بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان مروجہ وقفے کا شرعی حکم!

مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان مروجہ وقفے کا شرعی حکم!

    شریعتِ مطہرہ میں باجماعت نماز پڑھنے کی بے حدتاکید وارد ہوئی ہے، یہاں تک کہ احادیث مبارکہ میں مساجد کے ائمہ اور مؤذن کو اس بات کی ترغیب بھی دی گئی ہے کہ وہ اذان اور اقامت کے درمیان وقفہ رکھیں، تاکہ کھانے میں مشغول شخص کھانے سے اور وضو کرنے والا شخص وضو سے فارغ ہوکر جماعت میں شرکت کرسکے، چنانچہ مسند احمد میں ہے: ’’عن أبیؓ بن کعب قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم : یا بلال! اجعل بین أذانک وإقامتک نفسا یفرغ الآکل من طعامہٖ فی مہل ویقضی المتوضئ حاجتہٗ فی مہل۔‘‘    (مسند أحمد ، حدیث عن أبیؓ بن کعب ، حدیث المشایخ عن أبی ؓبن کعب،ج:۵،ص:۱۴۳ ،ط:مؤسسۃ قرطبۃ)     یہ وقفہ اس لیے بھی مشروع ہے کہ مسنون اور نفل نمازوں کا اہتمام کرنے والے اشخاص اذان اور اقامت کے درمیان نماز پڑھ سکیں، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مغفل q کی روایت ہے کہ آپa نے فرمایا کہ ہر اذان اوراقامت کے درمیان اس شخص کے لیے نماز ہے جو نماز پڑھنا چاہے، صحیح بخاری میں ہے: ’’عن عبد اللّٰہ بن مغفلؓ قال : قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم :بین کل أذانین صلاۃ بین کل أذانین صلاۃ ، ثم قال فی الثالثۃ :لمن شاء ۔‘‘                (صحیح البخاری ،کتاب الأذان ، باب بین کل أذانین صلاۃ لمن شائ،ج:۱،ص:۸۷، ط:قدیمی)     سنن ابی داؤد میں ہے کہ نبی کریم a کے مقرر کردہ مؤذن اذان دینے کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے اور جب نبی کریم a کو آتا دیکھتے تو اقامت شروع کردیتے۔ ’’عن جابر بن سمرۃؓ قال:کان بلالؓ یؤذن ثم یمہل، فإذا رأی النبی- a-قد خرج أقام الصلاۃ۔‘‘  (سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب المؤذن ینتظر الإمام،ج:۱،ص:۹۰، ط:رحمانیہ)     یہی وجہ ہے کہ مغرب کی نماز کے علاوہ ہر نماز اور اذان کے درمیان معتد بہ وقفہ دیا جا تا ہے، جب کہ مغرب کی نماز میں ایسا نہیں، بلکہ اس میں ایک طویل آیت یا تین آیتوں کی مقدار وقفہ کرنے کا حکم ہے، مغرب کی نمازمیں دیگر نمازوں کی طرح وقفہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں مغرب کی نماز کو جلدی پڑھنے کاحکم دیا گیا ہے، نبی کریم a نے بلاعذر ستاروں کی کثرت تک نماز مغرب مؤخر کرنے کو اس امت کی خیر سے روگردانی کی علامت بتایا ہے، سنن ابی داؤد میں حضرت مرثد بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابو ایوب q ہمارے پاس غزوہ سے واپس آئے،یہ ان دنوں کی بات ہے جب مصر کے حاکم عقبہ بن عامر q تھے، تو انہوں نے مغرب کی نماز تاخیر سے پڑھی، حضرت ابوایوب q کھڑے ہوئے اورناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ا ن سے کہا کہ اے عقبہ!یہ کون سی نماز ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم کسی کام میں مصروف تھے ،اس لیے نماز تاخیر سے پڑھی، ابو ایوب q نے فرمایا کہ کیا تم نے نبی کریم a کا یہ فرمان نہیں سنا کہ میری امت اس وقت تک خیریا فطرت پر قائم رہے گی جب تک وہ مغرب کی نماز ستاروں کی کثرت تک مؤخر کرکے نہ پڑھے، روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’عن مرثد بن عبد اللّٰہ قال:لما قدم علینا أبو أیوبؓ غازیا،وعقبۃ بن عامرؓ یومئذ علٰی مصر،فأخر المغرب فقام إلیہ أبو أیوبؓ فقال لہٗ :ما ہذہ الصلاۃ یا عقبۃ؟ فقال شغلنا،قال:ما سمعت رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یقول:لا تزال أمتی بخیر-أو قال-علی الفطرۃ-ما لم یؤخروا المغرب إلی أن تشتبک النجوم۔‘‘             (سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی وقت المغرب، ج:۱، ص:۷۱ ، ط:رحمانیہ)     مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ حضرت ابن عمر rکسی نماز کے فوت ہونے سے اتنا نہیں ڈرتے تھے جتنامغرب کی نماز کے فوت ہونے سے ڈرتے تھے۔ ’’عبد الرزاق عن ابن جریج قال:أخبرنی نافع أو غیرہ أن ابن عمرؓ کان یقول: ما صلاۃ أخوف عندی فواتا من المغرب۔ ‘‘             (مصنف عبد الرزاق، کتاب الصلاۃ، باب وقت المغرب،ج:۱، ص:۵۵۴، ط:المکتب الإسلامی )     اسی لیے مغرب کی اذان اور نماز میں زیادہ وقفہ نہیں ، بلکہ امام ابوحنیفہ v فرماتے ہیں کہ تین چھوٹی آیات یا ایک بڑی آیت کی بقدر کھڑے کھڑے وقفہ کیا جائے ، صاحبین E اس بات کے قائل ہیں کہ مغرب کی اذان کے بعدجمعہ کے دونوں خطبوں کے درمیان معمولی جلسہ کی مقدار زمین پر بیٹھا جائے۔ اس کے برعکس آج کل بعض مساجد میں مغرب کی اذان اور نماز میں وقفے کا اہتمام کیا جاتا ہے ، اس کے لیے باقاعدہ لاؤڈاسپیکر سے اعلانات کیے جاتے ہیں اوران اعلانات کو نمایاں مقامات پر آویزاں کیاجاتا ہے، اس طرزِ عمل سے درج ذیل خرابیاں لازم آتی ہیں:     1:…مغرب کی نماز میں تاخیر ہوتی ہے، جو مکروہ ہے۔     2:…اصولِ افتاء کی بنیادی کتب میں یہ بات صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ جب کسی مسئلے میں امام ابو حنیفہ اور صاحبین w کا اختلاف ہو تو عبادات میں امام ابوحنیفہ v کے قول پر فتویٰ دیا جائے گا،لیکن بجز چند اضطراری صورتوں کے امام صاحب اور صاحبین w کے قول کو چھوڑ کر کسی تیسرے قول کو اختیار کرنا فقہائے حنفیہ میں سے کسی کے ہاں درست نہیں۔ اس مسئلے میں امام صاحب v فرماتے ہیں کہ: مغرب کی اذان کے بعد تین چھوٹی آیات یا ایک بڑی آیت کے بقدر کھڑے کھڑے وقفہ کیا جائے ۔ صاحبین E فرماتے ہیں کہ معمولی جلسہ کیا جائے، مروجہ وقفہ ان دونوں صورتوں سے ہٹ کر تیسری صورت ہے، جو اصولِ افتا ء کی روشنی میں درست نہیں۔     3:… اس مسئلے میں امام صاحب اور صاحبین w کے اختیار کردہ فتوی کو چھوڑنے کی وجہ اضطرار کی حد میں داخل نہیں ، لہٰذا اس مسئلہ میں احناف کے اصول و فروع میں مجتہدین فی المذہب ائمہ کے مسلک پر ہی عمل کیا جائے گا۔     4:… عمومی صورت حال یہ ہے کہ لوگ مغرب کی نماز کے لیے تیاری مغرب کی اذان سے پہلے ہی مکمل کرکے مساجد کا رُخ کرتے ہیں، جب اُنہیں اذان اور نماز کے درمیان مذکورہ مقدار سے وقفہ دیا جائے گا تو فطری اور نفسیاتی اثر یہ ہوگا کہ وہ مغرب کی تیاری اذان کے بعد کریں گے، جب مؤذن مغرب کی اذان دے رہا ہوگا تو ان کے ذہن کے ایک گوشے میں یہ بات موجود ہوگی کہ اذان کے بعد بھی کچھ وقت ہے،اس دوران مغرب کی تیاری کرلیں گے، جس کی وجہ سے ان کی جماعت کے ساتھ پہلی رکعت ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے، ورنہ کم از کم تکبیر اولیٰ تو فوت ہو ہی جائے گی، اذان کے بعد آنے والے افراد کو سہولت دینے میں اذان سے پہلے آنے والے افراد کی ترتیب متأثر ہوگی، یوں بارش سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے رات بتانا نہ عقلاً پسندیدہ ہے اور نہ ہی شرعاً، اس زمانے میں جب کہ عبادات کی ادائیگی اور ان کے اہتمام میں سستی برتی جارہی ہے تو اس طرح کے اقدامات لوگوں کو عبادات کے سلسلے میں مزید سست بنادیں گے، جب کہ نماز اور عبادات میں سستی کرنے کو قرآن کریم نے ’’وَ إِذَا قَامُوْا إِلٰی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی ‘‘کہہ کر منافقین کی علامات قرار دیا ہے۔     لہٰذا مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان وقفے والے مسئلے کو استصحابِ حال پر برقرار رکھا جائے اوراذان اور اقامت کے درمیان تین چھوٹی آیتوں یا ایک بڑی آیت کی مقدار سے زیادہ وقفہ نہ کیا جائے، اذان کے بعد مؤذن اقامت کے لیے جو تیاری کرتا ہے اس سے مطلوبہ مقدار کا وقفہ ہوجاتا ہے، اس کے بعد مزید وقفہ کرنا اور اس کی تشہیر کرنا درست نہیں۔     مفتی امداد اللہ صاحب کی تالیف ’’اذانِ مغرب کے بعد مروجہ وقفہ کی شرعی حیثیت ، قرآن و سنت کی روشنی میں‘‘ اپنے موضوع پر عمدہ کتاب ہے، جس میں مؤلف موصوف نے بڑی عرق ریزی سے دو مسائل کو مدلل انداز سے بیان کیا ہے:     1:… مغرب کی اذان و اقامت کے درمیان وقفہ۔     2:… مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت۔      کتاب کی تالیف کی اصل غرض پہلے مسئلے کو بیان کرنا ہے، جس کے ضمن میں دوسرے مسئلے کو بھی بیان کیا گیاہے۔ مؤلف نے دونوں مسئلوں میں ائمہ اربعہ کے مذاہب کوان کی معتبر فقہی کتب کے حوالوں سے بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں احناف کے مفتیٰ بہ قول کومدلل اورواضح انداز سے پیش کیا ہے۔ یہ تالیف فقہ حنفی کے دائرے میں اس مسئلے کی توضیح و تشریح کی عمدہ کاوش ہے ۔ بہتر ہے کہ کتاب کے نام میں دوسرے مسئلے کی جانب بھی اشارہ ہونا چاہیے۔     اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کی مساعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت بخشے اوراس مجموعے کو عوام و خواص کے لیے یکساں مفید بنائے ۔ آمین! و صلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و أصحابہٖ أجمعین

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین