بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مفتی عبدالمجیددین پوری ؒاور آپ کے رُفقاء کی شہادت پررئیس جامعہ کا اہم خطاب!

مفتی عبدالمجیددین پوری ؒاور آپ کے رُفقاء کی شہادت پر     رئیس جامعہ کا اہم خطاب!

۳۱؍ جنوری ۲۰۱۳ء بروز جمعرات جامعہ کے اساتذہ کی شہادت ہوئی۔ یکم فروری کو بعد از نمازِ جمعہ بنوری ٹاؤن اور ملک کی متعدد جگہوںپر مظاہرے ہوئے۔ اور بروز ہفتہ جامعہ کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم نے اساتذۂ جامعہ اور طلبہ سے اہم خطاب فرمایا اور بہت سی نصائح فرمائیں۔ افادۂ عام کے لئے یہ خطاب اور نصائح ہدیۂ قارئین ہیں۔

    الحمدللّٰہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ وأصحابہ أجمعین، أما بعد: محترم علماء کرام! عزیز طلبہ! ومہمانانِ گرامی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سب سے پہلے میں اپنے عزیز طلبہ اور اساتذہ کرام کا اپنے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس عظیم حادثہ پر صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور عملی طور پر ’’وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ‘‘ صابرین کا نمونہ پیش کیا۔مجھے سُننے میں آیا ہے کہ یہاں کے طلبہ جو شہدا کی روحانی اولاد ہیں، اسی طرح دوسرے مدارس کے طلبہ جو یہاں آئے ،ان سب طلبہ نے اپنے آپ کو بہت سنبھالا اور بڑے صبر وضبط سے کام لیا اور یہاں کے ذمہ داران سے انہوں نے گزارش کی کہ آپ کے حکم کی دیر ہے، آپ حکم دیں ، ہم ہر چیز کے لئے تیار ہیں۔ لیکن بہرحال اللہ نے یہ دین کی خصوصیت رکھی ہے اور اس دین کے پڑھنے والوں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے فرمانبردار ہوتے ہیں اور آپ نے دیکھ لیاکہ کتنا بڑا حادثہ ہوا اور تھوڑی سی بھی ایسی حرکت نہیں ہوئی کہ جس سے غیر متعلقہ لوگوں کو کچھ نقصان پہنچا ہو۔ پُرسکون طریقہ سے احتجاج بھی ہوا ، نہ کوئی توڑ پھوڑ ہے، نہ کسی کا نقصان ہے۔ اور اس سے آپ بلکہ وہ لوگ جو دینی مدارس کو بدنام کرتے ہیں کہ یہاں تو دہشت گردی پھیلائی جاتی ہے، یہاں تو یہ ہوتا ہے، یہاں یہ ہوتا ہے، آج اپنی آنکھوں سے تم نے دیکھ لیا۔ ظالمو! آنکھیں بند کرکے جو تمہارا آقا کہتا ہے طوطے کی طرح رٹتے رہتے ہو: دہشت گردی، دہشت گردی۔ یہ کتنا بڑا حادثہ تمہارے سامنے ہے ۔ ذرا بتاؤ! کسی کا ایک قطرہ خون کا بہایا گیا؟یا کسی کا ایک پیسہ ضائع کیا گیا ؟ کسی کو کوئی تکلیف دی گئی ؟اتنا بڑا مجمع چاہے وہ جنازے کے وقت ہو یا کل جمعہ کے بعد احتجاج کے وقت، پُر امن طور پرجمع ہوا اور منتشر ہوگیا۔  ان ظالموں کی آنکھیں کھلنی چاہئیںجو دینی مدارس کے طلبہ کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ اگر واقعی یہ دہشت گرد ہوتے تو ان کے پاس ایک اچھا خاصہ عذر بھی تھا،ٹریفک کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ دینی مدارس کے طلبہ اپاہج ہیں؟ وہ بھی تمہاری طرح تمام طاقت رکھتے ہیں۔ نہتے ہوتے ہوئے بھی اگر وہ چاہیں تو کراچی کو اوپر نیچے کردیں۔ لیکن ہمارا دین دینِ امن ہے، سلامتی کا دین ہے۔ ہمارے طلبہ وہ ہیں جو اپنے اساتذہ کے اشارے پر چلتے ہیں۔ ہمارے طلبہ وہ ہیں کہ جو اپنے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ کبھی آپ نہیں دیکھیں گے کہ کسی طالب علم نے اپنے استاذ کی بے ادبی کی ہو، قتل کیا ہو، جبکہ تمہارے ہاں دن رات، جس پر قوم کا پورا سرمایہ ضائع اورصَرف ہوتا ہے، علانیہ امتحان گاہ میں نگرانوں کو مارا جاتا ہے۔ اب آپ کو یہ یقین ہوجانا چاہئے کہ یہ مدارس خالص دین کے مدارس ہیں، یہاں پر امن وسلامتی کا درس دیا جاتا ہے۔  میں بہرحال اپنے اساتذہ کرام، طلبہ اور شہدأ کے متعلقین حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور صبروتحمل کا نمونہ پیش کیا۔ ان حضرات کی شہادت سے بے شک جامعہ اور ہمارے لئے بہت بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ شخصیات اور کامل انسان بڑی مدت کے بعد پیدا ہوتے ہیں: ’’الناس کأبل مائۃ لاتکاد تجد فیھا راحلۃ‘‘ ۔آپ ا نے کام کے لوگوں کی یہ ایک مثال دی۔ اُس معاشرہ کے اندر یہی واضح مثال تھی کہ اگر ایک سو اونٹ کھڑا ہے، قد کے اعتبار سے ، حسن کے اعتبار سے، رنگ کے اعتبار سے، ایک سو اونٹ ہے، فرمایا: بمشکل ایک اونٹ ایسا یا اونٹنی ایسی ہوگی جس پر آپ سفر کرسکیںاور صحرأ میں وہ وزن اُٹھا کے چل سکے ۔ اسی طرح انسانوں میں شکل وصورت کے اعتبار سے تو بہت سے لوگ برابر ہوتے ہیں، داڑھیاں بھی ہیں، جُبے قُبے بھی ہیں، سب کچھ ہے، لیکن کام کے انسان بہت دیر سے بنتے ہیں، اسی لئے تو دشمن ہمیشہ ایسے انسانوں کا انتخاب کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ان دشمنانِ اسلام کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارے ان غلط حربوں سے ان شاء اللہ! دین ختم نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور انسانوں میں ایک جماعت تھی، ہے، اور رہے گی جو اس دین کی حفاظت کرے گی اور اس امانت کو اپنے بعد والوں کی طرف منتقل کرے گی، جیسا کہ حدیث میں ہے:’’لاتزال طائفۃ من أمتی ظاھرین علی الأرض لایضرھم من خالفھم‘‘۔ اور یہ جماعت‘ علماء کی جماعت ہے جو اس دین کے پڑھنے پڑھانے والے ہیں۔ نبی کریم ا کے فرائضِ نبوت چارہیں، جوقرآن نے بیان کئے ہیں : تلاوتِ کتاب اور تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیہ۔ یہ علماء کی ہر دور میں اللہ نے ایک جماعت پیدا کی ہے، جس کا تسلسل چل رہا ہے، کوئی قرآن کے الفاظ کی حفاظت کررہا ہے، کوئی اس کے معانی کو بتا رہا ہے، کوئی اس کی حکمت کو ۔ اور کتاب وحکمت سے مراد قرآن کریم اور حدیث ہے اور اسی طرح خانقاہیں تربیت کا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں۔ یہ سلسلہ چل رہا ہے اور چلتا رہے گا، ان شاء اللہ!۔ ٹھیک ہے ہماری آزمائش بھی ہے، ہمارا امتحان بھی ہے کہ کیا واقعی ہم ان مراحل سے صبر واستقامت کے ساتھ گزرتے ہیں یا جزع فزع میں مبتلا ہوتے ہیں، اسی لئے اللہ نے دنیا میں فرمادیا: ’’بَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ‘‘،’’ إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ‘‘ ہمارے جیسے انسان جو کرسیوں پر بیٹھے ہیں، اگر کسی کو ایک عام حادثہ میں کہہ دیں کہ بھائی! فکر نہ کر ، میں تمہارے ساتھ ہوں، فکر نہ کر، میں تیرے ساتھ ہوں تو اس کی ہمت کتنی بڑھے گی؟ اور جہاں اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں: ’’إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ‘‘ اس کا اندازہ آپ خود لگالیں،تو بہرحال اس میں کوئی شک نہیں، انسان کمزور ہے ، غم اور صدمہ کا ہونا بھی لازمی ہے۔ اور غم سے روکا بھی نہیں گیا، آنسو بہہ جائیں ، اس سے نہیں روکا گیا۔ جو چیز صبر کے خلاف ہے جزع فزع اور’’ ضرب الخدود‘‘ اور’’ شق الجیوب‘‘(رخسار پیٹنا اور گریبان پھاڑنا) ان سے منع کیا گیا ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ایک اہم شعبہ شعبۂ افتاء اس کے یہ دونوں حضرات ، مرحومین، شہدأ ستون تھے۔ دیکھیں جس طرح یہ مسجد کی عمارت ہے، اس کے یہ ستون کھڑے ہیں، ان پر یہ چھت کھڑی ہے، تو اداروں میں یہ ہوتا ہے، بعض حضرات کی حیثیت ستون کی ہوتی ہے۔ اور اہل باطل اور دشمن چاہتا ہے کہ ستون کو گراؤ۔ لیکن ان کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ یہ اللہ کا دین ہے، اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے،جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ‘‘۔حضور ا کی پیدائش سے پہلے جب ابرہہ نے بیت اللہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی ،بڑے ہاتھیوں کے ساتھ آیا، قرآن کریم میں مستقل ایک سورت اس واقعہ کی طرف اشارہ کررہی ہے: ’’أَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِأَصْحَابِ الْفِیْلِ‘‘ وہ ابرہہ بڑے بڑے ہاتھیوں کا لشکر لے کر بیت اللہ کو گرانے کے لئے روانہ ہوا، یمن سے آتے، آتے، منیٰ کے قریب وادیٔ محصب کے قریب اس نے ڈیرہ ڈالا۔ اب تیاریاں کررہا تھاحملہ کی۔اس وقت مکہ مکرمہ میں سب سے بڑی سیاسی اور دینی شخصیت آپ ا کے داداعبدالمطلب تھے ۔ ان کے اونٹ بھی اُدھرچر رہے تھے، اس لئے کہ منیٰ ایک وادی ہے، تو وادیوں کے پاس گھاس وغیرہ اُگ آیا کرتی ہے، درخت وغیرہ اُگتے ہیں۔ تو ابرہہ کے سپاہیوں نے ان کے اونٹ پکڑلئے، عبدالمطلب کو پتہ چلا تو یہ ابرہہ کے پاس تشریف لے گئے ۔ اس نے بڑا اکرام کیاکہ یہاں کے بڑے ہیں، اور بٹھایا اور کہا کہ آپ کیسے تشریف لائے؟ انہوں نے فرمایاکہ میرے اونٹ آپ کے سپاہیوں نے پکڑ لئے ہیں، وہ مجھے واپس کردیں۔ اُسے بڑا تعجب ہوا، کہنے لگا میں تو یہ سمجھا کہ آپ آئے ہوں گے ، آپ اس بات پر مذاکرات کریں گے کہ آپ بیت اللہ پر حملہ نہ کریں، آپ واپس چلے جائیں، تو آپ یہ چھوٹی سی بات لے کر آئے ہیں؟ حضرت عبدالمطلب نے بڑا عجیب جواب دیا، وہی جواب آپ کو سنانا چاہتا ہوں، فرمایا: بھائی! اونٹوں کا مالک میں ہوں، اس لئے میں اونٹ مانگنے آیا ہوں ، جو آپ کے سپاہیوں نے لے لئے ہیں،باقی رہا بیت اللہ  ’’إن لھذا البیت ربا یحمیہ‘‘ اس کا اپنا ایک رب ہے، وہ اس کی حفاظت کرے گا، اس کی حفاظت میرے ذمہ نہیں ہے۔ جو جس چیز کا مالک ہوتا ہے، وہی اس کی حفاظت کرتا ہے، تومیں تو اونٹوں کا مالک ہوں، اس لئے وہی مانگنے آیا ہوں اور اس کا مالک رب ہے اور پھر رب نے کیسے حفاظت کی؟ ’’وَمَایَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّکَ إِلاَّ ھُوَ‘‘ اللہ چاہے تو منیٰ کی پہاڑیوں سے ان ہاتھیوں کے مقابلے میں بڑے بڑے ہاتھی نکال کر ان پر ڈال دیتے، اللہ قادر ہے۔ ہاں! تو میں کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے جو فرمایا کہ: ’’إن لھذا البیت ربا یحمیہ‘‘ اس گھر کا ایک رب ہے جو خود حفاظت کرے گا، پھر اللہ نے کیسے حفاظت کی؟ابرہہ کے لشکر کا کوئی انسان بھی بیت اللہ یا مکہ میں داخل نہیں ہوسکا، وہ سب تباہ وبرباد ہوگئے، خود وہ وہاںسے بھاگا۔ تو میں کہا کرتا ہوں کہ اعدائے اسلام کو معلوم ہونا چاہئے کہ ’’إن لھذا الدین ربا یحمیہ‘‘ یہ دین جسے اللہ نے آخری دین بناکر بھیجا ہے۔آپ ا کو خاتم الانبیاء بناکر بھیجا ہے۔ اب قیامت تک کے لئے یہی دین چلے گا، آپ ا کے بعد کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا۔ یہی کتاب چلے گی، یہی قبلہ ہوگا، یہی امت ہوگی۔ اور تم اگر چاہو اس کو ختم کرنا، یہ ناممکن ہے۔ تم مٹ جاؤگے، ختم ہوجاؤگے، اسلام نہیں مٹے گا: اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اُتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دباؤ گے  اور یہ بھی یاد رکھو کہ یہ امت الحمدللہ! بانجھ نہیں ہے ۔ اس میں ان شاء اللہ! اگر ایک مفتی عبدالمجید شہید ہوئے، اگر ایک مفتی صالح شہید ہوئے، تو ان شاء اللہ! سینکڑوں مفتی عبدالمجید ، سینکڑوں مفتی صالح پیدا ہوں گے۔ اور میں اپنے عزیز طلبہ سے یہی کہوں گا کہ اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرو، اپنی محنت کو دوگنا کردو۔ یہ میدان اللہ نے کھلا چھوڑا ہے، جو آگے بڑھے گا اس کو یہ اعزاز ملے گا۔ آج بھی اس امت کے اندر بڑے بڑے علمائ، مفتی، مفسر ، محدث پیدا ہورہے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے۔ لیکن اس میں وہی شرط ہے ، جیسے اپنے بزرگوں کو ہم نے دیکھا ،آپ نے دیکھا یا سنا ہے،اپنے اندر اخلاص پیدا کرو،اس دین کو صرف اللہ کے لئے حاصل کرو۔ آپ نے دیکھا ہوگایا سنا ہوگا کہ فوجیوں کی ٹریننگ ہوتی ہے، کچھ عرصہ بڑی سخت ٹریننگ ہوتی ہے اور ٹریننگ کے بعد جب وہ فارغ ہوتا ہے تو وہ سرکاری فوجی ہوجاتا ہے۔ اب وہ سرکاری انسان ہے، جہاں اس کی ڈیوٹی لگادو، وہ انکار نہیں کرتا، یہاں کھڑے ہوجاؤ، ادھر بارڈر پر چلے جاؤ، ادھر چلے جاؤ۔ تو اس لئے میں اپنے عزیز طلبہ سے، اپنے محترم اساتذۂ کرام سے کہوں گا کہ آپ اپنی محنتوں کو اور بڑھادیں۔ دین کو مقصد بناکر ، علم کو مقصد بناکر ، آگے بڑھیں۔ ان شاء اللہ! آج بھی ان مدارس کے اندر اس دین کے بڑے بڑے علماء پیدا ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ختم نہیں ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ بہرحال ہم کمزور ہیں، اور ہمارے دل کمزور ہیں اور اپنے ایسے مخلص اساتذہ کرام اور ہمارے مخلص شرکائے عمل ان کے جانے سے ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ لیکن آپ ا نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا ’’العین تدمع والقلب یحزن وإنا بفراقک یا إبراھیم! لمحزونون، ولا نقول إلا بمایرضی بہ ربنا تبارک وتعالیٰ‘‘ تو ہم بھی ان حضرات سے یہی کہیں گے کہ یامفتی عبدالمجید! مفتی صالح! حسان! ’’العین تدمع والقلب یحزن وإنا بفراقکم یا شہدأ! لمحزونون‘‘۔ اوراس موقع پر مجھے اپنے دوسرے ایک ستون بھی یاد آرہے ہیں مولانا عطاء الرحمن شہیدؒ۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ایک جہاز کے حادثہ میں وہ بھی شہید ہوئے۔ سب کے لئے ہمارا فرض یہ ہے، خصوصاً طلبہ میں بھی جوان حضرات کے شاگرد ہیں ، تو جتنا آپ پر زندگی میں ان کے حقوق ہیں ،اُن کے دنیا سے جانے کے بعد بھی اُن کے حقوق ہیں۔اور وہ کیا ہیں؟ آپ ان کواپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ’’أوولدصالح یدعولہ‘‘ ۔روحانی اولاد کا بھی یہی حق ہے، جس طرح جسمانی اولاد کا حق ہے۔ میں آپ کو صرف ترغیب کے لئے سناتاہوں، دکھلاوے کے لئے نہیںکہ الحمدللہ !میں اپنے بعض مشائخ اور بعض مخلصین اور میری ایک عادت بنی ہوئی ہے کہ جب سے وہ شہید ہوئے یا دنیا سے چلے گئے، میں ہر نماز میں ایک ایک کے لئے سورۂ فاتحہ پڑھ کر دعا کرتاہوں اور میرے پاس تقریباً ابھی یوں سمجھئے ابھی تک چوبیس آدمیوں کی لسٹ ہے، جس کی ابتداوالدہ مرحومہ سے ہوتی ہے، والدہ، والد، حضرت بنوری رحمہ اللہ۔ یوں کرتے،کرتے،کرتے، چوبیسواں نمبر ہے مولانا عطاء الرحمن صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا۔اور الحمدللہ سفر ہو ، حضرہو، ہر نماز کے بعد میں بھولتا نہیں۔ اس پر اگر میں قسم کھاؤں تو ان شاء اللہ! حانث نہیں ہوں گا۔ بہرحال ہم سے یہی ہوسکتا ہے اور ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہاں بھائی! اس موقع پر جب ابھی دعا ہوگی۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ جامعہ ہو یا جامعہ کے متعلقین اور پھر آپ جانتے ہیں کہ علماء کا ایک خاندان ہے،مشرق میں ہو ، مغرب میں ہو، ایک کی مصیبت سب کی مصیبت ہے۔ ہمارے مولانا عبدالرؤف صاحب غزنوی جنہوں نے ابھی آپ کے سامنے بیان کیا ہے، چند دن پہلے آپ کو یاد ہوگا ان کے بھائی مولانا رحمت اللہ صاحبؒکو کوئٹہ میں شہید کیا گیا۔ اسی طرح مولانا ہمارے بزرگ بڑے استاذوں میں(مولانا فضل محمد صاحب) ان کے رشتہ داروں کا حادثہ ہوا، یہ بھی ایک درجہ کی شہادت ہے۔ گاڑی پہاڑی علاقہ میں اُلٹ گئی اور گرگئی اور اس میں وہ شہید ہوگئے۔ اسی طرح جو آپ سب جانتے ہیں کہ ہماری تو ایک لمبی لسٹ ہے اور جامعہ کے شہداء کی اور بڑے حضرات کی۔جب بھی دعا ہو، سب حضرات کے لئے آپ دعائیں کریں۔ اور جس طرح آپ نے صبروتحمل کا ثبوت دیا ہے، اس حادثہ کے بعد اور اس کے بعد احتجاج کی شکل میں، امید ہے آئندہ بھی آپ اس صفت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط رکھیں گے۔ ہمیں بہرحال ان حضرات کی جدائی پر صدمہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جن کا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اس کے بندے صبر کریں اور مومن کا بڑا سہارایہی ہوتا ہے کہ جب افسوسناک خبر سنتا ہے تو ’’إناللّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘ پڑھتاہے۔ ہم بھی اُدھر ہی جارہے ہیں۔ بھائی! وہ تو تب ہوتا کہ وہ گئے، ہم پیچھے رہ گئے، اب ہمیشہ جدائی ہوگئی۔ نہیں بھائی! یہ تو مسافر وں والی بات ہے، ایک آج روانہ ہورہا ہے، وہ کل جارہا ہے۔ یہ تو ہمارے پیچھے والوں کے لئے صبر آزما بات ہے، ورنہ شہداء تو خوش ہورہے ہیں، وہ تو اپنے دوسرے شہداء کے ساتھ گپیں لگارہے ہوں گے۔ ہمارا یقین ہے ان شاء اللہ! ہمارے جتنے شہداء جاچکے ہیں وہ بیٹھیں گے، ملاقاتیں ہورہی ہوگی، خوش ہوں گے اور پھر سب سے بڑا وہاں پر حضور ا ، صحابہ کرامؓ بڑی بڑی شخصیات سے ملاقاتیں ہورہی ہوں گی۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے؟! وہ تو کامیاب ہی کامیاب ہیں، اسی لئے وہ ایک صحابیؓ کو جب تیر لگا تو فرمانے لگے: ’’فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ!‘‘ ۔ حضرت بلالؓ بیمار تھے دمشق میں، آج بھی ان کی قبر دمشق میں ہے اور ایک چھوٹی سی مسجد کے کنارے پر ہے، تو وہ بیمار تھے، بیوی بیچاری پریشان ہوگئی، کیا مصیبت آئی ہے؟ ایسے کچھ الفاظ کہے ہوں گے یا نوحہ کیا ہوگا تو اس کے جواب میں کہتے ہیں: ’’یاطرباہ‘‘ خوشی کا اظہار کررہے ہیں اوخوشی! اور ’’غدًا نلقی الأحبۃ‘‘ کتنی خوشی کی بات ہے، کل دوستوں سے ملاقات ہوگی، اور چھوڑو ’’محمداً وصحبہ‘‘ محمد ا اور آپ ا کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات ہوگی۔ اور یاد رکھو! تم بھی، تعجب کی بات نہیں ہے، ہمارے ہاں عقائد کی کتابوں میں لکھا ہے: ’’کرامات الأولیاء حق‘‘ اولیاء کی کرامتیں حق ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنے بندوں کو دکھادیتا ہے کہ آپ کا وقت آگیا ہے،جیسے آج ہماری ظاہری زندگی میں کوئی آکر کہے کہ یہ آپ کا ٹکٹ ہے، فلاں وقت آپ کو جہاز میں جانا ہے، ان کو اللہ نے بتادیا کہ کل آپ کی (وفات ہے)۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جس دن شہید ہوئے ہیں تو اسی دن انہوں نے خواب دیکھا اور ساتھ میں آپ ا کو دیکھا کہ آپ ا فرمارہے ہیںکہ عثمان! تم پر بہت زیادہ زیادتی ہورہی ہے اور کل شام کو ہمارے ہاں روزہ افطار کرنا اور یہی ہوا ۔ بہرحال جو جاچکے وہ تو کامیاب ہی کامیاب ہیں’’فزت ورب الکعبۃ‘‘ اور ابھی آپ نے قاری صاحب سے اور مولانا سے بھی شہداء کے بارے میں وہ آیات سنی ہیں :’’لاَتَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌ، بَلْ أَحْیَائٌ‘‘۔ یعنی ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں، ان کو مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں‘‘۔ اس لئے بھائی! ہمارے لئے تو سکون کی چیز یہ ہے کہ الحمدللہ! ہمارے شہداء جنت میں مزے کررہے ہوں گے، اللہ نے ان کو بہت اونچے درجات دیئے ہوںگے اور وہ پیچھے والوں کے لئے شاید دعائیں بھی کرتے ہوںگے۔ جن کو اتنا اونچا مقام ملتا ہے وہ پیچھے والوں کو بھولتے نہیں ہیں ۔ اگر ہم ان کے راستے پر چلیں گے اور دین کے لئے مخلص ہوں گے تو اللہ تعالیٰ وہی برکات یہاں بھی نصیب فرمائے گا۔ بہرحال میں اتنی بات پر اکتفا کرتاہوں اور ہمیںبہرحال نہ بیان آتا ہے ، نہ اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں، غم تو ہے، یاأسفیٰ علیٰ المفتی عبد المجید، ویاأسفیٰ علیٰ المفتی صالح ویاأسفیٰ علیٰ ھذا الشاب ویاأسفیٰ علی الشیخ عطاء الرحمن رحمہم اللّٰہ تعالیٰ۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین