بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مفتی مزمل حسین کپاڈیا رحمہ اللہ   کی رحلت

مفتی مزمل حسین کپاڈیا رحمہ اللہ   کی رحلت

جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے قدیم فاضل، حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی قدس سرہٗ کے محب صادق، حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کے دستِ راست، حضرت مولانا مفتی خالد محمود صاحب کے مخلص دوست، اقرأ روضۃ الاطفال ٹرسٹ کے بانی ونائب مدیر، اکابر کے علوم وروایات کے امین حضرت مولانا مفتی مزمل حسین کپاڈیا رحمہ اللہ   ۲۵؍جمادی الاخریٰ ۱۴۴۲ھ مطابق ۸ فروری ۲۰۲۱ء بروز پیر تہجد کے وقت اس دنیائے رنگ وبو میں ۶۱ سال گزار کر راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ماأخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
حضرت مولانا مفتی مزمل حسین صاحبؒ الحاج جناب محمد حسین کپاڈیاؒ کے ہاں ۱۹۶۰ء میں پیدا ہوئے، ابتدائی حفظ کی تعلیم دارالعلوم کراچی نانک واڑہ سے حضرت مولانا عبدالعزیز بیگ صاحب کے والد جناب قاری محمد رفیق صاحب سے شروع کی، قاری صاحب نے برنس روڈ پر جب حفظ کی کلاس شروع کی تو مفتی مزمل حسین صاحبؒ بھی قاری صاحب کے پاس آگئے۔
درسِ نظامی کے لیے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا اور ۱۹۸۱ء میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی، اس کے بعد جامعہ میں دو سالہ تخصص (پی.ایچ.ڈی) فقہ اسلامی میں کیا۔ چونکہ آپ کے والد صاحب کاروباری برادری سے تعلق رکھتے تھے، ان کا ارادہ تھا کہ مفتی مزمل حسین صاحبؒ بازار میں دارالافتاء بناکر بیٹھیں، ہماری برادری کو بہت سے کاروباری مسائل درپیش ہوتے ہیں، یہ یہاں بیٹھ کر شریعت کی روشنی میں ان مسائل کا حل بتائیں، لیکن ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے، آپ کے والد صاحب کے تعاون سے مفتی محمد جمیل صاحبؒ نے ایک انقلابی کام شروع کرنے کی ٹھان لی کہ ہماری سوسائٹی میںجو عمر رسیدہ حضرات ہیں، ان کی اسلامی انداز میں اصلاح وتربیت انتہائی مشکل ہے، نوجوان جلدی اس طرف راغب نہیں ہوتے، اس لیے کسی طرح چھوٹے بچوں پر محنت کی جائے، ان کو قرآن کریم اور دینی علوم سے وابستہ کرنے کی کوشش شروع کی جائے، تاکہ آگے چل کر کراچی کی فضاؤں میں دین داری کا دور دورہ ہو، اور اس انداز سے ان لوگوں کو بھی دین کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جائے جو بظاہر ایسے ماحول سے دور ہیں۔ اس سوچ کے نتیجہ میں ۱۹۸۵ء میں ایک کمرہ سے اقرأ روضۃ الاطفال ٹرسٹ کا ادارہ شروع ہوا، حضرت مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ نے حضرت مفتی مزمل حسین صاحب اور مفتی خالد محمود صاحب دامت برکاتہم کو اپنا رفیق کار بنایا، الحمد للہ! آج اقرأ روضۃ الاطفال کی شاخیں پورے پاکستان میں پھیل چکی ہیں اور ۸۲۰۰۰ ہزار سے زائد طلبہ اس ادارہ میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں اور کتنے ہی اس ادارہ سے حفظ کرنے کے بعد علماء کرام، مفتیانِ عظام، شیوخ الحدیث، ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے کئی شعبہائے زندگی سے وابستہ ہوکر نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ اس دوران مفتی مزمل حسین صاحبؒ جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ میں ماسٹر کے لیے تشریف لے گئے، پانچ سال وہیں رہے، اس دوران گردوں کا عارضہ لاحق ہوا، جس کے سبب وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور واپس آنے پر مجبور ہوئے، پہلے آپ کی ایک بہن نے آپ کو ایک گردہ بھی دیا، لیکن اس میں کامیابی نہ ملی، بالآخر ڈیلائسز پر آنا پڑا، اس طرح تقریباً ۲۵ سال سے زائد اس بیماری میں مبتلا رہے، لیکن انہوں نے بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا، چونکہ آپ کو عربی زبان پر کافی دسترس تھی، اس لیے آپ ائمہ حرم کی باقاعدہ اجازت سے ان کے خطبات کا اردو میں ترجمہ کرکے بڑے اہتمام سے چھاپ کر لوگوں میں تقسیم کیا کرتے تھے، بعد میں انگریزی میں بھی ان خطبات کا ترجمہ کیا۔
اسی طرح حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی قدس سرہٗ کی جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دارالحدیث میں دیئے گئے صحیح بخاری اور سننِ ترمذی کے دروس کو کیسٹوں سے اُتار کر کمپیوٹر میں ان کو آڈیو کلپ کی صورت میں منظرِ عام پر لانا بھی آپ کا بڑا کارنامہ ہے، جو آج کے اہلِ علم علماء وطلبہ کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ وقت کے بہت بڑے قدردان اور صحیح معنی میں منتظم تھے۔ تکلیف کے باوجود آپ نے اپنے اوقات کو صحیح معنوں میں قیمتی بنایا۔ آپ خود تکلیف میں ہوتے تھے، لیکن دوسروں کے ساتھ ظرافتِ طبعی اور خوش طبعی سے بات کرنے کا سلیقہ جانتے تھے۔ آپ کی نرینہ اولاد نہیں تھی، لیکن اقرأ کے تمام طلبہ آپ کی روحانی اولاد ہیں، جو ان شاء اللہ! آپ کے رفعِ درجات کا ذریعہ بنیں گے۔ چند دن پہلے آپ کی ایک ہمشیرہ کا انتقال ہوا، آپ اُن کے جنازے میں شرکت کے لیے وہیل چیئر پر اپنی مادرِ علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن تشریف لائے، عصر کی نماز کے بعد اُن کی نمازِ جنازہ ہوئی، اس کے بعد کافی دیر تک دوست احباب سے ملتے رہے، اس کے چند دن بعد آپ کو بخار کی شکایت ہوئی، پہلے ٹبہ ہسپتال میں چیک کرایا گیا، پھر ڈاکٹر عبدالباری صاحب کے کہنے پر آپ کو انڈس ہسپتال لے جایا گیا، لیکن چند گھنٹوں کے بعد آپ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ظہر کی نماز کے بعد آپ کی نمازِ جنازہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں آپ کے حفظ کے استاذ محترم جناب قاری محمد رفیق صاحب کی امامت میں ادا کی گئی، جس میں شہر بھر کی عوام، آپ کے اعزہ اور جامعہ کے طلبہ وعلماء شریک ہوئے اور آپ کے آبائی قبرستان میوہ شاہ میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے، آپ کے ساتھ رضا ورضوان کا معاملہ فرمائے، آپ کے لواحقین، اعزہ، اقرباء اور پسماندگان کو صبرِجمیل عطا فرمائے، آمین۔
قارئینِ بینات سے حضرت مفتی صاحبؒ کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین