بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مفتی عبدالمجیددین پوری شہید ؒ کی یادیں

مفتی عبدالمجیددین پوری شہید  ؒ    کی یادیں 

لوکانت الدنیا تدوم بواحد لکان رسول اللّٰہؐ فیھا مخلدا بروز جمعرات ۳۱؍ جنوری ۲۰۱۳ ء بقیتہ السلف حضرت مفتی صاحب دین پوری نوراللہ مرقدہ اپنے ہر دلعزیز دوست حضرت مولانا قاری اسلام الدین ؒ کی تعزیت ورفع درجات کی دعاء کے لئے محراب پور تشریف لانے والے تھے، پروگرام طے ہوگیا تھا، اور سفر کے لئے سارے انتظامات مکمل ہو چکے تھے، اور محراب پور میں آپ کے شاگرد بعد از اطلاع استقبال کے لئے مصروف عمل تھے اور خوشی سے پھولے نہیںسما رہے تھے، واقعتاً آپ کے شاگردوں کے لئے یہ دن عید سے کم نہیں تھا کہ اچانک بعد از نماز ظہر تقریباً ۳؍ بجے انتہائی اندوہناک، دل سوزاور جسم کے رونگٹے کھڑے کر دینے والی ( آپ کی شہادت ) کی خبر ملی تو پہلے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا،پھر جب مزید رابطوں سے حقیقت حال واضح ہوئی تو ہماری خوشی غمی میں تبدیل ہوگئی ،امیدوں پر پانی پھر گیا، سارے ساتھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا ہونا تھااور کیا ہوگیا ؟سارے بدن میں سکتہ سا طاری ہوگیا اوردل ودماغ کا م کرنا چھوڑ گئے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھاگیا اورآنکھوں سے آنسو اس قدر جاری ہوئے کے تھامے تھم نہیں رہے تھے ،ان کیفیات کا ادراک وہی کر سکتا ہے جس کے ساتھ یہ بیتا ہو ۔ بہر حال اب دونوں اکابر کی اعلیٰ علیین میں ملاقات بھی ہوگی اور عیادت وشہادت پر ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دے رہے ہوںگے ۔ حضرت مفتی صاحب کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کے بارے میں حلفیہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی کسی کو زبان و ہاتھ سے تکلیف نہیں پہنچائی اور ان کے قول و فعل سے کبھی بھی فرقہ واریت ، انتشارو نفرت کی بو نہیں آئی ،بلکہ انہوں نے ہمیشہ اتحاد ، اتفاق، محبت واخوت بین المسلمین کا سبق دیا ہے ۔ایسی مقدس شخصیات کے ناحق قتل اور ظلم سے ظالموں کو کیا ملا ہوگا ؟آپ پر جو بربریت کی گئی ہے اس سے تو یقیناً عرش الٰہی بھی ہل گیا ہوگا اور بحروبر کی مخلوق نے آنسوبھی بہائے ہوںگے ۔ حضرت مفتی صاحب ہم سب کے مشترکہ قیمتی اثاثہ تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ اور عوام الناس کے دینی ودنیوی مسائل کا حل حدود شرع میں رہتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی وبہبود پر خرچ کردی۔ ان کی رحلت موت العالم ، موت العالم کا حقیقی مصداق ہے۔ اس طرح کے ہیرے طویل عرصہ کے بعد دنیا میں جلوہ گر ہوتے ہیں ۔ ان کی شہادت سے صرف ان کے اہل خانہ ہی یتیم نہیں ہوئے،بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ملک وبیرون ملک کے تمام شاگرد یتیم ہوگئے ہیں ۔ان کی رحلت فرمانے سے جو خلا ہوا ہے، فی الحال اس کا پر ہونا مشکل نظرآرہا ہے ۔دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کی علمی میراث کو تا قیامت جاری و ساری رکھے اور ان کے لئے صدقہ جاریہ بنا کر ان کے رفع درجات کا زینہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین ! زندگی کی چند نصحیت آموز یادیں  ۱:… حضرت مفتی صاحب میرے استاد ومربی تھے، بندہ نے آپ کے پاس جامعہ اشرفیہ سکھر میں تین کتابوں کے پڑھنے کا شرف حاصل کیا تھا:۱:… رابعہ کا ترجمہ۔۲:…دیوان متنبی ۔۳:… مشکوٰۃ شریف۔ اس وقت تقریباًدو دہائیاں گزرنے کو ہیں،لیکن حضرت استاد محترم کا انداز سبق ابھی تک بحمداللہ تعالیٰ میرے ذہن نشین ہے۔ حضرت استاد صاحب کا انداز تدریس انتہائی آسان اور عام فہم تھا ۔اللہ رب العزت نے استاد محترم میں ہر ایک طالب علم ( غبی ، متوسط ، اعلیٰ ) کے دل و دماغ میں سبق اتارنے کی صلاحیت ودیعت کر رکھی تھی ۔ہمیں تو استاد محترم کا سبق ( دوران گھنٹہ ) ان کے پڑھاتے ہی یاد ہو جاتا تھا اور ذہن میں ایسا نقش ہو جاتاکہ اگر کبھی کبھار رات کو تکرار و مطالعہ کا موقع نہ بھی ملتا تب بھی اگلے دن وہی تقریر( جو استاد محترم نے پڑھائی ہوتی ) ہو بہو سنا دیا کرتے تھے۔ ہماری پوری کلاس کے ساتھ یہی معاملہ تھا، حالانکہ سختی بالکل نہیں فرماتے تھے ۔مزید برآں استاد محترم سبق کے ہر ہر پہلو، ہر ہر بحث کو اس طرح بیان فرماتے کہ اور کوئی پہلو یا تفصیل تشنہ نہ چھوڑتے ۔ ترجمۂ قرآن پاک میں سب سے پہلے ایک رکوع کا لفظی ترجمہ کرتے، اس کے بعد آیات کا شان نزدل و تفسیر بیان فرماتے اور ساتھ ساتھ مشکل الفاظ کا معنیٰ سہل الفاظ اور سلیس اردو میں بیان فرما دیا کرتے، آخر میں پھر ایک بار دوبارہ رکوع کا لفظی ترجمہ کرکے سبق کو پورا کردیا کرتے تھے۔ سورۃالکہف کا سبق جب شروع ہوا تو استاد صاحب نے فرمایا کہ:’’ اس سورت کی ابتدائی دس آیات کا پڑھتے رہنا فتنۂ دجال سے محفوظ رکھنے کا اہم ذریعہ ہے‘‘۔ الحمدللہ بندہ نے اس وظیفہ کا اثر ہر فتن میں آزما کر دیکھا۔ ان دو دہائیوں میں جب کبھی فتنوں سے واسطہ پڑا تو اس عمل کی بدولت نجات پائی ۔ اسی طرح دیوان متنبی میں استاد محترم کا طریقۂ تدریس یہ تھا کہ سب سے پہلے الفاظ کی لغوی و صرفی تحقیق فرماتے، اس کے بعد اشعار کا لفظی وبا محاورہ ترجمہ کرتے اور طلبا ء کو یاد کرنے کا موقع دیتے اور آخر میں ایک بار پھر ترجمہ کرتے اور سبق ختم فرماتے ۔تاہم سبق کے ہر ایک پہلو کو بیان کرنے کے بعد پھر بھی وقت بچ جاتا ، یہ درحقیقت ان کی کرامت تھی ۔ نیز مشکوٰۃشریف میں اولاً طالب علم سے حدیث پڑھواتے ،اس کے بعد اس حدیث کا ترجمہ کرتے، پھر ائمہ کا اختلاف ، پھر دلائل وجوابات اور وجوہ ترجیح احناف بیان کرکے سبق ختم فرماتے۔  ۲:…احقر نے استاد محترم میں دو چیزیں اور دیکھیں: ۱:… وقت کی پابندی۔ ۲:… وقت کی قدروقیمت۔ یہ دونو ں چیزیں آپ کے مزاج میں داخل تھیںاور ان پر عمل کرنا آپ کی طبعیت ثانیہ بن گئی تھی۔  بندہ نے ان تین سالوں میں آپ کو یا تو پڑھاتے یا قرآن پاک کی تلاوت کرتے یا نوافل میں کھڑے ہوئے دیکھا، کبھی بھی آپ کو اس کے خلاف نہ دیکھا ۔ اگرطلبہ کرام کو کلاس میں داخل ( حاضر ) ہونے میںکچھ تاخیر ہوجاتی تو حضرت استاد محترم ان منٹوں اور لمحات کو قیمتی بنانے کی غرض سے قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے اور طلبہ کرام کے آتے ہی تلاوت بند کرکے سبق شروع فرمادیتے تھے،جزاہ اللّٰہ جزاء حسنا وافیا۔اور درس میں نہ اتنی طوالت ہوتی کہ طلبہ اکتا جائیں اور نہ اتنا اختصار کہ طلبہ تشنہ رہ جائیں ۔بہر حال آپ کا طرزِ تدریس اوراندازِ تفہیم بہت ہی عمدہ اور سہل تھا۔  حضرت الاستاد صاحب نوراللہ مرقدہ کی یہ دو باتیں ( اندازتدریس ، وقت کی پابندی و قدرو قیمت ) میرے دل و دماغ میں اس قدر راسخ ہوچکی ہیں کہ آج بھی مجھے ایسے نظر آتی ہیں جیسے آئینہ میں اب دیکھ رہا ہوں۔ حضرت استاد صاحب ؒ کی ان دو صفات کو اپنانے کی بالخصوص نئے فضلاء کرام کو اس وقت زیادہ ضرورت ہے ،اس لئے کہ اس انداز تدریس میں بہت مطالعہ درکار ہوتا ہے،لہٰذااس سے خود استاد کا ذاتی طور پر بھی فائدہ ہوگا کہ صلاحیت دن بدن بھڑتی چلی جائے گی اور طلبہ کرام بھی مطمئن رہیں گے ۔ ۳:…  ایک مرتبہ حضرت الاستاد صاحب کو وفاق المدارس العربیہ کی جانب سے سالانہ امتحان میں بمقام کو لاب جیل نگران اعلیٰ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ دریں اثنا کسی نگران نے عین وقت پر معذرت کرلی تو حضرت استاد صاحب نے بندہ کو حکم فرمایا کہ تم میرے ساتھ بطور نگران کے معاونت کرو۔ بندہ حکم کی تعمیل بجالانے کے لئے استاد صاحب کے ساتھ ہوگیا ۔دوران نگرانی درجہ ثانیہ کے ایک طالب علم نے بندہ سے’’ لا تسبوا الدیک فإنہ یو قظ للصلوۃ  ‘‘حدیث میں لفظ ’’الدیک‘‘کا ترجمہ پوچھا، طالب علم میرے منع کرنے پر بہت اصرار کرنے لگا ۔اسی اثنا میں حضرت استاد محترم کی ہم پر نظر پڑ گئی اور ہمارے پاس تشریف لے آئے ،حضرت کے سامنے بھی طالب علم نے وہی سوال دہرایا تو استاد محترم نے اس طالب علم سے جواباً فرمایا کہ بیٹھ جائیں، اگر فلاںنگران صاحب کو پتہ لگ گیا تو کہیں وہ  مجھے مُرغانہ بنادے، لیکن طالب علم کو پھر بھی بات سمجھ میں نہیں آئی، اس لئے کہتے ہیں کہ نقل کہ لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔  واقعی آپ کی زندگی ہم جیسوں کے لئے نمونہ و مشعل راہ ہے اور آپ کی عملی زندگی اس قابل ہے کہ اسے اپنا کر ان کے نقش وقدم پر چلتے ہوئے اپنے شب وروز اس کے مطابق گزارنے کی کوشش کی جائے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت استاد محترم ؒکو خلدبریں میں جگہ عنایت فرماکر ہر گھڑی ہر لمحہ آپ کے درجات کو بلند فرمائیں، آمین ثم آمین ۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین