بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مفتی عبدالمجید دین پوری ؒ سنگین واردات میں شہید کردئیے گئے

مفتی عبدالمجید دین پوری ؒ سنگین واردات میں شہید کردئیے گئے

    ملک کی جو ابترصورتحال ہے شاید ہی کوئی باشندہ ہو جو اِس صورت حال سے فکر مند اور بے چین نہ ہو، ایک طرف معاشی بحران ہے، جو تیزی سے مزید بگاڑ کی طرف ہے کہ اصلاح حال کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی نظر نہیں آتی ، جبکہ دوسری طرف بد امنی کی حالت بھی انتہا درجے تک المناک ہے۔ ہر آنے والا دن خوفناک واردات کی خبریں لے کر آتا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ چپّہ چپّہ تربیت یافتہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ مفسدین کے قبضے میں ہے۔     کچھ عرصے سے توخاص طور پر مدارس کے طلبہ اور وہ اہل علم جن کی قطعاً کوئی سیاسی یا تنظیمی وابستگی نہیں ہے، بلکہ یکسوئی سے شبانہ روز دینی علوم کی تحصیل اور نشرواشاعت میں مشغول ہیں، اُنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ نشانہ بنابنا کر شہید کیا جارہا ہے۔حال ہی میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دو نامور علماء کرام کو شہید کرنے کا المناک واقعہ اسی سلسلہ کی تازہ مثال ہے۔     ۱۸؍ ربیع الاول ۱۴۳۴ھ (۳۱؍جنوری ۲۰۱۳ئ) بروز جمعرات جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے نائب رئیس دار الافتاء و استاذ الحدیث مفتی عبدالمجید دین پوری صاحب اور رفیق دار الافتاء مفتی صالح محمد صاحب اپنے ایک تیسرے رفیق وخادم حافظ حسان صاحب کے ساتھ حدیث کا درس دینے کے لئے سندھی مسلم سوسائٹی میں واقع جامعہ درویشیہ جانے کے لئے روانہ ہوئے ، نرسری کے پل سے اتر کر شارع فیصل پرمدرسہ جانے کے لئے لنک روڈ سے اُترے تو پہلے سے موجود موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے ان تینوں کو شہید کرڈالا۔ تینوں حضرات موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے ۔     اس دہشت گردی کی تفصیلات حیرت انگیز طور پر موقع پر نصب ایک کیمرے میں ریکارڈ ہوگئیں۔ واقف حال لوگوں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد نہایت تربیت یافتہ تھے، اور اس بات کا اطمینان کرکے کہ ان میں سے کسی میں بھی زندگی کی رمق باقی نہیں رہی ،موٹر سائیکل پر سوار ہوکر ، جبکہ دوپہر بارہ بجے کے بعد کاوقت تھااور شارع فیصل رواںدواںتھا،یہ سنگین مجرمانہ واردات کرکے آسانی سے چلے گئے،جائے واردات پر ایک دومشتبہ کاریں بھی دیکھی گئیں۔     جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے نامور علماء واساتذۂ حدیث کے خلاف یہ پہلی مجرمانہ واردات نہیں ہے، دہشت گردی کا شکار علمائے دین کی ایک طویل فہرست ہے ۔ مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختارؒ، مولانا مفتی عبد السمیعؒ ، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ ،ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزئیؒ، مفتی محمد جمیل خانؒ، مولانا سعید احمد جلال پوریؒ وغیرہ جیسی نامور شخصیات اسی طرح کی دہشت گردی کا شکار ہوئی ہیں، لیکن آج تک کسی بھی قاتل کا پولیس اور ایجنسیاں کوئی سراغ نہیں لگاسکیں۔     اس ملک میں اور بالخصوص کراچی شہر میں تو ایسا لگتا ہے کہ عوام درندوں کے نرغے میں ہیں، کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ آٹھ دس آدمیوں کا خون نہ ہوتا ہو، جبکہ اغواء ، بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ روزافزوں ہے۔ حکمران، پولیس کے تمام تر حفاظتی حصار میں ’’حکومت‘‘ کررہے ہیں، اور جمہوریت کے پانچ سالہ دور کی تکمیل کو ہی اپنے لئے بڑا اعزاز قرار دے رہے ہیں۔ لوٹ مار، قتل و غارت اور اغواء کے یہ خوفناک جرائم جن کی وجہ سے عوام عذاب میں ہیں، ان بے حس کرسی نشینوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ لیکن واردات کا کھوج نہ لگانا اور جرائم پیشہ عناصر کا تعاقب نہ کرنا، اس وطن سے ،یہاں کے عوام سے اور اس منصب سے سنگین غداری ہے، جس کی لاج رکھنے کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔ اس غداری پر یہ قہرِ الٰہی سے نہیں بچ سکیں گے۔جن شخصیات کو دہشت گردی کرکے شہید کیا گیا وہ علمی ودینی اثاثہ تھے۔ ان کا قتل صرف کچھ افراد کا نہیں، علمی ودینی خدمات کا بھی قتل ہے، جس کے پیچھے دشمنانِ ملک وملت کی خوفناک سازشوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔مفتی عبد المجید دین پوری صاحبؒ اور ان کے رفقاء مرحومین کی شہادت کا یہ صدمہ جو جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے منتظمین، اساتذہ، طلبہ اور ان شہداء کے اہل خانہ اور عزیز واقارب کو پہنچا، یہ ہم سب کا مشترک صدمہ ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی میں یہ خبر بڑے رنج والم کے ساتھ سنی گئی، مختلف نمازوں میں دعاؤں کااہتمام ہوا۔ بعض اساتذہ جنازے میں بھی شریک ہوئے اور دورۂ حدیث کے اساتذہ کا ایک وفد بھی تعزیت کے لئے جامعۃالعلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور جامعہ درویشیہ دونوں جگہ حاضر ہوا۔     مولائے کریم مفتی عبد المجید دین پوری صاحبؒ اور اُن کے رفقاء مرحومین کو شہادتِ عظمیٰ کے مقام عالی پر فائز فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، اور ان دینی مدارس، ان کے اساتذہ وطلبہ اور دیگر متعلقین کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ آمین۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین