بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مقاصد ِ نکاح اور اُس کی اہمیت

مقاصد ِ نکاح اور اُس کی اہمیت


 ’’ایجاب وقبول‘‘کے مخصوص الفاظ کے ذریعہ مرد وعورت کے درمیان ایک خاص قسم کا دائمی تعلق اور رشتہ قائم کرنا نکاح کہلاتا ہے، جو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے صرف دو لفظوںکی ادائیگی سے منعقد ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نکاح کو عبادت کا درجہ دیا۔ تمام مذاہب میں اس کو حلال قرار دیا ۔قرآن مجید میں اور اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ا کی زبانی جابجا نکاح کے لئے اپنے بندوں کو ترغیب دی۔
نکاح کے بہت زیادہ فضائل وفوائد ہیں، بطور ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کچھ یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
نکاح کے دنیوی واُخروی فضائل 
۱… نکاح سنت ِ انبیاء ہے:
ترجمہ:’’حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: چار چیزیں انبیاء کرام (علیہم السلام) کی سنت میں سے ہیں:حیاء ،خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح‘‘۔                              (ترمذی، ج:۱،ص:۲۰۶)
۲… بے نکاح مرداوربے نکاح عورت محتاج اور مسکین ہے:
’’ابن ابی نجیح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ: مسکین ہے، مسکین ہے وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: اگرچہ وہ بہت مال والا ہو تب بھی وہ مسکین ہے؟ آپ ا نے فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ بہت مال والا ہو، پھر فرمایا: مسکین ہے، مسکین ہے وہ عورت جس کا خاوند نہ ہو، لوگوں نے عرض کیا: اگرچہ بہت مالدار ہو تب بھی وہ مسکین ہے؟ آپ ا نے فرمایا: ہاں! اگرچہ مال والی ہو‘‘۔         (مجمع الزوائد،ج:۴،ص:۳۲۸،بحوالہ معجم طبرانی اوسط )
نکاح کرنے سے دین اور دنیا کے بہت سے کام درست ہوجاتے ہیں اور مال کا جو مقصود اصلی ہے، یعنی راحت اور بے فکری، وہ اس مرد کو نصیب نہیں ہوتی ، جس کی بیوی نہ ہو اور اس عورت کو بھی یہ راحت وآرام نصیب نہیں ہوتا ، جس کا خاوند نہ ہو۔ اس لیے مال ہونے کے باوجود شادی نہ کرنے والے مرد وعورت کو اس حدیث میں مسکین کہا گیا ہے۔
۳… نکاح شرمگاہ کے گناہوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے:
 حضور اکرم ا کا ارشاد ہے:
ترجمہ:’’اے جوانو!تمہیں نکاح کرلیناچاہیے، کیونکہ یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والا اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والا ہے،اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے‘‘۔                                   (ترمذی، ج:۱،ص:۲۰۶)
بیشتر وہ لوگ جو نکاح کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی نکاح نہیںکرتے، ان کے ذہن میں ہمیشہ زنا کاری کا لاواپکتا رہتاہے اور زنا انسان کو یقینی طور پر ایمان سے کوسوں دور لے جاتا ہے ۔ اب جو مسلمان شادی نہیں کرتا، وہ درحقیقت اپنے دین کو بھی داؤ پر لگاناچاہتا ہے۔ نکاح کے ذریعہ ان سب مسئلوں سے نجات ہے۔ اور اگر واقعی کوئی مجبوری ہے اور اصل تدبیر ’’نکاح‘‘پر عمل نہیں کرسکتا تو پھر یہ علاج ہے جو حدیث شریف میں بیان ہوا ہے کہ آپ ا نے اس کے بدل یعنی’’روزے‘‘ کو اختیار کرنے کا ارشاد فرمایا، کیونکہ روزے سے نفسانی شہوت ٹوٹ جاتی ہے۔ 
۴…بے نکاح آدمی شیطان کا بھائی اور آلۂ کار ہے:
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے عَکَّافؓ (ایک صحابی کا نام ہے) سے فرمایا: اے عَکَّاف! کیا تیری بیوی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ ا نے فرمایا: اور تو مال والا، وسعت والا ہے؟ عرض کیا: ہاں! میں مال اور وسعت والا ہوں۔ آپ ا نے فرمایا: تو اس حالت میں تو شیطان کے بھائیوں میں سے ہے، اگر تو نصاریٰ میں سے ہوتا تو ان کا راہب ہوتا۔بلاشبہ نکاح کرنا ہمارا طریقہ ہے، تم میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جو بے نکاح ہیں اور مرنے والوں میں سب سے بدتر وہ ہیں جو بے نکاح ہیں، کیا تم شیطان سے لگاؤ رکھتے ہو؟ شیطان کے پاس عورتوں سے زیادہ کوئی ہتھیار نہیں،جو صالحین کے لئے کارگر ہو۔ مگر جو لوگ نکاح کیے ہوئے ہیں، یہ لوگ بالکل مطہرہیں اور فحش سے بری ہیں اور فرمایا: اے عکاف! تیرا برا ہو، نکاح کرلے، ورنہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگا۔                                (مجمع الزوائد،ج:۴،ص:۳۲۵)
۵ …بے نکاح کا مسلمانوںسے کوئی تعلق نہیں :
ترجمہ:’’جو شخص نکاح کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود نکاح نہ کرے، وہ مجھ سے نہیں ہے(یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)‘‘۔    (مجمع الزوائد،ج:۴،ص:۳۲۷)
نکاح نہ کرنا مسلمانوں کا شعار نہیں ، بلکہ نصاریٰ کا طریقہ ہے، کیونکہ وہ نکاح نہ کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں۔ عذر نہ ہونے کے باوجود نکاح نہ کرنا اور اُسے عبادت یا فضیلت سمجھنا رہبانیت کے زمرہ میں آتا ہے، جو اسلام میں جائز نہیں ہے۔
۶… بے نکاح کا حضور ا سے کوئی تعلق نہیں:
حدیث میں ہے کہ تین صحابیؓ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے ایک زوجہ مطہرہؓ کے گھر تشریف لائے اور آپ ا کے احوال کے بارے میں معلوم کیا، جب ان کے سامنے آپ ا کی عبادات کے احوال کو بیان کیا گیا تو انہوں نے آپ ا کی عبادت کو کچھ کم خیال کیا، پھر کہنے لگے: ہمیں نبی کریم ا سے کیا نسبت؟ آپ ا کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے گئے ہیں۔ اب تینوں میں سے ایک نے کہا: میں تو اب ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا: میں تو ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا۔ تیسرے نے کہا: میں تو کبھی شادی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ا کو علم ہوا تو آپ ا نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے ایسی ایسی بات کہی ہے؟ خدا کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی نگہداشت کرنے والا ہوں، مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں اور رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور پھر آپ ا نے فرمایا:
’’وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتی فلیس منی‘‘۔
’’میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، جو میری سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔                                     (بخاری،ج:۲،ص:۷۵۷،۷۵۸)
غور کیجئے! جب صحابہؓ نے انسانی فطرت سے ہٹ کر الگ راستہ اختیار کرنا چاہا تو آپ ا نے غصہ کا اظہار فرمایا۔ جس چیز کو وہ نیکی سمجھ رہے تھے، آپ ا نے انہیں بتایا کہ اس عمل سے وہ اسلام سے قریب نہیں، بلکہ دور ہوں گے، شیطان کے وسوسوں میں الجھ کر تکلیف اٹھائیں گے، جنسی شہوت سے جنگ میں خود کو الجھائے رکھیں گے، یہ کنوارا ہونا ان کے لئے بے حدتلخ ہوگا، جس کی شدت اور گناہ سے کم لوگ نجات پاتے ہیں۔
۷… نکاح کرنا آپ ا کا طریقہ اور سنت ہے:
حضور اکرم ا کا ارشاد ہے:
’’من أحب فطرتی فلیستن بسنتی ومن سنتی النکاح ‘‘۔(مجمع الزوائد،ج:۴، ص: ۳۲۷ )
ترجمہ:…’’جو میری فطرت سے محبت رکھتا ہے، وہ میری سنت پر عمل کرے اور میری سنت میں سے نکاح بھی ہے‘‘۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:’’اگر میری زندگی کے صرف دس روز رہ جائیں، تب بھی میں شادی کرلینا پسند کروں گا، تاکہ غیر شادی شدہ حالت میں خدا کو منہ نہ دکھاؤں‘‘۔(تحفۃ العروس)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’نکاح کرلو، کیونکہ ازدواجی زندگی کا ایک دن غیر شادی شدہ زندگی کے اتنے اتنے برسوں کی عبادت سے بہتر ہوتا ہے‘‘۔           (تحفۃ العروس)
نکاح کے مقاصدوفوائد
مقصد نمبر:۱… نکاح عبادت ہے:
نکاح بذاتِ خود اطاعت اور عبادت ہے، اور نفل عبادت سے افضل ہے۔
مقصد نمبر:۲… تقویٰ کا حصول:
نکاح کا ایک بڑا مقصد پرہیزگاری اور تقویٰ ہے۔
مقصد نمبر:۳… جنسی تسکین کا ذریعہ:
فطری طور پر مرد وعورت کے اندر جنسی خواہشات رکھی گئی ہیں، لذت ایک ایسی شئے ہے جس کا طالب نہ صرف انسان ہے، بلکہ ہر حیوان اس کا طالب ہے۔ وہ بذات خود قابل مذمت چیز نہیں ہے، قابل مذمت وہ اس وقت قرار پاتی ہے جب اس کا غلط استعمال کیا جائے اور امور خیر کو ترک کرکے ناروا مقامات کو اس کے استعمال کے لئے منتخب کیا جائے۔ اس فطری جذبے کو پورا کرنے کا حلال راستہ یہی نکاح ہے۔نکاح چھوڑنے سے کئی فتنوں میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے۔ قدرتی طور پر انسان کے اندر جو شہوت کا مادہ ہے، یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔اگر نکاح نہ ہو تو ناجائز طریقے سے یہ تقاضا پورا کرنے کی طرف میلان ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے حرام سے بچنے کے لئے یہ حلال راستہ رکھا ہے۔
مقصد نمبر:۴…اولاد کا حصول :
    اولاد کا طلب کرنا بھی نکاح کے مقاصد میں سے ہے، نسل انسانی کی بقا بھی اسی سے ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول پر حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو زیادہ بچے جننے والی ہوں۔
مقصد نمبر:۵…امت محمدیہؐ کے افراد میں اضافہ:
 امت محمدیہ کے افراد کا زیادہ ہونا بھی ایک اہم مقصد ہے، جس کی حضور ا نے تمنا فرمائی، آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ: میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا۔اسی طرح قومی طاقت اور توانائی کا دارومدار کثرتِ آبادی اور ان کی مادی اوراندرونی قوت پر منحصر ہے۔
مقصد نمبر:۶…آرام وراحت کا حصول:
نکاح کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ سکون وآرام اور راحت کا ذریعہ ہے، جی بہلانے کا ذریعہ ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
’’ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوْا إِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً ‘‘۔                                                                                           (الروم:۲۱)
ترجمہ:’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تم میں سے جوڑے بنائے، تاکہ تم ان سے آرام پکڑو اور تم میں محبت  اورنرمی رکھ دی‘‘۔
مقصد نمبر:۷… طبی طور پر جسمانی امراض سے بچاؤ :
نکاح کئی بیماریوں اور امراض سے بچاؤ کا بھی ذریعہ ہے۔نکاح نہ کرنے والے مادہ منویہ روکنے کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کیونکہ انسان کا یہ مادہ جب کافی عرصہ تک بند رہتا ہے تو اس کا زہریلا اثردماغ تک چڑھ جاتا ہے، اور بسا اوقات اُنہیں مالیخولیا کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔
نیویارک مینٹل ہاسپٹل کے میڈیکل انچارج ڈاکٹر ہاولبرگ کہتے ہیں:
’’مینٹل ہاسپٹل میں عام طور پر مریض اس تناسب سے داخل ہوتے ہیں کہ ان میں ایک شادی شدہ ہوتا ہے تو چار غیر شادی شدہ ہوتے ہیں‘‘۔    (تحفۃ العروس)
برٹلن کے ترتیب دیئے ہوئے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کی نسبت غیر شادی شدہ کہیں زیادہ خودکشی کے مرتکب ہوتے ہیں، جبکہ اکثر شادی شدہ افراد کی دماغی اور اخلاقی حالت نہایت متوازن اور ٹھوس ہوتی ہے، ان کی زندگی میں ٹھہراؤ ہوتا ہے۔ اور جیسا کجرو اور سوداوی مزاج بہت سارے بن بیاہے نوجوانوں کا ہوتا ہے، شادی شدہ جوڑوں میں اُس طرح نہیں پایا جاتا۔ نیز یہ بھی مشاہدہ ہے کہ شادی شدہ خواتین ہر چند کہ بچہ جننے، ماں بننے اور خانہ داری اور ازدواجی زندگی، غرض زندگی کے بے شمار مسائل میں گھری ہوتی ہیں، پھر بھی دوسری غیر شادی شدہ عورتوں کے مقابلہ میں ان کی عمریں خاصی طویل ہوتی ہیںاور وہ ان کے مقابلہ میں زیادہ مطمئن اور خوش ہوتی ہیں۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین