے ہیں: ۱:-ان کی ممتاز دائمی حیات ہے۔ ۲:- ان کو من جانب اللہ رزق دیا جاتاہے۔ ۳:- وہ ہمیشہ خوش وخرم رہیںگے۔ ۴:- وہ اپنے جن متعلقین کو دنیا میں چھوڑ گئے تھے، ان کے متعلق بھی ان کو یہ خوشی ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں رہ کر نیک عمل اور جہاد میں مصروف رہیں تو ان کو بھی یہاں آکر یہ ہی نعمتیں اور درجاتِ عالیہ ملیںگے۔
اور سدیؒ نے بیان فرمایاہے :’’ شہید کا جو کوئی عزیز، دوست مرنے والا ہوتاہے شہید کو پہلے سے اس کی اطلاع کردی جاتی ہے کہ فلاں شخص اب تمہارے پاس آرہاہے، وہ اس سے ایسا خوش ہوتا ہے، جیسے دنیا میں کسی دور افتادہ دوست سے بعد مدت ملاقات کی خوشی ہوتی ہے۔‘‘ (معارف القرآن:ج۲، ص:۲۳۷)
شانِ نزول: اس آیت کا شانِ نزول امام ابوداؤدؒ نے سنن ابی داؤد (ج۱، ص:۳۴۱) میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ: جب واقعۂ احد میں تمہارے بھائی شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ارواح کو سبز پرندوں کے جسم میں رکھ کر آزاد کردیا، وہ جنت کی نہروں اور باغات سے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آجاتے ہیں جو اُن کے لیے عرشِ رحمان کے نیچے معلق ہیں، جب ان لوگوں نے اپنی راحت وعیش کی یہ زندگی دیکھی، تو کہنے لگے کہ: ہمارے متعلقین دنیا میں ہمارے مرنے سے غمگین ہیں، کیا کوئی ہمارے حالات کی خبر اُن کو پہنچا سکتا ہے؟ تاکہ وہ ہم پر غم نہ کریں اور وہ بھی جہاد میں کوشش کرتے رہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تمہاری یہ خبر اُن کو پہنچائے دیتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (قرطبی، ج:۴، ص:۲۶۵۔ معارف القرآن، ج:۲، ص:۲۳۷)
۳: ’’اِنَّ اللهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ ۣ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ ۭ وَذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ‘‘ (التوبہ:۱۱۱)
ترجمہ: ’’بے شک اللہ نے خریدلی ہے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے، لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں، پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں، وعدہ ہوچکا اس کے ذمے پر توراۃ اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے بات کا سچا اللہ سے زیادہ، سوخوشیاں کرو اس معاملے پر جو تم نے کیا ہے اس سے، اور یہ ہی ہے بڑی کامیابی۔‘‘
شانِ نزول: اکثر حضرات مفسرین کی تصریح کے مطابق یہ آیت بیعتِ عقبہ کے شرکاء کے لیے نازل ہوئی ہے جو ستر (۷۰) افراد تھے، جو ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں انصارِ مدینہ سے لی گئی تھی، اس لیے پوری سورت کے مدنی ہونے کے باوجود ان آیات کو مکی کہاگیاہے، یہ آیات سن کر سب سے پہلے حضرت براء بن معرو رؓ اور حضرت ابو الہیثم ؓ اور حضرت اسعدؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، ہم اس معاملے پر تیار ہیں، آپ کی حفاظت اپنی عورتوں اور بچوں کی طرح کریںگے اور آپ کے مقابلے پر اگر دنیا کے کالے اور گورے سب جمع ہوجائیں تو ہم سب کا مقابلہ کریںگے۔ یہ سب سے پہلی آیت ہے جو مکہ مکرمہ میں قتال کے متعلق نازل ہوئی اور اس کا عمل ہجرت کے بعد شروع ہوا، اس کے بعد دوسری آیت ’’اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ ‘‘ نازل ہوئی، اگرچہ یہ آیت خاص جماعتِ شرکاء عقبہ کے لیے نازل ہوئی ہے، مگر آیت کا مفہوم تمام مجاہدین فی سبیل اللہ کو شامل ہے۔ حضرت عمرفاروقؓ فرماتے ہیں کہ: یہ عجیب بیع ہے کہ مال اور قیمت دونوں تمہیں ہی دے دیئے۔ (معارف القرآن:ج۴،ص:۴۶۷۔ مظہری:ج۵، ص:۴۱۸)
فائدہ: سب کو معلوم ہے کہ جان ومال سرمایۂ طغیان وغرور ہے، ان دوناقص اور معیوب چیزوں کے بدلے میں جنت کا سودا کرلینا جو سراسر خیر اور بے عیب ہے، انتہائی کامیابی ہے۔ 
 (معارف القرآن:ج۳،ص:۵۲۵ ،کاندھلویؒ)
فائدہ: جنت کے سامنے اس معمولی سی قربانی کی کوئی حیثیت نہیں ، دیا تھوڑا سا، ملا بے حساب، وہ بھی ابد الآباد کے لیے، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ حضرت قتادہؓ سے فرمایا: ’’ثامنہم اللہ عز وجل فأغلٰی لہم‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں سے لین کا معاملہ کیا اور بہت زیادہ قیمتی چیز عطا فرمائی، حضرت حسنؓ نے فرمایاکہ : ’’اسعوا إلی بیعۃ (بیحۃ)‘‘ یعنی نفع والی بیع کی طرف دوڑو، جس کا معاملہ اللہ نے ہر مؤمن سے کیا ہے۔ (انوار البیان:ج۴، ص:۲۸۷) 
فائدہ: جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں لوگوں کو سنائی تو ایک مرد انصاریؓ چادر کھینچتا ہوا اور کہا کہ: بے شک یہ بڑے نفع کا سودا ہے، ہم بیع کا اِقالہ نہ کریںگے، یعنی اس بیع کو کبھی فسخ نہ کریںگے، یعنی اس سے بہتر کونسا موقع ہوگا کہ رب العزت ہم سے ایک ناقص اور معیوب چیز لے کر ہم کو اپنے فضل سے ایسی چیز دے دے جو ہمارے وہم وگمان سے بھی بڑھ کر ہو: 
آں بیع کہ روزِ اول با تو کردیم 

اصلاً دریں حدیث اقالت نمی رود
اس شعر میں عہدِ الست کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بھی درپردہ اسی قسم کی بیع تھی۔ 
 (معارف القرآن: ج۳، ص:۵۳۵ کاندھلویؒ)
۴:- حضرت مقدام بن معدیکربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’شہید کو اللہ پاک کی طرف سے چھ انعامات دیئے جاتے ہیں: 
۱:- قتل ہوتے ہی اس کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں (سوائے قرض کے ) اسی وقت اس کو جنت میں اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے۔۲:- عذابِ قبر اور قیامت کے دن کی چھوٹی بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رکھا جائے گا۔۳:- اس کے سر پر وقار عزت کا تاج رکھا جائے گا، جس کا ایک یاقوت دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔۴:- بہتر (۷۲) حوروں سے اس کا نکاح کیا جائے گا۔ ۵:- رشتے داروں، اقرباء میں سے ستر (۷۰) افراد کے لیے اس کو شفاعت کا حق دیا جائے گا۔‘‘ (ترمذی:ج۱، ص:۲۹۵)
۵:-حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا کہ: ایک آدمی اپنی بہادری دکھانے کے لیے لڑائی کرتا ہے، اور ایک آدمی اپنی قومی غیرت وحمیت کی وجہ سے قتال کرتا ہے، اور ایک آدمی دکھاؤ شہرت کے لیے قتال کرتا ہے تو ان میں سے جہاد فی سبیل اللہ میں کون داخل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے، وہ ہی جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں داخل ہے، باقی نہیں۔ (ترمذی: ج۱،ص:۲۹۵)
۶:- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے، اللہ کے راستے میں حقیقتاً کون زخمی ہوا ہے؟ اس کی اصل حقیقت تو اللہ ہی جانتاہے، جب قیامت کا دن ہوگا، وہ اپنے رب کے پاس اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس کے زخم سے خون جاری ہوگا، اس خون کا رنگ تو خون جیسا ہی ہوگا، لیکن اس میں خوشبو مشک کی ہوگی۔ (ترمذی:ج۱،ص:۲۹۵)
۷:- حضرت سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: آج رات میں نے دو آدمیوں کو خواب میں دیکھا جو مجھے لے کر درخت پر چڑھے اور مجھے ایسے محل میں داخل کیا کہ جو بہت ہی حسین تھا اور بہت ہی عمدہ تھا، اس جیسا محل میں نے کبھی نہیں دیکھا اور مجھے بتایاگیا کہ یہ شہداء کرام کا محل ہے۔ (بخاری: ج۱،ص:۳۹۱)
۸:-حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے شہادت کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے شہیدوں کے درجے پر پہنچاتا ہے، اگرچہ وہ اپنے بستر پر مرے۔ (مسلم:ج۲، ص:۱۴۱)
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ شہداء کا مقام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شہیدوہ ہے کہ اس کا دل مشاہدۂ تجلیاتِ الٰہی میں مستغرق ہو اور جو کچھ انبیاء کرام علیہم السلام نے اُن کو پہنچایا ہے، اس کو اس کا دل اس طرح قبول کرے گویا یہ دیکھتا ہے، اس لیے دین کے معاملے میں جانی قربانی دینا اس کو آسان لگتاہے، اگرچہ ظاہری اعتبار سے مقتول نہ بھی ہو اور قوتِ عملیہ قریب قریب انبیاء( علیہم السلام ) کے ہوتی ہے۔ ‘‘ (تفسیر عزیزی:ج۱،ص:۳۳)
علامہ اندلسی رحمۃ اللہ علیہ ،مقامِ شہداء بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’شہداء کرام وہ لوگ ہیں جو مقصود کو دلائل وبراہین کے ذریعے جانتے ہیں، مشاہدہ نہیں ہے، ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی چیز کو آئینے میں قریب سے دیکھ رہاہو، جیسے حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے رب کریم کے عرش کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ 
 (البحر المحیط، ص:۳۰۰۔ روح المعانی،ج:۳، ص:۷۶۔ معارف القرآن، ج:۲، ص:۴۷۱)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’یہ گروہ راہِ خدا میں اپنی جانیں دے دیتا ہے، تاکہ جانی قربانی کے عوض اس کو تجلیاتِ ذاتیہ کا ایک مخصوص حصہ حاصل ہو، اور اس پر انوارِ ذاتیہ کی خصوصی شعاع پڑجائیں، عمومی اور دوامی تجلیات ان پر فائز نہیں ہوتیں، بلکہ نورانیت کی ایک مخصوص شعاع ان پر ’’پرتو‘‘ انداز ہوتی ہے۔‘‘ (مظہری:ج۳، ص: ۱۶۵)
    حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’شہداء کرام وہ جماعت ہے جو اپنی جان اور اپنا مال وحی کی حفاظت کے لیے قربان کردیتے ہیں۔‘‘ (الیاقوت والمرجان، ص:۱۱)
آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہر مسلمان کو مقامِ شہادت عطا فرمائے، آمین!

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین